Monday, December 06, 2010
سنت کبیر داس
سنت کبیر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آج سے چھ سو سال پہلے کاشی نگری کے لہرتارا سروور(ندی) میں کنول کے پھول کی پنکھڑی پر ایک ننھا منّا پیارا سا معصوم بچّہ مسکراتا ہوا نظر آیا ۔اس وقت ایک جولاہا نیرو اور نیما نامی جوڑا وہاں سے گزر رہا تھا ۔انھوں نے اس بچے کو اپنے دل و جان سے پالا اس کی پرورش کی ۔ان کا پالن پوشن ایک غریب جولاہے کے گھر ہوا بچّہ بہت ہی ۔خوبصورت اور موہنی صورت والا تھا ۔ لوگ انھیں خدا کا دیا ہوا تحفہ مانتے تھے ۔اور ان سے محبت کرتے تھے ۔اسی وجہ سے ان کا نام کبیر رکھا گیا ۔وہ بہت ذہین تھے ۔ گھر پر ہی ساری باتوں کو جان لیتے تھے ۔ہر مقت گہری سوچ میں محو رہتے تھے ۔ہر وقت غور و فکر میں غرق رہتے کہ انھیں کھانے پینے کا خیال تک نہیں رہتا ۔کبھی کبھی گنگا ندی کے گھاٹ پر ہی پڑے رہتے تھے ۔ایک بار گھاٹ کی سیڑھیوں پر پڑے تھے ۔ اس وقت کے جانے مانے سوامی رامانند گنگا ندی ميں نہانے جارہے تھے ۔اچانک ان کا پیر (کھڑاؤ)کبیر کے اوپر پڑ گیا ۔سوامی جی ان کا سر سہلاتے ہوۓ بول اٹھے ۔'' رام رام بولو بچّہ سب ٹھیک ہو جاۓ گا ۔اسی کو گرو منتر مان کر اسی وقت سے کبیر سوامی جی کے شاگرد بن گۓ ۔اس بات سے ہندؤں اور مسلمانوں نے مخالفت کیں ۔مگر وہ اپنی بھکتی میں مگن رہے ۔سوامی رامانند نے ان کی خوبیوں کو جان کر انھیں اپنا شاگرد مان لیا اور پھر آخری وقت میں اپنے ادھورے کاموں کو پورا کرنے کے لۓ انہیں اپنا جانشین قرار دیا ۔اور اپنی گدّی انھیں سےسونپی ۔تب سے ہی ان کے نام کے آگے ''داس ''لفظ جڑ گیا ۔اور اب وہ سنت کبیر داس کے لقب سے مشہورہو گۓ ۔ انھوں نے ہندو اور مسلمان دونوں پر طنز کیا ہے ۔ ان کی کمیوں اور خامیوں پر نظر ثانی کرتے رہے ۔اور دوہے کہتے رہے ۔پہلے کہا جاتاتھا کہ جو کاشی میں مرتا ہے وہ سیدھا جنت میں جاتا ہے ۔اور جو مگہر میں ہہۓ وہ دوزخ میں "" اس لۓ وہ خود سے جان کر مگہر آۓ اور یہیں ان کا انتقال ہو گیا ۔آپ کی موت کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں میں جھگڑا شروع ہوا ۔قرب و جوار کے مہذّب لوگوں نے آپس میں یہ فیصلہ کیا کہ کیوں نہ لاش کے کاٹ کے دو ٹکڑے کۓ جائيں اور آدھا حصّہ دفنا دیا اور آدھا جلا دیا جاۓ ۔مشورے کے بعد لوگوں نے جب چادر ہٹا کر دیکھا تو وہاں پر پھولوں کے دو جصّۓ تھے ۔ایک جصّہ کو دفنا دیا گیا اور ایک حصّہ کو جلا دیا گیا ۔آج بھی ہر برس گورنمنٹ کے توصل سے مگہر مہوتسو 12 جنوری سے 19 جنوری تک منایا جاتا ہے ۔یہ تھے سنت کبیر داس ۔۔۔۔۔
Labels:
maghar,
sant kabir das,
travel,
urdu blogging
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment