مسلمان کیا کھائے کیا نا کھائے اس بات کا فیصلہ بھی
حکومت کرئیگی
حکومت مہاراشٹر نے بنایا جمہوریت
کا مذاق
سید نقی حسن
سید نقی حسن
چند افراد سے مل کر ایک خاندان بنتا ہے اور اسی طرح کچھ خاندان ملا کر معاشرہ بنتا ہے۔جس طرح ایک خاندان میں بھائی چارہ اور محبت قائم رکھنے کے لئے سب کے ساتھ برابر کا برتاو کیا جاتا ہے اسی طرھ سماج میں معاشرہ میں امن اوربھائی چارہ قائم رکھنے کے لئے سب کے ساتھ برابری کا برتاو کرنا ضروری ہے۔
خاندان میں بھائی چارہ اور محبت قائم رکھنے کے لئے سب کے ساتھ مساوت قائم کیا جاتا ہے کسی کی حْق تلفی نہیں کی جاتی تو پھر کیوں دنیا کا دوسرے نمبر کا ملک ہندوستان میں مذہب اور ذات کے نام پر لوگوں کو تقسیم کیا جاتا ہے؟ہندوستان میں اقلیت کے ساتھ حکومت کا رویہ تعصب کا شکار ہے اور یہ بہت ہی شرم ناک بات ہے۔اقلیت سے مراد ہندوستانی مسلمان ہے ۔ہر وقت سب سے زیادہ تنقید اور استھصال کا نشانہ بننے والی قوم مسلمان قو م ہے۔جب کبھی سماج میں کوئی اندرونی مسائل پیش آئے تو سماج کے ذمہ داران اس مسائل کو حل کر دیتے ہے لیکن اگر ان مسائل کاذمہ دارحکومت خود ہو تو اسے حل کرنا سماج کے ذمہ دران کے بس میں نہیں ہے۔ملک میں ویسے تو بہت سے مسائل ہے لیکن اس وقت مہاراشٹر کے مسلمانوں کا ذکر کرنا ضروری ہے۔اسمبلی الیکشن کے دوران ھکومت کی جانب سے مسلمانوں کو ۵؍فیصد ریزرویشن دیا تھا لیکن مخالف پارٹیوں نے اس کے خلاف کورٹ میں معاملہ درج کرایا اور کورٹ نے تعلیمی میدان میں مسلمانوں کو ۵؍فیصد ریزروریشن قائم رکھنے کی بات کی لیکن گذشتہ دنوں مہاراشٹر حکومت نے اس ریزروریشن کو پوری طرح خارج کر دیا ۔اسی طرح مہاراشٹر میں سب سے زیادہ سنجیدہ مسلہ یعنی بیل گائے اور اور اس کی نسل کے زبیحہ کا مسلہ ہے۔جس کی وجہ سے گذشتہ دنوں میں قریش برادری کی جانب سے ریاست گیر ہڑتال کا علان کیا گیا جس پر فرنویس حکومت نے قریش برداری کو یقین دلایا کہ ان کی حکومت آپ کے کاروبار میں ہونے والے سبھی نقصان کو روکنے کی کوشش کرئیگی آپ کو تحفظ فراہم کیا جائیگا ۔لیکن ابھی اس معاملہ کو کچھ ہی دن گز رے تھے کہ مہاراشٹر حکومت اور فرقہ پرست تنظیموں کے حق میں ایک تارخی بل پاس ہو ا ۔۱۹۹۵؍میںمہا راشٹر کی یوتی حکومت نے ایک مسودہ تیار کیا جس میں گائے ،بیل ،اور اس کے نسل کے زبیحہ پر پابندی عائد کرنے کی بات کی گئی۔(مہاراشٹر اسٹیٹ انیمل پریزوریشن ایکٹ)جس پر مرکزی حکومت نے سدھار کی بات کی جس میں سدھار کے بعد ۳۰؍جنوری ۱۹۹۶؍کو یہ مسودہ صدر جمھوریہ کو پیش کیا گیا ۔گزشتہ دنوں اس بل پر صدر جمہوریہ نے دستخط کردے جس کے بعد مہاراشٹر میں گائے اور اس کی نسل بیل کے زبیہ پر پابندی لگادی گئی اور اس کی خلاف ورزی ہونے پر قید اور جرمانہ بھی کیا جایئگا۔۱۹؍سال کے بعد اس بل کومنظوری ملنے کی وجہ سے بی جی پی کے سبھی ممبران کو بہت خوشی ہوئی ہوگی۔یہ بات کہنا غلط نہیں ہوگا اسی طرح حکومت میں موجود سبھی پارٹیوں کے ممبران نے بھی اس بل کا ساتھ دینا لازمی ہے۔عام ہندوستانیوں کی سب سے زیادہ مانگ اور سستا گوشت کی مانگ پورے ہندوستان میں ہے لیکن اسی گوشت کو کھانے والے مہاراشٹر کی عوام کا کیا ہوگا۔اس بات کا جواب حکومت کے پاس نہیں ہے۔مہاراشٹر میں صرف ممبئی جیسے شہر میں ہر دن ۹۰؍ہزار کلو گوشت کی مانگ ہے ۔اس مانگ کو حکومت مہاراشٹر کس طرح پوری کرئیگی۔آزادی کے سپاہی ساورکر کو جب گائے کی اہمیت کا پتہ چلا تو انھوں نے کہا کہ گائے ہندو راشٹر کے شان نہیں ہے ۔دنیا کے دوسرے ملکوں کے برعکس ہندوستان میں جانوروں کی تعداد زیادہ ہے اور ان کی ضرورت کے حساب سے ملک میں چارہ موجود نہیں ہے۔اگر اس چارہ کو پورا کرنے کی زمہ داری بھی حکومت کے زمہ ہو گئی تو کیا حکومت اس زمہ داری کو پورا کر پائیگی؟اس مسلہ کا حل تلاش کرنے کے بجائے جذباتی ہوکر کسی ایک قوم کے حق میں فیصلہ کرنا کس حد تک صحیح ہے ؟گوشت کے کاروبار سے جڑے لاکھوں افراد بے روزگار ہونگے اس کے لیے حکومت نے کیا انتظام کیا ہے ۔اس قانون کی وجہ سے فرقہ پرست عناصر کے حوصلہ بلند ہوگئے ہے اور اس سے ریاست میں فرقہ وارنہ فسادات ہو سکتے ہے ۔عید الضحیٰ کے موقع پر مسلمان اکژ بیل کی قربانی دیتے ہے تو فرقہ پرست طاقتیں اس کا غلط استعمال کر ریاست میں فرقہ اورانہ تشدد بھڑکا سکتے ہے۔کسی ایک قوم کو خوش کرنے کے خاطر کسی دوسری قوم کی حق تلفی ہوتی ہے یہ کس حد ٹھیک ہے کیا یہ جہموریت کا مزاق نہیں ہے۔جمہوریت میں ہر قوم کو اپنے مذہب کے ریتی رواج پر عمل کرنے کا پورا حق ہے پھر مسلمان کے ساتھ یہ تعصابنہ رویہ کیوں؟ مسلمانوں کو کیا کھانا چاہیے کیا نہیں کھانا چاہیے کیا اس بات کا فیصلہ بھی حکومت کریگی؟ ۔حکومت کو اس تعصب کی عینک کو ہٹانا ہوگا اور سب کے ساتھ انصاف کرنے کی ضرورت ہے۔جسم کا اگر کوئی ایک حصہ کٹ جائے تو انسان معزور ہو جاتا ہے اور دوسروں کے سہارے جینے لگتا ہے ۔اسی طرح ہندوستان میں رہنے والے سبھی قومیں ایک جسم کا حصہ ہے اور مسلمان بھی اسی کا ایک حصہ ہے اب اگر اسی ایک حصہ کو کاٹ کر جسم سے الگ کر دونگے تو معزور ہو جاوگے اور ملک کی ترقی نا ممکن ہے۔
No comments:
Post a Comment