You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Friday, October 26, 2012


اردو وراثت کارواں


جوہو پر واقع جے ڈبلیو میرٹ ہوٹل کے بال  روم میں منعقدہ کانفرنس سے  خطاب کرتے ہوۓ وزیر اعلی  پرٹھوی راج  چوہان  نے کہا کہ ''  سینما نے  اردو کو چھوڑ دیا  جس کا مجھے بے حد  افسو س ہے ۔ یہ بات بھی  قابل    افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں  کچھ لوگ   اردو کو مذہب  کے ساتھ جوڑنے میں کامیاب ہو گۓ ہیں ۔ ہم اردو کو سر کاری طور پر پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں ۔اور چاہتے ہیں کہ نئي نسل اردو تہذیب  و ثقافت سے جڑے  کیونکہ یہ بہت ضروری ہے ۔شری چوہان نے یہ بھی کہا کہ اگر اردو اور مراٹھی اسکولوں میں انگریزی کی تدریس  پر خاص توجہ دی جاۓ تو والدین  اپنے بچوں کو  انگریزی میڈیم کے اسکولوں  میں داخل کرنے سے باز رہ سکیں گے ۔ انہوں نے ''اردو وراثت کارواں ''کی ستائش کرتے ہوۓ کہا کہ جسٹس     مارکنڈےکاٹجو کی  کی سر پرستی میں  یہ  ایک اچھا قدم  اٹھایا گیا ہے جو قابل مبارکباد ہے ۔وزیر اعلی نے فخریہ انداز میں یہ بتایا کہ ہمارے ملک کے وزیر اعظم کی تقریر اردو میں لکھی ہوتی ہے ۔کاٹجو صاحب نے کہا کہ سنسکرت اور اردو کو پہلی جماعت سے پانچویں تک لازمی  کر دینا چاہیے تاکہ ان زبانوں کو سیکھ جائيں۔   اس کانفرنس میں  مشہور شاعر و نغمہ نگار جاوید اختر ۔ مہیش بھٹ ، جسٹس مارکنڈے کاٹجو   ،  ڈاکٹر   خواجہ اکرام الدین  ( ڈائریکٹر آف  این سی پی یو ایل ) وزیر مملکت عارف نسیم خان ، ایڈوکیٹ مجید میمن ،ممبر سیکریٹری  مہاراشٹر اردو ساہیتہ اکیڈمی ڈاکٹر قاسم امام ، آصف اعظمی ،  رما پانڈے ، رومی جعفری اورانو ملک نے بھی  خطاب کیا ۔کافی لوگوں نے اس سیمینار میں شرکت کی اور مقررین کو سنا ۔ پو لیس افسر قیصر خالد کے شکریے کے ساتھ  یہ کانفرنس  رات دس بجے اختتام کو پہنچی ۔

Thursday, October 25, 2012

عیدالضحی ( قربانی )


قربانی
گزشتہ متعدد سالوں سے عیدالاضحی کے  موقع پر قربانی کے تعلق سے  جانوروں کی قربانی کی خاطر  متعدد سنگین مسائل   ہیں ۔کہ  ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے ہیں ۔ عام قربانی کرنے  والے مسلمانوں  اور  جانوروں کے بیوپاریوں کو بے انتہا  پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔شرپسندوں کی شرپسندی  اور  پولس  و متعلقہ  سرکاری  افسران کی     سرد مہری  سنگین نوعیت میں بدل جاتی ہے  شر پسند عنا صر  بڑے جانوروں  کی دھڑ پکڑ کرواتے ہیں ۔جانوروں کی لاریوں کے مالکان اور ڈرائيوروں  کو پولس کا ڈر بتاکر  ہزاروں روپیے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ہر سال قربانی کے موقع پر  قربانی پر درپیش مسائل  کے  تدارک کی خاطر  لیڈران  قوم  احتجاج کرتے دکھائی  دیتے ہیں ۔اور یہ لیڈران صرف قربانی کے موقع پر ہی جاگتے ہیں ۔قربانی کے  مسائل  کے تدارک  کے وقت سے کئی  ہفتوں  پہلے سے ہی جاگنا اور اور جدو جہد کرنا  ضروری ہے ۔
اس سال عوامی وکاس پارٹی کے سربراہ شمشیر خان  پٹھان  قربانی کے مسائل  کے تدارک کی  خاطر   ہفتوں  پہلے  سے میدان عمل میں ہیں ۔ اس تعلق سے مٹینگيں لے رہے ہیں ۔ دیونار  منڈی  میں  جاکر  عملی سطح  پر بیوپار یوں  مل  کر جائزہ  لے رہے ہیں    بیو پاریوں کو  سر پسندوں  کے  ہاتھوں ،  شر پسندی  کی  شکایت  متعلقہ  پولس  اسٹیشنوں  پر  درج  کروارہے ہیں ۔     جانوروں     کی  کئی لاریوں  کو  انہوں نے  سرپسندوں کے  ہاتھوں سے چھڑ وایا ہے ۔عمل و انصاف کی خاطر  عدالت  سے بھی  رجوع  ہو چکے ہیں ۔شمشیر خان  پٹھان صاحب  نیک نیتی اور   عملی  طور پر  بہتر طریقے سے انجام دے رہے ہیں ۔یہ  کا م  قابل تعریف اور قابل تقلید ہیں ۔  ہم دعاگو ہیں  اللہ انھیں  کامیابی عطا کریں۔

Saturday, October 06, 2012

آسام میں مسلم طلبہ و طالبات کی شخصیت سازی کیلئے سعید احمد کا ورکشاپ


  آسام کے ناگاوں ضلع کے اودالی ، نیل باغ اور ہوجائی تعلقوں میں مولانا بدرالدین اجمل صاحب کی دعوت پراجمل فاونڈیشن کے زیر اہتمام سعید احمد کے شخصیت سازی کے ورکشاپ منعقد ہوئی۔ یہ ورکشاپ ریاست آسام کے مختلف دینی و تعلیمی اداروں میں منعقد ہوئے جن میںجامعہ جلالیہ،آسام تنظیم مدراس قومیہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان ۲۱ ورکشاپ میں یتیم خانہ کے طلبہ، دینی مدارس کے طبلہ اور اسکول و کالجس میں طلبہ کے ساتھ ساتھ اساتذہ کیلئے بھی خصوصی ورکشاپ منعقد ہوئی۔اجمل فاونڈیشن کی جانب سے ورکشاپ کے بہترین نتائج کو دیکھتے ہوئے مولانا بدرالدین اجمل صدر اجمل فاؤنڈیشن اور ممبر آف پارلمینٹ نے اس کی اہمیت و افادیت کو سمجھتے ہوئے آسام کے طلبہ کی بہترین رہنمائی اور شخصیت سازی کیلئے مستقبل کیلئے ایک لاحہ عمل تیار کروانے کا تیقن دیا۔ اس  شخصیت سازی ہفتہ کو کامیاب بنانے میں قصراسلام(مینیجر اجمل فاونڈیشن) ڈاکٹر ایم آر ایچ آزاد سر،شمس الحق چودھری (مرکزالمعارف آسام)، آل آسام جامعہ مدرسہ بورڈ مولانا عبدالقادر،مولانا شمس الدین (محدث  جامعہ جلالیہ ) نے اہم رول ادا کیا۔ اب تک ملک گیر سطح  پر ۵۸ سے ذائد شہروں میں سعید احمد نے اب تک 475+ ورکشاپ لے چکے ہیں۔ اور یہ سلسلہ برابر جاری وساری ہی۔جدید تکنیک کے سبب یہ ورکشاپ  سیر و تفریح سے بھر پور ہوتے ہیں۔ان ورکشاپ میں دلچسپ کھیلوں، ذہنی و جسمانی ورزشوں اور عملی سرفرمیوں پر زور دیا جاتا ہی۔ ان کے ورکشاپ طلبہ، سرپرست، اساتذہ، علما ، بزنس مین اور پسماندہ طبقات کیلئے منعقد ہوتے ہیں۔ آنے والے دنوں میںان کے ورکشاپ سری رنگا پٹنم، گلبرگہ،سری وردھن، بنگلور،بیلگام، بیلاری، شولاپور،بہار کے ۵ شہروں میں، رانچی، آسنسول،ہبلی، کولکتہ وغیرہ میں منعقد ہوں گی۔ شخصیت سازی لکچرز کے ویڈیوز دیکھنے کیلئے ویب سائٹww.raabtafoundation.com پر رابطہ قائم کریں

اختلافات کو دور کرنے کے لئے مباحثہ ہی واحد راستہ ہے جو مسائل حل کرسکتا ہے

مبئی کے مراٹھی پتر کار سنگھ ہال میں منعقدہ ’’ڈائیلاگ بٹون میڈیا اینڈ مسلمس‘‘پروگرام میں دانشوروں و صحافیوں کا اظہار خیال 
ممبئی:ہندوستان میں مسلمانوں اور میڈیا کے مابین پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئےممبئی مراٹھی پتر کار سنگھ میں ایک مباحثے کا انعقادـ’’ڈائیلاگ بٹون میڈیا اینڈ مسلمســ‘‘’’مباحثہ مابین میڈیاا ور مسلمان‘‘کا انعقاد کیا گیا جس میں کثیر تعداد میں مسلم فضلاء،ماہرین علم و ادب کے ساتھ سماج کے سر کردہ افراد نیز اہم صحافیوں نے شرکت کی اور اس بات پر زور دیا کہ بات چیت ہی وہ پہلو ہے جس کے ذریعہ مسائل حل کئے جاسکتے ہیں۔پروگرام کے آرگنائزر دانش ریاض نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہماری کوشش یہ ہے کہ میڈیا میں مسلمانوں سے متعلق جو غلط فہمیاں ہیں وہ دور کئے جائیںساتھ ہی مسلمانوں کو یہ بھی یہ بتایا جائے کہ وہ میڈیا سے کس طرح خوشگوار تعلقات بحال کر سکتے ہیں اوراپنی باتیں میڈیا کے افراد تک پہنچا سکتے ہیں۔ ہندوستان ٹائمز کی پولٹیکل ایڈیٹر سجاتا آنندن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’لوگوں کا یہ سوچنا بالکل غلط ہے کہ میڈیا میں صرف مسلمانوں کے خلاف ہی گفتگو کی جا رہی ہے اور کسی کے خلاف باتیں نہیں ہوتیں بلکہ حقیقت تو یہ ہےکہ میڈیا ہر ایک کے لئے آزاد ہے جو چاہے اپنی رپورٹنگ کروائےاور اپنی باتیں پیش کرے‘‘انہوں نے کارپوریٹ کی دخل اندازی پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’اشتہارات کا ایڈیٹوریل سے کوئی تعلق نہیں رہتا لہذا ہمیںکبھی بھی اس جانب اس طور پر نہیں دیکھنا چاہئےبلکہ آپ بھی اگر چاہیں تو اشتہارات کے ذریعہ اثر انداز ہو سکتے ہیں‘‘سجاتا نے کہا کہ ’’المیہ تو یہ ہے کہ ’’مسلمانوں کو اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ نہ تو ایڈیٹر حضرات سے ملاقات کرتے ہیں اور نہ ہی خطوط لکھ کر یا مضامین لکھ کر اپنی باتیں پہنچا تے ہیں بلکہ اس کے بر خلاف وہ سیاسی لیڈروں کے پاس کاجا کر اپنی روداد بیان کرتے ہیں۔اسی طرح کوئی ایک لیڈر شپ نہ ہونے کی وجہ سے بھی ہمیں مسلمانوں کے صحیح موقف کا پتہ نہیں چل پاتا۔‘‘تاسیس کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شارق نثار نے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’’میڈیا نے بین الاقوامی اثرات کو قبول کرتے ہوئے جس طرح مسلمانوں کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش کی ہے اس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ہونا تو یہ چاہئے کہ میڈیا اس رخ کو پیش کرے جو حقیقت ہے نہ کہ جھوٹی خبروں کا سہارا لے کر اسے پیش کرنے کی کوشش کرےجو ہماری شبیہ داغدار کرے‘‘انہوں نے کہا کہ ’’جب مسلم نوجوان گرفتار ہوتے ہیں تو ان کی خبریں صفحہ اول پر نظر آتی ہیں لیکن جب وہی نوجوان با عزت بری ہو جاتے ہیں تو انہیں خبروں میں جگہ نہیں دی جاتی‘‘۔پریس کلب کے صدر گور بیر سنگھ نے  پروگرام کو ایک خوش آئند قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’اس وقت غلط فہمیاں زیادہ ہیں اور دوریوں کو مزید دوریوں میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،لہذا ہونا تو یہ چاہئے کہ کسی طرح اس کھائی کو پاٹا جائے اور ڈائیلاگ کی جو نئی کوشش شروع ہوئی ہے اس کی ہمت افزائی کی جائے۔کیونکہ ڈائیلاگ ہی مسائل کا حل پیش کر سکتے ہیں‘‘معروف سینئر صحافی جیوتی پنوانی نے اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ انگریزی میڈیا مسلمانوں کی شبیہ خراب کررہا ہے کہا کہ ’’وہیں اردو میڈیا نے جو حرکتیں کی ہیں اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔انہوں نے مسلمانوں کی خراب شبیہ کے تعلق سے مسلم لیڈر شپ کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’جو پولس آفیسر مسلم نو جوانوں کو سب سے زیادہ گرفتار کرتا ہے اور مسلم نوجوانوں کو پریشان کرتا ہے مسلم لیڈر شپ انہیں ہی سب سے زیادہ اپنے پروگراموںمیں بلاتی ہے پھولوں کا گلدستہ پیش کرتی ہے ،‘‘انہوں نے کہا کہ ’’انگریزی میڈیا مسلمانوں کو بدنام کر رہا ہے لیکن اس کا جواب دینے والا کمیونیٹی سے کوئی نہیں ہے جو مسلم صحافی اخبارات میں کام کر رہے ہیں وہ بھی پولس کا اسٹونوگرافر بن کر ہی کام کر رہے ہیں اور صرف کرائم رپورٹنگ تک ہی محدود ہیں۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ’’اگر آپ کو کسی خبر سے تکلیف پہنچتی ہے تو آپ عدالتوں ،پریس کونسل وغیرہ کا رخ کیوں نہیں کرتے‘‘۔سینئر صحافی جتن دیسائی نے کہا کہ ’’حالات کی خرابی کو درست کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور ڈائیلاگ ہی اس کی بہتر صورت ہے،جب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا اس وقت تک ہم بہتر ماحول مہیا کرا سکیں گے‘‘۔انہوں نے ایشیائی اسلام کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس خطے کا مسلمان عربی خطے کے مسلمانوں سے جدا ہے لہذا ہمیں اس کی قدر کرنی چاہئے‘‘۔اسلامک ایجوکیشن سینٹر بھوپال سے تشریف لائے اطہر خان نے کہا کہ ’’مغربی میڈیا نے جو ماحول بنایا ہے ہندوستانی میڈیا اسی کے زیر اثر کام کر رہا ہے اگر حالات یہی رہے تو پھر دوریوں میں اضافہ ہوگا‘‘انہوں نے نبی کریم ﷺ کی توہین اور دہشت گردی کے عنوان پر مسلمانوں کی شبیہ خراب کرنے میڈیا کے اہم رول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’کیا کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ آخر ہمیں ان موضوعات میں الجھا کر مغربی میڈیا کیا فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے‘‘۔انقلاب کے سب ایڈیٹر قطب الدین شاہد نے اردو میڈیا پر لگائے گئے الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’اردو میڈیا نے مسلمانوں کی رہنمائی کا کام انجام دیا ہے بلکہ کبھی بھی اردو میڈیا نے مسلمانوں کو کسی غلط رخ پر لے جانے کی کوشش نہیں کی ‘‘انہوں نے کہا کہ ’’ہمارے یہاں جہاں تعلیمی ترقی ،سماجی ناہمواری کو ختم کرنے والے مضامین شائع ہوتے ہیں وہیں ملکی مفادات سے متعلق بھی مضامین کی لمبی فہرست ہوتی ہے۔‘‘واضح رہے کہ اس پروگرام میں مولانا بر ہان الدین قاسمی،مبارک کاپڑی ،ڈاکٹر سید خورشید،اشرف ملانی وغیرہ نے بھی گفتگو میں حصہ لیا تو سامعین میں حسن چوگلے،لیاقت علی خان،جی ایم صدیقی،قاسم امام۔اسلم پرویز،خورشید صدیقی وغیرہ شریک تھے۔

Tuesday, October 02, 2012

بد عنوان لیڈروں کو حکومت سے بے دخل کئے بنا آزادی کا تصور ممکن نہیں


                بد عنوان لیڈروں کو حکومت سے بے دخل کئے بنا آزادی کا تصور ممکن نہیں
          عوامی وکاس پارٹی کے دفتر میں مہاتما گاندھی کے خدمات اور جدو جہد کو یاد کیا گیا
         
          ۲، اکتوبر ، ممبئی عوامی وکاس پارٹی کے دفتر سے منسلک منی ہال میں مہاتما گاندھی کی یومِ پیدائش کے موقع پر ہوئی تقریب میں پارٹی کے جنرل سیکریٹری سلیم الوارے نے مہاتما گاندھی کی ابتدائی تعلیم، ان کے لندن اور سائوتھ افریقہ کے سفر کی تفصیلات حاضرین کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح انہیں مئی 1893 میں ناتال ریلوے اسٹیشن پر فرسٹ کلاس میں سفر کرنے پر ذلیل کیا گیا تھا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب گاندھی جی کو نسلی امتیاز کا کڑوا تجربہ ہوااور اسی سے دکھی ہو کرانہوں نے سائوتھ افریقہ میں مقیم ہندستانیوں کے حقوق کے لئے جدوجہد شروع کی ۔ سلیم الوارے نے مزید بتایا کہ گاندھی جی نے ہندستان واپسی پرملک کی آزادی کے لئے دیگر لیڈران کے ساتھ عدم تشدد پر مبنی تحریک کی بنیاد ڈالی جو آزادی کا سبب بنی۔اس تقریب میں خواتین کی نمائندگی کرتے ہوئے لنترانی کی منور سلطانہ نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے حاضرین سے دو چبھتے ہوئے سوالات کئے ، کیا خواتین و حضرات کے لئے آزادی کے دو معنی ہیں اور کیا غریب اور امیر کے لئے آزادی کے دو الگ معنی ہیںاور کیا صحیح معنوں میں ہمیں آزادی حاصل ہے ۔ منور سلطانہ نے اس ملک کے غریبوں خصوصاً اقلیتوں کو صلاح دی کہ وہ اپنے جائز حقوق منوانے کے لئے اہنسا کا سہارا لیں ، گاندھی وادی بنیں اور سیاسی طاقتوں کا آلئہ کار نہ بنیں۔
          عوامی وکاس پارٹی کے قومی صدر شمشیر پٹھان نے کہا کہ ایک پر ایک ہو رہے گھوٹالے ہماری معاشیت کو برباد کر رہے ہیںاور ان گھپلوں میں وہ سیاست داں ملوث ہیں جو ہم پر حکمرانی کر رہے ہیں،ایسے بدعنوان لیڈروں کو حکومت سے بے دخل کئے بنا حقیقی آزادی کا تصور ممکن نہیں ۔شمشیر پٹھان نے مزید کہا کہ اس ملک میں امیر ، امیر سے امیر ترین اور غریب بیچارے غریب ترین ہوتے جا رہا ہی، جس ملک کے لاکھوں بچے دو وقت کی روٹی کے محتاج ہوں وہ ملک آزادی کے نغمے کس طرح گا سکتا ہی۔اس ملک میں ایک مخصوص طبقے کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور انہیں کو جیلوں میں ٹھونسا بھی جا رہا ہی۔ اس وقت اس ملک کو ایک نہیں ہزاروں گاندھی کی ضرورت ہے جو دو قوموں  کے درمیان بڑھتی نفرتوں کو ختم کرنے کے لئے آگے آئیں، اور امن کے گیت گائیں جائیں۔ اس تقریب میں کشن جگمل سنگھ، گنپتی سوامی اناُ، کشور گپتا، اعجاز مقادم  و دیگر پارٹی کارکنان نے حصہ لیا۔ اس تقریب میں موجود تمام مہمان و میزبان خواتین و حضرات گاندھی ٹوپی پہنے ہوے تھی۔ قومی ترانہ کے ساتھ اس تقریب کا اختتام ہوا

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP