۲واں روزہ تھا جیسے جیسے سورج غروب ہورہا تھا لوگوں کا اشتیاق بڑھ رہا تھا ک۹ آج ہی چاند رات ہی۔ مغرب
کی اذان ہوئی لوگ افطاری میں مشغول ہوگئی۔ فرض نماز سے فارغ ہوکر ابھی سنت و نفل میں
مشغول تھے کہ بچوں کا شور بلند ہوا۔ چاند نظر آگیا، کل عید ہوگی۔ ہر کسی کے چہرے خوشی
سے دمکنے لگی۔ فجر کی اذان ہونے لگی سفیان ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ آنکھیں ملتے ہوئے اس
نے اپنی امی کو دیکھا جو مصلّے پر بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھیں۔ معصوم سفیان نے اپنی امی
سے کہا آج عید ہے نا، مجھے نہلادو اور نئے کپڑے پہنا دو۔ سفیان کی امی نے الماری کھولی
اور کرتا سلوار نکال کر دیا۔ سفیان کہنے لگا یہ تو پرانے ہیں مجھے نئے کپڑے چاہےی۔
ضد کرنے لگا۔ ماں نے سفیان کو گلے سے لگایا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی یا اللہ! یہ کیسا امتحان لے رہا ہی۔ سفیان! کیسے سمجھائوں
کہ اس کے ابّو کو اس دنیا سے گئے آٹھ مہینے گزر گئے عید کا کپڑا تو دور کی بات ہے رمضان
کا مہینہ جیسے تیسے گزرا ہی۔ وہ ہاتھ اُٹھائے پھر دعا مانگنے میں مصروف ہوگئی۔ آنسو
تھے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھی۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ سفیان کی ماں نے
آنسو پونچھتے ہوئے دعا ختم کی اور دروازہ کھولا۔ سامنے جمن چاچا کی بیوی تھیں۔ کیابات
ہے چاچی؟ سفیان کی امّی بولیں آیئے اندر آیئی۔ چاچی نے اندر آتے ہوئے کہا ’’معاف کرنا
بہن میں بچے کے لیے کپڑے لائی ہوں۔‘‘ پرسوں تمہارے چاچا اپنے بچوں کے ساتھ سفیان کے
لیے بھی کپڑے لائے تھی۔ کام کی الجھن میں اوّل نہ
آسکی۔ ہمارے بچے نئے کپڑے پہنیں اور تمہارا بچہ عید کے دن بھی جونا پرانا کپڑا
پہنے یہ کیسی عید؟
ہم نے اپنا فرض پورا کیا
کوئی احسان کی بات نہی۔ چاچی کپڑے اور سامان وغیرہ سفیان کو دے کر رخصت ہوگئی۔ سفیان
کی امی پھر سجدے میں گرگئیں۔ اے میرے پروردگار تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے تو نے ایک غریب
بیوہ کی سن لی تو بڑا رحیم و کریم ہی۔ کچھ ہی دیر کے بعد دستک پھر ہوئی۔ دروازہ کھولا
تو ایک حضرت نے روپے کی تھیلی تھما کر چل دےی۔ سفیان کی امی کی آنکھوں میں آنسو آگئی۔
اکثر ایسا ہوتا ہیکہ ہم نادار افراد کی مدد رمضان المبارک کے آخری
عشرے میں کرتے ہیں۔ جب کہ وہ تقریباً بیس سے پچیس روزے نہایت ہی تنگ دستی میں گزار
دیتے ہیں۔ انہیں فکر رہتی ہے کہ ان کے اہل خانہ کے عید الفطر کے نئے کپڑے اور دیگر
اشیاء آئی یا نہیں! ان کے چھوٹے بچے دوسروں
کا سن کر بار بار عید کے کپڑی، جوتوں وغیرہ کا تقاضہ کرتے رہتے ہیں۔ اس وقت ان کے دلوں
پر کیا گزرتی ہوگی اسے الفاظ میں یہاں نہیں بیان کیا جاسکتا۔ صاحب حیثیت اور خوشحال
گھرانوں سے نہایت ہی عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ اپنے عطیات جلد سے جلد مفلس و نادار
گھرانوں تک پہنچا دیں تاکہ وہ گھرانے بھی سحری و افطار خوب سیر ہوکریں اور ہماری طرح
وہ بھی رمضان اور عید کی خوشیوں میں شامل ہوں،کیوں کہ نبی ؐ نے فرمایا مسلمان مسلمان
کا بھائی ہے ۔
No comments:
Post a Comment