آج پاکستان کے معروف شاعر سعید احمد اختر کا یومِ پیدائش ہے۔
۳ مارچ ۱۹۳۳ء کو عید کے دن پشین میں پیدا ہونے والے سعید احمد اختر کا نام بھی اسی مناسبت سے رکھا گیا تھا کہ سعید مبارک کو کہتے ہیں اور اختر پشتو میں عید کو ۔ ان کے والد محکمہ تعلیم میں ملازم تھے اور بنیادی طور پر تعلق ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کُلاچی سے تھا۔ سعید صاحب کے والد اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے اور علامہ اقبال سے نہ صرف عقیدت رکھتے تھے بلکہ ان کے خطبات سننے بھی جایا کرتے تھے۔ علامہ اقبال کی رحلت کی خبر پڑھ کرسعید صاحب کے والد غم سے غش کھا کر گرپڑے تھے اورپھر جنازے میں شرکت کے لیے کُلاچی سے سیالکوٹ تشریف لے گئے تھے ۔ والد کے حوالے سے پس منظر بتانے کا مقصد یہ حقیقت واضح کرنا تھاکہ سعید صاحب کو شعر و علم سے محبت در حقیقت ورثے میں ملی تھی ۔ عِلم سے محبت وہ پہلا سبق تھا جو سعیدصاحب کو ان کے والد نے سکھایااور پھر سعید صاحب کی ساری زندگی اسی درس سے عبارت رہی ۔سعید صاحب ابھی کم سِن تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا اور ان کو بہت مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ان کے لیے تعلیم جاری رکھنا مشکل ہو گیا۔ اس زمانے تک کُلاچی میں بجلی بھی نہیں تھی اور سعید صاحب کو گھر سے کئی میل دُور شہر جانے والی سڑک پر لگے ایک کھمبے کی بتی کے نیچے جا جا کر پڑھنا پڑا تاہم انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور انتہائی مشکل حالات کے باوجود تعلیم جاری رکھی اورپھر اُردو اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کرنے کے بعد وہ انگریزی ادب کے پروفیسر کے طور پر پشاور یونیورسٹی سے منسلک ہو گئے۔ ۱۹۶۸ء میں سی ایس ایس کرنے کے بعد مغربی پاکستان سِول سروس میں آئے اور صوبہ سرحد( اب خیبر پختونخواہ) کے مختلف اضلاع میں ڈپٹی کمشنر اور مختلف ڈویژنز میں ایڈیشنل کمشنر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ ۱۹۹۰ء میں بحیثیت ایڈیشنل کمشنر افغان مہاجرین خیبر پختونخواہ پری میچور ریٹائرمنٹ لے کر ڈیرہ اسماعیل خان میں رہائش اختیار کی۔ملازمت کے دوران اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کی شاعری کے مجموعے وقفے وقفے سے شائع ہوتے رہے۔ عید کے دن پیدا ہونے والے سعید احمد اختر گزشتہ سا ل عید ہی کے دن طویل علالت کے باعث کومہ میں چلے گئے اور کچھ روز بعدیعنی ۲۰ اگست ۲۰۱۳ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں انتقال کر گئے اور وہیں مدفون ہیں۔
بس ہمیشہ کے لیے چُپ سادھ لی
یہ بھی کوئی صورتِ اظہار ہے
مُدت سے خامشی ہے چلو آج مَر چلیں
دو چار دن تو گھر میں ذرا انجمن رہے
احمد ندیم قاسمی ، سید ضمیر جعفری،حمایت علی شاعر، افتخار عارف، پرتو روہیلہ اور سحر انصاری جیسے Aشعراء کی آراء سے مزین سعید احمد اختر مرحوم کے اب تک کے تیر ہ مطبوعہ شعری مجموعے اس امر کے عکاس ہیں کہ ان کی بنیادی پہچان ان کی شاعری ہے ۔انہوں نے انگریزی میں بھی شاعری کی۔ان کے دو شعری مجموعے( ایک اُردو اور ایک انگریزی ) فی الوقت زیرِ اشاعت ہیں ۔ اُن کی اُردو اور انگریزی کے علاوہ سنسکرت، فارسی ، سرائیکی ، پنجابی اور پشتو ادب پربھی گہری نظر ت ہیں( پیشکش : شفیق جے ایچ )
No comments:
Post a Comment