Tuesday, June 19, 2012
تعلیم ہی قوم کی ترقی کا واحد راستہ ہی
Friday, June 08, 2012
’’حرام‘‘
اسلام کے ضابطہ و اصول اپنی جگہ ایک شان رکھتا ہی۔ اسلام نے شراب ، جوا، سود ، زنا، فحاشی، نس بندی وغیرہ کو حرام قرار دیا ہی۔ باری تعالیٰ اپنے بندوں پر بے حد مہربان و شفیق ہی۔ اپنے بندوں سے ستر مائوں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہی۔ پیدا کرکے یونہی نہیں چھوڑ دیا بندوں کی ہدایات کا بھی پورا انتظام کررکھا ہی۔
حضور پاکؐ کی حیات مبارکہ کے واقعات جس کسی نے پڑھیں وہ جانتا ہے کہ آپؐ دنیا میں تشریف لائے اس سے پہلے ہی والد کی وفات ہوگئی۔ دادا نے دیکھ بھال کی ابھی عمر شریف چھ سال کہ والدہ کا سایہ سرسے اُٹھ گیا اور اسی کے کچھ دنوں بعد دادا چل بسے پھر یہ ذمہ داری چچا ابوطالب پر بظاہر یہ حالات ایسے ہیں کہ کسی بچہ کو اچھی تربیت کا ملنا بہت دشوار ہوتا ہے لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ ان حالات کے باوجود آپؐ کی تربیت اسی طریقہ پر ہوئی کہ کسی موقع پر بھی یہ احساس ہی نہ ہوپایا کہ آپ یتیم تھی۔ ایک مشاہدہ یہ بھی دوران تولد کسی بھی زچہ ہ بچہ کی قدرتی انتظامات و ان لاتعداد یتیم بچوں کی پرورش اور بے شمار یتیم خانوں و دارالعلوموں میں تعلیمات سے آراستہ و پیراستہ اسلام کے سپاہی آخر کون پال رہا ہی؟ خدا کی ذات ہے وہ بڑا مسہب الاسباب ہی۔ حضور پاکؐ کے توسط سے جو تعلیمات امت کو بخشی اسی کا یہ نتیجہ ہی۔
اسلام نے جوا ، شراب ، زنا، سود ، نس بندی وغیرہ کو حرام قرار دیا۔ یہ تمام برائیاں آپس میں جڑیں ہوئی ہیں۔ برے فعل کا شکار خودبخود دوسری برائیوں کا شکار ہوتا رہتا ہی۔ جوئے کی ہار کا شکار شراب پینے ، زنا کرنے پر، سود کا بقایا ادا نہ کرنے پر ٹینشن جسے دور کرنے کے لیے شراب اسی طرح برائیوں میں پھنستاہی چلا جاتا اس شوق کو پورا کرنے کے لیے وہ پھر کچھ بھی کرسکتا ہے ٹوپی پہنانا، چونا لگانا جیسے فن میں ماہر کسی سے قرض لینا مشکل کام نہیں اس کیلئی۔ ویسے بھی آج کے ترقی یافتہ دور میں ہر چیز آسانی سے دستیاب ہی۔ جیسے قرض چاہےی؟ آسان شرائط پر ، بے شمار منی لینڈ، سرمایہ کاری کرنے والے مل جائیں گی۔ مکان ، دکان ، زمین ، فلیٹ آسان قسطوں میں ادائیگی۔ بے شمار ہول سیل کی دکانیں و مال، سٹی سینٹر ، بگ بازار جہاں زندگی کی تمام ضروریات کے سامان، ایسے ہی بے شمار فحاشی کے اڈے ، بیئر بار ، جوا خانی، شراب خانے جس کے متعلق یہی کہا جاسکتا ہے ’’بابوجی تم کیا کیا خریدو گی‘‘ ایسے ہی بے شمار چھوٹی و بڑی و پتلی و موٹی انسانی ہڈیاں قبروں پر ، قبروں کے آس پاس میت کے شامل حضرات کی توجہ اور موضوع گفتگو کا سبب بنتی ہی۔ یہ کس کی ہڈی ہی؟ عورت یا مرت یا کہ کسی بچہ کی؟ انسان جب مر جاتا ہے ، لوگ اسے قبر میں دفن کردیتے ہیں آخر وہ کہاں چلاگیا؟ کوئی کہتا قبر میں کوئی کہتا ہے خدا کہ ہاں۔ مرزا غالب اُردو کے شاعر تھے انہوںنے اپنے شعری ادب سے کہا ’’سب کہاں! کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں۔‘‘ یہ چھبیلی و موگراو نسرین و یاسمین وغیرہ یک شکل میں پھول بن کر نکلی۔ بہرحال اظہار عقیدت و اظہار تصریت کے مختلف انداز میں کسی شاعر نے کہا کہ ’’ہے بڑھ کے فرشوں تیری شان اے انسان خود کو ذراع پہچان۔ باری تعالیٰ نے اپنے بندوں کو پیدا کرکے یوں ہی چھوڑ نہیں دیا۔ اپنی قدرت سے وہ تمام ضروریات زندگی عطا فرمائی تھی جسے انسانوں کی ضرورت تھی۔ تسکین اور اولاد جیسی نعمت سے نوازا۔ ہدایت کے لیے انبیاء کرام آئے احکام شریعت ایک ایک بات کھول کھول بتائیں گئیں۔ اگر ایک نبی مشرق میں آیا دوسرا مغرب میں جن کی تعداد بتائی جاتی ہے کہ وہ ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی۔ جو دنیا کے مختلف علاقوں میں بھیجے گئی۔ بہت سی قوموں نے شرکشی کی عذاب کی لپیٹ میں آگئے جیسے قوم نوح ، قوم لوط وغیرہ۔
آنحضرتؐ کی بعث سے ایک صدی پہلے ساری دنیا کی تمام قوموں میں زبردست اخلاقی گرائوٹ آچکی تھیں۔ ایران میں زرتشت نے ہادی برحق کہا ان کے بعد وہ مذہب زرشتی بن گیا عوام گمراہی میں ڈوب گئی۔ ستارہ پرستی، آتش پرستی، بت پرستی، نوبت یہ کہ بادشاہ ، وزراء و امراء خود کو سجدہ کروانے لگی۔ دوم یونان جہاں حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات بے اثر ہونے لگی راہبوں کی کثرت پھر آہستہ آہستہ عورتیں بھی راہبہ بننے لگیں۔ خانقاہوں میں بدکاری ہونے لگی۔ ساری دنیا میں توحید کا نام و نشان نہیں ۔ ہر ملک اپنے اپنے مذہبی تعلیمات سے دور ہوتے چلے گئیں۔ کہیں بت پرستی ، ستارے اور سیاروں کی پوجا عام طور سے شراب اور زبان کہیں پہاڑوں ، پتھروں ، درختوں اور جانوروں کی پوجا تو کہیں انسانی زندگیوں نے کھلواڑ ان پر ظلم و ستم ڈھائے جارہے تھی۔ کمزور انسانوں کو جانوروں سے زیادہ ذلیل کیا جارہا تھا۔ آپس کی نااتفاقی و درندگی ، بغض و حسد دھوکہ بازی عروج پر تھیں۔ قتل انسانی تفریح گاہوں کے لیے سامان تفریح
مکہ چاروں طرف ریگستانی علاقہ ریت ہی ریت کوئی کشش نہیں اسی لیے کوئی حکمراں یہاں آتا نہیں نہ ہی عرب باشندے کسی دوسرے علاقہ میں جانا پسند کرتے دور دور پانی نہیں۔ اسی لیے یہاں کا باشندہ آزاد خودمختار مختلف قبیلے جس میں ایک قبیلہ اشراف کا ، عورت کی قدرو قیمت ان میں عورتوں کی بات مانی جاتی اس کے فیصلے کو اہمیت تھی۔ ایسے ہی ایک قبیلہ جن کی تعداد بہت زیادہ اپنے جانوروں کی خوراک کے لیے خانہ بدوشی کی زندگی سارے عرب میں گھوما کرتے چارہ پانی کے لیے نہ کوئی کام نہ دھندہ اس لیے انہیں فرصت ہی فرصت۔ بعض قبائل خداو سزا و جزا کے قائل نہیں تھے بت پرستی، ستارہ پرستی و آتش پرستی ، زنا و شراب ہر جنگ علانیہ ، خانہ کعبہ ہر قبیلے کا ایک بت۔ ان بتوں کے لیے جانوروں کے ساتھ ساتھ انسانوں کی بھی قربانی کرتے تھی۔ لڑائی کے موقع پر دشمن پر قابو پاجانے پر اس کے تمام اہل و عیال کو قتل کرڈالتے تھی۔ اپنی لڑکیوں کو دفن کرنا، ان کے لیے فخر کی بات تھی۔ لڑکی جب 6سال کی ہوجائے اسے اچھے اچھے کپڑے پہنا کر گھومنے پھرنے کے بہانے سنگ دل باپ بستی کے باہر لے جاکر جہاں پہلے سے ایک گہرا گڑھا کھودکر آتا اس گڑھے کے کنارے اس لڑکی کو کھڑا کرکے پیچھے سے دھکہ مارکر گرا دیتا لڑکی چیختی چلاتی باپ سے مدد مانگتی مگر وہ ظالم اوپر سے ڈھیلے مار کر اور مٹی ڈال کر اسے دبا دیتا اور زمین برابر کرکے بڑے فخر سے اپنے لخت جگر کی موت پر خوش ہوتا۔ یہ خوفناک تصویر اس دور کی ہے جب کہ ساری دنیا گمراہی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ خدا کا نام لیوا کوئی نہیںتھا، انسانیت سسک رہی تھی لوگ ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے تھی۔ بے زار ہوچکے تھی۔ فریادیں کررہے تھی۔ کوئی آئے کوئی آئے یہ بات آسانی سے ذہن نشین ہوجاتی ہے کہ آنحضرت کی، مبعوث سے پہلی، ساری کی ساری دنیا تاریک ہوچکی تھی۔ کوئی امید کی کرن دکھائی نہ دے رہی تھی۔ دنیا پر اس سے پہلے ایسا وقت نہیں آیا تھا کہ ایک ہی وقت میں ہر جگہ تہذیب تمدن و اخلاق و علم و معرفت الٰہی سب کے سب برباد ہوئے ہوں اور چاروں طرف تاریکی چھا گئی ہو۔ ہر ملک کے رہبروں کی لائی ہوئی تعلیمات کے زمانے ایک ہی مقررہ وقت میں ختم کرکے دنیا کے ہر حصے میں نئے ہادی اور نئے ہدایت نامے کو ظاہر کرنا چنانچہ خدا نے اس آخری نبی پیدائش کے لیے ملک عرب کو چنا اور اسی تاریکی کو ختم کرنے کے لیے مکہ معظمہ سے آفتاب رسالت طلوع ہوا جس نے ساری دنیا کو اپنی نوانی روشنی سے منور کیا اور آنحضرتؐ کی روحانیت ایسی زبردست ہے کہ دنیا کی ہر قوم اور ہر ملک اور ہر زمانہ میں اس سے فیض یاب ہوسکتا ہی۔ اسلام ایک ایسا پیڑ ہے جس کے سائے میں ہی امن و امان ہی۔ اسلامی ہدایات زندگی کی سچی اور حقیقی ترجمانی کا نام ہی۔ اسلامی ہدایات نے ہی عرب کے وحشی و جاہل قوم کو ساری دنیا میں بااخلاق بنادیا۔ اسلامی ہدایات کسی قوم کو زندہ کرنے اور زندہ رکھنے کا نام ہی۔ آج اکیسویں صدی میں اس چودہ سو سال پہلے کی اسلامی تعلیمات پر غور و خوص اس لیے نہیں کیا جاتا کہ یہ فرسودہ ہی۔ برسوں پہلے کا ہے ویران ہی۔ یاد رکھےی’’اولڈ اِز گولڈ‘‘ یعنی کہ پتھر کی لکیر اس لکیر کا ایک سرا سماج اور انسانیت سے جڑا ہوا ہے اور اسلام انسانیت کی معراج ہی۔ اسلام نے چودہ سو سال پہلے ہی انسانوں ک آگاہ کردیا اور لکھ دیا شراب ، زنا ، سود، نس بندی، اسقاط حمل وغیرہ حرام ہی’’اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو نہ مار دڈالوان کو اور تم کو ہم ہی روزی دیتے ہیں۔یقینا ان کا قتل کرنا کبیرہ گناہ ہی‘‘بنی اسرائیل آیت ۱۳۔اسی طرح جوئے اور پانسے کے بارے میں بھی اللہ کا ارشاد ہے اس میں بہت ہی معمولی فائدہ تو ہے لیکن بے شمار نقصانات ہیں۔
آج سماج میں ’’اسقاط حمل‘‘ پر جو بے چینی پھیلی ہوئی ہی۔ پورے ملک کی توجہ اس جانب ہوگئی ہر طرف عامر خان کا چرچہ آخر کیا بات ایسی جو یہ چرچہ معلوم یہ ہوا کہ ’’ستیہ میوجیتی‘‘ جیسا ریالٹی TVشو جس میں ’’مادر رحم‘‘ میں بچیوں کے قتل کا حسّاس موضوع جس کی تفصیلات نے ہر انسان کے حسّاس ذہنوں کو جھنجھوڑا۔ بار بار نام پڑھا، عامر خان لفظ عامر یعنی (آباد کرنے والا) خدا جس سے جب جہاں جو کام لینا چاہتا ہے لے لیتا ہی۔ آپ کا خیرمقدم کرتے ہوئے آپ کے جذبہ کی قدر کرتے ہیں کہ آپ نے ان معصوم بچیوں کا مادر رحم میں قتل ایک گناہ ہی۔ سماج میں بیداری لانے کی کوشش کی آپ کے ہمت کی داد دیتے ہیں اور ان تنظیموں کے ذمہ داروں سے جو اس لعنت کو ختم کرنے کے لیے کمربستہ ہیں پر خلوص درخواست کرتے ہیں دل برداشتہ نہ ہوں یہ نہ دیکھیں کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھیں کہ کیا کہہ رہا ہی۔ عامر خان نے ایپی سوڈ کرکے تنظیموں کے کاز کو برقرار رکھا بلکہ تنظیم کے ساتھ ہوگئی۔ بہرحال آپ سب کو نیک خواہشات آپ لوگوں سے ہم عوام کی امیدیں ہیں کہ سماجی بیداری لانے کی کوشش کرتے رہیں گی۔
عبدالرشید مومن
1/55، بی آئی ٹی چال، آگری پاڑہ،مورلینڈ روڈ، ممبئی۔1
موبائل: 9004486659
Tuesday, June 05, 2012
بیتے ہو ۓ لمحوں کی کسک ساتھ تو ہوگی
ممبئی میں امام خمینی کی 23ویں برسی
Saturday, June 02, 2012
داستان ، افسانہ ، کہانی رنگ اشعار
کہانی میری روداد جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اسی کی داستان معلوم ہوتی ہے
کہانی ہے تو بس اتنی ،فریب خواب ہستی کی
کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہو جاۓ
خود قصّہ غم اپنا کوتاہ کیا میں نے
دنیا نے بہت چاہا افسانہ بنا دینا
دنیا سے اک افسانہ کہنے کو تھے ،پھر سوچا
دنیا ہے خود افسانہ ، افسانے سے کیا کہیے
بھرے گی ان کو میرے بعد لاکھوں رنگ سے دنیا
خلائيں چھوڑ دی ہیں میں نے کچھ اپنے فسانے میں
مجھے افسوس ہے دنیا کی اس افسانہ سازی پر
کہ اپنی بھی کہانی چھیڑ دی میرے فسانے میں
میں ہوں اک مستقل عنوان ہستی کے فسانے میں
مجھے تاریخ دہراتی رہے گی ہر زمانے میں
( سیماب اکبر آبادی )