اگر کسی قوم کو مغلوب کرنا ہوتو اس کے دو طریقے ہیں۔ ایک اسے زرو زور سے مغلوب
کردیا جائے ۔ غلامی کی زنجیریں اس کے گلے میں بزور ڈال دی جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے
کہ اس کی سوچ وفکر کو تبدیل کردیجیے وہ قوم خود بہ خود مغلوب ہوکر آپ کی غلام بن
جائیگی۔پہلا طریقہ کافی مؤثر ہوتا ہے اوراس کے نتائج فوری ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ اس
کے لیے کثیر وسائل و زورِبازو کی ضرورت درکار ہوتی ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ
طریقہ صرف اس وقت تک ہی کار گر رہ سکتا ہے جب تک غلام قوم اپنی طاقت کو دوبارہ پا
نہیں لیتی اِدھر وہ منظم ہوئی کہ اُدھر ظالم کو اس کے انجام تک پہنچتے دیر نہیں
لگتی۔
دوسراطریقہ پہلے کے مقابل کافی صبر آزما اور وقت طلب ہے۔اس کے لیے موجودہ وسائل کاطریقۂاستعمال کافی اہمیت رکھتا ہے ۔ آپ کے طریقہ استعمال اور حکمت عملی ( عیاری) اس کے نتائج اور کامیابی کا تعین کرتے ہیں۔ آپ کو کسی کے مدمقابل کھڑے ہوکر زور آمائی کی بھی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ آپکا حریف دھیرے دھیرے آپکی تدبیروں سے مات کھاتاہوا آپ کا غلام بن جاتاہے ۔ آج کے دور میں خود کو ترقی یافتہ کہلانے والی اسلام دشمن اقوام اسی پر عمل کر کے آج عالم اسلام کو ہر میدان میں پست کرنا چاہتی ہے۔ اس طریقہ کا سب سے مہلک پہلو یہ ہے کہ مغلوب قوم کی عقل و خودی اس قدر بے کار ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے غالب آقاؤں کی اگلی ہوئی الٹیوں کو بلا کراہت نگلنے لگتی ہیں ۔ اس پر غالب قوم اس کے افکار کو اپنی بیڑیوں میں جکڑ لیتی ہے ۔ اُسے آزادی کے وہی معنی نظر آتے ہیں جو اس کے آقا بتلاتے ہیں۔
ہمارا معاشرہ بھی آج انہیں امراض کا شکار ہوچکاہے۔ ملت اسلامیہ ہند جس کے قدموں میں کبھی ہندوستان کا تاج ہوا کرتاتھا آج انتہائی ذلت و پسماندگی میں مبتلا ہے۔ اس کے باوجود اس امت کی اکثریت ’’ پدرم سلطان بود ‘‘ کی یادوں اور گھمنڈ سے نکل نہیں پا رہی ہے۔اس کے باوجود نقالی اس کے رگ وپے میں بسی ہوئی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جب سرسید احمد خان کو محض اس لیے طعنے سننے پڑے تھے کہ لوگوں کو ڈر تھا کہ کہیں انگریزی کے ساتھ انکے بچے یورپ کی بری تہذیب بھی نہ سیکھ لیں۔ لیکن وقت کے ساتھ تصویر بدلتی گئی ۔ آج ہم اگر اپنی قوم کا جائزہ لیں تو یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ جو جتنا مغرب زدہ اور مغرب پرست ہے عوام کی نظروں میں اتنا ہی زیادہ صاحبِ حیثیت و باعزت سمجھا جاتا ہے۔ لوگ تصور کرتے ہیں کہ وہ بھی اس کے نقش قدم پر چلیں گے تو باعزت کہلائیں گے۔ جبکہ عزت و ذلت کا دینے والا تو صرف اللہ ہے اور اللہ کے یہاں عزت و ذلت کا کیا پیمانہ ہے اس سے مسلمان قرآن و حدیث کی روشنی میں خوب واقف ہیں ۔لیکن ہم جب قرآن اور سنت نبوی ﷺ سے منھ موڑ چکے ہیں تو اس کا علاج کیا ہے۔
ہندوستان میں امت مسلمہ کی تاریخ دیکھیں یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایک دور میں اس ملک کا تاج مسلمانوں کے قدموں میں تھا۔ پھر انگریزوں کی مکاری و چالبازی نے ان سے وہ تاج چھین لیا۔ لیکن تب تک انگریز بھی جان چکے تھے کہ اس قوم کا سب سے بڑا ہتھیار اس کی حمیت اسلامی ہے۔ بس حکمت عملی بدلی اور سب سے پہلا وار اس غیور قوم کی غیرت پر کیا گیا۔ جس کی طاقت کا مقابلہ سارا ہندوستان نہیں کرپایا مٹھی بھرانگریزوں کی چال بازیاں ان کے طاقت کے محل کو چکنا چور کر گئی اول اقتدار ہاتھوں سے جا نے لگا۔ امت معاشی و اخلاقی پستیوں کا شکار ہوتی چلی گئی جو سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس کی خودی مٹتی گئی اور قومی غیرت تباہ ہوتی گئی ۔ جو کبھی اس ملک میں اقتدار پر قابض تھی 1857 .ء میں اپنی جا ن بچانے کے لیے گلی گلی چھپنے لگی۔ جس نے اس ملک پر ایک تقریباً ہزار سال حکومت کی جنگ آزادی میں بھی پیش پیش رہی آزادی کے بعد وہ قوم اس قابل بھی نہیں رہی کہ اپنی عبادت گاہوں کی بھی حفاظت کر سکے۔ 1857 .ء کی ناکامی کو ایک صدی بھی نہ گزرنے پائی کہ90 سال بعد ہی تقسم ملک اور چھوٹی مسلم ریاستوں کے الحاق نے اسے مزید پستی کی طرف جھونک دیا۔ ابھی تقسیم اور اسکے فسادات سے نکل بھی نہ پائے کہ ان کی عبادت گاہوں پر خطر ات منڈلانے لگے ۔ تقسیم کے 45 سال بعد ہی بابری مسجد سانحے نے اسے گھیر لیا۔ ابھی اس سانحے کو ایک دہائی بھی نہ گذری کہ ملک بھر میں فسادات کی ہوا عام ہوگئی جس کے نتیجے میں گجرات کے نسل کش فسادات، جعلی انکاؤنٹرس کا سلسلہ جاری ہوگیا جو ہنوز جاری ہے۔اب حال تو یہ ہے کہ امت کے مفکرین کو یہ طئے کرنابھی ایک عظیم مسئلہ لگ رہا ہے کہ کس مسئلے پر کتنی توجہ دیں۔ کشمیرمسئلہ پر توجہ دیں یا ظالم حکمرانوں کو سزا دلانے کے لیے انصاف کی مانگ کریں۔ اس قوم کو معاشی پستی سے نکالنے کے لیے حکومتی اسکیمات اور ریزویشن پر غور کریں کہ اس قوم کے مستقبل کی نسلوں کے لیے تعلیمی حصول کو ممکن بنائیں۔
لیکن ان سب سے دور امت کی اکثریت اب بھی نقالی میں اس قدر مبتلا ہے کہ اسے اپنے سامنے صرف ایک ہی جملہ نظر آرہا ہے کہ ’’ بابر بہ عیش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ ۔ اسے صرف اپنی زندگی اور اس کے لیے درکار چیزوں کا حصول ہی اس کا مقصد بنا ہوا ہے۔
ان لو گوں کے لیے نیا سال منانا ۔ خود ساختہ مہذب قوموں کی نقالی کرنا ہی ان کے لیے بے حد خوشی کی بات ہے۔ انھیں نہ اپنے مذہب کی پرواہ ہے نہ ہی اپنی قوم کی۔ ان کے لیے مذہب صرف اتنا ہے کہ مخصوص دنوں میں روزہ رکھنا۔دل میں آئے تو نماز پڑھ لینا ۔ لیکن بعض کو تو یہ بھی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔ ہا ں البتہ انھیں نئے سال کی پارٹی ، کسی شناساکے یہاں منعقد یوم پیدائش کی تقریب وغیرہ منانے میں خوشی محسوس ہوتی ۔ یہ معاشرہ کدھر جارہا ہے اسکی منزل کیا ہے؟ اسکی پہچان کیا ہے؟ ان سوالات سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں۔ نہ ہی زعماء ملت کو ہی اس کا احساس ہے۔اگر دلچسپی ہے تو اس استعاری تہذیب سے جس کا لبادہ انھوں نے اپنی خودی اور غیرت کو بیچ کر اوڑھا ہے۔کاش ہم لوگ اپنے مقام کو پہچان پاتے کاش ہمیں ہمارا معمار جہاں کا کردار یاد آجائے۔ کاش ہم اپنے مقام سے آگاہ ہوپاتے ۔ہمارا کام یہ نقالی کرنا نہیں بلکہ سارے جہاں کو اپنے نقش قدم پر چلانا ہے۔ سب کی رہنمائی کرنا ہے۔ نہ کہ کسی کی نقل کرنا۔ ہماری پہچان یہ ادھار کی تہذیب نہیں بلکہ ہماری پہچان ہمارے اسلاف کے کارنامے ہیں جو آج بھی سارے عالم کے لیے سنگ ہائے میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ساری دنیا ہمارے پیچھے آئے گی ۔ ہماری رہنمائی سیدھے اللہ کی طرف سے کی گئی ہے ۔ ساری انسانیت کے ہے رہنما ہم ہیں۔
کاش امت مسلمہ اس کے مقام کو پہچان جائے کہ اس کی نسبت کس سے
تیری نسبت براہیمی ہے معمار جہاں تو ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
عبدالمقیت عبدالقدیر شیخ ، بھوکر
Mob: 9867368440
دوسراطریقہ پہلے کے مقابل کافی صبر آزما اور وقت طلب ہے۔اس کے لیے موجودہ وسائل کاطریقۂاستعمال کافی اہمیت رکھتا ہے ۔ آپ کے طریقہ استعمال اور حکمت عملی ( عیاری) اس کے نتائج اور کامیابی کا تعین کرتے ہیں۔ آپ کو کسی کے مدمقابل کھڑے ہوکر زور آمائی کی بھی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ آپکا حریف دھیرے دھیرے آپکی تدبیروں سے مات کھاتاہوا آپ کا غلام بن جاتاہے ۔ آج کے دور میں خود کو ترقی یافتہ کہلانے والی اسلام دشمن اقوام اسی پر عمل کر کے آج عالم اسلام کو ہر میدان میں پست کرنا چاہتی ہے۔ اس طریقہ کا سب سے مہلک پہلو یہ ہے کہ مغلوب قوم کی عقل و خودی اس قدر بے کار ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے غالب آقاؤں کی اگلی ہوئی الٹیوں کو بلا کراہت نگلنے لگتی ہیں ۔ اس پر غالب قوم اس کے افکار کو اپنی بیڑیوں میں جکڑ لیتی ہے ۔ اُسے آزادی کے وہی معنی نظر آتے ہیں جو اس کے آقا بتلاتے ہیں۔
ہمارا معاشرہ بھی آج انہیں امراض کا شکار ہوچکاہے۔ ملت اسلامیہ ہند جس کے قدموں میں کبھی ہندوستان کا تاج ہوا کرتاتھا آج انتہائی ذلت و پسماندگی میں مبتلا ہے۔ اس کے باوجود اس امت کی اکثریت ’’ پدرم سلطان بود ‘‘ کی یادوں اور گھمنڈ سے نکل نہیں پا رہی ہے۔اس کے باوجود نقالی اس کے رگ وپے میں بسی ہوئی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جب سرسید احمد خان کو محض اس لیے طعنے سننے پڑے تھے کہ لوگوں کو ڈر تھا کہ کہیں انگریزی کے ساتھ انکے بچے یورپ کی بری تہذیب بھی نہ سیکھ لیں۔ لیکن وقت کے ساتھ تصویر بدلتی گئی ۔ آج ہم اگر اپنی قوم کا جائزہ لیں تو یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ جو جتنا مغرب زدہ اور مغرب پرست ہے عوام کی نظروں میں اتنا ہی زیادہ صاحبِ حیثیت و باعزت سمجھا جاتا ہے۔ لوگ تصور کرتے ہیں کہ وہ بھی اس کے نقش قدم پر چلیں گے تو باعزت کہلائیں گے۔ جبکہ عزت و ذلت کا دینے والا تو صرف اللہ ہے اور اللہ کے یہاں عزت و ذلت کا کیا پیمانہ ہے اس سے مسلمان قرآن و حدیث کی روشنی میں خوب واقف ہیں ۔لیکن ہم جب قرآن اور سنت نبوی ﷺ سے منھ موڑ چکے ہیں تو اس کا علاج کیا ہے۔
ہندوستان میں امت مسلمہ کی تاریخ دیکھیں یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایک دور میں اس ملک کا تاج مسلمانوں کے قدموں میں تھا۔ پھر انگریزوں کی مکاری و چالبازی نے ان سے وہ تاج چھین لیا۔ لیکن تب تک انگریز بھی جان چکے تھے کہ اس قوم کا سب سے بڑا ہتھیار اس کی حمیت اسلامی ہے۔ بس حکمت عملی بدلی اور سب سے پہلا وار اس غیور قوم کی غیرت پر کیا گیا۔ جس کی طاقت کا مقابلہ سارا ہندوستان نہیں کرپایا مٹھی بھرانگریزوں کی چال بازیاں ان کے طاقت کے محل کو چکنا چور کر گئی اول اقتدار ہاتھوں سے جا نے لگا۔ امت معاشی و اخلاقی پستیوں کا شکار ہوتی چلی گئی جو سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس کی خودی مٹتی گئی اور قومی غیرت تباہ ہوتی گئی ۔ جو کبھی اس ملک میں اقتدار پر قابض تھی 1857 .ء میں اپنی جا ن بچانے کے لیے گلی گلی چھپنے لگی۔ جس نے اس ملک پر ایک تقریباً ہزار سال حکومت کی جنگ آزادی میں بھی پیش پیش رہی آزادی کے بعد وہ قوم اس قابل بھی نہیں رہی کہ اپنی عبادت گاہوں کی بھی حفاظت کر سکے۔ 1857 .ء کی ناکامی کو ایک صدی بھی نہ گزرنے پائی کہ90 سال بعد ہی تقسم ملک اور چھوٹی مسلم ریاستوں کے الحاق نے اسے مزید پستی کی طرف جھونک دیا۔ ابھی تقسیم اور اسکے فسادات سے نکل بھی نہ پائے کہ ان کی عبادت گاہوں پر خطر ات منڈلانے لگے ۔ تقسیم کے 45 سال بعد ہی بابری مسجد سانحے نے اسے گھیر لیا۔ ابھی اس سانحے کو ایک دہائی بھی نہ گذری کہ ملک بھر میں فسادات کی ہوا عام ہوگئی جس کے نتیجے میں گجرات کے نسل کش فسادات، جعلی انکاؤنٹرس کا سلسلہ جاری ہوگیا جو ہنوز جاری ہے۔اب حال تو یہ ہے کہ امت کے مفکرین کو یہ طئے کرنابھی ایک عظیم مسئلہ لگ رہا ہے کہ کس مسئلے پر کتنی توجہ دیں۔ کشمیرمسئلہ پر توجہ دیں یا ظالم حکمرانوں کو سزا دلانے کے لیے انصاف کی مانگ کریں۔ اس قوم کو معاشی پستی سے نکالنے کے لیے حکومتی اسکیمات اور ریزویشن پر غور کریں کہ اس قوم کے مستقبل کی نسلوں کے لیے تعلیمی حصول کو ممکن بنائیں۔
لیکن ان سب سے دور امت کی اکثریت اب بھی نقالی میں اس قدر مبتلا ہے کہ اسے اپنے سامنے صرف ایک ہی جملہ نظر آرہا ہے کہ ’’ بابر بہ عیش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ ۔ اسے صرف اپنی زندگی اور اس کے لیے درکار چیزوں کا حصول ہی اس کا مقصد بنا ہوا ہے۔
ان لو گوں کے لیے نیا سال منانا ۔ خود ساختہ مہذب قوموں کی نقالی کرنا ہی ان کے لیے بے حد خوشی کی بات ہے۔ انھیں نہ اپنے مذہب کی پرواہ ہے نہ ہی اپنی قوم کی۔ ان کے لیے مذہب صرف اتنا ہے کہ مخصوص دنوں میں روزہ رکھنا۔دل میں آئے تو نماز پڑھ لینا ۔ لیکن بعض کو تو یہ بھی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔ ہا ں البتہ انھیں نئے سال کی پارٹی ، کسی شناساکے یہاں منعقد یوم پیدائش کی تقریب وغیرہ منانے میں خوشی محسوس ہوتی ۔ یہ معاشرہ کدھر جارہا ہے اسکی منزل کیا ہے؟ اسکی پہچان کیا ہے؟ ان سوالات سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں۔ نہ ہی زعماء ملت کو ہی اس کا احساس ہے۔اگر دلچسپی ہے تو اس استعاری تہذیب سے جس کا لبادہ انھوں نے اپنی خودی اور غیرت کو بیچ کر اوڑھا ہے۔کاش ہم لوگ اپنے مقام کو پہچان پاتے کاش ہمیں ہمارا معمار جہاں کا کردار یاد آجائے۔ کاش ہم اپنے مقام سے آگاہ ہوپاتے ۔ہمارا کام یہ نقالی کرنا نہیں بلکہ سارے جہاں کو اپنے نقش قدم پر چلانا ہے۔ سب کی رہنمائی کرنا ہے۔ نہ کہ کسی کی نقل کرنا۔ ہماری پہچان یہ ادھار کی تہذیب نہیں بلکہ ہماری پہچان ہمارے اسلاف کے کارنامے ہیں جو آج بھی سارے عالم کے لیے سنگ ہائے میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ساری دنیا ہمارے پیچھے آئے گی ۔ ہماری رہنمائی سیدھے اللہ کی طرف سے کی گئی ہے ۔ ساری انسانیت کے ہے رہنما ہم ہیں۔
کاش امت مسلمہ اس کے مقام کو پہچان جائے کہ اس کی نسبت کس سے
تیری نسبت براہیمی ہے معمار جہاں تو ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
عبدالمقیت عبدالقدیر شیخ ، بھوکر
Mob: 9867368440