روزہ کا اصل مقصد
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی
ہر کام جو انسان کرتا ہی، اس میں دو چیزیں لازمی طور پر ہوا کرتی ہیں۔ ایک چیز تو وہ مقصد ہے جس کے لیے کام کیا جاتا ہے اور دوسری چیز اس کام کی وہ خاص شکل ہے جو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اختیار کی جاتی ہی۔ مثلاً کھانا کھانے کے فعل کو لیجےی۔ کھانے سے آپ کا مقصد زندہ رہنا اور جسم کی طاقت کو بحال رکھنا ہی۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی صورت یہ ہے کہ آپ نوالے بناتے ہیں ، منہ میں لے جاتے ہیں، دانتوں سے چباتے ہیں اور حلق کے نیچے اتارتے ہیں۔ چونکہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے سب سے زیادہ کارگر اور سب سے زیادہ مناسب طریقہ یہی ہوسکتا تھا، اس لیے آپ نے اسی کو اختیار کیا۔ لیکن آپ میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ اصل چیز وہ مقصد ہے جس کے لیے کھانا کھایا جاتا ہی، نہ کہ کھانے کے فعل کی یہ صورت۔ اگر کوئی شخص لکڑی کا برادہ یا راکھ مٹی لے کر اس کے نوالے بنائے اور منہ میں لے جائے اور دانتوں سے چبا کر حلق سے نیچے اتارلے تو آپ اسے کیا کہیں گی؟ یہی ناکہ اس کا دماغ خراب ہی۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ احمق کھانے کے اصل مقصد کو نہیں سمجھتا اور اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ بس فعل خوردن کے ان چاروں ارکان کو ادا کردینے ہی کا نام کھانا کھانا ہی۔ اسی طرح آپ اس شخص کو بھی پاگل قرار دیں گے جو روٹی کھانے کے بعد فوراً ہی حلق میں انگلی ڈال کر قے کردیتا ہو اور پھر شکایت کرتا ہو کہ روٹی کھانے کے جو فائدہ بیان کیے جاتے ہیں وہ مجھے حاصل ہی نہیں ہوتی، بلکہ میں تو الٹا روز بروز دبلا ہوتا جارہا ہوں اور مر جانے کی نوبت آگئی ہی۔ یہ احمق اپنی اس کمزوری کا الزام روٹی اور کھانے پر رکھتا ہے حالانکہ حماقت اس کی اپنی ہی۔ اس نے اپنی نادانی سے یہ سمجھ لیا کہ کھانے کا فعل جتنے ارکان سے مرکّب ہے بس ان کو ادا کر دینے ہی سے زندگی کی طاقت حاصل ہوجاتی ہی۔ اس لیے اس نے سوچا کہ اب روٹی کا بوجھ اپنے معدے میںکیوں رکھو؟ کیوں نہ اسے نکال پھینکا جائے تاکہ پیٹ ہلکا ہوجائی۔ کھانے کے ارکان تو میں ادا کر ہی چکا ہوں۔ یہ احمقانہ خیال جو اس نے قائم کیا اور پھر اس کی پیروی کی، اس کی سزا بھی تو آخر اسی کو بھگتنی چاہےی۔ اس کو جاننا چاہیے تھا کہ جب تک روٹی پیٹ میں جاکر ہضم نہ ہو اور خون بن کر سارے جسم میں پھیل نہ جائے اس وقت تک زندگی کی طاقت حاصل نہیں ہوسکتی۔ کھانے کے ظاہری ارکان بھی اگرچہ ضروری ہیں، کیوں کہ ان کے بغیر روٹی معدے تک نہیں پہنچ سکتی، مگر محض ان ظاہری ارکان کے ادا کردینے سے کام نہیں چل سکتا۔ ان ارکان میں کوئی جادو بھرا ہوا نہیں ہے کہ انہیں ادا کرنے سے بس طلسماتی طریقہ پر آدمی کی رگوں میں خون دوڑنے لگتا ہوں۔ خون پیدا کرنے کے لیے تو اللہ نے جو قانون بنایا ہے اسی کے مطابق وہ پیدا ہوگا۔ اس کو توڑو گے تو اپنے آپ کو خود ہلاک کرو گی۔
ظاہر کو حقیقت سمجھنے کے نتائج:
یہ مثال جو اس تفصیل کے ساتھ میں نے آپ کے سامنے بیان کی ہے اس پر آپ غور کریں تو آپ کی سمجھ میں آسکتا ہے کہ آج آپ کی عبادتیں کیوں بے اثر ہوگئی ہیں۔ جیسا کہ میں پہلے بھی آپ سے بارہا بیان کرچکا ہوں۔ سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ آپ نے نماز روزے کے ارکان اور ان کی ظاہری صورتوں ہی کو اصل عبادت سمجھ رکھا ہے اور آپ اس خیال خام میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ جس نے یہ ارکان پوری طرح ادا کردیے اس نے بس اللہ کی عبادت کردی۔ آپ کی مثال اسی شخص کی سی ہے جو کھانے کے چاروں ارکان ، یعنی نوالے بنانا، منھ میں رکھنا، چبانا، حلق سے نیچے اتاردینا، بس انہی چاروں کے مجموعے کو کھانا سمجھتا ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ جس نے یہ چار ارکان ادا کردیے اس نے کھالیا اور کھانے کے فائدے اس کو حاصل ہونے چاہئیں، خواہ اس نے ان ارکان کے ساتھ مٹی اور پتھر اپنے پیٹ میں اتارے ہوں، یا روٹی کھا کر فوراً قے کردی ہو۔ اگر حقیقت میں آپ لوگ اس حماقت میں مبتلا نہیں ہوگئے ہیں تو مجھے بتایئے یہ کیا ماجرا ہے کہ جو روزہ دار صبح سے شام تک اللہ کی عبادت میں مشغول ہوتا ہے وہ عین اس عبادت کی حالت میں جھوٹ کیسے بولتا ہی؟ غیبت کس طرح کرتا ہی؟ بات بات پر لڑتا کیوں ہی؟ اس کی زبان سے گالیاں کیوں نکلتی ہیں؟ وہ لوگوں کا حق کیسے مار کھاتا ہی؟ حرام کھانے اور حرام کھلانے کے کام کس طرح کرلیتا ہی؟ اور پھر یہ سب کام کرکے بھی اپنے نزدیک یہ کیسے سمجھتا ہے کہ میں نے خدا کی عبادت کی ہی؟ کیا اس کی مثال اس شخص کی سی نہیں ہے جو راکھ اور مٹی کھاتا ہے اور محض کھانے کے چار ارکان ادا کردینے کو سمجھتا ہے کہ کھانا اس کو کہتے ہیں؟
رمضان کے بعد پھر بے قیدی:
پھر مجھے بتایئے یہ کیا ماجرا ہے کہ رمضان بھر میں تقریباً 360 گھنٹے خدا کی عبادت کرنے کے بعد جب آپ فارغ ہوتے ہیں تو اس پوری عبادت کے تمام اثرات شوال کی پہلی تاریخ ہی کو کافور ہوجاتے ہیں؟ ہندو اپنے تہواروں میں جو کچھ کرتے ہیں وہی سب آپ عید کے زمانے میں کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ شہروں میں تو عید کے روز بدکاری اور شراب نوشی اور قمار بازی تک ہوتی ہے اور بعض ظالم تو میں نے ایسے دیکھے ہیں جو رمضان کے زمانے میں دن کو روزہ رکھتے ہیں اور رات کو شراب پیتے اور زنا کرتے ہیں۔ عام مسلمان خدا کے فضل سے اس قدر بگڑے ہوئے تو نہیں ہیں، مگر رمضان ختم ہونے کے بعد آپ میں سے کتنے ایسے ہیں جن کے اندر عید کے دوسرے دن بھی تقویٰ اور پرہیزگاری کا کوئی اثر باقی رہ جاتا ہو؟ خدا کے قوانین کی خلاف ورزی میں کون سی کسر اٹھا رکھی جاتی ہی؟ نیک کاموں میں کتنا حصہ لیا جاتا ہی؟ اور نفسیات میں کیا کمی آجاتی ہی؟
عبادت کے غلط تصور کا نتیجہ:
سوچیے اور غور کیجیے کہ اس کی وجہ آخر کیا ہی۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں عبادت کا مفہوم اور مطلب ہی غلط ہوگیا ہی۔ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ سحر سے لے کر مغرب تک کچھ نہ کھانے اور نہ پینے کا نام روزہ ہے اور بس یہی عبادت ہی۔ اس لیے روزے کی تو آپ پوری حفاظت کرتے ہیں۔ خدا کا خوف آپ کے دل میں اس قدر ہوتا ہے کہ جس چیز میں روزہ ٹوٹنے کا ذرا سا اندیشہ بھی ہو اس سے بھی آپ بچتے ہیں۔ اگر جحان پر بھی آجائے تب بھی آپ کو روزہ توڑنے میں تامل ہوتا ہی۔ لیکن آپ یہ نہیں جانتے کہ یہ بھوکا پیاسا رہنا اصل عبادت نہیں بلکہ عبادت کی صورت ہے اور یہ صورت مقرر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ آپ کے اندر خدا کا خوف اور خدا کی محبت پیدا ہو، اور آپ کے اندر اتنی طاقت پیدا ہوجائے کہ جس چیز میںدنیا بھر کے فائدے ہوں مگر خدا ناراض ہوتا ہو اس سے اپنے نفس پر جبر کر کے بچ سکیں، اور جس چیز میں ہر طرح کے خطرات اور نقصانات ہوں مگر خدا اس سے خوش ہوتا ہو، اس پر آپ اپنے نفس کو مجبور کرکے آمادہ کرسکیں، یہ طاقت اسی طرح پیدا ہوسکتی تھی کہ آپ روزے کے مقصد کو سمجھتے اور مہینہ بھر تک آپ نے خدا کے خوف اور خدا کی محبت میں اپنے نفس کو خواہشات سے روکنے اور خدا کی رضا کے مطابق چلانے کی جو مشق کی ہے اس سے کام لیتی۔ مگر آپ تو رمضان کے بعد ہی اس مشق کو اور ان صفات کو جو اس مشق سے پیدا ہوتی ہیں اس طرح نکال پھینکتے ہیں جیسے کھانے کے بعد کوئی شحص حلق میں انگلی ڈال کر قے کردی، بلکہ آپ میں سے بعض لوگ تو روزہ کھولنے کے بعد ہی دن بھر کی پرہیزگاری کو اگل دیتے ہیں۔ پھر آپ ہی بتایئے کہ رمضان اور اس کے روزے کوئی طلسم تو نہیں ہیں کہ بس ان کی ظاہری شکل پوری کردینے سے آپ کو وہ طاقت حاصل ہوجائے جو حقیقت میں روزے سے حاصل ہونی چاہےی۔ جس طرح روٹی سے جسمانی طاقت اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ معدے میں جاکر ہضم نہ ہو اور خون بن کر جسم کی رگ رگ میں نہ پہنچ جائی، اسی طرح روزے سے بھی روحانی طاقت اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک کہ آدمی روزہ کے مقصد کو پوری طرح سمجھے نہیں اور اپنے دل و دماغ کے اندر اس کو اترنے اور خیال ،نیت، ارادے اور عمل سب پر چھا جانے کا موقع نہ دی۔
-----------
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی
ہر کام جو انسان کرتا ہی، اس میں دو چیزیں لازمی طور پر ہوا کرتی ہیں۔ ایک چیز تو وہ مقصد ہے جس کے لیے کام کیا جاتا ہے اور دوسری چیز اس کام کی وہ خاص شکل ہے جو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اختیار کی جاتی ہی۔ مثلاً کھانا کھانے کے فعل کو لیجےی۔ کھانے سے آپ کا مقصد زندہ رہنا اور جسم کی طاقت کو بحال رکھنا ہی۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی صورت یہ ہے کہ آپ نوالے بناتے ہیں ، منہ میں لے جاتے ہیں، دانتوں سے چباتے ہیں اور حلق کے نیچے اتارتے ہیں۔ چونکہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے سب سے زیادہ کارگر اور سب سے زیادہ مناسب طریقہ یہی ہوسکتا تھا، اس لیے آپ نے اسی کو اختیار کیا۔ لیکن آپ میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ اصل چیز وہ مقصد ہے جس کے لیے کھانا کھایا جاتا ہی، نہ کہ کھانے کے فعل کی یہ صورت۔ اگر کوئی شخص لکڑی کا برادہ یا راکھ مٹی لے کر اس کے نوالے بنائے اور منہ میں لے جائے اور دانتوں سے چبا کر حلق سے نیچے اتارلے تو آپ اسے کیا کہیں گی؟ یہی ناکہ اس کا دماغ خراب ہی۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ احمق کھانے کے اصل مقصد کو نہیں سمجھتا اور اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ بس فعل خوردن کے ان چاروں ارکان کو ادا کردینے ہی کا نام کھانا کھانا ہی۔ اسی طرح آپ اس شخص کو بھی پاگل قرار دیں گے جو روٹی کھانے کے بعد فوراً ہی حلق میں انگلی ڈال کر قے کردیتا ہو اور پھر شکایت کرتا ہو کہ روٹی کھانے کے جو فائدہ بیان کیے جاتے ہیں وہ مجھے حاصل ہی نہیں ہوتی، بلکہ میں تو الٹا روز بروز دبلا ہوتا جارہا ہوں اور مر جانے کی نوبت آگئی ہی۔ یہ احمق اپنی اس کمزوری کا الزام روٹی اور کھانے پر رکھتا ہے حالانکہ حماقت اس کی اپنی ہی۔ اس نے اپنی نادانی سے یہ سمجھ لیا کہ کھانے کا فعل جتنے ارکان سے مرکّب ہے بس ان کو ادا کر دینے ہی سے زندگی کی طاقت حاصل ہوجاتی ہی۔ اس لیے اس نے سوچا کہ اب روٹی کا بوجھ اپنے معدے میںکیوں رکھو؟ کیوں نہ اسے نکال پھینکا جائے تاکہ پیٹ ہلکا ہوجائی۔ کھانے کے ارکان تو میں ادا کر ہی چکا ہوں۔ یہ احمقانہ خیال جو اس نے قائم کیا اور پھر اس کی پیروی کی، اس کی سزا بھی تو آخر اسی کو بھگتنی چاہےی۔ اس کو جاننا چاہیے تھا کہ جب تک روٹی پیٹ میں جاکر ہضم نہ ہو اور خون بن کر سارے جسم میں پھیل نہ جائے اس وقت تک زندگی کی طاقت حاصل نہیں ہوسکتی۔ کھانے کے ظاہری ارکان بھی اگرچہ ضروری ہیں، کیوں کہ ان کے بغیر روٹی معدے تک نہیں پہنچ سکتی، مگر محض ان ظاہری ارکان کے ادا کردینے سے کام نہیں چل سکتا۔ ان ارکان میں کوئی جادو بھرا ہوا نہیں ہے کہ انہیں ادا کرنے سے بس طلسماتی طریقہ پر آدمی کی رگوں میں خون دوڑنے لگتا ہوں۔ خون پیدا کرنے کے لیے تو اللہ نے جو قانون بنایا ہے اسی کے مطابق وہ پیدا ہوگا۔ اس کو توڑو گے تو اپنے آپ کو خود ہلاک کرو گی۔
ظاہر کو حقیقت سمجھنے کے نتائج:
یہ مثال جو اس تفصیل کے ساتھ میں نے آپ کے سامنے بیان کی ہے اس پر آپ غور کریں تو آپ کی سمجھ میں آسکتا ہے کہ آج آپ کی عبادتیں کیوں بے اثر ہوگئی ہیں۔ جیسا کہ میں پہلے بھی آپ سے بارہا بیان کرچکا ہوں۔ سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ آپ نے نماز روزے کے ارکان اور ان کی ظاہری صورتوں ہی کو اصل عبادت سمجھ رکھا ہے اور آپ اس خیال خام میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ جس نے یہ ارکان پوری طرح ادا کردیے اس نے بس اللہ کی عبادت کردی۔ آپ کی مثال اسی شخص کی سی ہے جو کھانے کے چاروں ارکان ، یعنی نوالے بنانا، منھ میں رکھنا، چبانا، حلق سے نیچے اتاردینا، بس انہی چاروں کے مجموعے کو کھانا سمجھتا ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ جس نے یہ چار ارکان ادا کردیے اس نے کھالیا اور کھانے کے فائدے اس کو حاصل ہونے چاہئیں، خواہ اس نے ان ارکان کے ساتھ مٹی اور پتھر اپنے پیٹ میں اتارے ہوں، یا روٹی کھا کر فوراً قے کردی ہو۔ اگر حقیقت میں آپ لوگ اس حماقت میں مبتلا نہیں ہوگئے ہیں تو مجھے بتایئے یہ کیا ماجرا ہے کہ جو روزہ دار صبح سے شام تک اللہ کی عبادت میں مشغول ہوتا ہے وہ عین اس عبادت کی حالت میں جھوٹ کیسے بولتا ہی؟ غیبت کس طرح کرتا ہی؟ بات بات پر لڑتا کیوں ہی؟ اس کی زبان سے گالیاں کیوں نکلتی ہیں؟ وہ لوگوں کا حق کیسے مار کھاتا ہی؟ حرام کھانے اور حرام کھلانے کے کام کس طرح کرلیتا ہی؟ اور پھر یہ سب کام کرکے بھی اپنے نزدیک یہ کیسے سمجھتا ہے کہ میں نے خدا کی عبادت کی ہی؟ کیا اس کی مثال اس شخص کی سی نہیں ہے جو راکھ اور مٹی کھاتا ہے اور محض کھانے کے چار ارکان ادا کردینے کو سمجھتا ہے کہ کھانا اس کو کہتے ہیں؟
رمضان کے بعد پھر بے قیدی:
پھر مجھے بتایئے یہ کیا ماجرا ہے کہ رمضان بھر میں تقریباً 360 گھنٹے خدا کی عبادت کرنے کے بعد جب آپ فارغ ہوتے ہیں تو اس پوری عبادت کے تمام اثرات شوال کی پہلی تاریخ ہی کو کافور ہوجاتے ہیں؟ ہندو اپنے تہواروں میں جو کچھ کرتے ہیں وہی سب آپ عید کے زمانے میں کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ شہروں میں تو عید کے روز بدکاری اور شراب نوشی اور قمار بازی تک ہوتی ہے اور بعض ظالم تو میں نے ایسے دیکھے ہیں جو رمضان کے زمانے میں دن کو روزہ رکھتے ہیں اور رات کو شراب پیتے اور زنا کرتے ہیں۔ عام مسلمان خدا کے فضل سے اس قدر بگڑے ہوئے تو نہیں ہیں، مگر رمضان ختم ہونے کے بعد آپ میں سے کتنے ایسے ہیں جن کے اندر عید کے دوسرے دن بھی تقویٰ اور پرہیزگاری کا کوئی اثر باقی رہ جاتا ہو؟ خدا کے قوانین کی خلاف ورزی میں کون سی کسر اٹھا رکھی جاتی ہی؟ نیک کاموں میں کتنا حصہ لیا جاتا ہی؟ اور نفسیات میں کیا کمی آجاتی ہی؟
عبادت کے غلط تصور کا نتیجہ:
سوچیے اور غور کیجیے کہ اس کی وجہ آخر کیا ہی۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں عبادت کا مفہوم اور مطلب ہی غلط ہوگیا ہی۔ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ سحر سے لے کر مغرب تک کچھ نہ کھانے اور نہ پینے کا نام روزہ ہے اور بس یہی عبادت ہی۔ اس لیے روزے کی تو آپ پوری حفاظت کرتے ہیں۔ خدا کا خوف آپ کے دل میں اس قدر ہوتا ہے کہ جس چیز میں روزہ ٹوٹنے کا ذرا سا اندیشہ بھی ہو اس سے بھی آپ بچتے ہیں۔ اگر جحان پر بھی آجائے تب بھی آپ کو روزہ توڑنے میں تامل ہوتا ہی۔ لیکن آپ یہ نہیں جانتے کہ یہ بھوکا پیاسا رہنا اصل عبادت نہیں بلکہ عبادت کی صورت ہے اور یہ صورت مقرر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ آپ کے اندر خدا کا خوف اور خدا کی محبت پیدا ہو، اور آپ کے اندر اتنی طاقت پیدا ہوجائے کہ جس چیز میںدنیا بھر کے فائدے ہوں مگر خدا ناراض ہوتا ہو اس سے اپنے نفس پر جبر کر کے بچ سکیں، اور جس چیز میں ہر طرح کے خطرات اور نقصانات ہوں مگر خدا اس سے خوش ہوتا ہو، اس پر آپ اپنے نفس کو مجبور کرکے آمادہ کرسکیں، یہ طاقت اسی طرح پیدا ہوسکتی تھی کہ آپ روزے کے مقصد کو سمجھتے اور مہینہ بھر تک آپ نے خدا کے خوف اور خدا کی محبت میں اپنے نفس کو خواہشات سے روکنے اور خدا کی رضا کے مطابق چلانے کی جو مشق کی ہے اس سے کام لیتی۔ مگر آپ تو رمضان کے بعد ہی اس مشق کو اور ان صفات کو جو اس مشق سے پیدا ہوتی ہیں اس طرح نکال پھینکتے ہیں جیسے کھانے کے بعد کوئی شحص حلق میں انگلی ڈال کر قے کردی، بلکہ آپ میں سے بعض لوگ تو روزہ کھولنے کے بعد ہی دن بھر کی پرہیزگاری کو اگل دیتے ہیں۔ پھر آپ ہی بتایئے کہ رمضان اور اس کے روزے کوئی طلسم تو نہیں ہیں کہ بس ان کی ظاہری شکل پوری کردینے سے آپ کو وہ طاقت حاصل ہوجائے جو حقیقت میں روزے سے حاصل ہونی چاہےی۔ جس طرح روٹی سے جسمانی طاقت اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ معدے میں جاکر ہضم نہ ہو اور خون بن کر جسم کی رگ رگ میں نہ پہنچ جائی، اسی طرح روزے سے بھی روحانی طاقت اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک کہ آدمی روزہ کے مقصد کو پوری طرح سمجھے نہیں اور اپنے دل و دماغ کے اندر اس کو اترنے اور خیال ،نیت، ارادے اور عمل سب پر چھا جانے کا موقع نہ دی۔
-----------
No comments:
Post a Comment