Wednesday, September 23, 2009
میری عید
سوچتا ہوں کہ اس عید پر کیا کروں
بے روزگاری کے جیب سے کیسے خرچ کروں
کچھ دیر لکھتا ہوں پھر رک جاتا ہوں
سوچتا ہوں کہ اس عید پر کیا کروں
خوشی بھی عجیب سی لگتی ہے عید کی
لاشوں ۔ڈھیروں سے لپٹا ہے میرا دیش
آنکھوںسے اشک نہیں ٹپکتا لہو ہے
ہر کسی کے ہاتھ میں کفن ہے دوستوں
عجیب سا منظر ہے ہر کسی دل کا
ہر کسی کے چہرے پر ایک خوف سا ہے
سوچتا ہوں کہ اس عید پر کیا کروں
بے روزگاری کے جیب سے کیسے خرچ کروں
(غفران صدیقی ،اودھ پیوپل فورم فیض آباد)
Tuesday, September 22, 2009
سوّیوں کا مزا
عشرتی گھر کی محبت کا مزا بھول گۓ
کھا کے لندن کی ہوا ،عہد وفا بھول گۓ
پہنجے ہوٹل میں تو پھر عید کی پرواہ نہ رہی
کیک کو چکھ کر سوّیوں کا مزا بھول گۓ
بھولے ماں باپ کو اغیار کے چرچوں میں وہاں
ساہہ کفر پڑا ،نور خدا ،بھول گۓ
موم کی پتلیوں پر ایسی طبیعت پگھلی
چمن ہند کی پریوں کی ادا بھول گۓ
کیسے کیسے دل نازک کو دکھایا تم نے ؟
خبر فیصلہ روز جزا بھول گۓ
بخل ہے اہل وطن سے جو وفا میں تم کو
کیا بزرگوں کی وہ سب جو دوعطا بھول گۓ؟
نقل مغرب کی ترنگ آئي تمہارے دل میں
اور یہ نکتہ ء کہ مری اصل ہے کیا؟بھول گۓ
کیا تعجب ہے؟ جو لزکوں نے بھلایا گھر کو
جب کہ بوڑھے روش دین خدا بھول گۓ
0
comments
Labels:
munawwar sultana,
urdu,
urdu blogging
Wednesday, September 16, 2009
Thursday, September 10, 2009
یوم اسا تذہ
یوم اسا تذہ کے موقع پر محمد عرفان صدیقی کو روٹری کلب بیڑ کی جانب سے ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر یو نیورسٹی اورنگ آباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر کوتا پلّۓ کے ہاتھوں ''بیسٹ ٹیچر ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ھم لنترانی کے طرف سے مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔
0
comments
Labels:
15 august,
India,
urdu,
urdu blogging
Sunday, September 06, 2009
یوم اسا تذ ہ مبارک ہو
زندگی کے چمن کا کونسا پھو ل
میرے اسا تذ ہ تمہیں پیش کروں
بحر الفت کا کو نسا مو تی
آپ کے قد موں تلے بچھا ؤں
مہر کی کن شعا ؤں سے آ پ کے
گھر میں روشنی سی پھیلا ؤں
شکر آپ کا ادا کروں کیسے
شکر آپ کا ادا نہیں ہوگا
لا ؤں اشکوں میں وہ تڑپ کیسے
جو کرم کو آپ کے بیاں کرے
اے میرے مہر باں میرے مشفق
آپ کی گویائی ہے مسیحا ئی
آپ کا سا یہ سدا رہے مجھ پر
رب کا سا یہ سدا رہے مجھ پر
0
comments
Labels:
munawwar sultana,
teacher's day,
urdu,
urdu blogging
جناب بشیر احمد انصاری صاحب
بشیر احمد انصاری صاحب وہ مشہور و معروف ہستی ہیں ۔اردو ادب با لخصوص بال بھارتی سے منسلک رہنے کی بنا ئ پر کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں ۔ گز شتہ ماہ ہی موصوف کی تنصیف '' تہذ یبی نقوش "کا اجرا ئ پو نہ کے مو لیدینہ پرا ئمری اسکول میں مشہور و معروف عا لم دین مو لا نا ابو ظفر حسان ندوی از ہری کے دست مبارک سے شا یان شان رسم اجرائ عمل میں آیا ۔جس میں اردو ادب کی مایہ نا ز ہستیوں نے شرکت کر کے اسے ایک یاد گار پروگرام بنا دیا اجراء کے بعد سے تادم تحریر قار ئين اردو ادب موصوف کی تصنیف کے حصار سے اب تک باہر نہیں آۓ تھے کہ اہل مالیگاؤں نے اپنے سپوت کی کامیابیوں و کامرا نیوں پر مبارکباد دینے کے لۓ گزشتہ دنوں ایک استقبالیہ دے کر بشیر احمد انصا ری کو پورٹریٹ کی شکل میں جیسے لا ئف
ٹائم اچیو مینٹ ایوارڈ سے نوازا ۔
ما لیگاؤں سے تعلق رکھنے والے بشیر احمد انصا ری نے طالب علمی کے زمانے میں ہی پونہ کا رخ کیا تھا ۔اردو ذریعہ معاش سے جڑے مختلف عہدوں پر فائز ہو کر کو ئي موقع گنواۓ بغیر اردو کی تر قی کو اپنا نصب العین بنا لیا ۔بال بھارتی اردو ٹیکس بک کے ممبر اور اکیڈمی سکریٹری نیز اعظم کیمپس کے سو سائٹی کے ممبر اور سیکریٹری رہے ۔ دکن مسلم انسٹی ٹیوٹ میں گزشتہ کئی برسوں تک ساتھ ہی ہمدرد ایجوکیشن ٹرسٹ کے تحت ہمدرد لا ئـریری کھڑکی ، پو نہ میں بھی اپنے قیمتی وقت کی مسلم اور غیر مسلم طلبہ کو اردو پڑھا چکے ہیں ۔ بلکہ اب بھی یہ سلسلہ کسی نہ کسی صورت میں جاری ہیں پو نہ میں رہ کر مو صوف نے اردو کو اونچا مقام دلا یا اور اس کے جائز حقوق کے لۓ جدو جہد کی اور اب بھی کر ر
ہے ہیں ۔
بشیر احمد انصاری اافروری 1936ئ کو مہاراشٹر کے سب سے بڑے صنعتی شہر ما لیگاؤں میں پیدا ہو ۓ ابتدائی تعلیم اینگلو اردو ہائی اسکول سے حاصل کی 1953 میں نا سک سینٹر سے میٹرک کے امتحان میں اوّل مقام حاصل کیا ۔واڈیا کالج سے بی ایس سی اور پو نہ یو نیورسٹی سے بی اے ، ایم اے ،بی ایڈ کی ڈگری حاصل کی ۔اینگلو اردو میں دس سال تک درس و تدریس سے منسلک رہے ۔ انھوں نے 1970 ئ کو بال بھارتی پو نہ میں اردو اسپیشل آفیسر کا عہدہ سنبھا لا ۔بشیر احمد انصاری نے مدراس میں منقعدہ 1986ئ مین نیشنل کا نفرنس ٹیکسٹ بیورو میں مہارہشٹر کی نما ئںدگی کی ۔بشیر احمد انصاری کی زندگی کا سب
ے بڑ ا کارنامہ یہ ہے کہ موصوف نے ایک فارمو لہ حکو مت مہا راشٹر کو دیا چونکہ تمام انگریزی اسکو لوں کے لۓ سو نمبر کی مراٹھی لازمی قرار دی گئی ۔ اس لۓ طلبائ اپنی خواہش کی دوسری کو ئی بھی ز بان نہیں پڑ ھ سکتے تھے ۔موصوف کی تجوییز کے مطا بق یہ سہو لت دی گئی کہ 50 مارکس کی ہندی کے ساتھ دوسری چودہ زبانوں جن میں غیر ملکی زبانیں بھی شامل ہیں ، مین سے کو ئی ایک زبان 50 نمبر کی لی جاۓ جسے حکومت مہا راشٹر نے منظور کر لیا ۔ بال بھارتی بیورو میں مسلسل 25 سالوں تک
اپنی خدمت انجام دیں ۔آج بھی ریٹائر مینٹ کے باوجود انھیں مہمان رکن کے طور پر مدعو کیا جاتا ہے بشیر احمد انصاری نے ایس ، ایس،سی بورڈ میں 1971 ئ اور 1972 ئ میں بطور رابطہ کار کے اپنے فرا ئض دیۓ یہاں پر کتابوں کو خوبصورت و دیدہ زیب بنانے ، اچھے مترجمین اور مہاراشٹر کے ماہر کاتبوں سے کام لیا جس کے سبب بورڈ کی تمام اردو کتابیں ، ان کے اسباق اور خوبصورت و خوشخط کتا بت سے ایک تاریخی کام انجام پایا ۔بشیر احمد انصاری کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ بال بھارتی میں ہر مضامین پر اساتذہ حضرات کا ورک شاپ منعقد ہوتا ہے ۔جس کی ابتدائ 1988ئ میں ہو ئی تھی ۔ بلکہ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ بشیر احمد انصاری ایک بہترین اسپورٹ مین بھی واقع ہوۓ ہیں ۔ اعظم کیمپس کا اینگلو اردو بوائز اسکول ابتدائ سے ہی کرکٹ اور دیگر کھیلوں کے لۓ بہت مشہور رہا ہے ۔بشیر احمد انصاری نے شاعری بھی کی مگر نثر نگاری کا جو شوق تھا وہ پروان چڑھتا رہا ۔
موصوف کی پہلی تصنیف پھول رانی 1988ئ کو منظر عام پر آئی جسے مہاراشٹر اردو اکیڈمی نے انعام و اکرام سے نوازا اس کے علاوہ '' مراٹھی آموز'' ، ہمارے صاحب ''کو بھی شا ئع کرواکر منظر عام پر لاۓ ۔پر و فیسر ئلام دستگیر شہاب کے انتقال کے بعد ان کی تصنیف لالہ طور ،ترجمان اسرار خودی ،رموز بے خودی اور بام خیام کو باری باری شائع کروایا ۔جس اجرائ علی سردار جعفری مرحوم کے ہاتھوں انجام پا یا اسی طرح انہوں نے نورالعین علی کی تین تصانیف کو اپنی نگرانی میں تر تیب دے کر شائع کروایا جن میں ''کینسر ''آپ بولتے کیوں نہیں ''اور ''سوچ لیجیے شامل ہیں ۔بشیر احمد انصاری کی دوسری تصیف ''تہذیبی نقوش ''بھی
شائع ہو چکی ہے ۔جبکہ اقبال نامہ زیر تر تیب ہے ۔ سنت
گیانیشور کی کتاب ''پساۓ دان کا تر جمہ کیا ۔جس کا نام دعا ئیہ رکھا گیا موصوف نے واستو پرکاش کا بھی اردو میں ترجمہ کیا جس کا اجرا ئ حیدر آباد میں مدیر روز سیا ست زاہد علی کے ہاتھوں عمل میں آیا ۔اسی طرح انھوں نے مرحوم ڈاکٹر عصمت جاوید سے اردو لغت '' تیار کر وائی جو شائع ہو چکی ہے ۔بچّوں کے لۓ ''زلفی ''کے نام سے ایک کتاب شائع کی ہے ۔بشیر احمد انصاری آج بھی بال بھارتی مین مہمان رکن کے طور پر اپنی خدمت انجام دے رہے ہیں ۔مختلیف تنظیموں کے ذریعے منعقدہ پروگرام اور خصوصی طور پر ورکشاپ مین ضرور تشریف لے جاتے ہیں ۔جہاں اسا تذہ اکرام کو اسا تذ ہ کرام کو کار آ مد و زریں خیا لات و مفید مشوروں سے نو ازتے ہیں۔
0
comments
Labels:
India,
Mr.Bashir Ansari,
munawwar sultana,
urdu,
urdu blogging
Tuesday, September 01, 2009
سم کا دھن
ایک وقت کی بات ہے کہ بندا پور نامی کسی گاؤں میں ببن حمال نام کا ایک آدمی رہتا تھا ۔ حمال عربی میں سامان اٹھانے والے قلی کو کہتے ہیں ۔لیکن وہ قلی نہیں تھا ۔اس کے نام کے ساتھ حمال کیسے لگ گیا کسی کو بھی نہیں معلوم تھا سب لوگ اسے ''حمال ''ہی کہتے تھے ۔ حمال کی گنتی بہت بڑ ے کنجو سوں میں کی جاتی تھی ۔وہ ہمیشہ وہی کام کرتا تھا جس میں کو ئي پو نجی لگانا نہ پڑے ۔وہ لوگون کی پھینکی ہو ئي چیز یں بٹور کر لاتا اور انھیں جوڑ توڑ کر کام کے لا ئق بنا لیتا ۔کبھی درزی کی دوکان سے کترن بٹور کر لاتا اور اسکی کتھری تیار کر لیتا ۔کبھی چزہوں کے بلوں کو کھود کر ان میں چو ہو ں کا لایا ہوا اور اکٹھّا کیا ہوا اناج بٹور لاتا اور اسے صاف کر کے اپنے کھانے کے لائق بنا لیتا تھا ۔ اس کے گھر میں کچھ ہی برتن تھے سامان بھی نہیں تھا ایک کونے میں چارپائی رہتی تھی اس پر ایک پھٹی پرانی کتھری پڑی رہتی تھی ۔اس چار پائی میں کٹھمل اور مچھر اور چونٹیوں نے اپنا گھر بسا لیا تھا ۔
حمال کی ایک عادت تھی کہ کہیں سے بھی اسے ایک پیسہ بھی مل جاتا تو وہ اسے ایک مٹّی کے گھڑے میں جمع کرتا تھا ۔ٹھیک چھ مہینے بعد وہ گھڑ ے سے پیسہ نکالتا تھا ۔نوٹوں کو تو وہ کتھری کے بیچ میں روئی کی طرح پھیلا کر چاروں طرف سے سی لیتا تھا اور روپیہ پیسہ وہ سارا گھڑے میں بند کر کے زمین میں دفن کر دیتا تھا ۔ایک دن کی بات ہے کہ لڑکے گیند کھیل رہے تھے گیند اوپر چھپّر پر چلی گئی ۔ایک لڑکا گیند لینے اوپر چھت پر گیا اس نے وہاں سے دیکھا کہ حمال روپیوں سے بھرا ہوا مٹکا زمین میں دفن کر رہا ہے ۔ اس نے یہ ساری بات اپنے چاچا کو بتائی ۔چاچا چور تھا ۔وہ دھن حاصل کرنے کے لۓ بے چین ہو گیا ۔اس نے اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ جاکر سارا دھن چرا لیا ۔جمعہ کا دن تھا ۔حمال جب اپنے گھر پہنچا تو اپنے گھر کا دروازہ ٹوٹا ہوا پایا ۔سیدھا اپنی کوٹھری میں گيا وہاں اپنی پھٹی پرانی کتھری کو دیکھ تو اس کی جان میں جان آئی ۔مگر جب اس کی نظر نیچے زمین پر پڑی جہاں چوروں نے کھود کر چوری کی تھی تو وہ زوروں سے چلانے لگا اس کی آواز سن کر سب گآؤں والے جمع ہو گۓ ۔مگر سب نے اس کی بات کا مذاق اڑایا ۔اس دن کے بعد سے حمال بیمار رہنے لگا ۔اور تین دن بعد اس کی موت ہو گئی ۔سب لوگ اس کی تد فین کے لۓ آۓ ۔سب لوگ اس کی کنجوسی کا قصہ بیان کر رہے تھے ۔اور یہ کہا جارہا تھا کہ ( سم کا دھن شیطان کھاتا ہے ) مکھیا نے گھر کی تلاشی لیں اچانک کسی کی نظر کتھری پر پڑی اور اس میں سے دس بیس اور ایک ایک کے بہت سارے نوٹ نکالے گۓ مکھیا نے یہ کہء کر سارا دھن اپنے قبضے میں لے لیا کہ حمال کو دفنانے کے بعد بھی اس کے لۓ بہت کچھ کر کر نا ہے
:
مرحوم اونمکار ناتھ سری واستو
Subscribe to:
Posts (Atom)