۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ماضی کے جھروکوں سے (سلسلہ
نمبر ۲) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اردو کے قدیم شعرا و ادبا کے تعارف کا سلسلہ شروع کیا جارہا ہے تاکہ
ہم اپنی زبان و ادب کے ورثے سے متعارف ہوں۔
خیراندیش
خیراندیش
اشفاق عمر
اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر
سلطان محمد قلی قطبؔ شاہ
(1612 تا 1566)
گولکنڈہ کا پانچواں تاجدار ۔ 1580 میں تخت نشین ہوا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ولیؔ دکنی کو ایک زمانے تک اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر مانا جاتا رہا لیکن سلطان محمد قلی قطبؔ شاہ کے دیوان کی دریافت کے بعد ثابت ہوا کہ ولی ؔ سے تقریباً سو سال قبل قطب شاہی سلطنت کے فرمانروا کے سر پر یہ تاج سجے گا۔ بقول ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ، وہ اردو زبان وادب کا محسن اعظم ہے۔ ایسے وقت جب شمالی ہند میں اردو بول چال کی زبان کے زمرے میں تھی، سلطان محمد قلی قطبؔ شاہ نے دکن میں نہ صرف اردو کو ادبی زبان کا روپ دیا بلکہ اس زبان کو سرکاری سرپرستی بھی عطا کی۔
سلطان محمد قلی قطبؔ شاہ کا کلام دکنی اردو ادب کی شکل میں سامنے آیا ہے۔انہوں نے ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی ۔ اپنی شاعری میں انہوں نے معانی، ترکمان، قطب جیسے تخلص استعمال کیے۔ وہ اردو کےپہلا عوامی شاعر بھی ہیں۔ اردو شاعری کی تمام اصنافِ سخن مثلاً نظمیں، قصيدے، مسدس، مخمس، رباعيات اور موضوعاتی شاعری میں محمد قلی قطبؔ شاہ کے کلام ملتے ہیں لیکن ان کی غزلیں خصوصی مطالعہ کی دعوت دیتی ہیں۔ان کی غزلوں میں سوز و گداز بھی ہے اور جذبات کی بے ساختگی بھی۔ان کےکلام میں بکثرت ہندی فارسی اور عربی الفاظ کے ساتھ ساتھ پنجابی اور دکنی محاروں کا استعمال ملتا ہے۔
سلطان محمد قلی قطبؔ شاہ کے یہاں بے شمار موضوعات پر طبع آزمائی کے جوہر ملتے ہیں۔ ان کے یہاں نیچر ل شاعری کا ایک بڑا ذخیرہ ملتا ہے۔ آپ کو اُن کے کلام میں ہلا ل عید، ترکاری ، پھل ، پھول ، سالگرہ ، رسم جلوہ، دیگر رسومات ِشادی بیاہ ، شب معراج ، عید رمضان ، عیدالضحیٰ، موسم ِبرسات , عید میلاد النبیﷺ اور بارہ اماموں کا تذکرہ وغیرہ عنوانات پر نظمیں ملیں گی۔ ان نظموں میں اس وقت کے دکن کے معاشرے کی مکمل تصویر نظر آئے گی۔
سلطان محمد قلی قطبؔ شاہ نے تخت نشینی کے گیارہ سال بعد ۱۵۹۰ ء میں حیدر آباد کی بنیاد رکھی اور اپنی محبوب بھاگ متی کے نام پر اس کا نام بھاگ نگر رکھا ۔ انہوں نے جب بھاگ متی کو حیدر محل کا خطاب دیا تو بھاگ نگر شہر کا نام بھی بدل کر حیدر آباد رکھ دیا ۔انہیں اس شہر سے بڑا لگاؤ تھا۔
میرا شہر لوگاں سوں معمور کر
رکھیا جو توں دریا میں من یا سمیع
( یعنی اے خدا: تو میر ے شہر کولوگوں سے اس طرح آباد رکھ جس طرح دریا میں بے شمار مچھلیاں ہوتی ہیں۔)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نمونۂ کلام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سلطان محمد قلی قطبؔ شاہ
(1612 تا 1566)
گولکنڈہ کا پانچواں تاجدار ۔ 1580 میں تخت نشین ہوا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ولیؔ دکنی کو ایک زمانے تک اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر مانا جاتا رہا لیکن سلطان محمد قلی قطبؔ شاہ کے دیوان کی دریافت کے بعد ثابت ہوا کہ ولی ؔ سے تقریباً سو سال قبل قطب شاہی سلطنت کے فرمانروا کے سر پر یہ تاج سجے گا۔ بقول ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ، وہ اردو زبان وادب کا محسن اعظم ہے۔ ایسے وقت جب شمالی ہند میں اردو بول چال کی زبان کے زمرے میں تھی، سلطان محمد قلی قطبؔ شاہ نے دکن میں نہ صرف اردو کو ادبی زبان کا روپ دیا بلکہ اس زبان کو سرکاری سرپرستی بھی عطا کی۔
سلطان محمد قلی قطبؔ شاہ کا کلام دکنی اردو ادب کی شکل میں سامنے آیا ہے۔انہوں نے ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی ۔ اپنی شاعری میں انہوں نے معانی، ترکمان، قطب جیسے تخلص استعمال کیے۔ وہ اردو کےپہلا عوامی شاعر بھی ہیں۔ اردو شاعری کی تمام اصنافِ سخن مثلاً نظمیں، قصيدے، مسدس، مخمس، رباعيات اور موضوعاتی شاعری میں محمد قلی قطبؔ شاہ کے کلام ملتے ہیں لیکن ان کی غزلیں خصوصی مطالعہ کی دعوت دیتی ہیں۔ان کی غزلوں میں سوز و گداز بھی ہے اور جذبات کی بے ساختگی بھی۔ان کےکلام میں بکثرت ہندی فارسی اور عربی الفاظ کے ساتھ ساتھ پنجابی اور دکنی محاروں کا استعمال ملتا ہے۔
سلطان محمد قلی قطبؔ شاہ کے یہاں بے شمار موضوعات پر طبع آزمائی کے جوہر ملتے ہیں۔ ان کے یہاں نیچر ل شاعری کا ایک بڑا ذخیرہ ملتا ہے۔ آپ کو اُن کے کلام میں ہلا ل عید، ترکاری ، پھل ، پھول ، سالگرہ ، رسم جلوہ، دیگر رسومات ِشادی بیاہ ، شب معراج ، عید رمضان ، عیدالضحیٰ، موسم ِبرسات , عید میلاد النبیﷺ اور بارہ اماموں کا تذکرہ وغیرہ عنوانات پر نظمیں ملیں گی۔ ان نظموں میں اس وقت کے دکن کے معاشرے کی مکمل تصویر نظر آئے گی۔
سلطان محمد قلی قطبؔ شاہ نے تخت نشینی کے گیارہ سال بعد ۱۵۹۰ ء میں حیدر آباد کی بنیاد رکھی اور اپنی محبوب بھاگ متی کے نام پر اس کا نام بھاگ نگر رکھا ۔ انہوں نے جب بھاگ متی کو حیدر محل کا خطاب دیا تو بھاگ نگر شہر کا نام بھی بدل کر حیدر آباد رکھ دیا ۔انہیں اس شہر سے بڑا لگاؤ تھا۔
میرا شہر لوگاں سوں معمور کر
رکھیا جو توں دریا میں من یا سمیع
( یعنی اے خدا: تو میر ے شہر کولوگوں سے اس طرح آباد رکھ جس طرح دریا میں بے شمار مچھلیاں ہوتی ہیں۔)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نمونۂ کلام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پیا باج پیالہ پیا جائے نا
پیا باج اک پل جیا جائے نا
میں کیسے پیا جاج صبوری کروں
کہا جائے امّا کیا جائے نا
نہیں عشق جس وہ بڑا کوڑ ہے
کیدھیں اُس سے ملی بیسیا جائے نا
قطب شہ دے مجھ دیوانے کو بند
دیوانے کو کچھ بند دیا جائے نا
۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔
پیا تجھ آشنا ہوں میں تو بیگانہ نہ کر مجھ کو
ٹلے نہ اک گھڑی تجھ بن تو نا بسر مجھ کو
جہاں توں واں میں پیارے مجھے کیا کام ہے کس سے
نہ بت خانہ کی پروا ہے نہ مسجد کی خبر مجھ کو
بہشت و دوزخ اعرف کچھ نہیں ہے میرے آگے
جدھر توں واں میری جنت نئیں واں سفر مجھ کو
تیری الفت کا میں سرمست ہوا متوال ہوں پیارے
نہیں ہوتا بجز اس کے کسی مئے کا اثر مجھ کو
نبیؐ صدقے قطب شاہ کو نےءں آدھار کی حاجت
کہ دونوں جگ منے آدھار ہے خیر البشرؐ مجھ کو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سب اختیار میرا تج ہات ہے پیارا
جس حال سوں رکھے گا ہے او خوشی ہمارا
نیناں انجھوں سوں دھوئوں پگ اپ پلک سوں جھاڑوں
جے کوئی خبر سولیاوے مکھ پھولوں کا تمہارا
بتخانہ نین تیرے ہو ربت نین کیا پتلیاں
مجھ نین ہیں پوجاری پوجا ادھان ہمارا
اس پتلیاں کی صورت کئی خواب میں جو دیکھے
رشک آئے مجھ، کرے مت کوئی سجدہ اس دوارا
تُج عاشقاں میں ہوتا جنگ و جدل سو سب دن
ہے شرعِ احمدی تُج انصاف کر خدارا
تُج خیال کی ہوس تھے ہے جیو ہمن سو زندہ
او خیال کد نجاوے ہم سرتھے ٹک بہارا
جب توں لکھیا قطبؔ شہ مہر محمدؐ اپ دل
ہے شش جہت میں تجھ کو حیدر کہ توا دہارا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سلطان محمد قلی قطبؔ شاہ نے اردو زبان پر احسانِ عظیم کیا ہے۔ اردو زبان کے لیے ان کی خدمات نے انہیں زندہ جاوید کردیا ۔
پیا باج اک پل جیا جائے نا
میں کیسے پیا جاج صبوری کروں
کہا جائے امّا کیا جائے نا
نہیں عشق جس وہ بڑا کوڑ ہے
کیدھیں اُس سے ملی بیسیا جائے نا
قطب شہ دے مجھ دیوانے کو بند
دیوانے کو کچھ بند دیا جائے نا
۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔
پیا تجھ آشنا ہوں میں تو بیگانہ نہ کر مجھ کو
ٹلے نہ اک گھڑی تجھ بن تو نا بسر مجھ کو
جہاں توں واں میں پیارے مجھے کیا کام ہے کس سے
نہ بت خانہ کی پروا ہے نہ مسجد کی خبر مجھ کو
بہشت و دوزخ اعرف کچھ نہیں ہے میرے آگے
جدھر توں واں میری جنت نئیں واں سفر مجھ کو
تیری الفت کا میں سرمست ہوا متوال ہوں پیارے
نہیں ہوتا بجز اس کے کسی مئے کا اثر مجھ کو
نبیؐ صدقے قطب شاہ کو نےءں آدھار کی حاجت
کہ دونوں جگ منے آدھار ہے خیر البشرؐ مجھ کو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سب اختیار میرا تج ہات ہے پیارا
جس حال سوں رکھے گا ہے او خوشی ہمارا
نیناں انجھوں سوں دھوئوں پگ اپ پلک سوں جھاڑوں
جے کوئی خبر سولیاوے مکھ پھولوں کا تمہارا
بتخانہ نین تیرے ہو ربت نین کیا پتلیاں
مجھ نین ہیں پوجاری پوجا ادھان ہمارا
اس پتلیاں کی صورت کئی خواب میں جو دیکھے
رشک آئے مجھ، کرے مت کوئی سجدہ اس دوارا
تُج عاشقاں میں ہوتا جنگ و جدل سو سب دن
ہے شرعِ احمدی تُج انصاف کر خدارا
تُج خیال کی ہوس تھے ہے جیو ہمن سو زندہ
او خیال کد نجاوے ہم سرتھے ٹک بہارا
جب توں لکھیا قطبؔ شہ مہر محمدؐ اپ دل
ہے شش جہت میں تجھ کو حیدر کہ توا دہارا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سلطان محمد قلی قطبؔ شاہ نے اردو زبان پر احسانِ عظیم کیا ہے۔ اردو زبان کے لیے ان کی خدمات نے انہیں زندہ جاوید کردیا ۔
No comments:
Post a Comment