*بہادر شاہ ظفر کا یوم ولادت*
آج 24 اکتوبر ایک خودار بادشاہ..حوصلہ مند مجاہد آزادی اور بہترین شاعر بہادر شاہ ظفر کا یوم ولادت ہے..تیمور خاندان نے جس سلطنت مغلیہ کی بنیاد رکھی یہ اس کے آخری بادشاہ تھے....یہ وہ بدنصیب باپ ہے انگریزوں نے جس کے چاروں بیٹوں کے سروں تن سے جدا کرکے تھال میں سجاکر ان کو پیش کئے گئے....
بہادر شاہ ظفر کو یہ شرف حاصل رہا کہ وہ ابراہیم ذوق اور مرزا غالب جیسے شعراء کے شاگرد رہے...
موصوف کے کچھ منتخب اشعار احباب کی خدمت میں...
*
یہ چمن یونہی رہے گا اور ہزاروں بلبلیں
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گی
*دیکھے جو ہمارے بت مغرور کی گردن*
*غلمان کے تن سے ہو جدا حور کی گردن*
خاکساری کیلئے گرچہ بنایا تھا مجھے
کاش , خاک ِ درِ جانانہ بنایا ہوتا
*صبح کے تخت نشیں شام کو مجرم ٹھہرے*
*ہم نے پل بھر میں نصیبوں کو بدلتے دیکھا*
تم نے کیا نہ یاد کبھی بھول کر ہمیں
ہم نے تمہاری یاد میں سب کچھ بھلا دیا
*اتنا نہ اپنے جامے سے باہر نکل کے چل*
*دنیا ہے چل چلاؤ کا رستہ سنبھل کے چل*
کوئی کیوں کسی کا لبھائے دل ، کوئی کیا کسی سے لگائے دل
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل ، وہ دکان اپنی بڑھا گئے
*اِتنا ہی ہُوا حُسن میں وہ شُہرۂ آفاق !*
*جِتنے ہُوئے ہم عِشق میں رُسوائے زمانہ*
عمرِ دراز مانگ لائے تھے، چار دن۔
دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں
*کانٹوں کو مت نکال چمن سے کہ باغبان*
*یہ بھی گلوں کے ساتھ پلے ہیں بہار میں*
اے فاتحہ کوئی آئے کیوں، کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی شمع آ کے جلائے کیوں کہ میں بے کسی کا مزار ہوں
*یار تھا گلزار تھا باد صبا تھی میں نہ تھا*
*لائق پابوس جاناں کیا حنا تھی میں نہ تھ*ا
کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
*یاں تک عدو کا پاس ہے ان کو کہ بزم میں*
*وہ بیٹھتے بھی ہیں تو مرے ہم نشیں سے دور*
ظفرؔ بدل کے ردیف اور تو غزل وہ سنا
کہ جس کا تجھ سے ہر اک شعر انتخاب ہوا
*بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی*
*جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی*
کہہ دو ان حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دل دغدار میں
*میرے سرخ لہو سے چمکی کتنے ہاتھوں میں مہندی*
*شہر میں جس دن قتل ہوا میں عید منائی لوگوں نے*
*ہم ہی ان کو بام پہ لائے اور ہمیں محروم رہے*
*پردہ ہمارے نام سے اٹھا آنکھ لڑائی لوگوں نے*
سب مٹا دیں دل سے ہیں جتنی کہ اس میں خواہشیں
گر ہمیں معلوم ہو کچھ اس کی خواہش اور ہے
*دولت دنیا نہیں جانے کی ہرگز تیرے ساتھ*
*بعد تیرے سب یہیں اے بے خبر بٹ جائے گی*