You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Wednesday, July 31, 2013

چہرہ بے نقاب

شولا پور پولس ہیڈ کوارٹرس مسجد میںنماز کی ممانعت
                  کانگریس اور راشٹر وادی کانگریس کامکروہ چہرہ بے نقاب۔   شمشیر خان پٹھان
 
        انگریزوں کے دور حکومت میں مسلمانوں کو نماز کی ادائیگی کے لئے تقریبا تمام پولس ہیڈ کوارٹر س میں مسجد یں بنائی گئی تھیں تاکہ پولس محکمہ میں ملازمت کرنے والے واطراف کے مسلمان ان مسجدوں میں نماز ادا کرسکیں یہاں تک کہ ناسک کے پولس ٹریننگ کالج میں بھی مسجد ہے جہاں پولس افسران کی ٹریننگ لینے والے افسران اور اطراف کے مسلمان نماز ادا کرتے ہیں اور آج تک ان تمام پولس ہیڈ کوارٹرس میں سبھی مسلمان نماز ادا کررہے ہیں اور یہ سلسلہ سو سال سے بھی زائد عرصے سے جاری ہے ۔
          پولس ہیڈ کوارٹرس کی مسجدوں کی بات تو در گزر آج تک کسی اور مسجد میں بھی، کبھی کوئی دہشت گردی کا واقعہ نہیں ہوا ہے اور نہ ہی کسی مسجد کااستعمال  دہشت گردی یا غیر قانونی کام کے لئے کیا گیا ہے بلکہ تمام مساجد سے قومی یکجہتی، ملک کی سلامتی اور حفاظت کی دعائیں ہوتی رہتی ہیں مگر ایک متعصب پولس کمیشنر ہمت راؤ دیش بھرتارے نے سیکوریٹی اور حفاظت کا بہانہ بناکر پولس ہیڈ کوارٹرس کے باہر سے مسجد میں آنے والے نمازیوں کاداخلہ ہی بند کردیا۔         
        جس پر شولا پور ہی نہیںپورے مہاراشٹر کے مسلمانوں اور غیر مسلم بھائیوں نے شدید اعتراض کیا تھا حتی کہ ایک غیر مسلم شری نرسمہا اڈم نے  کمشنر کے فیصلے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے گرفتاری دی۔عوامی وکاس پارٹی کے صدر شمشیرخان پٹھان نے اس پورے معاملے پرسخت احتجاج کرتے ہوئے بتایا کہ شولا پور کے مسلمانوں نے اپنے حق کی آواز بلند کرنے کے لئے حسب معمول وفد کی شکل میں اپنے میمورنڈم حکومت کو دئی، اُس وقت اسمبلی کا اجلاس جاری تھا۔ شمشیر خان پٹھان نے مزید کہا کہ وزیر داخلہ آر آر پاٹل نے کہا تھا کہ وہ اسمبلی اجلاس کے بعد خود شولا پور جائیں گے اور حالات کا معائنہ کرکے دوبارہ نماز پڑھنے کی اجازت دیں گے مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور پریشان حال حق وانصاف کے طلب گار  شولاپور کے مسلمان انصاف کی راہ تکتے رہے لیکن
۰۳ جولائی کو انکی آخری امید پر پانی پھر گیا  جب مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے ملاقات کے لئے گئے مسلم وفد کو صاف لفظو ں میں یہ کہہ دیا کہ وہ شولا پور ہیڈ کوارٹر س مسجد کا معاملہ بھول جائیں اور  ’’بھیک ‘‘  جمع کرکے دوسری مسجد تعمیر کرنے کی صلاح دی  اور انھوں نے آگے یہ بھی کہا کہ مہاراشٹر کے وزیر داخلہ آر آر پاٹل مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دینے کے خلاف ہیں۔
        عوامی وکاس پارٹی کے کوکن یونٹ کے صدر ارشاد خطیب نے سوال کیا کہ بیشتر سرکاری دفتروںکے احاطوں میں بڑے بڑے مندر بنائے گئے ہیں جہاں پوجا کی جاتی ہے اس پرآج تک مسلمانوں نے اعتراض نہیں کیا  تو پھر مسلمانوں کے تعلق سے اس حکومت کا رویہ متعصبانہ کیوں رہتا ہے  ؟ ۔
        عوامی وکاس پارٹی کے نائب صدر لیاقت علی خان نے ریاستی و مرکزی وزیر داخلہ کے دوہرے رویّے کی سخت مذمت کرتے ہوئے مسلم ووٹوں سے چناؤ جیتنے والے تمام مسلم ممبران اسمبلی سے فوراً استعفیٰ کے مطالبہ کیا اور کہا کہ یہ وقت تمام مسلم سیاسی لیڈران کے پارٹی سطح سے اوپر اٹھ کر اتحاد کا  ہے ۔
        عوامی وکاس پارٹی کے جنرل سیکریٹری سلیم الوارے نے کہا کہ کانگریس اور راشٹر وادی کانگریس کے اس غیر ذمہ دارانہ اور مسلم مخالفانہ رویے کا مسلمانوں کو آئندہ پارلیمانی و اسمبلی انتخابات میں ووٹوں کے ذریعے جواب دینا چاہئے کیونکہ مہاراشٹر کی کانگریس این سی پی حکومت پچھلے چار سال سے ہر معاملے میں مسلمانوں کو گمراہ کر مسلسل بیوقوف بنارہی ہے ،یہ کیسے ممکن ہے کہ مرکزی وزیر داخلہ یہ کہے کہ ریاستی وزیر داخلہ آر آر پاٹل ان کی بات نہیں مانتی؟۔در اصل اس پورے ایپی سوڈ میں کانگریس اور نماراشٹروادی کانگریس کا مکروہ چہر ہ بے نقاب ہوگیا ہے              

Sunday, July 28, 2013

معصوم کی عید




۲واں روزہ تھا جیسے جیسے سورج غروب ہورہا تھا لوگوں کا اشتیاق بڑھ رہا تھا ک۹ آج ہی چاند رات ہی۔ مغرب کی اذان ہوئی لوگ افطاری میں مشغول ہوگئی۔ فرض نماز سے فارغ ہوکر ابھی سنت و نفل میں مشغول تھے کہ بچوں کا شور بلند ہوا۔ چاند نظر آگیا، کل عید ہوگی۔ ہر کسی کے چہرے خوشی سے دمکنے لگی۔ فجر کی اذان ہونے لگی سفیان ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ آنکھیں ملتے ہوئے اس نے اپنی امی کو دیکھا جو مصلّے پر بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھیں۔ معصوم سفیان نے اپنی امی سے کہا آج عید ہے نا، مجھے نہلادو اور نئے کپڑے پہنا دو۔ سفیان کی امی نے الماری کھولی اور کرتا سلوار نکال کر دیا۔ سفیان کہنے لگا یہ تو پرانے ہیں مجھے نئے کپڑے چاہےی۔ ضد کرنے لگا۔ ماں نے سفیان کو گلے سے لگایا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی یا اللہ!  یہ کیسا امتحان لے رہا ہی۔ سفیان! کیسے سمجھائوں کہ اس کے ابّو کو اس دنیا سے گئے آٹھ مہینے گزر گئے عید کا کپڑا تو دور کی بات ہے رمضان کا مہینہ جیسے تیسے گزرا ہی۔ وہ ہاتھ اُٹھائے پھر دعا مانگنے میں مصروف ہوگئی۔ آنسو تھے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھی۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ سفیان کی ماں نے آنسو پونچھتے ہوئے دعا ختم کی اور دروازہ کھولا۔ سامنے جمن چاچا کی بیوی تھیں۔ کیابات ہے چاچی؟ سفیان کی امّی بولیں آیئے اندر آیئی۔ چاچی نے اندر آتے ہوئے کہا ’’معاف کرنا بہن میں بچے کے لیے کپڑے لائی ہوں۔‘‘ پرسوں تمہارے چاچا اپنے بچوں کے ساتھ سفیان کے لیے بھی کپڑے لائے تھی۔ کام کی الجھن میں اوّل نہ  آسکی۔ ہمارے بچے نئے کپڑے پہنیں اور تمہارا بچہ عید کے دن بھی جونا پرانا کپڑا پہنے یہ کیسی عید؟
          ہم نے  اپنا فرض پورا کیا کوئی احسان کی بات نہی۔ چاچی کپڑے اور سامان وغیرہ سفیان کو دے کر رخصت ہوگئی۔ سفیان کی امی پھر سجدے میں گرگئیں۔ اے میرے پروردگار تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے تو نے ایک غریب بیوہ کی سن لی تو بڑا رحیم و کریم ہی۔ کچھ ہی دیر کے بعد دستک پھر ہوئی۔ دروازہ کھولا تو ایک حضرت نے روپے کی تھیلی تھما کر چل دےی۔ سفیان کی امی کی آنکھوں میں آنسو آگئی۔
          اکثر ایسا ہوتا ہیکہ ہم نادار افراد کی مدد رمضان المبارک کے آخری عشرے میں کرتے ہیں۔ جب کہ وہ تقریباً بیس سے پچیس روزے نہایت ہی تنگ دستی میں گزار دیتے ہیں۔ انہیں فکر رہتی ہے کہ ان کے اہل خانہ کے عید الفطر کے نئے کپڑے اور دیگر اشیاء آئی یا نہیں!  ان کے چھوٹے بچے دوسروں کا سن کر بار بار عید کے کپڑی، جوتوں وغیرہ کا تقاضہ کرتے رہتے ہیں۔ اس وقت ان کے دلوں پر کیا گزرتی ہوگی اسے الفاظ میں یہاں نہیں بیان کیا جاسکتا۔ صاحب حیثیت اور خوشحال گھرانوں سے نہایت ہی عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ اپنے عطیات جلد سے جلد مفلس و نادار گھرانوں تک پہنچا دیں تاکہ وہ گھرانے بھی سحری و افطار خوب سیر ہوکریں اور ہماری طرح وہ بھی رمضان اور عید کی خوشیوں میں شامل ہوں،کیوں کہ نبی ؐ نے فرمایا مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ۔

جما عت اسلامی کا رمضان کٹجما عت اسلامی کا رمضان کٹ


ممبئی سے شائع ہونے والے سبھی اردو روزناموں کے 7 جولائی کی اشاعت میں جماعت اسلامی ہند ممبئی میٹرو کی جانب سے صفحہ اول پر ایک اعلان شائع ہوا ہے جس کے تحت جماعت اسلامی مستحقین تک ایک ہزار روپئے کا رمضان کٹ پہنچائے گی ۔جس سے کہ غریب خاندان سکون سے سحری و افطاری کرسکتا ہے ۔اس کٹ میں تیل ،گھی ،شکر ،چاول ،کھجور اور دیگر ضروریات کی چیزیں ہون گی ۔واقعی یہ کام نہایت ہی دردمندی اور فکرمندی سے ہونے ہونے جارہا ہے ۔اس لئے صاحب ثروت لوگوں سے پر خلوص گذارش ہے کہ وہ اس کار خیر میں ایک ہی کیا تین تین ،یا چار چار ،یا پانچ پانچ خاندانوں کی کفالت کریں ۔وضح رہے کہ یہ کام رمضان کے پیش نظر ہو رہا ہے اور ماہ رمضان میں ہر عمل کا اجر و ثواب سات سو گنا اور اس سے زیادہ بھی ہوتا ہے ۔اس تعلقات سے جناب فیروز پٹیل سے 9820703020 پر رابطہ قائم کریں یا جماعت اسلامی ہند کے اپنے علاقائی دفتر سے رجوع ہوں۔
ہاشم احمد چوگلی
نور ایڈور ٹائزر
مومن پورا۔مولانا آزاد روڈ
ممبئی ۔00011
موبائل۔22142352

Thursday, July 25, 2013



۲۲جولائی ۳۱۰۲
شعبۂ اردوجامعہ ملیہ اسلامیہ کے ٹیگورریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن اسکیم کے تحت پہلی کتاب ’’ٹیگورشناسی‘‘ شائع ہوکرمنظرعام پرآگئی ہی۔اس کے مصنف اردوکے ممتازنقاداوردانشور شمیم طارق ہیں۔یہ کتاب مکتبہ جامعہ لمیٹیڈنئی دہلی سے شائع ہوئی ہی۔ایک سوستّر صفحات پرمشتمل اس کتاب میں شمیم طارق نے پندرہ ابواب کے تحت ٹیگورکواردوداں حلقے میںروشناس کرانے کی کوشش کی ہی۔انہوںنے ٹیگوراوران کے عہد،خاندان ،پیدائش،بچپن،تعلیم، اسرارِفطرت میںدلچسپی، سیروسیاحت،شادی،گھرگرہستی،سیرت وشخصیت کے علاوہ ٹیگورکے تخلیقی سفرشاعری،موسیقی،ڈرامہ،کہانی،ناول اورمصوری پربھی روشنی ڈالی ہی۔شمیم طارق نے شانتی نکیتن اورٹیگوربطور معلم ،نوبیل پرائز ،ٹیگور فکراورفلسفہ ،قومیت کا تصوراورقومی ترانہ ،ٹیگورکے فن،ان کی شعری بصیرت،ٹیگورکے آخری سفراوران کی تخلیقات وتصنیفات پرمفصل روشنی ڈالی ہی۔ حرف مدعامیںمصنف نے یہ تحریرکیاہے کہ ’’رابندرناتھ ٹیگورنہ صرف آج کی اردودنیاسے متعارف ہیںبلکہ ان کی فکراوراسلوب کی اردودنیامیں پیروی بھی کی گئی ہے اس کے باوجودایک ایسی کتاب کی ضرورت باقی تھی جس کوپڑھنے کے بعدٹیگورکی حیات اورفکروفن کی تمام جہتیںروشن ہوجائیں ۔ یہ کتاب اسی ضرورت کے پیش نظر لکھی گئی ہی۔‘‘شمیم طارق نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلراورٹیگورریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن اسکیم کے سرپرست نجیب جنگ صاحب (موجودہ لیفٹیننٹ گورنر دہلی) ، صدر شعبہ اردو پروفیسر وہاج الدین علوی ، سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر خالد محمود اور ٹیگور پروجیکٹ کے کو آرڈینیٹر پروفیسر شہزاد انجم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ تمام مخلص اور علمی شخصیتیں مبارکباد کی بھی مستحق ہیںکہ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور اس کے شعبۂ اردو کو نیک نامی اور نئی شناخت دینے کے ساتھ ٹیگور شناسی کی نئی بنیادیں بھی فراہم کی ہیں‘‘۔

        ٹیگور ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن اسکیم کے کو آرڈینیٹر پروفیسر شہزاد انجم نے اس کتاب کے پیش لفظ میں تحریر کیا ہے کہ اردو داں حلقہ میں ٹیگور کی شخصیت اور فکر و فن کے ہمہ جہت تعارف کے لیے ایک ایسی کتاب کی ضرورت باقی تھی ۔شمیم طارق نے اس ضرورت کو اس خوبی سے پورا کیا ہے کہ اس موضوع پر مذکورہ کتاب کو پہلی کتاب قرار دیا جا سکتا ہے کیوں کہ ٹیگور کی شخصیت اور فکر و فن کا شاید ہی کوئی ایسا پہلو ہو جس پر شمیم طارق نے ٹیگور شناسی میں بحث نہ کی ہو۔ شمیم طارق نے اس کتاب کا انتساب ’قومی تصورات کے نام جن کی خوبصورت تعبیر جامعہ ملیہ اسلامیہ ہی‘ کیا ہی۔ امید ہے رابندر ناتھ ٹیگور پر تحریر کردہ یہ کتاب پوری دنیا میں اعلی اور اہم مقام حاصل کرے گی۔  واضح ہو کہ کتاب کی دس ہزار کاپیاں شائع ہوئی ہیں اور وزارت ثقافت حکومت ہند کے معاہدے کے تحت یہ کتابیں اردو کے علمی ادبی حلقوں  اور اسکالرز کے درمیان مفت تقسیم کی جائیں گی۔جامعہ ملیہ اسلامیہ ، ٹیگورپروجیکٹ کے زیرِ اہتمام’’ ٹیگورشناسی‘‘ شائع ہوکرمنظرعام پرآگئي ہے ۔جامعہ ملیہ اسلامیہ ، ٹیگورپروجیکٹ کے زیرِ اہتمام’’ ٹیگورشناسی‘‘ شائع ہوکرمنظرعام پرآگئی



Monday, July 22, 2013

روزہ کا اصل مقصد

روزہ کا اصل مقصد
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی

ہر کام جو انسان کرتا ہی، اس میں دو چیزیں لازمی طور پر ہوا کرتی ہیں۔ ایک چیز تو وہ مقصد ہے جس کے لیے کام کیا جاتا ہے اور دوسری چیز اس کام کی وہ خاص شکل ہے جو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اختیار کی جاتی ہی۔ مثلاً کھانا کھانے کے فعل کو لیجےی۔ کھانے سے آپ کا مقصد زندہ رہنا اور جسم کی طاقت کو بحال رکھنا ہی۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی صورت یہ ہے کہ آپ نوالے بناتے ہیں ، منہ میں لے جاتے ہیں، دانتوں سے چباتے ہیں اور حلق کے نیچے اتارتے ہیں۔ چونکہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے سب سے زیادہ کارگر اور سب سے زیادہ مناسب طریقہ یہی ہوسکتا تھا، اس لیے آپ نے اسی کو اختیار کیا۔ لیکن آپ میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ اصل چیز وہ مقصد ہے جس کے لیے کھانا کھایا جاتا ہی، نہ کہ کھانے کے فعل کی یہ صورت۔ اگر کوئی شخص لکڑی کا برادہ یا راکھ مٹی لے کر اس کے نوالے بنائے اور منہ میں لے جائے اور دانتوں سے چبا کر حلق سے نیچے اتارلے تو آپ اسے کیا کہیں گی؟ یہی ناکہ اس کا دماغ خراب ہی۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ احمق کھانے کے اصل مقصد کو نہیں سمجھتا اور اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ بس فعل خوردن کے ان چاروں ارکان کو ادا کردینے ہی کا نام کھانا کھانا ہی۔ اسی طرح آپ اس شخص کو بھی پاگل قرار دیں گے جو روٹی کھانے کے بعد فوراً ہی حلق میں انگلی ڈال کر قے کردیتا ہو اور پھر شکایت کرتا ہو کہ روٹی کھانے کے جو فائدہ بیان کیے جاتے ہیں وہ مجھے حاصل ہی نہیں ہوتی، بلکہ میں تو الٹا روز بروز دبلا ہوتا جارہا ہوں اور مر جانے کی نوبت آگئی ہی۔ یہ احمق اپنی اس کمزوری کا الزام روٹی اور کھانے پر رکھتا ہے حالانکہ حماقت اس کی اپنی ہی۔ اس نے اپنی نادانی سے یہ سمجھ لیا کہ کھانے کا فعل جتنے ارکان سے مرکّب ہے بس ان کو ادا کر دینے ہی سے زندگی کی طاقت حاصل ہوجاتی ہی۔ اس لیے اس نے سوچا کہ اب روٹی کا بوجھ اپنے معدے میںکیوں رکھو؟ کیوں نہ اسے نکال پھینکا جائے تاکہ پیٹ ہلکا ہوجائی۔ کھانے کے ارکان تو میں ادا کر ہی چکا ہوں۔ یہ احمقانہ خیال جو اس نے قائم کیا اور پھر اس کی پیروی کی، اس کی سزا بھی تو آخر اسی کو بھگتنی چاہےی۔ اس کو جاننا چاہیے تھا کہ جب تک روٹی پیٹ میں جاکر ہضم نہ ہو اور خون بن کر سارے جسم میں پھیل نہ جائے اس وقت تک زندگی کی طاقت حاصل نہیں ہوسکتی۔ کھانے کے ظاہری ارکان بھی اگرچہ ضروری ہیں، کیوں کہ ان کے بغیر روٹی معدے تک نہیں پہنچ سکتی، مگر محض ان ظاہری ارکان کے ادا کردینے سے کام نہیں چل سکتا۔ ان ارکان میں کوئی جادو بھرا ہوا نہیں ہے کہ انہیں ادا کرنے سے بس طلسماتی طریقہ پر آدمی کی رگوں میں خون دوڑنے لگتا ہوں۔ خون پیدا کرنے کے لیے تو اللہ نے جو قانون بنایا ہے اسی کے مطابق وہ پیدا ہوگا۔ اس کو توڑو گے تو اپنے آپ کو خود ہلاک کرو گی۔ 
ظاہر کو حقیقت سمجھنے کے نتائج: 
یہ مثال جو اس تفصیل کے ساتھ میں نے آپ کے سامنے بیان کی ہے اس پر آپ غور کریں تو آپ کی سمجھ میں آسکتا ہے کہ آج آپ کی عبادتیں کیوں بے اثر ہوگئی ہیں۔ جیسا کہ میں پہلے بھی آپ سے بارہا بیان کرچکا ہوں۔ سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ آپ نے نماز روزے کے ارکان اور ان کی ظاہری صورتوں ہی کو اصل عبادت سمجھ رکھا ہے اور آپ اس خیال خام میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ جس نے یہ ارکان پوری طرح ادا کردیے اس نے بس اللہ کی عبادت کردی۔ آپ کی مثال اسی شخص کی سی ہے جو کھانے کے چاروں ارکان ، یعنی نوالے بنانا، منھ میں رکھنا، چبانا، حلق سے نیچے اتاردینا، بس انہی  چاروں کے مجموعے کو کھانا سمجھتا ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ جس نے یہ چار ارکان ادا کردیے اس نے کھالیا اور کھانے کے فائدے اس کو حاصل ہونے چاہئیں، خواہ اس نے ان ارکان کے ساتھ مٹی اور پتھر اپنے پیٹ میں اتارے ہوں، یا روٹی کھا کر فوراً قے کردی ہو۔ اگر حقیقت میں آپ لوگ اس حماقت میں مبتلا نہیں ہوگئے ہیں تو مجھے بتایئے یہ کیا ماجرا ہے کہ جو روزہ دار صبح سے شام تک اللہ کی عبادت میں مشغول ہوتا ہے وہ عین اس عبادت کی حالت میں جھوٹ کیسے بولتا ہی؟ غیبت کس طرح کرتا ہی؟ بات بات پر لڑتا کیوں ہی؟ اس کی زبان سے گالیاں کیوں نکلتی ہیں؟ وہ لوگوں کا حق کیسے مار کھاتا ہی؟ حرام کھانے اور حرام کھلانے کے کام کس طرح کرلیتا ہی؟ اور پھر یہ سب کام کرکے بھی اپنے نزدیک یہ کیسے سمجھتا ہے کہ میں نے خدا کی عبادت کی ہی؟ کیا اس کی مثال اس شخص کی سی نہیں ہے جو راکھ اور مٹی کھاتا ہے اور محض کھانے کے چار ارکان ادا کردینے کو سمجھتا ہے کہ کھانا اس کو کہتے ہیں؟ 
رمضان کے بعد پھر بے قیدی: 
پھر مجھے بتایئے یہ کیا ماجرا ہے کہ رمضان بھر میں تقریباً 360 گھنٹے خدا کی عبادت کرنے کے بعد جب آپ فارغ ہوتے ہیں تو اس پوری عبادت کے تمام اثرات شوال کی پہلی تاریخ ہی کو کافور ہوجاتے ہیں؟ ہندو اپنے تہواروں میں جو کچھ کرتے ہیں وہی سب آپ عید کے زمانے میں کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ شہروں میں تو عید کے روز بدکاری اور شراب نوشی اور قمار بازی تک ہوتی ہے اور بعض ظالم تو میں نے ایسے دیکھے ہیں جو رمضان کے زمانے میں دن کو روزہ رکھتے ہیں اور رات کو شراب پیتے اور زنا کرتے ہیں۔ عام مسلمان خدا کے فضل سے اس قدر بگڑے ہوئے تو نہیں ہیں، مگر رمضان ختم ہونے کے بعد آپ میں سے کتنے ایسے ہیں جن کے اندر عید کے دوسرے دن بھی تقویٰ اور پرہیزگاری کا کوئی اثر باقی رہ جاتا ہو؟ خدا کے قوانین کی خلاف ورزی میں کون سی کسر اٹھا رکھی جاتی ہی؟ نیک کاموں میں کتنا حصہ لیا جاتا ہی؟ اور نفسیات میں کیا کمی آجاتی ہی؟ 
عبادت کے غلط تصور کا نتیجہ: 
سوچیے اور غور کیجیے کہ اس کی وجہ آخر کیا ہی۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں عبادت کا مفہوم اور مطلب ہی غلط ہوگیا ہی۔ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ سحر سے لے کر مغرب تک کچھ نہ کھانے اور نہ پینے کا نام روزہ ہے اور بس یہی عبادت ہی۔  اس لیے روزے کی تو آپ پوری حفاظت کرتے ہیں۔ خدا کا خوف آپ کے دل میں اس قدر ہوتا ہے کہ جس چیز میں روزہ ٹوٹنے کا ذرا سا اندیشہ بھی ہو اس سے بھی آپ بچتے ہیں۔ اگر جحان پر بھی آجائے تب بھی آپ کو روزہ توڑنے میں تامل ہوتا ہی۔ لیکن آپ یہ نہیں جانتے کہ یہ بھوکا پیاسا رہنا اصل عبادت نہیں بلکہ عبادت کی صورت ہے اور یہ صورت مقرر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ آپ کے اندر خدا کا خوف اور خدا کی محبت پیدا ہو، اور آپ کے اندر اتنی طاقت پیدا ہوجائے کہ جس چیز میںدنیا بھر کے فائدے ہوں مگر خدا ناراض ہوتا ہو اس سے اپنے نفس پر جبر کر کے بچ سکیں، اور جس چیز میں ہر طرح کے خطرات اور نقصانات ہوں مگر خدا اس سے خوش ہوتا ہو، اس پر آپ اپنے نفس کو مجبور کرکے آمادہ کرسکیں، یہ طاقت اسی طرح پیدا ہوسکتی تھی کہ آپ روزے کے مقصد کو سمجھتے اور مہینہ بھر تک آپ نے خدا کے خوف اور خدا کی محبت میں اپنے نفس کو خواہشات سے روکنے اور خدا کی رضا کے مطابق چلانے کی جو مشق کی ہے اس سے کام لیتی۔ مگر آپ تو رمضان کے بعد ہی اس مشق کو اور ان صفات کو جو اس مشق سے پیدا ہوتی ہیں اس طرح نکال پھینکتے ہیں جیسے کھانے کے بعد کوئی شحص حلق میں انگلی ڈال کر قے کردی، بلکہ آپ میں سے بعض لوگ تو روزہ کھولنے کے بعد ہی دن بھر کی پرہیزگاری کو اگل دیتے ہیں۔ پھر آپ ہی بتایئے کہ رمضان اور اس کے روزے کوئی طلسم تو نہیں ہیں کہ بس ان کی ظاہری شکل پوری کردینے سے آپ کو وہ طاقت حاصل ہوجائے جو حقیقت میں روزے سے حاصل ہونی چاہےی۔ جس طرح روٹی سے جسمانی طاقت اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ معدے میں جاکر ہضم نہ ہو اور خون بن کر جسم کی رگ رگ میں نہ پہنچ جائی، اسی طرح روزے سے بھی روحانی طاقت اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک کہ آدمی روزہ کے مقصد کو پوری طرح سمجھے نہیں اور اپنے دل و دماغ کے اندر اس کو اترنے اور خیال ،نیت، ارادے اور عمل سب پر چھا جانے کا موقع نہ دی۔ 
-----------

naat pak


Saturday, July 20, 2013

دنیا کا تبدیل ہوتا ہوا منظر نامہ

دنیا کا تبدیل ہوتا ہوا منظر نامہ
        اٹھارہویں صدی کے سائنسی انقلاب اور لادینی نظریات کے وجود کے بعد اربوں کھربوں ڈالر اور سرمائے کی طاقت سے اشتراکیت ،آمریت ،کمیونزم،کپیٹلزاور لبرل جمہوریت کو وجود میں لایا گیا تاکہ بیسویں صدی میں خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد ایک بار پھر اسلامی طرز سیاست اور خلافت کو غالب آنے سے روکا جاسکے ۔مگر جس طرح آندھی اور طوفان کی طرح یہ جدید لبرل اور لادینی سیاست اپنے وجود میں آئی اسی رفتار سے فنا کی دہلیز پر قدم رکھ چکی ہے اور اکیسویں صدی میں ایک بار پھر پاکستان سے لیکر افغانستان ایران ترکی مصر اور شام میں تحریکات اسلامی کے عروج سے اسی طرح خوفزدہ ہے جیسے روئے زمین پر جبرئیل کا نزول ہونے والا ہو یا شیطان کرہ ارض پر کسی نبی اور رسول کی آمد سے لرزہ بر اندام ہو جایا کرتا تھا ۔
        ہو سکتا ہے یہ کسی دیوانے کی بکواس ہو مگر تاریخ پر نظر دوڑائیے اور دیکھئے کہ اٹھارہویں صدی جدید ٹکنالوجی ،لادینی نظریات اور جدید طرز سیاست کے عروج کا دور ضررور تھا مگر صالحیت اور دین و مذہب کے خاتمہ کا نہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ بیسویں صدی کے خاتمے سے پہلے اور نوے کی دہائی میں ہی اشتراکیت ،کمیونزاور سوشلزم کے ان سارے بتوں کو منہدم کرنے کیلئے کسی حضرت ابراہیم  کو آنے کی ضرورت نہیں پڑی بلکہ وقت کے آزروں نے خود اپنے ہاتھوں سے ان مجسموں کو تہس نہس کردیا ۔اور امریکہ جس کارپوریٹ جمہوری نظام کی کامیابی کے بعد پوری دنیا میں یکساں طور پر نیو ورلڈ آرڈر کو نافذ کرنے کی بات کررہا تھا 2001 یعنی 9/11 کے بعد بیسویں صدی کے خاتمے اور اکیسویں صدی کے آغاز میں خود اس چرچہ کا موضوع بن گیا ہے کہ کیا یہ امپائر خود اپنے پیروں پر کھڑا رہ پائے گا ؟001 میں جس تیزی کے ساتھ وہ افغانستان میں داخل ہوا تھا القاعدہ اور طالبان کو ختم کرنے کا دعویٰ کیا اور اسی رو میں عراق پر چڑھائی کی صدام حسین کو پھانسی پر چڑھادیا ،ایسا لگ رہا تھا کہ دنیا سے تحریکات اسلامی ،اسلام اور بیباک مسلم قیادت کا خاتمہ ہو جائے گا ،مگر کیا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکا ؟دنیا دیکھ رہی ہے کہ قطر میں وہ

Wednesday, July 17, 2013

با برکت مہینہ رمضا نالمبارک


ماہِ رمضان المبارک کی رحمتیں، برکتیں اور نعمتیں اپنے اختتام کو پہنچیں اور اب ماہِ شوال کی رونق افروزیاں عالم اسلام پر عیدالفطر کا مژدہ لے کر سایہ فگن ہین۔ ماہِ رمضان المبارک میں مساجد نمازیوں سے بھری ہوئی رہا کرتی تھیں۔ سحر اور افطار میں روح پرور مناظر سے ہر کسی کو روحانی و عرفانی سکون ملا کرتا تھا۔ پانچ وقت مسجدوں سے صدائے اللہ اکبر کی پرلطف روحانیت سے بندگانِ خدا مساجد کی سمت کھنچے آتے تھی۔ مساجد تنگ دامنی کا شکوہ کرنے لگتی تھین۔ امیر و غریب، شاہ و گدا سب ایک ہی صف میں کھڑے اللہ کی کبریائی بیان کرتے تھی۔ تسبیح و تحلیل کا وہ عالم تھا کہ ایمان تازہ ہو جایا کرتا تھا۔ وہ غیر مسلمین جو مسلم محلوں کی روحانیت کو دیکھا کرتے تھے اور حیرت زدہ رہا کرتے تھے کہ مسلمانوں میں اتنا بڑا انقلاب کس طرح برپا ہو گیا اب شاید ان غیر مسلموں کو بھی اس روحانی منظر کی تالش ہے مگرکیا مسلمان ان غیر مسلموں کو اب گیارہ مہینے کے انتظار پر مجبور کر دیں گی؟ کیا وجہ ہے کہ رمضان المبارک میں تو ہماری ایمانی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ ہم اپنے مشکل ترین معاشی کاموں کو انجام دیتے ہوئے بھی اللہ کی رجا کے لیے مقررہ شرعی وقت تک بھوک پیاس کی تکلیف اٹھاتے ہیں مگر ماہِ شوال کی آمد کے ساتھ ہی ہم پھر سے نوش و طعام کے شیدا ہو جاتے ہیں۔ ذرا سی دیر کی تکلیف کو برداشت کرنا گوارہ نہیں کرتی۔ کیا رمضان المبارک کے یک ماہی مجاہدے نے بھی ہمیں صبرو شکر کی عظیم نعمت سے سرفراز نہیں کیا؟ خود ماہِ رمضان مسلمانوں سے دریافت کر رہا ہے کہ اے مسلمانو! برائی کو سیکھنے میں تو تمہیں وقت نہیں لگتا مگر ایک ماہ کے مسلسل مجاہدے نے تمہیں اچھائیوں کے اپنانے کی ترغیب نہیں دی؟ اس ایک ماہ میں تم نے روزوں کا اہتمام کیا، نوافل کی کثرت کی، فرض نمازوں کی ادائیگی کے لیے کمر بستہ رہی، حتی الامکان غریبوں اور حاجت مندوں کی داد رَسی کی۔ جہاں تک ہو سکا نیکیوں کو انجام دینے کی کوشش کی اس کے باوجود آخر کیوں تم رمضان المبارک کی ان نیکیوں کو قائم نہیں رکھ سکی؟
مسلمانو! غور کرو۔ کیا تم نے رمضان کی عبادات کو اس نیت سے انجام دیا کہ تم اپنے پروردگار کی رضا چاہتے ہو؟ یقینا اگر تم خود سے سوال کرو تو جواب نفی میں ہی آئے گا کیوں کہ اگر تم نے اس ماہِ مبارک میں عبادات محض رضا الٰہی کے لیے کی ہوتی تو تم ماہِ مبارک کے بعد بھی اس پر قائم رہتی۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ خلوص سے کی گئی عبادات کو ضائع نہیں کرتا وہ اس کا عظیم اجر دیتا ہی۔ تم نے شاید ماہِ رمضان کے روزے اس لیے رکھے کہ لوگ تمہیں بے روزہ اور بے دین ہونے کا طعنہ نہ دیں۔ تم اگر صرف رضائے الٰہی کے لیے روزوں کا اہتمام کرتے یقینا تمہارے نفس کی طہارت ہو جاتی۔ تم خود پر قابو پانے والے دوسروں کی غمگساری کرنے والی، اللہ سے ڈرنے والے جذبات سے لبریز ہو جاتی۔ اگر تم واقعی نمازوں کی ادائیگی رضائے خداوندی کے جذبے سے سرشار ہوکر کرتے تو قرآن مجید کی بشارت ’’نماز ہر برائیوں اور بے حیائیوں سے روکتی ہی‘‘ کو اپنے لیے لازم پاتی۔ اگر تم تراویح کو سنت رسولِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ادا کرنے کے جذبے سے پڑھتے تو ماہِ رمضان گذرنے ک ے بعد بھی اس کی برکتیں تمہارے سروں پر سایہ افگن ہوتیں۔ اگر تم اپنا حق سمجھ کر ماتحتین اور غریبوں کی دستگیری کرتے تو اللہ پاک کے خزانے تم پر لٹ رہے ہوتی۔
مسلمان! یاد رکھو! رمضان المبارک کا مہینہ صرف اس لیے بخشا جاتا ہے کہ تمہارے نفس کا تزکیہ کیا جائی۔ تمہارے نامہ اعمال کو نیکیوں سے بھر دیا جائی۔ تمہارے اندر اللہ کا تقویٰ پیدا کیا جائے تمہارے صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کو ختم کر دیا جائی۔ تمہارے لیے اللہ تعالیٰ خیر کے فیصلے فرمائی۔ تمہارے کردار کو سماج کے لیے فلاح کا ذریعہ بنائی۔ تمہاری آخرت کو درخشاں کیا جائے اور ہم نے رمضان المبارک کے ایک ماہ میں تو ان نعمتوں کو حاصل کرنے میں کسر نہ چھوڑی مگر اس کے دیرپا اثرات کو خود میں نہیں سمویا۔ اب بھی موقع ہی۔ عیدالفطر کی نماز میں اللہ نے فرشتوں کو گواہ بنا کر ہماری بخشش فرما دی ہی۔ اب ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم اللہ کی اس بخشش کو تادمِ اخیر حاصل کرنے کے لیے اپنے اندر انقلاب پیدا کریں اور اللہ کی دی گئی زندگی کو صرف اسی کے حکم کے مطابق گذارنے کی کوشش کریں۔ اپنے اعمال اور کردار کو دین کے سانچے میں ڈھال کر ’’اے ایمان والو! پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جائو اور شیطان کی اتباع نہ کرو۔ بے شک وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہی‘‘ کی مکمل تفسیر بن جائو۔ اگر شوال المکرم میں آپ نے اس بات کا تہیہ کر لیا تو انشاء اللہ زندگی کے ہر محاذ پر اللہ آپ کے ساتھ ہو گا اور شیطان آپ کو بہکانے میں ناکام ہو گا۔ شرط یہ ہے کہ آپ خلوصِ نیت سے نئی زندگی کا آغاز کریں اور انجام کو اللہ کی ذاتِ قدیر پر چھوڑ دیں جو آپ کے ساتھ کرم کا اور رحم کا معاملہ فرمانے والا ہی۔
راقم سے رابطے کے لیی
۳۵۱، مومن پورہ، بہادر شاہ ظفر روڈ، مالیگائوں
موبائیل نمبر: 927191615

Wednesday, July 10, 2013

فری میڈیکل کیمپ

لن ترانی میڈیا ہاؤس  اور سی ،اینڈ وی سوشل اور ایجوکیشنل ٹرسٹ  کے زیر اہتمام اور بہ   تعاون   خورشید ٹرسٹ ، نیڈس ،صدر  سیّد مسعود ،اعجاز مقادم ، محترم شمش الدین ،اور مشتاق  قریشی اور جمیل کامل  سر کے  بمقام  بی ، آئی ، ٹی   بلاک نمبر 5 ، گراؤنڈ فلور ، ابراہیم رحمت  اللّہ روڈ ممبئی میں  بروز   سنیچر مورخہ 6 جولائی 2013ء کو یونانی طب  کا ایک فری میڈیکل چیک اپ  کیمپ کا  انتظام کیا گیا  ہے ۔جس میں جے ۔جے اہسپتال ممبئی  کے ماہرین ڈاکٹرس  ڈاکٹر محمد رضا صاحب ۔( ریسرچ   انچارچ)  ڈاکٹر منور کاظمی صاحب   ریسرچ  آفیسر، ڈاکٹر  محمد نسیم صاحب ( ریسرچ آفیسر) اور طبی عملہ نے  دوسو لوگوں کا چیک اپ اور علاج کیا ۔اس کیمپ میں خاص طور سے مفت  بلڈ پریشر  چیک اپ  ،    بزرگوں  کا      چیک اپ  ، دوائیوں  کی مفت تقسیم    خون کی جانچ                اور ہائپرٹینشن  کا علاج بخوبی انجام دیا ۔ اس موقع پر شہر اور اطراف  کی اہم شخصیات  موجود  تھیں  ۔ عوامی وکاس پارٹی کے قومی صدر محترم شمشیر خان پٹھان  صاحب  نے اپنا قیمتی وقت دیا اور سب  کی حوصلہ افزائی کیں ۔ ڈاکٹر ی عملے سے گفت وشنید کیں ۔  اور لوگوں کی طرح خود کی بھی خون کی  جانچ کروائی ۔اور اس طرح کےسوشل    کاموں سے  عوام  الناس  کی فلاح و بہبود کے کاموں کو سراہا اور ہر طرح کے کاموں میں تعاون  کا وعدہ کیا ۔ یہ کیمپ کافی کامیاب رہا ۔

Friday, July 05, 2013

فری میڈیکل چیک اپ


               
 
سی اینڈ وی یعنی کی تعلیمی و سماجی ٹرسٹ  

Monday, July 01, 2013

شخصیت سازی

معلمات صالح معاشرہ کی  تشکیل کی بھی ذمہ دار ہیں۔

بروز سنیچر مورخہ   29 جون کو انجمن اسلام گرلس اسکولوں کی معلمات کا ایک  روزہ  شخصیت سازی   کا پروگرام صابو صدیق  کے المالطیفی ہال  میں  منعقد کیا گیا ۔جس میں مشہور شخصیت ساز سعید احمد  نے تقریبا چار گھنٹوں تک بہتر انداز میں معلمات کو  انکی  ذمہ داری ۔ فرض شناسی  اور اور بہتر  طور پر اپنے فرائض انجام دہی کے ہنر سکھاۓ ۔
Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP