بہتر افسانچے وہی لکھ سکتاہے جو افسانے کے اسرارورموز
سے واقف ہو۔ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری
آل انڈیا افسانچہ اکیڈمی کے زیر اہتمام دو روزہ
قومی سیمینار ’’افسانہ کل آج اور کل‘‘ کا شاندار آغاز
درگ (24فروری
) : ’’ افسانچہ نگاری کا فن کوئی آسان کام نہیں۔بہتر افسانچے وہی لکھ سکتاہے جو افسانوی
ادب کے اسرارورموز سے واقف ہی۔آزاد ہندوستان میں۸۴۹۱ میں
منٹو نے افسانچے لکھے جو سیاہ حاشیے کے عنوان سے منظرِ عام پر آکر مقبول ہوچکے ہیں۔‘‘
* مذکورہ بالا خیالات کا اظہار کرتے ہوئے چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی
کے صدر شعبہء اُردو ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری نے افسانچے کی تاریخ میں پہلی بار آل انڈیاافسانچہ
اکیڈمی کے تحت درگ (چھتیس گڑھ)میں منعقد دو روزہ سیمینار میں ۳۲ جنوری
کو پہلے سیشن میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے جلسے میں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا ۔اس
موقع پر انہوں نے افسانچے کے فن اوراس سلسلے میں پائی جانے والی الجھنوںکو صاف کرتے
ہوئے اس بات سے خبردار کیا کہ اس کی تخلیق میں فنی معیار کا بہر حال خیال رکھا جانا
ضروری ہے انہوں نے مستقبل میں اس کے روشن امکانات پر بھی روشنی ڈالی۔
` درگ کے عالیشان ہوٹل الکا پیلس کے ہال میں منعقد مذکورہ اجلاس میں
تقریباًپانچ ریاستوں کے ادباء نے شرکت کی اور فن افسانہ نگاری پر اپنے گرانقد خیالات
و تاثرات کااظہار کیا۔ افسانچہ ’’کل آج کل ‘‘کے عنوان پر منعقد اس دو روزہ سیمینار
میں آل انڈیا اکیڈمی کے اغراض مقاصد پر اکیڈمی کے سکریٹری ڈاکٹر ایم اے حق نے روشنی
ڈالتے ہوئے اس کی اہمیت و افادیت بیا ن کی۔چونکہ ۷۸ سالہ
رتن سنگھ طبیعت کی علالت کے سبب تقریب میں شرکت نہیں کرسکی۔اس لئے محترمہ ڈاکٹر ریحانہ
سلطانہ پروفیسر شعبہء اُردو گوتم بدھ یونیورسٹی نے معروف افسانچہ نگار رتن سنگھ کے
تحریری تاثرات کو پڑھ کر سنایا ۔
اس افتتاحی تقریب کے آغاز میں اکیڈمی کے چیئرمین نے اپنی گفتگو
میں آئے ہوئے تمام ادباء کا استقبال اور خیر مقدم کیا۔ تقریب کے صدرارتی خطبے میں فن
افسانچہ نگاری پر روشنی ڈالتے ہوئے بڑی پُر مغز باتیں کیں۔
اس موقعے پر جناب یوسف انصاری افضلؔکا شعری مجموعہ ’’عکس وفا‘‘کا
اجراء بھی عمل میں آیا۔ڈاکٹر وکیل احمد رضوی صدر شعبہء اُردو رام گڑھ کالج جھارکھنڈ
نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے انہیں ایک صوفی شاعر ، صالح قدروں کا ایک پختہ گو ترجمان
قرار دیا۔ افتتاحی تقریب میں اُردو کے علاوہ ہندی کے کئی قلم کاروں نے بھی افسانچے
اور لگو کتھا کے عنوان سے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔
دوسرے سیشن میں مندوبین نے افسانچے کے فن اور اس کی تکنیک پر اپنے
تاثرات اور تحریری مقالات پیش کئی۔ خورشید حیات نے کہا کہ زندہ تحریریں ہر عہد میں
باتیں کرتی ہیں۔ انہوںنے مزید کہا کہ تخلیق کی لہریں بیتی رہتی ہیں اس لئے مختصر کہانیاں
ہمیشہ زندہ رہیںگی۔بشیر مالیرکوٹلوی نے پوری تفصیل کے ساتھ’’ افسانچے کی تاریخ اور
کامیاب افسانچوں کی خوبیوں ‘‘پر روشنی ڈالتے ہوئے ہوئے منٹو، جوگندر پال اور رتن سنگھ
کو افسانچہ نگاری کی یشلیث قرار دیا اور کئی افسانچوں کے تجزیے بھی پیش کئے ۔سکریٹری
ڈاکٹر ایم اے حق نے ’’افسانچوں کی عالمی گونج‘‘کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا اور
دنیا کے مختلف ممالک میں اس کے عام چلن اور تجربوں پر روشنی ڈالی۔افسانچہ اکیڈمی کے
صدر جناب رونق جمال نے ’’افسانچہ تحقیق کے آئینے میں‘‘ کے عنوان سے پیش کئے گئے اپنے
مقالے میں فن افسانچہ نگاری پر مختلف یونیورسٹیوں میں کئے جارہے تحقیقی کاموں کا ذکر
کیا۔ ڈاکٹر ایم آئی ساجد نے اُردو مین افسانچہ، منی کہانی اور پوپ کہانی پر روشنی ڈالتے
ہوئے پوپ کہانی کو ایک معمہ قرار دیا۔ اشتیاق سعید نے فکشن نگاروں کی گھٹتی تعداد اور
افسانچے کی بڑھتی مقبولیت پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔معین الدین عثمانی نے ’’افسانہ
اور افسانچے کا تجزیہ ‘‘پیش کرتے ہوئے مہاراشٹر کے چند معروف افسانچہ نگاروں کا تخلیقی
اور تحقیقی جائزہ لیا۔انہوں نے افسانچوں میں اجزائے ترکیبی کو برتے جانے پر زور دیا۔
ڈاکٹر وکیل رضوی نے ’’جوگندر پال کا افسانوی ادب کاافسانوی ادب کتھا نگر کے حوالے سے
‘‘کے عنوان پر گفتگو کرتے ہوئے انہیں ایک بڑا فکشن نگار قرار دیا اور اُردو افسانچوں
کے معیار کو بلند کرنے اور اس کی ایک الگ شناخت قائم کرنے میںان کی کاوشوں کاذکر کیا
اور ان کے افسانچوں کا مختصر و جامع تجزیہ بھی پیش کیا۔ آکر میںآسنسول سے آئے معروف
افسانہ نگار ڈاکٹرعشرت بیتاب ’’سیاہ حاشیے اور منٹو‘‘ کے عنوان سے پیش کئے گئے اپنے
مقالہ میں منٹو کے فن کے بلند معیار کو پیش کیا اور یہ بتایا کہ منٹو کے افسانچوں میں
عورت کے خارجی نہیں بلکہ داخلی احساسات و تاثرات کا گہرا رنگ پایا جاتا ہی۔
آخر میں دوسرے سیشن کے صدر ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری نے اپنے صدارتی
خطبے میں پیش کئے تمام مقالات پر مختصر اور جامع روشنی ڈالی اس کے ساتھ ہی انہوں نے
ان پر ناقدانہ نظر ڈالتے ہوئے مقالوں کی خوبیوں کا بھی ذکر کیا اور کمیوں و کوتاہیوں
کی بھی پوری بے باکی کے ساتھ نشاندہی فرمائی۔ اکادمی کے صدر نے آخر میں تمام مندوبین
کا شکریہ ادا کیا۔ اس سیشن کی نظامت کے فرائض نوجوان افسانہ نگار سالک