کہانی میری روداد جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اسی کی داستان معلوم ہوتی ہے
کہانی ہے تو بس اتنی ،فریب خواب ہستی کی
کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہو جاۓ
خود قصّہ غم اپنا کوتاہ کیا میں نے
دنیا نے بہت چاہا افسانہ بنا دینا
دنیا سے اک افسانہ کہنے کو تھے ،پھر سوچا
دنیا ہے خود افسانہ ، افسانے سے کیا کہیے
بھرے گی ان کو میرے بعد لاکھوں رنگ سے دنیا
خلائيں چھوڑ دی ہیں میں نے کچھ اپنے فسانے میں
مجھے افسوس ہے دنیا کی اس افسانہ سازی پر
کہ اپنی بھی کہانی چھیڑ دی میرے فسانے میں
میں ہوں اک مستقل عنوان ہستی کے فسانے میں
مجھے تاریخ دہراتی رہے گی ہر زمانے میں
( سیماب اکبر آبادی )
No comments:
Post a Comment