مرزا غالب کی وفات
Feb 15, 1869
Feb 15, 1869
15 فروری 1869ء اردو کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ غالب کی تاریخ
وفات ہے۔
مرزا غالب 27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے تھے۔ آبائو اجداد کا پیشہ تیغ زنی اور سپہ گری تھا۔ انہوں نے اپنا پیشہ انشاء پردازی اور شعر و شاعری کو بنایا اور ساری عمر اسی شغل میں گزار دی۔
13 برس کی عمر میں، دہلی کے ایک عظیم دوست گھرانے میں شادی ہوئی اور یوں غالب دلی چلے آئے جہاں انہوں نے اپنی ساری عمر بسر کردی۔ غالب نے اپنی زندگی بڑی تنگدستی اور عسرت میں گزاری مگر کبھی کوئی کام اپنی غیرت اور خودداری کے خلاف نہ کیا۔ 1855ء میں ذوق کے انتقال کے بعد بہادر شاہ ظفر کے استاد مقرر ہوئے جن کے دربار سے انہیں نجم الدولہ دبیر الملک اور نظام جنگ کے خطابات عطا ہوئے۔ جب 1857ء میں بہادر شاہ ظفر قید کرکے رنگون بھیج دیئے گئے تو وہ نواب یوسف علی خاں والیٔ رام پور کے دربار سے وابستہ ہوگئے جہاں سے انہیں آخر عمر تک وظیفہ ملتا رہا۔
غالب فارسی اور اردو دونوں زبانوں کے عظیم شاعر تھے جتنی اچھی شاعری کرتے تھے اتنی ہی شاندار نثر لکھتے تھے۔ انہوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ نثر نگاری میں بھی ایک نئے اسلوب کی بنیاد رکھی۔ غالب سے پہلے خطوط بڑے مقفع اور مسجع زبان میں لکھے جاتے تھے انہوں نے اسے ایک نئی زبان عطا کی اور بقول انہی کے ’’مراسلے کو مکالمہ بنادیا‘‘۔
15 فروری 1869ء کو مرزا غالب نے دہلی میں وفات پائی اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔
مرزا غالب 27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے تھے۔ آبائو اجداد کا پیشہ تیغ زنی اور سپہ گری تھا۔ انہوں نے اپنا پیشہ انشاء پردازی اور شعر و شاعری کو بنایا اور ساری عمر اسی شغل میں گزار دی۔
13 برس کی عمر میں، دہلی کے ایک عظیم دوست گھرانے میں شادی ہوئی اور یوں غالب دلی چلے آئے جہاں انہوں نے اپنی ساری عمر بسر کردی۔ غالب نے اپنی زندگی بڑی تنگدستی اور عسرت میں گزاری مگر کبھی کوئی کام اپنی غیرت اور خودداری کے خلاف نہ کیا۔ 1855ء میں ذوق کے انتقال کے بعد بہادر شاہ ظفر کے استاد مقرر ہوئے جن کے دربار سے انہیں نجم الدولہ دبیر الملک اور نظام جنگ کے خطابات عطا ہوئے۔ جب 1857ء میں بہادر شاہ ظفر قید کرکے رنگون بھیج دیئے گئے تو وہ نواب یوسف علی خاں والیٔ رام پور کے دربار سے وابستہ ہوگئے جہاں سے انہیں آخر عمر تک وظیفہ ملتا رہا۔
غالب فارسی اور اردو دونوں زبانوں کے عظیم شاعر تھے جتنی اچھی شاعری کرتے تھے اتنی ہی شاندار نثر لکھتے تھے۔ انہوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ نثر نگاری میں بھی ایک نئے اسلوب کی بنیاد رکھی۔ غالب سے پہلے خطوط بڑے مقفع اور مسجع زبان میں لکھے جاتے تھے انہوں نے اسے ایک نئی زبان عطا کی اور بقول انہی کے ’’مراسلے کو مکالمہ بنادیا‘‘۔
15 فروری 1869ء کو مرزا غالب نے دہلی میں وفات پائی اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا، پایا
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا، پایا
……٭٭٭……
...... پیشکش : شفیق جے ایچ......
No comments:
Post a Comment