شولا پور پولس ہیڈ کوارٹرس مسجد میںنماز کی ممانعت
کانگریس اور راشٹر وادی کانگریس کامکروہ چہرہ بے نقاب۔ شمشیر خان پٹھان
انگریزوں کے دور حکومت میں مسلمانوں کو نماز کی ادائیگی کے لئے
تقریبا تمام پولس ہیڈ کوارٹر س میں مسجد یں بنائی گئی تھیں تاکہ پولس محکمہ میں ملازمت
کرنے والے واطراف کے مسلمان ان مسجدوں میں نماز ادا کرسکیں یہاں تک کہ ناسک کے پولس
ٹریننگ کالج میں بھی مسجد ہے جہاں پولس افسران کی ٹریننگ لینے والے افسران اور اطراف
کے مسلمان نماز ادا کرتے ہیں اور آج تک ان تمام پولس ہیڈ کوارٹرس میں سبھی مسلمان نماز
ادا کررہے ہیں اور یہ سلسلہ سو سال سے بھی زائد عرصے سے جاری ہے ۔
پولس ہیڈ کوارٹرس کی مسجدوں
کی بات تو در گزر آج تک کسی اور مسجد میں بھی، کبھی کوئی دہشت گردی کا واقعہ نہیں ہوا
ہے اور نہ ہی کسی مسجد کااستعمال دہشت گردی
یا غیر قانونی کام کے لئے کیا گیا ہے بلکہ تمام مساجد سے قومی یکجہتی، ملک کی سلامتی
اور حفاظت کی دعائیں ہوتی رہتی ہیں مگر ایک متعصب پولس کمیشنر ہمت راؤ دیش بھرتارے
نے سیکوریٹی اور حفاظت کا بہانہ بناکر پولس ہیڈ کوارٹرس کے باہر سے مسجد میں آنے والے
نمازیوں کاداخلہ ہی بند کردیا۔
جس پر شولا پور ہی نہیںپورے مہاراشٹر کے مسلمانوں اور غیر مسلم
بھائیوں نے شدید اعتراض کیا تھا حتی کہ ایک غیر مسلم شری نرسمہا اڈم نے کمشنر کے فیصلے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے گرفتاری
دی۔عوامی وکاس پارٹی کے صدر شمشیرخان پٹھان نے اس پورے معاملے پرسخت احتجاج کرتے ہوئے
بتایا کہ شولا پور کے مسلمانوں نے اپنے حق کی آواز بلند کرنے کے لئے حسب معمول وفد
کی شکل میں اپنے میمورنڈم حکومت کو دئی، اُس وقت اسمبلی کا اجلاس جاری تھا۔ شمشیر خان
پٹھان نے مزید کہا کہ وزیر داخلہ آر آر پاٹل نے کہا تھا کہ وہ اسمبلی اجلاس کے بعد
خود شولا پور جائیں گے اور حالات کا معائنہ کرکے دوبارہ نماز پڑھنے کی اجازت دیں گے
مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور پریشان حال حق وانصاف کے طلب گار شولاپور کے مسلمان انصاف کی راہ تکتے رہے لیکن
۰۳ جولائی کو انکی
آخری امید پر پانی پھر گیا جب مرکزی وزیر داخلہ
سشیل کمار شندے نے ملاقات کے لئے گئے مسلم وفد کو صاف لفظو ں میں یہ کہہ دیا کہ وہ
شولا پور ہیڈ کوارٹر س مسجد کا معاملہ بھول جائیں اور ’’بھیک ‘‘
جمع کرکے دوسری مسجد تعمیر کرنے کی صلاح دی اور انھوں نے آگے یہ بھی کہا کہ مہاراشٹر کے وزیر
داخلہ آر آر پاٹل مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دینے کے خلاف ہیں۔
عوامی وکاس پارٹی کے کوکن یونٹ کے صدر ارشاد خطیب نے سوال کیا کہ
بیشتر سرکاری دفتروںکے احاطوں میں بڑے بڑے مندر بنائے گئے ہیں جہاں پوجا کی جاتی ہے
اس پرآج تک مسلمانوں نے اعتراض نہیں کیا تو
پھر مسلمانوں کے تعلق سے اس حکومت کا رویہ متعصبانہ کیوں رہتا ہے ؟ ۔
عوامی وکاس پارٹی کے نائب صدر لیاقت علی خان نے ریاستی و مرکزی
وزیر داخلہ کے دوہرے رویّے کی سخت مذمت کرتے ہوئے مسلم ووٹوں سے چناؤ جیتنے والے تمام
مسلم ممبران اسمبلی سے فوراً استعفیٰ کے مطالبہ کیا اور کہا کہ یہ وقت تمام مسلم سیاسی
لیڈران کے پارٹی سطح سے اوپر اٹھ کر اتحاد کا
ہے ۔
عوامی وکاس پارٹی کے جنرل سیکریٹری سلیم الوارے نے کہا کہ کانگریس
اور راشٹر وادی کانگریس کے اس غیر ذمہ دارانہ اور مسلم مخالفانہ رویے کا مسلمانوں کو
آئندہ پارلیمانی و اسمبلی انتخابات میں ووٹوں کے ذریعے جواب دینا چاہئے کیونکہ مہاراشٹر
کی کانگریس این سی پی حکومت پچھلے چار سال سے ہر معاملے میں مسلمانوں کو گمراہ کر مسلسل
بیوقوف بنارہی ہے ،یہ کیسے ممکن ہے کہ مرکزی وزیر داخلہ یہ کہے کہ ریاستی وزیر داخلہ
آر آر پاٹل ان کی بات نہیں مانتی؟۔در اصل اس پورے ایپی سوڈ میں کانگریس اور نماراشٹروادی کانگریس کا مکروہ چہر ہ بے نقاب ہوگیا ہے