You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Sunday, February 26, 2017

امام الہند مولانا ابولکلام آزاد کا یوم وفات 22 فروری

22فروری امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کا یوم وفات ہے
امام الہند کی وفات پہ شورش کاشمیری سے زیادہ اچھا کسی نے نہیں لکھا ہو گا اگر اس سے بہتر لکھنا ممکن ہوتا تو ضرور لکھتا لیکن کچھ مضامین سدا بہار ہوتے ہیں دیکھ ل یجئے شورش کے سحر انگیز قلم کا کارنامہ_

مولانا آزاد (رحمۃ اللہ علیہ) محض سیاست داں ہوتے تو ممکن تھا حالات سے سمجھوتہ کر لیتے ، لیکن شدید احساسات کے انسان تھے ، اپنے دور کے سب سے بڑے ادیب، ایک عصری خطیب، ایک عظیم مفکر اور عالم متجر، ان لوگوں میں سے نہیں تھے ، جو اپنے لئے سوچتے ہیں ، وہ انسان کے مستقبل پر سوچتے تھے ، انہیں غلام ہندوستان نے پیدا کیا اور آزاد ہندوستان کیلئے جی رہے تھے ، ایک عمر آزادی کی جدوجہد میں بسر کی اور جب ہندوستان آزاد ہوا تو اس کا نقشہ ان کی منشا کے مطابق نہ تھا، وہ دیکھ رہے تھے کہ ان کے سامنے خون کا ایک سمندر ہے ، اور وہ اس کے کنارے پر کھڑے ہیں ، ان کا دل بیگانوں سے زیادہ یگانوں کے چرکوں سے مجروح تھا، انہیں مسلمانوں نے سالہا سال اپنی زبان درازیوں سے زخم لگائے اور ان تمام حادثوں کو اپنے دل پر گذارتے رہے ۔

آزادی کے بعد یہی سانچے دس سال کی مسافت میں ان کیلئے جان لیوا ہو گئے ، 12/فروری 1958ء کو آل انڈیا ریڈیو نے خبر دی کہ مولانا آزاد علیل ہو گئے ہیں ، اس رات کابینہ سے فارغ ہو کر غسل خانے میں گئے ، یکایک فالج نے حملہ کیا اور اس کا شکار ہو گئے ، پنڈت جواہر لال نہرو اور رادھا کرشنن فوراً پہنچے ڈاکٹروں کی ڈار لگ گئی، مولانا بے ہوشی کے عالم میں تھے ، ڈاکٹروں نے کہاکہ 48 گھنٹے گذرنے کے بعد وہ رائے دے سکتیں گے کہ مولاناخطرے سے باہر ہیں یا خطرے میں ہیں ۔
ادھر آل انڈیا ریڈیو نے براعظم میں تشویش پیدا کر دی اور یہ تاثر عام ہو گیا کہ مولانا کی حالت خطرہ سے خالی نہیں ہے ہر کوئی ریڈیو پر کان لگائے بیٹھا اور مضطرب تھا، مولانا کے بنگلہ میں ڈاکٹر راجندرپرساد (صدر جمہوریہ ہند)، پنڈت جواہرلال نہرو وزیراعظم، مرکزی کابینہ کے ارکان، بعض صوبائی وزرائے اعلیٰ اور اکابر علماء کے علاوہ ہزا رہا انسان جمع ہو گئے ، سبھی پریشان تھے 19!فروری کو موت کا خدشہ یقینی ہو گیا۔
کسی کے حواس قائم نہ تھے ، پنڈت جواہر لال نہرو رفقاء سمیت اشکبار چہرے سے پھر رہے تھے ، ہر کوئی حزن و ملال کی تصویر تھا۔ ہندوستان بھر کی مختلف شخصیتیں آ چکی تھیں ۔
جب شام ہوئی ہر امید ٹوٹ گئی۔ عشاء کے وقت سے قرآن خوانی شروع ہو گئی، مولانا حفیظ الرحمن سیوہارویؒ، مولانا محمد میاں ؒ، مفتی عتیق الرحمنؒ، سید صبیح الحسنؒ، مولانا شاہد فاخریؒ اور بیسیوں علماء وحفاظ تلاوت کلام الہیٰ میں مشغول تھے ۔

آخر ایک بجے شب سورہ یٰسین کی تلاوت شروع ہو گئی اور 22/فروری کو 2:15 بجے شب مولانا کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔
(انا ﷲ وانا الیہ راجعون)

اس وقت بھی سینکڑوں لوگ اضطراب میں کھڑے تھے ، جوں ہی رحلت کا اعلان ہوا تمام سناٹا چیخ و پکار سے تھرا گیا۔
دن چڑھے تقریباً 2 لاکھ انسان کوٹھی کے باہر جمع ہو گئے ۔ تمام ہندوستان میں سرکاری وغیر سرکاری عمارتوں کے پرچم سرنگوں کر دئیے گئے ، ملک کے بڑے بڑے شہروں میں لمبی ہڑتال ہو گئی، دہلی میں ہو کا عالم تھا حتی کہ بینکوں نے بھی چھٹی کر دی ایک ہی شخص تھا جس کیلئے ہر مذہب کی آنکھ میں آنسو تھے ، بالفاظ دیگر مولانا تاریخ انسانی کے تنہا مسلمان تھے ، جن کے ماتم میں کعبہ و بت خانہ ایک ساتھ سینہ کوب تھے ، پنڈت جواہر لال نہرو موت کی خبر سنتے ہی دس منٹ میں پہنچ گئے اور بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے انہیں یاد آ گیا کہ مولانا نے آج ہی صبح انہیں "اچھا بھائی خدا حافظ "کہا تھا۔

ڈاکٹروں نے 21 کی صبح کو ان کے جسم کی موت کا اعلان کر دیا اور حیران تھے کہ جسم کی موت کے بعد ان کا دماغ کیونکر 24 گھنٹے زندہ رہا۔
ڈاکٹر بدھان چندر رائے (وزیراعلیٰ بنگال) نے انجکشن دینا چاہا تو مولانا نے آخری سہارا لے کر آنکھیں کھولیں اور فرمایا "ڈاکٹر صاحب اﷲ پر چھوڑئیے " ۔ اس سے پہلے معالجین کے آکسیجن گیس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "مجھے اس پنجرہ میں کیوں قید کر رکھا ہے ؟ اب معاملہ اﷲ کے سپرد ہے "۔
میجر جنرل شاہ نواز راوی تھے کہ تینوں دن بے ہوش رہے ، ایک آدھ منٹ کیلئے ہوش میں آئے ، کبھی کبھار ہونٹ جنبش کرتے تو ہم کان لگاتے کہ شاید کچھ کہنا چاہتے ہیں ، معلوم ہوتا ہے کہ آیات قرآنی کا ورد کر رہے ہیں ، پنڈت نہرو کے دو منٹ بعد ڈاکٹر راجندر پرساد آ گئے ان کی آنکھوں میں آنسو ہی آنسو تھے ، آن واحد میں ہندوستانی کابنیہ کے شہ دماغ پہنچ گئے ، ہر ایک کا چہرہ آنسوؤں کے پھوار سے تر تھا اور ادھر ادھر ہچکیاں سنائی دے رہی تھیں ۔
مسٹر مہابیر تیاگی سراپا درد تھے ، ڈاکٹر رادھا کرشنن نے آبدیدہ ہو کر کہا :
"ہندوستان کا آخری مسلمان اٹھ گیا، وہ علم کے شہنشاہ تھے " ۔
کرشن مین سکتے میں تھے ، پنڈت پنٹ یاس کے عالم میں تھے ، مرار جی دیسائی بے حال تھے ، لال بہادر شاستری بلک رہے تھے ڈاکٹر ذا کرحسین کے حواس معطل تھے ۔ مولانا قاری طیب غم سے نڈھال تھے ، مولانا حفظ الرحمن کی حالت دیگر گوں تھی، ادھر زنانہ میں مولانا کی بہن آرزو بیگم تڑپ رہی تھیں ....
اب کوئی آرزو نہیں باقی

ان کے گرد اندرا گاندھی، بیگم ارونا آصف علی اور سینکڑوں دوسری عورتیں جمع تھیں ۔ اندرا کہہ رہی تھیں "ہندوستان کا نور بجھ گیا"
اور ارونا رورہی تھیں "ہم ایک عظمت سے محروم ہو گئے "۔

پنڈت نہرو کا خیال تھا کہ مولانا تمام عمر عوام سے کھینچے رہے ان کے جنازہ میں عوام کے بجائے خواص کی بھیڑ ہو گئی۔ لیکن جنازہ اٹھا تو کنگ ایڈورڈ روڈ کے بنگلہ نمبر 4 کے باہر 2 لاکھ سے زائد عوام کھڑے تھے اور جب جنازہ انڈیا گیٹ اور ہارڈنگ برج سے ہوتا ہوا دریا گنج کے علاقہ میں پہنچا تو 5 لاکھ افراد ہو چکے تھے ، صبح 4 بجے میت کو غسل دیا گیا اور کفنا کر 9 بجے صبح کوٹھی کے پورٹیکو میں پلنگ پر ڈال دیا گیا۔

سب سے پہلے صدر جمہوریہ نے پھول چڑھائے ، پھر وزیراعظم نے اس کے بعد غیر ملکی سفراء نے کئی ہزار برقعہ پوش عورتیں مولانا کی میت کو دیکھتے ہی دھاڑیں مار مار کر رونے لگیں ، ان کے ہونٹوں پر ایک ہی بول تھا
"مولانا آپ بھی چلے گئے ، ہمیں کس کے سپرد کیا ہے ؟"۔
ہندو دیویاں اور کنیائیں مولانا کی نعش کو ہاتھ باندھ کر پرنام کرتی رہیں ۔ ایک عجیب عالم تھا چاروں طرف غم و اندوہ اور رنج و گریہ کی لہریں پھیلی ہوئی تھیں ۔

پنڈت جواہر لال نہرو کی بے چینی کا یہ حال تھا کہ ایک رضا کار کی طرح عوام کے ہجوم میں گھس جاتے اور انہیں بے ضبط ہجوم کرنے سے روکتے ، پنڈت جی نے یمین ویسار سکیورٹی افسروں کو دیکھا تو ان سے پوچھا :
"آپ کون ہیں ؟"
"سکیورٹی افسر"۔
"کیوں "۔
"آپ کی حفاظت کیلئے "۔
"کیسی حفاظت؟ موت تو اپنے وقت پر آکے رہتی ہے، بچا سکتے ہو تو مولانا کو بچا لیتے ؟"

شری پربودھ چندر راوری تھے کہ پنڈت جی نے یہ کہا اور بلک بلک کر رونے لگے ، ان کے سکیورٹی افسر بھی اشکبار ہو گئے ، ٹھیک پون بجے میت اٹھائی گئی، پہلا کندھا عرب ملکوں کے سفراء نے دیا، جب کلمہ شہادت کی صداؤں میں جنازہ اٹھا تو عربی سفراء بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ، جوں ہی بنگلہ سے باہر کھلی توپ پر جنازہ رکھا گیا تو کہرام مچ گیا، معلوم ہوتا تھا پورا ہندوستان روہا ہے مولانا کی بہن نے کوٹھی کی چھت سے کہا :
"اچھا بھائی خدا حافظ"۔

پنڈت پنٹ نے ڈاکٹر راجندر پرساد کا سہارا لیتے ہوئے کہا :
"مولانا جیسے لوگ پھر کبھی پیدا نہ ہوں گے اور ہم تو کبھی نہ دیکھ سکیں گے "۔

مولانا کی نعش کو کوٹھی کے دروازہ تک چارپائی پر لایا گیا، کفن کھدر کا تھا، جسم ہندوستان کے قومی پرچم میں لپٹا ہوا تھا، اس پر کشمیری شال پڑا تھا اور جنازہ پر نیچے دہلی کی روایت کے مطابق غلاف کعبہ ڈالا گیا تھا۔ پنڈت نہرو، مسٹر دھیبر صدر کانگریس، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، جنرل شاہ نواز، پروفیسر ہمایوں کبیر، بخشی غلام محمد اور مولانا کے ایک عزیز جنازہ گاڑی میں سوار تھے ۔
ان کے پیچھے دوسری گاڑی میں صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر راجندر پرساد اور ڈاکٹر رادھا کرشنن نائب صدر کی موٹر تھی۔ ان کے بعد کاروں کی ایک لمبی قطار تھی جس میں مرکزی وزراء، صوبائی وزرائے اعلیٰ، گورنر اور غیر ملکی سفراء بیٹھے تھے ۔
ہندوستانی فوج کے تینوں چیفس جنازے کے دائیں بائیں تھے ۔ تمام راستہ پھولوں کی موسلادھار بارش ہوتی رہی۔ دریا گنج سے جامع مسجد تک ایک میل کا راستہ پھولوں سے اٹ گیا۔ جب لاش لحدتک پہنچی تو ایک طرف علماء و حفاظ قرآن مجید پڑھ رہے تھے دوسری طرف اکابر فضلاء سرجھکائے کھڑے تھے ۔

اس وقت میت کو بری فوج کے ایک ہزار نوجوانوں ، ہوائی جہاز کے تین سو جانبازوں اور بحری فوج کے پانچ سو بہادروں نے اپنے عسکری بانکپن کے ساتھ آخری سلام کیا، مولانا احمد سیعد دہلوی صدر جمعیت علماء ہند نے 2:50 پر نماز جنازہ پڑھائی، پھر لحد میں اتارا، کوئی تابوت نہ تھا اور اس طرح روئے کہ ساری فضاء اشکبار ہو گئی، تمام لوگ رو رہے تھے اور آنسو تھمتے ہی نہ تھے ، مولانا کے مزار کا حدود اربعہ "بوند ماند" کے تحت درج ہے ۔

مختصر ... یہ کہ جامع مسجد اور لال قلعہ کے درمیان میں دفن کئے گئے ، مزار کھلا ہے ، اس کے اوپر سنگی گنبد کا طرہ ہے اور چاروں طرف پانی کی جدولیں اور سبزے کی روشیں ہیں ۔ راقم جنازہ میں شرکت کیلئے اسی روز دہلی پہنچا، مولانا کو دفنا کر ہم ان کی کوٹھی میں گئے کچھ دیر بعد پنڈت جواہر لال نہرو آ گئے اور سیدھا مولانا کے کمرے میں چلے گئے پھر پھولوں کی اس روش پر گئے ، جہاں مولانا ٹہلا کرتے تھے ، ایک گچھے سے سوال کیا:
"کیا مولانا کے بعد بھی مسکراؤ گے ؟"۔
راقم آگے بڑھ کر آداب بجا لایا کہنے لگے : "شورش تم آ گئے ؟ مولانا سے ملے ؟"
راقم کی چیخیں نکل گئیں ۔
مولانا ہمیشہ کیلئے رخصت ہو چکے تھے اور ملاقات صبح محشر تک موقوف ہو چکی تھی_
بشکریہ عامر ہزاروی

Tuesday, February 21, 2017

آج 21 فروری ہے اور آج " یوم مادری زبان " ہے آپ سب کو اس کی پر خلوص مبارک باد پیش کرتی ہوں 🌷شمشاد جلیل شاد 🌿گلابوں سی تمہاری یاد ہر جانب مہکتی ہے تمہاری جستجو میں اب ہوا رستہ بھٹکتی ہے جہاں بھر میں ہزاروں بولیاں میٹھی بہت لیکن میری اردو زباں ان میں نگینے سی چمکتی ہے شمشاد جلیل شاد

آج 21 فروری ہے اور آج " یوم مادری زبان " ہے آپ سب کو اس کی پر خلوص مبارک باد پیش کرتی ہوں
🌷
🌿گلابوں سی تمہاری یاد ہر جانب مہکتی ہے
تمہاری جستجو میں اب ہوا رستہ بھٹکتی ہے
جہاں بھر میں ہزاروں بولیاں میٹھی بہت لیکن
میری اردو زباں ان میں نگینے سی چمکتی ہے۔

Sunday, February 19, 2017

ایک پیاری سی ضد

.جیک ان دنوں بیت المقدس کے روبرو ایک لمبی سی سڈک پر متعین تھا. جیک اقوام متحدہ کی اتحادی فوج میں کام کیا کرتا تھا. فی الحال وہ اسرائیلی فوج کے ساتھ مل کر فلسطین کے مزاحمت کاروں کو شرانگیزی سے روکنے کے لیے ان پر نظر رکھنے کے لیے اسرائیلی فوجی راحیل کے ساتھ بیت المقدس کے روبرو نگرانی پر متعین تھا. جہاں جیسا اور راحیل اپنے فرائض انجام دے رہے تھے اس مقام سے بیت المقدس کا سنہرا  گنبد کافی چمکیلا نظر آرہا تھا. ُ"کیا یہی چمک ساری دنیا سے مسلمانوں. یہودیوں. اور عیسائیوں کو یہاں کھینچ لاتی ہے". جیک نے رافیل سے کاجو اپنی مشین گن کی جانچ کر رہا تھا. جیک کے سوال پر رافیل نے مشین گن سے نظریں اٹھا کر بیت المقدس کے چمکتےہوے گنبد کو دیکھا"مجھ کو نہیں پتہ.. ہاں اتنا کہ سکتا ہوں کے ہم یہودیوں کو جب دنیا بھر میں کہیں جگ نہیں ملی تو یہاں بسا دیا گیا. ویسے بھی اس گنبدکی بنسبت مجھے اپنی مشین گن سے نکلنے والی گولیوں کی چمک زیادہ پسند ہے ". رافیل یہ کہہ کر دوبارہ اپنی گن کی جانچ کرنے لگا.           جیک فرانس کی فوج سے تھا.. جو اقوام متحدہ کا ہی ایک رکن ملک تھا. ابھی بھی جیک کا خاندان پیرس میں مقیم تھا. تیکنالوجی نے چاہے جتنی ترقی کی ہو چاہے جتنا وقت اور فاصلوں کوختم کر دیا ہو. ایک فوجی کو اپنا خاندان اپنا گھر اسی طرح یاد آتا ہے جس طرح ایک چھوٹے سے بچے کو اسکول میں  آپنے گھر کی یاد ستاتی ہے. جیک کے ساتھ گزشتہ دنوں ایسا حادثہ پیش آیا تھا کہ اسی اپنا گھر اور اپنی بیوی کی یاد بہت زیادہ ستا رہی تھی. گزشتہ دنوں پیرس میں ہونے والے بم بلاسٹ میں اسکا اکلوتا بیٹاچارلی ہلاک ہو گیا تھا. ابھی وہ اور اسکا خاندان اس صدمے سے ابھر بھی نہیں پاے تھے کے اسے اپنی فوجی ملازمت کا بلاوا آگیا.               چار و نہ چار اپنے گھر کو چھوڑ کر اپنی بیوی ماریا کو چھوڑ کر اسے مقبوضہ فلسطین کے اسرائیلی شہر تل ابیب آنا پڑا. اتحادی فوجوں کی مختلف بٹالین بیت المقدس کے اطراف مختلف جگ پر متعین تھے. کبھی کبھی فلسطینیوں کا جوش حب الوطنی بھی ابھرتا جس پر فلسطینیوں کی  جانب سے پتھراو  بھی  ہوتا. جسکے جواب میں  اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے فائرنگ کی جاتی جسکے بعد ایک لمبی سی خاموشی چھا جاتی. جب بھی جیک کو اپنے بچے کی یاد ستاتی وہ اپنی مشین  گن اٹھا کر سامنے مسلمانوں کے محلے کی جانب رخ کر دیتا مگر مسلمانوں کے محلے پر سناٹا طاری رہتا. وہ کی بار مشین گن  سے شانہ لے چکا تھا مگر ابھی تک اسے کسی  مسلمان بچے کا سر نظر نہیں آیا تھا جسے گولی مار کر وہ اپنے سینے میں جل رہی اپنے اکلوتے بیٹاچارلی کی یاد کو ٹھنڈا کر سکے. "سر بریڈ چاہیے"؟ ایک معصوم سا بچہ جس کے سر پر ٹوپی بھی تھی جیک سے بڑ ے ہی معصومانہ  انداز سے پوچھ دہا تھا.                               مسلمان بچے کو دیکھ کر جیک نے رافیل کی طرف نظر کی. جس کا مطلب سمجھ کر رافیل نے کہا" ہاں یہ مسلمان ہے. مسلمانوں کو یہاں فساد کرنے کے سوا یہاں ہر چیز کی اجازت ہے. وہاں غریب مسلمانوں کی بیٹریاں بھی ہیں. انہی میں سے کسی کی اولاد ہو گی یہ. ہم فوجیوں  کو کبھی کبھی ناشتہ وغیرہ لا کر دیتا ہے. جیک نے نی دلچسپی لیتے ہوئے اس بچے سے نام پوچھا بچے نے بڑی معصومیت سے اپنا نام"عون"بتایا. جیک نے نام سنا اوراس بچے کے سر پر ٹوپی کو بڑے غور سے دیکھنے لگا. عون کی ٹوپی میں بنے سوراخ اسے کسی بھول بھلیاں  کا راستہ محسوس ہو رہے تھے. اس نے جلدی سے نظریں پھیر لیں. اسے ڈر تھا کے عون کی ٹوپی کے سوراخوں میں بنے راستے سے گزر کر کہیں اسکے بیٹے چارلی سے ہی ملاقات نہ ہو جائے. وہ اپنی تلخ یادوں کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا اسلیے اس نے عون اور اسکی ٹوپی سے نظریں پھیر لیں. رافیل نے ایک دو بریڈ عون سے خریدےعون اپنی ٹوکری اٹھا کر وہاں سے چل دیا.                    رات کے کسی پہر آسرایلی فوجیوں اور فلسطینی مزاحمت کاروں کے درمیان فائرنگ شروع ہو گئی. کافی دیر بعد آخر اتحادی افواج نے بھی  اپنی مشینوں کا دہانا کھول دیا. جیک بھی اتحادی افواج کی جانب سے مقابلہ کر رہا تھا. کچھ دیر بعد جب فلسطینی جانب سے فائرنگ رکی تو اتحادی افواج کے کمانڈر نے اتحادی افواج کو حکم دیا کے وہ فلسطینی محلے میں داخل ہو جائیں. جیک بڑے جوش سے ایک گلی میں داخل ھوااسے محسوس ھو رہا تھا جیسے آج وہ اپنا بدلہ کسی مسلمان بچے کے سر میں گولی مار کر لےلے لگا. شدت جذبات کی وجہ سے وہ ایک گلی میں اندھا دھند فائرنگ کر تے ہوے وہ ایک گلی سے بھاگتے ہوئے گزر رہا تھا. ایک موڈ پر رافیل بھی اس سے الگ ہو گیا. اب وہ تنہا فلسطینی مزاحمت کاروں کے ٹھکانے کی جانب بھاگ رہا تھا. اچانک ایک گولی اسکے شانے پر لگی. وہ تیزی سے زمین  پر گرا. گولی شانے میں لگنے کی وجہ سے  جیک شدید زخمی نہیں ہوا تھا.حواس جب بحال ہونے تواسے اپنے شانے میں بے انتہا درد محسوس ہوا. اس نے رافیل کو آ واز دی مگر  اسے کوی جواب نہیں ملاقات نے غور کیا تو خود کو ایک تاریک گلی میں پایا. جہاں معمولی سی روشنی میں اسے عربی میں لکھے کچھ بینر نظر آے. جیک کو یہ سمجھتے دیر نہیں لگی وہ فلسطینی آبادی کے وسط میں وہ زخمی پڑا ہے. یعنی اب شاید ہی وہ کل کا سورج دیکھ سکے. شدت جذبات میں وہ اسقدر تیز بھاگا تھا کہ اپنی بٹالین اور ساتھی فوجیوں سے بھی جدا ہو چکا تھا. اب وہ تنہا زخمی حالت میں گلی میں پڑا تھا.                 اسکے شانے سے بدستور خون جاری تھا. جسے اس نے اپنے اپنے پاس رکھے رومال سے جہاں تک ہو سکے روکنے کی کوشش کی مگر خون کا بہاو اسقدر تھا کہ رومال خون سے شرابور ہونے کے بعد اس قابل بھی نہی تھا کہ اس پر پکڑ بنایا جا سکے. لحاظہ جیک نواسے ویسے ہی چھوڑ دیا. اسکی نبض آہستہ آہستہ ڈوبتے جا رہی تھی. اچانک اسے سر کہتے ہوے ہلکا سا دھکا دیا. جیک نے آہستہ سے آنکھیں کھولی تو اسے کچھ دیر دھندلاے منظر کے بعد واضح طور پر جو صورت نظر آی وہ "عون" کی تھی. عون اسے سر سرکہ کر مخاطب کرنے کی کوشش کر رہا تھا. جیک کے جب اوسان زرا بحال ہوے تو اس نے آنکھوں سے عون کو اشارہ کیا سب ٹھیک ہے. پھر ہمت جٹا کر کہا"بیٹا یہاں سے چلے جاو. یہاں فائرنگ ہو رہی ہی". "میں چلا تو جاوں مگر آپ بہت زخمی ہیں. چلے اٹھنے. میں آپ کو آپ کے ٹھکانے پر چھوڑ دوں." جیک چاہتے نا چاہتے ہوے عون کے  سہارے کھڑا ہو گیا. اب اس کے شانے سےخون جاری تھا. عون اسے سہارا دیکر اسکے ٹھکانے کی طرف لے جا رہا تھاڈگمگاتے ہوے جیک نے اپنے بچے کی صورت یاد کی تو وہ دھندلای دھندلای نظر آیا. فلسطینی بستی عون کے سہارے پار کرتے ہوئے وہ مکمل طور  سے اپنے بیٹے کو بھول چکا تھا. اپنے ٹھکانے کے قریب پہنچ کر اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا اور عون کے سہارے اپنے ٹھکانے پر پہنچ گیا. کیمپ میں اس کی تیمارداری شروع ہو گی. اس نے اس درمیان عون کو اسکی ٹوپی کو دیکھا پتہ نہیں کیوں اب اس کی ٹوپی میں اسے واضح راستے نظر آرہے تھے................
محمد فروغ جعفری

Thursday, February 16, 2017

میری ماں

منور رانا صاحب کی کتاب پڑھی پڑھ کر رونا آگیا آپ نے ماں کے بارے میں لکھا ہے بہت ہی پیارا لکھا ہے آج ان کی کتاب سے کچھ شعر پوسٹ کر رہا ہوں امید ہے آپ کو پسند آئیں گے ۔۔

مبری ماں

اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے
ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے روتے ہوئے پونچھے تھے کسی دن آنسو
مدتوں ماں نے نہیں دھویا دوپٹہ اپنا
۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لبوں پہ اس کے کبھی بد دعا نہیں ہوتی
بس ایک ماں ہے جو مجھ سے خفا نہیں ہوتی
۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی کبھی مجھے یوں بھی اذاں بلاتی ہے
شریر بچے کو جس طرح ماں بلاتی ہے
۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی کو گھر ملا حصّے میں یا کوئی دکاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی
۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے اندھیرے دیکھ لے منہ تیرا کا لا ہو گیا
ماں نے آنکھیں کھول دیں گھر میں اجالا ہو گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری خواہش ہے کہ میں پھر سے فرشتہ ہو جاؤں
ماں سے اس طرح لپٹ جاؤں کہ بچہ ہو جاؤں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرا خلوص تو پو رب کے گاؤں جیسا ہے
سلوک دنیا کا سو تیلی ماؤں جیسا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حادثوں کی گرد سے خود کو بچا نے کے لئے
ماں ہم اپنے ساتھ اب تیری دعا لے جائیں گے
۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لپٹ کے روتی نہیں ہیں کبھی شہیدوں سے
یہ حوصلہ بھی ہمارے وطن کی ماؤں میں ہے
۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سوچ کے ماں باپ کی خدمت میں لگا ہوں
اس پیڑ کا سایہ مرے بچوں کو ملے گا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایسا قرض ہے جو میں ادا کر ہی نہیں سکتا
میں جب تک گھر نہ لوٹوں میری ماں سجدے میں رہتی ہے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یاروں کو مسرت میری دولت پہ ہے لیکن
اک ماں ہے جو بس میری خوش دیکھ کے خوش ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سمجھو کہ صرف جسم ہے اور جاں نہیں رہی
وہ شخص جو کہ زندہ ہے اور ماں نہیں رہی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرے دامن میں ستارے ہیں تو ہونگے اے فلک
مجھ کو اپنی ماں کی میلی اوڑھنی اچھی لگی
۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو بھی دولت تھی وہ بچوں کے حوالے کر دی
جب تلک میں نہیں بیٹھوں یہ کھڑے رہتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب بھی دیکھا مرے کردار پہ دھبہ کوئی
دیر تک بیٹھ کے تنہائی میں رویا کوئی
۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہو گا
میں گھر سے جب نکلتا ہوں دعا بھی ساتھ چلتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب بھی کشتی مری سیلاب میں آ جاتی ہے
ماں دعا کرتی ہوئی خواب میں آ جاتی ہے
۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برباد کر دیا ہمیں پردیس نے مگر
ماں سب سے کہہ رہی ہے کہ بیٹا مزے میں ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتظر ہونگی وہ پاکیزہ سی آنکھیں گھر میں
گھر کی دہلیز پہ نشّے میں کبھی مت جانا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    
بلندیوں کا  بڑے سے  بڑا نشان چُھوا
اُٹھایا گود مِیں ماں نے تب آسمان چُھوا

----------------------------------------------------------
ہماری اہلیہ تو آگئیں ماں چُھٹ گئی لیکن
کہ ہم پیتل اُٹھا لائے ہیں سونا چھوڑ آئے ہیں
-

-------------------------------------------------------------

منوّر رانا

ا  امتیا ز شیخ   )           

Monday, February 13, 2017

بین الاقوامی مادری زبان دن

*بین الاقوامی مادری زبان دن اور ”عروس اللسان اردو“*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہرسال ۲۱؍ فروی کا دن” بین الاقوامی مادری زبان دن “کے طورمنایا جاتا ہے۔ ہم امسال اسے ” عروس اللسان اردو کےابلاغ، فروغ اوربقا “ کے عنوان سے منسوب کرتے ہیں۔ اس موضوع پراردو آبادی میں ماحول سازی کے نقطہٗ نظر سے درج ذیل مضمون تیار کیا ۔۔

*بین الاقوامی مادری زبان دن اور ”عروس اللسان اردو“*
..................................      
زندگی میں مادری زبان کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر ہر سال۲۱؍ فروری کا دن اقوام متحد ہ کے ادارہ یونیسکوکے زیر اہتمام” بین الاقوامی مادری زبان دن“ کے طور پرمنایا جاتا ہے۔ اس دن دنیا بھر میں مادری زبان کی حوصلہ افزائی کے لیے مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔آئیے امسال ۲۱؍ فروری ۲۰۱۷ء کو منعقد کیے جانے والے ”بین الاقوامی مادری زبان دن“ کو” عروس اللسان اردو“ کے حق میں یادگار بنادیں۔ اس سلسلے میں ہم چند تجاویز پیش کررہے ہیں۔
*۱) عملِ تعلیم میں مادری زبان کی اہمیت و افادیت سے متعلق عام بیداری* : دنیا بھر کے ماہرینِ تعلیم ابتدائی تعلیم کے حصول کے لیے بچوں کے مادری زبان کے اسکول میں داخلے پر زور دیتے ہیں۔ ۲۱؍ فروری کو اسکولوں ، کالجوں اور دیگر اداروں میں ”مادری زبان میں ابتدائی تعلیم کے حصول کے فوائد“ سے متعلق عام بیداری پیدا کرنے کے لیے مختلف پروگراموں کا انعقاد کیجیے۔
*۲) اردو زبان اور روزگار* : دنیا کی کوئی بھی زبان روزی روٹی کے حصول کے ذریعے کے طور پر نہیں تشکیل دی گئی ہے۔ دنیا کی تمام زبانیں باہمی رابطے کےلیے وجود میں آئی ہیں۔ پروپیگنڈہ کے اس زمانے میں زبان اور روزی روٹی کا تعلق پیدا کرکے مخصوص زبانوں کو بڑھوا دیا جارہا ہے اور ہم سب صارفیت کے اس مکروہ جال میں پھنستے جارہے ہیں۔ ہمیں ماحول سازی کرنا ہے کہ اردو زبان میں ہر کلاس، ہر کورس، ہر پیشے سے متعلق معیاری کتابیں لکھی جائیں اورمعیاری کتابوں کے ترجمے کئے جائیں تاکہ کسی بھی کورس یا پیشے کی تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مندطلبہ کی مکمل رہنمائی ہوسکے۔
*۳) اردو زبان کا اگلا قاری تیار کیجیے* : اسکولوں میں پروگرام کیے جائیں اوراسکول لائبریری کا بھرپور استعمال کرنے والے طلبہ کو انعامات سے نوازا جائے۔بچوں کو مطالعہ کی طرف راغب اور کتابوں کو خریدنے کی ترغیب دینے والی سرگرمیوں کا انعقاد کیا جائے۔
*۴) انگریزی اور دیگر زبانوں پر عبور دلانے کی سرگرمیوں کو بڑھاوا دینا* : حقیقی عمل تو یہی ہونا چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو مادری زبان کے توسط سے تمام زبانیں اور علوم سکھائیں۔مادری زبان کے علاؤہ کسی اور زبان کے اسکول میں اپنی اولاد کو داخل کرتے ہوئے ان کے لیے ایک بہتر مستقبل کی تلاش کرنا بچوں کے حال کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔ اور یہ کسی صورت میں عقلمندی تو نہیں ہے۔
*۵) ادب ِاطفال کا فروغ* : ادبِ اطفال کو فروغ دینے والی سرگرمیوں کی طرف خاص طور پر اساتذہ کو راغب کیا جائے۔ بچوں کے لیے کتابیں تحریر کرتے وقت رموزواوقاف، ذخیرۂ الفاظ، املا اور ہجا کے مسائل پر بھی مستقل طور پردھیان دیا جائے تو بچے معیاری زبان ، معیاری تلفظ و لب و لہجہ سے روشناس ہوسکتے ہیں۔
*۶) اسکولوں میں اردو زبان کے فروغ سے متعلق پروگراموں کا انعقاد* : ۲۱ فروری کے دن اسکولوں سرپرستوں کے لیے پروگرام کیا جائے۔ پروگرام میں اردو زبان کی مختصر تاریخ ، اردو کی شیرینی واثرپذیری اور ایسے ہی دیگر عنوانات پر تقاریر، بحث و مباحثہ اور دیگر سرگرمیوں کا انعقاد کیا جائے۔
*۷) ادبی و تعلیمی پروگراموں کا انعقاد* : اپنے علاقوں میں ادبی نشستوں اور مشاعروں کے انعقاد کے ساتھ ساتھ مذاکرہ اور سیمینار وغیرہ بھی منعقد کیجیے جن میں اردو زبان کا موجودہ منظرنامہ ، اردو زبان کا مستقبل ، اردو زبان کی تدریس کے مسائل ،اردو زبان کی ترقی و بقا کے لیے اقدامات اور مادری زبان(اردو) کے اسکولوں میں ابتدائی اور ثانوی تعلیم حاصل کرنے کے فوائد جیسے عنوانات پرعام بات چیت اور بحث و مباحثہ ہو۔
*۸) اخبارات میں مضامین اور مراسلوں کی اشاعت* : اسکالرس ، اساتذہ ،مراسلہ نگاران اور دیگر ماہرین ِ فن سے درخواست ہے کہ وہ ” بین الاقوامی مادری زبان دن “ کے مدنظرایسے عنوانات پر مقالے اور مضامین لکھیں اور شائع کروائیں جن سے اردو زبان سے متعلق تمام غلط فہمیاں دور ہوسکیں اور عوام کی ذہن سازی ہو۔
*۹) سوشل میڈیا پر اردو زبان کا استعمال* : ۲۱؍ فروری ۲۰۱۷ء کے دن اور اس کے بعد بھی ہم سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ اردو زبان میں تحریر کریں۔اس طرح موبائل کمپنیاں بھی اردو کی مقبولیت سے آگاہ ہوں گی ۔استعمال بڑھے گا توکمپنیاں ہمیں موبائل پر اردو زبان کی زیادہ سے زیادہ سہولیات دی سکتی ہیں.
*۱۰) خطوط نویسی کو فروغ* : موجودہ وقت میں خطوط نویسی اور عریضہ نویسی وغیرہ کی عادت ختم ہوتی جارہی ہے. ۲۱  فروری کے دن طلبہ سے کہا جائے کہ وہ اپنے کسی عزیز یا رشتہ دار کو خط لکھیں اور پوسٹ کارڈ پر اردو زبان میں پتہ لکھ کر اسے پوسٹ کردیں۔

ہم سب کی تھوڑی سی کوشش اور محنت ہماری محبوب زبان کو ایک نئی امنگ اور نئی طاقت عطا کرسکتی ہے۔ ہم نے اپنے ذہن میں موجود تجاویز کو پیش کیا ہے۔ان تجاویز کو عملی جامہ پہنائیے۔ہمیں یقین کامل ہے کہ آپ اپنے تجربات کی روشنی میں ان سے بہتر تجویز پیش کرسکتے ہیں اور ان پر عمل بھی کرسکتے ہیں۔آئیے ہم اپنی محبوب زبان *” عروس اللسان اردو“* کے حضور اپنی محبت کا نذرانہ پیش کریں۔

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP