You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Tuesday, March 15, 2016

شامِ یاراں معتبر شعراء اور باذوق سامعین کے تال میل سے تاریخی بن گئی

11 مارچ بروز جمعہ رات نو بجے فیمس میوزک سینٹر میں خادمانِ ادب کی جانب سے ایک معیاری ادبی ،شعری و اعزازی نشت  بنامِ شامِ یاراں منعقد کی گئی ـ اس نشست کی صدارت جناب سعید احمد ہوٹل والے ( صدر پنچ کمیٹی،  حسن پورہ) نے کی ـ شمع فروزی محترم جمال ناصر نے کی ـ افتتاح محترم جناب اسامہ ملک نے کی ـ اس نشست میں عالیجناب علی حسن بھائی کو فریڈم الیون اسٹار اسپورٹس،  ایجوکیشنل سوشل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی ، حسن پورہ،   کی جانب سے سوسائٹی کے سرپرست محترم جناب  یحییٰ  عبدالجبار صاحب کے ہاتھوں سپاس نامہ ایوارڈ اور شال اور گلدستہ کی شکل میں  خادمِ قوم و ملت کے اعزاز سے  نوازا گیا ـ اس معتبر نشست میں  شہرِ عزیز کے ابھرتے ہوئے جواں سال ناظم جناب رئیس ستارہ کی نظامت میں شہر کے مستند و معتبر شعراء نے شرکت کی جن میں حمد فرحان دِل نے پیش کی ـ نعتِ پاک کا نذرانہ مترنم شاعر واحد انصاری نے پیش کیا ـ غزل کے دور کی ابتداء آمین انمول  نے کی ـ ندیم ظفر ، جمیل الماس،  ثاقب تنہا، ، ریاض فیمس،  صادق اسد،  افضال سر،  عرفان ندیم   ظہیر اختر،،عتیق پرتاپ گڈھی،   طاہر انجم صدیقی،  رفیق سرور، ڈاکٹر انیس بوستانی،   فرحان دِل ، رئیس ستارہ، مشتاق احمد مشتاق ، وقار جعفری اور واحد انصاری نے اپنے بہترین کلام سے سامعین کو نوازا _اس معتبر نشست میں مہمانانِ خصوصی کے طور پر  رضوان مدینہ،  ظفر ببلو قریشی،  بابو سنگھانیہ،  اشفاق بھائی،  فہد بھائی،  نوید سر، کیلاش تسگے (شیو شینا ناسک ضلع صدر ) شیوا بھائی،  پردیپ بھائی،  انصاری محمد حسین، حافظ وسیم،  حافظ سہیل،  اخلاق بلڈر،  مرتضیٰ بلڈر،  مسیح اللہ بیسٹ،  ہلال انور،  کارپوریٹر محمد  آمین انصاری، اشفاق کلیم (نائب صدر فریڈم)  ندیم نعیم (سکریٹری فریڈم) ، احمد نعیم (جوائنٹ سکریٹری فریڈم) فہیم احمد (خازن فریڈم)  مزمل آرین (رکن فریڈم) توصیف عبدالحمید حاجی (رکن فریڈم) منہاج اشرف (رکن فریڈم) محمد یاسین وائر مین (رکن فریڈم) وسیم شاہ،  طاہر شاہ،  امتیاز ملک،  ساجد انصاری  وغیرہ  نے شرکت کی اور نشست کو کامیاب کیا _ظہیر اختر ناندیڑی،  اسمٰعیل پلبر (رکن فریڈم) اور عبدالستار وائرمین (ادارۂ الضیاء) اس نشت کے کنوینر تھے ـاس محفل کو سجانے اور مہمانانِ کرام کو جمع کرنے کا سہرہ شہرِ عزیز  کے مشہور سوشل ورکر اور فریڈم الیون اسٹار سوسائٹی کے روحِ رواں محترم جناب ابراہیم مختار انقلابی صاحب کے سر جاتا ہے ـ تن من دھن سے شروع سے اخیر تک نشست میں لگے رہنے پر کنوینر حضرات نے بھی خصوصی طور پر موصوف کا شکری ادا کیا ـ نشست رات ساڑھے تین بجے تک اپنے عروج پر رہی اور سامعین ڈٹے رہے ـ آخر میں ظہیر اختر ناندیڑی کے رسم شکریہ کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی ـ

Wednesday, March 09, 2016

آج جدید اردو نظم کے بنیاد سازوں میں شامل ، ل کے فلم مکالمہ نگار اختر الایمان کی برسی ہے۔ 9March,1996.. اخترالایمان کا ذکر کیا جائے تو یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ اردو نظم کے باکمال شاعر اور ہندی فلموں کے لاجواب سکرین رائٹر تھے۔ انہوں نے بہت عرصہ تک اپنی فنی عظمت کے نقوش چھوڑے۔ 12 نومبر1915 ء کو قلعہ ڈسٹرکٹ گرھوال اترچند بھارت میں پیدا ہونے والے اختر الایمان نے بجنور میں ابتدائی تعلیم حاصل کی جہاں ان کا رابطہ شاعر اور اپنے وقت کے معروف عالم خورشید الاسلام سے ہوا جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے۔ انہوں نے دہلی کے ذاکر حسین کالج سے گریجوایشن کی اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے اردو کیا۔ انہوں نے اظہار شعر کیلئے غزل کی بجائے نظم کا انتخاب کیا اور بہترین نظمیں تخلیق کیں۔ان کی شہرت کی ایک بڑی وجہ وہ فلمیں بھی تھیں جن کے وہ سکرین رائٹر تھے۔ ویسے تو وہ بے شمار فلموں کے سکرین رائٹر تھے، جن فلموں نے انہیں بہت شہرت بخشی ان میں ’’وقت، آدمی، جورو کا غلام، داغ، ضمیر، چھتیس گھنٹے، چور پولیس، دومسافر، چاندی سونا، لہو پکارے گا، ہمراز اور قانون‘‘ شامل ہیں، وہ فلم ’’لہو پکارے گا‘‘ کے ہدایتکار بھی تھے۔ سکرین رائٹر کی حیثیت سے ان کی عظمت مسلمہ تھی اور سلیم خان اور جاوید اختر نے بھی بارہا اس حقیقت کا اعتراف کیا۔ 1973ء میں یش چوپڑا کی فلم ’’داغ‘‘ سپرہٹ فلم تھی اور اس فلم نے شرمیلا ٹیگور اور راجیش کھنہ کی فنی صلاحیتوں کو ایک نئی سمت سے روشناس کیا۔ یش چوپڑا خود کہتے ہیں کہ ان کی اس فلم کی کامیابی میں اس کے سکرین رائٹر اختر الایمان کا بڑا ہاتھ تھا۔ اسی طرح 1965ء میں ریلیز ہونے والی ’’وقت‘‘ کے سکرین رائٹر بھی وہی تھے۔ اس فلم کے ہدایتکاربھی یش چوپڑا تھے۔ اسی طرح دلیپ کمار کی فلم ’’آدمی‘‘ کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے سکرین رائٹر اختر الایمان کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ اختر الایمان نے ایک نظم گو کی حیثیت سے بھی بڑا نام کمایا۔ ان کی آزاد نظموں میں میرا جی اور ن م راشد کے شعری فکر کی پرچھائیاں ملتی ہیں۔ میرا جی کے ساتھ ان کی بڑی دوستی تھی جو ایک طویل عرصہ تک برقرار رہی۔ اختر الایمان کوایک انتہائی منفرد نظم نگار تسلیم کیا جاتا ہے۔ ویسے تو کچھ نقادوں کی رائے میں وہ کھردری زبان استعمال کرتے تھے اور ان کی زبان کو شعری زبان نہیں کہا جا سکتا لیکن بہرحال ایک بات طے شدہ ہے کہ وہ ایک انتہائی اختراع پسند شاعر تھے۔ ان کے شعری مجموعوں میں ’’تاریک سیارہ، گردیاب، آب جو، یادیں، نیا آہنگ اور سروسامان ‘‘شامل ہیں۔ اختر الایمان اپنے ہم عصر شاعروں سے بالکل الگ نظر آتے ہیں۔ یہاں اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ اختر الایمان شاعر اور سکرین رائٹر کے علاوہ ڈرامہ نگار بھی تھے۔ انہوں نے صرف ایک فلم کے گیت لکھے جس کا نام تھا ’’بکھرے موتی‘‘۔ وہ بھارت کے مشہور اداکار امجد خان کے سسر تھے۔ اختر الایمان کو 1963ء میں دھرم ’’پترا‘‘ فلم کے بہترین، مکالمے لکھنے پر فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اسی طرح 1966ء میں فلم ’’وقت‘‘ کے مکالمے لکھنے پر بھی انہیں اس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 1962ء میں انہیں سہسیتااکیڈمی ایوارڈ (اردو) سے نوازا گیا۔ ذیل میں ہم اپنے قارئین کیلئے اختر الایمان کی کچھ نظموں کا تذکرہ کررہے ہیں: پھر وہی تاروں کی پیشانی پر رنگ لازوال پھر وہی بھولی ہوئی باتوں کا دھندلا سا خیال ایک اور نظم کے مندرجہ ذیل اشعارملاحظہ کیجئے: تم سے بے رنگی ہستی کا گلہ کرنا تھا دل پہ انبار ہے خوں گشتہ تمنائوں کا آج ٹوٹے ہوئے تاروں کا خیال آیا ہے ایک میلہ ہے پریشان سی امیدوں کا اختر الایمان نے فلموں میں بھی ادبی پن برقرار رکھا۔ ان کی کئی فلمیں ادب کی چاشنی سے مزین ہیں۔ یہی ان کا کمال ہے۔ پاکستان میں ان کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ قتیل شفائی، سیف الدین سیف اور تنویر نقوی نے اپنی فلمی شاعری میں بھی ادب کی چاشنی کو برقرار رکھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ مذکورہ بالا تینوں شاعر غزل گو تھے جبکہ اختر الایمان نظم گو تھے۔ 9 مارچ1996ء کو اختر الایمان کا ممبئی میں انتقال ہوگیا۔ بشکریہ:عبدالحفیظ ظفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منتخب نظمیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ درد کی حد سے پرے درد کی حد سے پرے کوئی نہیں جا سکتا درد کی حد سے پرے سوچ لو تم کچھ بھی نہیں ایک سنّاٹا ہے، احساس کی ادراک کی موت یہ کرہ، گھومتی پھرتی یہ ستم کوش زمیں خاک اور آب کا اِک گولا ہے بے رونق سا آؤ چھپ جائیں، چلو موت کے ڈر سے بھاگیں تم مری بانہوں میں، میں زلفوں میں چھپ جاؤں یہیں اور اس درد کا اظہار کریں زندگی جس سے عبارت ہے تمام درد کی حد سے پرے سوچ لو تم کچھ بھی نہیں گرمیِ عشق، یہ بوسوں کی حرارت، یہ سد مھ جو پسینہ میں ہے یہ جھرجھری جو تم نے ابھی سینہ کو چھونے سے لی، سب یہ سمو لےنم کی بھوک جسم کے ٹوٹنے اِک نشہ میں گھل جانے کا رس رنگ میں، نغموں میں اور لمس میں ڈھلنے کی ہوس سال، صدیاں یہ قرن، ماہ، یہ لمحے، یہ نفس کیف، بہجت، خوشی، تسکین، مسرت سب کچھ سب یہ اس واسطے ہے درد ہے ساتھی ہر وقت درد پیمانہ ہے ہر چیز کا اس دنیا میں زیست اِک واہمہ ہے ذات کے ہونے کا گماں درد کی حد سے پرے کچھ بھی نہیں جس کا نشاں درد کی حد سے پرے سوچ لو تم کچھ بھی نہیں ایک سنّاٹا ہے احساس کی ادراک کی موت درد کی حد سے پرے کچھ بھی نہیں جان کہیں درد کی حد سے پرے کوئی گیا بھی تو نہیں! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتفاق دیار غیر میں کوئی جہاں نہ اپنا ہو شدید کرب کی گھڑیاں گزار چکنے پر کچھ اتفاق ہو ایسا کہ ایک شام کہیں کسی اِک ایسی جگہ سے ہو یوں ہی میرا گزر جہاں ہجوم گریزاں میں تم نظر آ جاؤ اور ایک ایک کو حیرت سے دیکھتا رہ جائے! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عمر گریزاں کے نام عمر یوں مجھ سے گریزاں ہے کہ ہر گام پہ میں اس کے دامن سے لپٹتا ہوں مناتا ہوں اسے واسطہ دیتا ہوں محرومی و ناکامی کا داستاں آبلہ پائی کی سناتا ہوں اسے خواب ادھورے ہیں جو دُہراتا ہوں ان خوابوں کو زخم پنہاں ہیں جو وہ زخم دکھاتا ہوں اسے اس سے کہتا ہوں تمنّا کے لب و لہجے میں اے مری جان مری لیلیِ تابندہ جبیں سنتا ہوں تو ہے پری پیکر و فرخندہ جمال سنتا ہوں تو ہے مہ و مہر سے بھی بڑھ کے حسیں یوں نہ ہو مجھ سے گریزاں کہ ابھی تک میں نے جاننا تجھ کو کجا پاس سے دیکھا بھی نہیں صبح اُٹھ جاتا ہوں جب مرغ اذاں دیتے ہیں اور روٹی کے تعاقب میں نکل جاتا ہوں شام کو ڈھور پلٹتے ہیں چراگاہوں سے جب شب گزاری کے لیے میں بھی پلٹ آتا ہوں یوں نہ ہو مجھ سے گریزاں مرا سرمایہ ابھی خواب ہی خواب ہیں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں ملتوی کرتا رہا کل پہ تری دید کو میں اور کرتا رہا اپنے لیے ہموار زمیں آج لیتا ہوں جواں سوختہ راتوں کا حساب جن کو چھوڑ آیا ہوں ماضی کے دھندلکے میں کہیں صرف نقصان نظر آتا ہے اس سودے میں قطرہ قطرہ جو کریں جمع تو دریا بن جائے ذرّہ ذرّہ جو بہم کرتا تو صحرا ہوتا اپنی نادانی سے انجام سے غافل ہو کر میں نے دن رات کیے جمع خسارہ بیٹھا جاننا تجھ کو کجا پاس سے دیکھا بھی نہیں اے مری جان مری لیلیِ تابندہ جبیں یوں نہ ہو مجھ سے گریزاں مرا سرمایہ ابھی خواب ہی خواب ہیں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیشکش:: و.ا. جوگی

Thursday, March 03, 2016

جناب سعید احمد اختر

آج پاکستان کے معروف شاعر سعید احمد اختر کا یومِ پیدائش ہے۔
۳ مارچ ۱۹۳۳ء کو عید کے دن پشین میں پیدا ہونے والے سعید احمد اختر کا نام بھی اسی مناسبت سے رکھا گیا تھا کہ سعید مبارک کو کہتے ہیں اور اختر پشتو میں عید کو ۔ ان کے والد محکمہ تعلیم میں ملازم تھے اور بنیادی طور پر تعلق ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کُلاچی سے تھا۔ سعید صاحب کے والد اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے اور علامہ اقبال سے نہ صرف عقیدت رکھتے تھے بلکہ ان کے خطبات سننے بھی جایا کرتے تھے۔ علامہ اقبال کی رحلت کی خبر پڑھ کرسعید صاحب کے والد غم سے غش کھا کر گرپڑے تھے اورپھر جنازے میں شرکت کے لیے کُلاچی سے سیالکوٹ تشریف لے گئے تھے ۔ والد کے حوالے سے پس منظر بتانے کا مقصد یہ حقیقت واضح کرنا تھاکہ سعید صاحب کو شعر و علم سے محبت در حقیقت ورثے میں ملی تھی ۔ عِلم سے محبت وہ پہلا سبق تھا جو سعیدصاحب کو ان کے والد نے سکھایااور پھر سعید صاحب کی ساری زندگی اسی درس سے عبارت رہی ۔سعید صاحب ابھی کم سِن تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا اور ان کو بہت مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ان کے لیے تعلیم جاری رکھنا مشکل ہو گیا۔ اس زمانے تک کُلاچی میں بجلی بھی نہیں تھی اور سعید صاحب کو گھر سے کئی میل دُور شہر جانے والی سڑک پر لگے ایک کھمبے کی بتی کے نیچے جا جا کر پڑھنا پڑا تاہم انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور انتہائی مشکل حالات کے باوجود تعلیم جاری رکھی اورپھر اُردو اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کرنے کے بعد وہ انگریزی ادب کے پروفیسر کے طور پر پشاور یونیورسٹی سے منسلک ہو گئے۔ ۱۹۶۸ء میں سی ایس ایس کرنے کے بعد مغربی پاکستان سِول سروس میں آئے اور صوبہ سرحد( اب خیبر پختونخواہ) کے مختلف اضلاع میں ڈپٹی کمشنر اور مختلف ڈویژنز میں ایڈیشنل کمشنر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ ۱۹۹۰ء میں بحیثیت ایڈیشنل کمشنر افغان مہاجرین خیبر پختونخواہ پری میچور ریٹائرمنٹ لے کر ڈیرہ اسماعیل خان میں رہائش اختیار کی۔ملازمت کے دوران اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کی شاعری کے مجموعے وقفے وقفے سے شائع ہوتے رہے۔ عید کے دن پیدا ہونے والے سعید احمد اختر گزشتہ سا ل عید ہی کے دن طویل علالت کے باعث کومہ میں چلے گئے اور کچھ روز بعدیعنی ۲۰ اگست ۲۰۱۳ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں انتقال کر گئے اور وہیں مدفون ہیں۔
بس ہمیشہ کے لیے چُپ سادھ لی
 یہ بھی کوئی صورتِ اظہار ہے
مُدت سے خامشی ہے چلو آج مَر چلیں
دو چار دن تو گھر میں ذرا انجمن رہے

احمد ندیم قاسمی ، سید ضمیر جعفری،حمایت علی شاعر، افتخار عارف، پرتو روہیلہ اور سحر انصاری جیسے Aشعراء کی آراء سے مزین سعید احمد اختر مرحوم کے اب تک کے تیر ہ مطبوعہ شعری مجموعے اس امر کے عکاس ہیں کہ ان کی بنیادی پہچان ان کی شاعری ہے ۔انہوں نے انگریزی میں بھی شاعری کی۔ان کے دو شعری مجموعے( ایک اُردو اور ایک انگریزی ) فی الوقت زیرِ اشاعت ہیں ۔ اُن کی اُردو اور انگریزی کے علاوہ سنسکرت، فارسی ، سرائیکی ، پنجابی اور پشتو ادب پربھی گہری نظر ت ہیں( پیشکش : شفیق جے ایچ )

اردو غزل

غزل 
کوئی عاشق کوئی پاگل کوئی فنکار ہوجائے

تمھیں دیکھیں اگر ہم دیکھتے ہی پیار ہو جائے

تری زلفوں نے توڑا ہے گھٹاوں کا بھرم جاناں

تری شوخی کبھی قاتل کبھی تلوار ہوجائے

لبوں سے گر چرالیں یہ تری مخمور لالی کو

گلابِ گلشنِ مہر و وفا گلزار ہوجائے

چلے آو سجا کر تم رخِ روشن کو آنچل میں

مِری چھت پر مجھے بھی چاند کا دیدار ہو جائے

مری رگ رگ میں شامل ہے لہو بن کر تری الفت

خدارا تو کبھی دلبر کبھی غمخوار ہوجائے

نگاہِ شوق ڈالی جب صراحی کی طرف اس نے

سبھی میکش پکار اٹھے کہ پھر اک بار ہوجائے

خیال و خواب کی باتیں لکھو گے کب تلک ہوں ہی

چلو ذاکر حقیقت کا بھی کچھ اظہار ہوجائے
 ذاکر خان ذاکر 

حمد

بسم اللہ الرحمن الرحیم
حمد باری تعالیٰ
بے مثل و لاشریک و جمیل و وحید ہے

شہ رگ سے ہے قریب نظر سے بعید ہے

اجلے تری ضیا سے دو عالم کے راستے

روشن ترے کرم سے چراغِ امید ہے

انجم ردائے شام کی تزئین کا سبب

موج صبا نمودِ سحر کی نوید ہے

ٹھنڈک ہے تیرے اسمِ مبارک سے جسم میں

دشتِ سفر کی دھوپ اگرچہ شدید ہے

لا تقنطوا کا نور ہے راسخ نظر نواز

ظلمت بھی پیش خیمہ صبحِ سعید ہے

شاعر..راسخ عرفانی
المرسل
نورمحمدواشم

افسوس کؤئ توجہ دہں

ﻣﻀﻤﻮﻥ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﻃﻮﯾﻞ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮍﮬﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺣﺮﻭﻑ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﻨﺘﮯ ﺟﺎﺋﯿﻨﮕﮟ
ﺍﺑﻮﺍﻟﺤﺴﻦ ﻋﻠﯽ ﻧﺪﻭﯼ رحمة الله عليه
✅ ﺍﮮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮ ! ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﻮ؟
ﻣﻐﺮﺏ ﮐﯽ ﺩﺭﺳﮕﺎﮨﻮﮞ ‘ ﺗﺤﻘﯿﻘﺎﺗﯽ ﺍﺩﺍﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻋﻠﻤﯽﻣﺮﮐﺰﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺍﯾﮏ ﺁﻭﺍﺯ ﮨﻢ ﺳﮯ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮨﮯ ‘ﻣﮕﺮ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺗﻮﺟﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﺎ ‘ ﮐﺴﯽ ﮐﺎﺧﻮﻥ ﺟﻮﺵ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﺭﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻏﯿﺮﺕ ﻧﮩﯿﮟ
ﺟﺎﮔﺘﯽ ‘ ﯾﮧ ﺁﻭﺍﺯ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﮯ :” ﺍﮮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮ ! ﺍﮮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻏﻼﻣﻮ ! ﺳﻨﻮ ! ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﻗﺒﺎﻝﮐﮯ ﺩﻥ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻋﻠﻢ ﮐﮯ ﮐﻨﻮﯾﮟ ﺳﻮﮐﮫ ﮔﺌﮯﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﻗﺘﺪﺍﺭ ﮐﺎ ﺳﻮﺭﺝ ﮈﻭﺏ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﺏ ﺗﻤﮩﯿﮟﺣﮑﻤﺮﺍﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﻠﻄﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﻭﺍﺳﻄﮧ ‘ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ
ﺑﺎﺯﻭ ﺍﺏ ﺷﻞ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺗﻠﻮﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﮓﻟﮓ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ ‘ ﺍﺏ ﮨﻢ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺁﻗﺎﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺳﺐ ﮨﻤﺎﺭﮮﻏﻼﻡ ﮨﻮ۔ ﺩﯾﮑﮭﻮ ! ﮨﻢ ﻧﮯ ﺳﺮ ﺳﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﺗﮏ ﮐﯿﺴﺎﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻏﻼﻣﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﻧﭽﮯ ﻣﯿﮟ ﮈﮬﺎﻻ ﮨﮯ ‘ ﮨﻤﺎﺭﺍﻟﺒﺎﺱ ﭘﮩﻦ ﮐﺮ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺯﺑﺎﻥ ﺑﻮﻝ ﮐﺮ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﮮﻃﻮﺭ ﺍﻭﺭ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﮐﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺮﻓﺨﺮ ﺳﮯ
ﺑﻠﻨﺪ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ‘ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﻣﻌﺼﻮﻡﺑﭽﮯ ﺟﺐ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻗﻮﻣﯽ ﻧﺸﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﻣﺬﮨﺒﯽ ﺷﻌﺎﺭ ﭨﺎﺋﯽﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻟﺒﺎﺱ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮﮐﯿﺴﺎ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺩﻝ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ‘ ﮨﻢ ﺑﮯ ﻭﻗﻮﻑ ﻧﮩﯿﮟﺗﮭﮯ ‘ ﮨﻢ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﻝ ﻭﺩﻣﺎﻍ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﻏﻼﻡ ﺑﻨﺎ ﭼﮑﮯ
ﺗﮭﮯ ‘ ﺍﺏ ﺗﻢ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﻮ ‘ ﮨﻤﺎﺭﮮﮐﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺩﻣﺎﻍ ﺳﮯ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﮨﻮ ‘ﺍﺏ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻭﺟﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺍﺏ ﺗﻢ
ﮨﺮﺷﻌﺒﮧ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﺤﺘﺎﺝ ﮨﻮ ‘ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻃﻮﺭ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﮨﯿﮟ ‘ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮﺩﻣﺎﻏﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﻓﮑﺎﺭ ﮨﯿﮟ ‘ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﺳﮑﻮﻟﻮﮞﺍﻭﺭ ﮐﺎﻟﺠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻣﺮﺗﺐ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﻧﺼﺎﺏ ﮨﮯ ‘ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺑﺎﺯﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼﺟﯿﺒﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺳﮑﮧ ﮨﮯ ‘ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﮑﮯ ﮐﻮ ﮨﻢ ﭘﮩﻠﮯ
ﻣﭩﯽ ﮐﺮ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻢ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺣﮑﻢ ﺳﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﺳﺮﺗﺎﺑﯽﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﻮ؟ ﺗﻢ ﺍﺭﺑﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﺮﺑﻮﮞ ﺭﻭﭘﮯ ﮐﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮﻗﺮﺽ ﺩﺍﺭ ﮨﻮ ‘ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﻌﯿﺸﺖ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻗﺒﻀﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ‘
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﻨﮉﯾﺎﮞ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺭﺣﻢ ﻭﮐﺮﻡ ﭘﺮ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺭﮮ ﺗﺠﺎﺭﺗﯽ ﺍﺩﺍﺭﮮ ﺻﺒﺢ ﺍﭨﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﮨﻤﺎﺭﮮﺳﮑﮯ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ‘ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﻮﺍﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﺑﮍﺍﻧﺎﺯ ﺗﮭﺎ ‘ ﺗﻢ ﮐﮩﺘﮯ ﺗﮭﮯ ” ﺫﺭﺍ ﻧﻢ ﮨﻮ ﺗﻮ ﯾﮧ ﻣﭩﯽ ﺑﮍﯼ ﺯﺭ
ﺧﯿﺰ ﮨﮯ ﺳﺎﻗﯽ “ ﺗﻮ ﺳﻨﻮ ! ﺍﺱ ﺯﺭ ﺧﯿﺰ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﻮ ﮨﻢ ﻧﮯﮨﯿﺮﻭﺋﻦ ﺑﮭﺮﮮ ﺳﮕﺮﯾﭧ ‘ ﺷﮩﻮﺕ ﺍﻧﮕﯿﺰ ﺗﺼﻮﯾﺮﻭﮞ ‘ﮨﯿﺠﺎﻥ ﺧﯿﺰ ﺯﻧﺎ ﮐﮯ ﻣﻨﺎﻇﺮ ﺳﮯ ﻟﺒﺮﯾﺰ ﻓﻠﻤﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺱ
ﺯﺭ ﮐﺎ ﺁﺏِ ﺷﻮﺭ ﺷﺎﻣﻞ ﮐﺮﮐﮯ ﺑﻨﺠﺮ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮨﮯ۔ ﺗﻤﮩﯿﮟﺍﭘﻨﯽ ﺍﻓﻮﺍﺝ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺑﮍﺍ ﮔﮭﻤﻨﮉ ﺗﮭﺎ ‘ ﺍﺏ ﺟﺎﺅ ! ﺍﭘﻨﯽ ﻓﻮﺝﮐﮯ ﺍﺳﻠﺤﮧ ﺧﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮ ‘ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﮨﺎﺗﮫ ﺭﻭﮎ ﻟﯿﮟ ﺗﻮﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺳﺎﺭﺍ ﻧﻈﺎﻡ ﺩﺭﮨﻢ ﺑﺮﮨﻢ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ‘ ﺍﺏ ﺗﻢ ﺑﻐﯿﺮ ﮨﻢ
ﺳﮯ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻟﺌﮯ ﮐﺴﯽ ﭘﺮ ﻓﻮﺝ ﮐﺸﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ۔ﺑﻮﺳﻨﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺍﻕ ﮐﮯ ﺣﺸﺮ ﮐﻮ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻨﺎ۔
ﺟﺎﺅ ! ﺍﺏ ﻋﺎﻓﯿﺖ ﺍﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﻮ ﻃﺮﺯ ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻭﺭﻃﺮﺯ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺳﮑﮭﺎﯾﺎ ﮨﮯ ‘ ﺍﺱ ﺳﮯﺳﺮﻣﻮ ﺍﻧﺤﺮﺍﻑ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ ‘ ﺧﺒﺮ ﺩﺍﺭ ! ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻏﻼﻣﯽ ﺳﮯ
ﻧﮑﻠﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﻣﯿﺪ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺑﺮﺳﻮﮞ ﺗﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮧ ﮐﺮ ﺳﮑﻮ ﮔﮯ ‘ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧﺟﺘﻨﮯ ﺍﺱ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﮯ ﻣﺤﺮﮐﺎﺕ ﮨﻮﺳﮑﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﯾﻌﻨﯽﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﭘﺨﺘﮕﯽ ‘ ﺟﻮﺵِ ﺟﮩﺎﺩ ‘ ﺑﺎﻟﻎ ﻧﻈﺮﯼ ‘ ﻏﯿﺮﺕ
ﺩﯾﻦ ﻭﮦ ﺳﺐ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﺍﻧﺸﻮﺭﻭﮞ ‘ ﻣﻔﮑﺮﻭﮞ ﺍﻭﺭﻋﺎﻟﻤﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﭼﻨﺪ ﺁﺳﺎﺋﺸﯽ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺩﮮ ﮐﺮﺧﺮﯾﺪ ﻟﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﭨﯽ ﻭﯼ ﮐﮯ
ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺑﮯ ﺣﯿﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﺗﺮﻏﯿﺐ ﺩﮮ ﮐﺮ ‘ ﺳﻨﮕﮭﺎﺭﻭﺁﺭﺍﺋﺶ ﺣﺴﻦ ﮐﺎ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﭼﺎﺩﺭﺍﺗﺮ ﻭﺍﺩﯼ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﻮ ﻋﺮﯾﺎﮞ ﺍﻭﺭﻓﺤﺶ ﻓﻠﻤﯿﮟ ﺩﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺮﺩﺍﻧﮕﯽ ﮐﯽ ﺟﮍ ﮐﺎﭦﺩﯼ ﮨﮯ۔ ﺍﺏ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺎﻟﺪ ‘ ﮐﻮﺋﯽ ﻃﺎﺭﻕ ‘
ﮐﻮﺋﯽ ﺻﻼﺡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﭨﯿﭙﻮ ﭘﯿﺪﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ۔ﺍﻭﺭ ﺳﻨﻮ ! ﮨﻢ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﻓﺮﺍﻣﻮﺵ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ ‘ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼﻗﻮﻡ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﭘﺮ ﮨﯿﮟ ‘ ﺧﺎﺹ ﻃﻮﺭ ﭘﺮﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻋﻠﻤﺄ ﮐﮯ ‘ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺴﺠﺪﻭﮞ ﺍﻭﺭﻣﺪﺭﺳﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﯽ ﺗﮑﻔﯿﺮ ﮐﺮﮐﮯ
ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﻟﮍ ﻟﮍ ﮐﺮ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﻭﺍﻓﮑﺎﺭ ﮐﮯ ﻟﺌﮯﺭﺍﺳﺘﮧ ﺻﺎﻑ ﮐﯿﺎ ‘ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﺍﻧﺸﻮﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﻔﮑﺮﻭﮞ ﻧﮯﺗﺮﻗﯽ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﮈﺭﻥ ﮐﮩﻼﻧﮯ ﮐﮯ ﺷﻮﻕ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﺤﺪ
ﺍﻭﺭ ﺯﻧﺪﯾﻖ ﺑﻦ ﮐﺮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻓﻠﺴﻔﮯ ﮐﯽ ﺍﺷﺎﻋﺖ ﮐﯽ ‘ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﮔﺎﮨﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻧﺼﺎﺏ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮﻧﻮﺟﻮﺍﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻭﺩﻣﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﻃﺮﯾﻘﮯﺳﮯ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺬﮨﺐ ﺳﮯ ﺑﻐﺎﻭﺕ ﭘﺮ ﺍﮐﺴﺎﯾﺎ ‘ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ
ﺻﺎﺣﺒﺎﻥ ﺍﻗﺘﺪﺍﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﻭﺳﺎﺋﻞ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﮯ ﺣﯿﺎﺀ ‘ ﺑﮯﻏﯿﺮﺕ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺩﯾﻦ ‘ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﭘﺮﺳﺖ ﺍﻭﺭ ﺩﮨﺸﺖ ﮔﺮﺩ ﺑﻨﺎﻧﮯﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﯽ ﺍﺷﺎﺭﻭﮞ ﭘﺮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ ‘
ﮨﻢ ﺍﻥ ﺳﺐ ﮐﮯ ﺷﮑﺮ ﮔﺰﺍﺭ ﮨﯿﮟ ‘ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻣﺬﮨﺐ ﻧﮯﮐﯿﺴﯽ ﮐﯿﺴﯽ ﭘﺎﺑﻨﺪﯾﺎﮞ ﺗﻢ ﭘﺮ ﻟﮕﺎﺭﮐﮭﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﯾﮧ ﺣﺮﺍﻡﻭﮦ ﺣﺮﺍﻡ ‘ ﯾﮧ ﺟﺎﺋﺰ ﻭﮦ ﻧﺎﺟﺎﺋﺰ ‘ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺭﺍﮨﯿﮟ ﺗﻢ ﭘﺮ
ﺗﻨﮓ ﮐﺮﺩﯼ ﺗﮭﯿﮟ ‘ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻧﯿﺎﺭﺍﺳﺘﮧ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺣﺮﺍﻡ ﺣﻼﻝ ﮐﯽ ﻗﯿﺪ ﺳﮯﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮﺩﯾﺎ۔ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺷﮑﺮ ﺍﺩﺍ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ
ﺍﮮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮ ! ﺍﮮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻏﻼﻣﻮ ! ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﻮ
ﻣﺄﺧﻮﺫ : ﻣﻐﺮﺑﯽ ﺛﻘﺎﻓﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﻠﺤﺪﺍﻧﮧ
ﺍﻓﮑﺎﺭ ﮐﺎ ﻧﻘﻮﺫ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺳﺒﺎﺏ
Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP