اور یہ کسک ہمیشہ ہمارے دلوں میں
ناسور کی طرح رہے گی ۔ قدرت کے نوازے ہو ے تحفے کو ہم سنبھال نہ سکے اس کی
حفاظت نہ کرسکے اور اسے ہمیشہ کے لیۓ کھو
دیا ۔ جی ہاں ڈاکٹر روپیش سری واستو نے جو اردو کے فروغ کے لیے خدمات دی ہیں ۔اس
سے ہر کوئی واقف ہیں ۔وہ ایک خاموش سپاہی طرح دن رات جنونی کی طرح کام کرتے تھے
۔اردو اور ہندی کو نئی تیکنالوجی سے جوڑنا ۔اردو کے ہر چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے
بڑے پروگرام میں شرکت کرنا اپنا فرض اولین
سمجھتے۔چہرے پر مسکراہٹ لیے ہر کسی سے پر تپاک انداز سے ملتے جیسے ان کا کوئی خون
کا رشتہ ہو ۔بہت کم مدت میں انھوں نے بہت سےکام کر دیۓ ۔اس کی مّثال اردو اسکول کا
قیام ہے۔شاید انھیں اس بات کا علم تھا کہ وقت کم ہے اور کام بہت سارے انجام دینا
ہے۔ اس لیۓ ہر کام میں جلد بازی کرتے تھے۔ ۔لنترانی کی ٹیم اس بات کو مان ہی نہیں
سکتی کہ لنترانی کے روح رواں اور بانی اب ہمارے درمیان نہیں رہے بلکہ ورچوول
ہوگےء۔وہ اکثر کہتے یہ دنیا ایک کمپیوٹر
ہے ۔اس کا ماؤس ایشور کے ہاتھ میں ہے ۔اور ہم سب چھوٹی بڑی فائلیں ہیں۔اوپر والا
اس فائل پر جاکر پہلے سلیکٹ کرتا ہے پھر اس کو ڈیلیٹ کر دیتا ہے۔اس کی مرضی ۔ایسی
کئی یونیورس اس نے بنا کر رکھی ہیں۔وہ رچیئتا ہے کچھ بھی کر سکتا ہے مگر ہمارا دل
کہتا ہے کہ وہ خلا ءمیں رہ کربھی ہماری
مدد کریں گۓ ۔ کہا جاتا ہے کہ شہید ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔اللہ ان کے اہل عیال کو
صبرجمیل عطا فرماۓ ۔اور ان کی روح کو شانتی دیے ۔
Tuesday, June 05, 2012
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment