ڈاکٹر
اسلم جمشید پوری
آپؑ
کے یوم پیدائش پر خصوصی مضمون
عالم
انسانیت کے لیے رحمت ،حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم
آج ہمارے ملک میں سب سے بڑا خطرہ فرقہ
پرستی ہی۔ لوگ مذہب پرستی کی آڑ میں، مذہب کی بنیادی باتوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں
اور ذاتی غرض، نفس پرستی اور ظا ہری شان و شوکت کو مذہب کی آڑ میںپایۂ تکمیل تک پہنچا
رہے ہیں۔
مردم شماری کے اعداد و شمار پر نظر
ڈا لتے ہیں تو آج دنیا کے دو بڑے مذا ہب میں سے ایک اسلام ہی۔ یہ وہ مذہب ہے جس نے
پہلی بار عورتوں کے حقوق کی بات کی۔ یہ وہ مذہب ہے جس نے عوام کو تہذیب سکھائی۔یہی
وہ مذہب ہے جس نے ہم کو مساوات کا درس دیا کہ بادشاہ ،غلام ایک ساتھ ایک دستر خوان
پر کھانا کھائیں۔یہی دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جس نے بیوا ئوں سے شادی کر نے کی رسم
کی داغ بیل ڈا لی۔
آج بہت سے لوگ( غیر مسلم) کہتے ہیں
کہ اسلام میں صرف مسلمانوں کی اصلاح کی بات کہی گئی ہے اور یہ کہ حضرت محمد صلی اللہ
علیہ وسلم تو دنیا میں صرف مسلمانوں کے لیے پیدا کیے گئے جب کہ قرآن شاہد ہے کہ حضرت
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے دنیا میں صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بھیجا بلکہ
پو ری عالم انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجا....قرآن میں اللہ تعالی ا فرماتا ہے وما
ارسلناک الا رحمۃ اللعٰلمین ۔جس کا مفہوم ہے کہ آپ کو ساری دنیا کے لیے رحمت بناکر
بھیجا گیا۔ صاف ظاہر ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت صرف مسلمانوں کے لیے
نہیں ہو ئی اور نہ ہی آپ نے تبلیغ اسلام میں کسی تفریق یا امتیاز کو روا رکھا بلکہ
دوست ہوں یا دشمن، اپنے ہوں یا غیر، ہم مذہب ہوں یا غیر مذہب، گورے ہوں یا کالے ،سب
کے لیے آپ کا پیغام یکساں ہی۔
آپؐ اخلاق و کردار کے اعلیٰ نمونہ
تھی۔ خدا نے آپ کو لوگوں کے لیے نمونہ بنا کر بھیجا تھا۔ آپ کی سب سے بڑی خوبی قول
و فعل کا ایک ہونا تھی،جو کہہ دیا سو کردکھایا،جس سے وعدہ کرلیا اس کو مرتے دم تک نبھایا۔
امین ایسے کہ غیر قسمیں کھاتے تھی، ایمانداری کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ بچپن ہی سے آپ فضول
اور لغو باتوں و کاموں سے دور رہتے تھی۔ آپ کی ایمانداری اور شرافت کا شہرہ تھا۔
ایک بار کا ذکر ہے کہ اس وقت آپ کی
عمر ۵۳
برس کے قریب تھی،کعبے کی دیکھ ریکھ کی ذمہ داری شروع
ہی سے قریش خاندان کے لوگوں پر تھی۔ ایک بار خانہ کعبہ کو ازسر نو تعمیر کیا گیا۔ تعمیر
میں تمام قبیلوں کے سرداروں نے مل جل کر کام کیا۔ لیکن ایک زبردست مسئلہ اچانک سامنے
آ گیا جب تعمیر حجر اسود کے مقام تک مکمل ہو گئی تو حجر اسود کو اس کے مقام پر رکھنے
کی بات آئی، ہر قبیلے کا سردار یہ چاہتا تھا کہ حجر اسود کو اٹھا کر وہ رکھی۔ معاملہ
بڑھ گیا۔ممکن تھا کہ ہتھیار باہر نکل آ تے کہ چند بزرگوں نے مشورہ کیا اور یہ طے پایا
کہ کل صبح جو شخص سب سے پہلے مسجد حرام کے دروازے پر آ ئے گا ہم یہ مسئلہ اس کے سپرد
کر دیں گی، وہ جو فیصلہ کرے گا ہم سب اسے مانیں گی، اگلے روز خدا کی کرنی،حضرت محمد
صلی اللہ علیہ وسلم ہی سب سے پہلے مسجد حرام
کے دروا زے پر پہنچی۔ لوگوں نے آپ کو دیکھا تو بہت خوش ہو ئی۔ آپ نے فوراً ایک چادر
منگوائی۔ حجر اسود کو اٹھا کر چادر میں رکھ دیا اور چادر کے کونی،قبیلے کے سرداروں
کو پکڑنے کو کہا اور جب لوگ کعبہ تک پہنچ گئے تو آپ نے اسے چادر سے اٹھا کر اس کے مقام
پر رکھ دیا۔ اس طرح آپ کی حکمت اور بصیرت سے ایک بڑا فتنہ ٹل گیا۔
آپ دشمنوں کے بھی دوست تھی۔ کبھی دشمن
کے حق میں بد دعا نہ کی بلکہ آ پ کا ظرف تو اتنا اعلی تھا کہ دشمنوں کی مار کھاتے جاتے
اور ان کے حق میں دعا ئیں کرتے جاتی۔ سخت سے سخت جانی دشمن تک کو،جب اسلام کا دبدبہ
قائم ہوگیا ،تو معاف کردیا، سینکڑوں مثا لیں ہوں گی جن میں آ پ نے دشمنوں سے دوستوں
جیسا برتائو کیا اور انہیں گلے لگایا۔
ایک بار آپ تبلیغ اسلام کے لیے طائف
تشریف لے گئی۔ طائف جسے ملک حجاز کا کشمیر کہا جاتا ہی۔ بلند و بالا پہاڑیاں اسے گھیرے
ہوئے ہیں۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچا کہ اگر طا ئف کے لوگ مسلمان ہو گئے
تو اسلام کی قوت میں اضا فہ ہو گا۔ اس مقصد سے آپ پا پیادہ ہی طائف تشریف لے گئی۔ طائف
کے سرداروں کو جمع کیا اور ان کے سا منے اسلام کی پیش کش رکھی۔ لیکن ا ن سرداروں نے
نہ صرف آپ کی بات نہیں سنی بلکہ عرب والوں کا طرہ امتیاز (مہمان داری) بھی بھول گئے
اور آپ کے ساتھ نا روا سلوک کیا۔ ان میں سے ایک نے کہا
’’ او ہو آپ ہی کو اللہ نے نبی بنا کر بھیجا ہی؟‘‘
دوسرے نے کہا
’’اللہ کو تمہارے سوا کوئی نہ ملا جسے رسول بنا کر بھیجی۔‘‘
لیکن آ پ نے برا نہ مانا اور عوام
کو سمجھانے چلے گئی۔ لیکن کسی نے آپ کی بات نہ سنی۔ آپ واپس ہو لیی۔ ابھی کچھ ہی دور
گئے تھے کہ طائف کے سرداروں نے بچوں اور نوجوانوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا تاکہ وہ گالی
بکیں اور پتھر ماریں۔ آپ پر پتھروں کی بارش ہونے لگی۔ پورا جسم لہو لہان ہو گیا۔ آپ
کے نعلین مبا رک خون سے بھر گئی، جب کچھ دور جانے کے بعد بچے لوٹ گئے تو آپ نے اطمینان
کا سانس لیا اورخدا کے حضور دعا مانگی۔
’’ اے اللہ میں تجھی سے شکایت کرتا
ہوں اپنی کمزوری اور بے بسی کی اور لوگوں میں بے عزت ہو نے کی....اے اللہ اگر تو مجھ
سے نا را ض نہیں ہے تو مجھے کسی کی بھی پرواہ نہیں ہی۔ تیرا تحفظ مجھے کافی ہی۔‘‘
اللہ نے فوراً فرشتوں کو بھیجا۔ فرشتوں
نے آ کر سلام کیا اور کہا اللہ نے آپ کی اور طائف وا لوں کی باتیں سنی ہیں۔ پہاڑوں
کے کام پر تعینات فرشتے نے کہا اگر آپ حکم دیں تو ان دونوں پہاڑوں کو آپس میں ملا دوں
جس سے سب ختم ہوجائیں یا آپ جو سزا چاہیں وہ بتا دیں۔ اس پر رحمۃ اللعلمین نے فرشتوں
سے فر مایا:
’’ میں اللہ سے اس کی امید کرتا ہوں کہ اگر یہ مسلمان نہیں ہو ئے تو ان کی اولاد
میں سے ایسے لوگ پیدا ہو ں گے جو اللہ کی عبادت اور پو جا کریں گی۔‘‘
یہ آپ کے اخلاق و کردار اور دشمنوں
کے ساتھ سلوک کی ایک مثال تھی کہ خود لہو لہان ہیں ۔فرشتے آپ کے حکم کے منتظر ہیں۔
سب کچھ آپ کے بس میں ہی۔ پھر بھی دشمن کو نہ تو بد دعا دی اور نہ ہی فرشتوں کو ان کی
تباہی کا حکم بلکہ خدا کے حضور خود کو ہی بے کس کہا۔
اس واقعہ پر غور کریں تو معلوم ہو
گا کہ اپنے نفس کو کچلنا اور دشمن کو گلے لگانا کتنی بڑی بات ہی۔ آج اس ترقی یافتہ
دور نے جہاں ہم کو معیار کے نام پر بہت کچھ دیا ہے وہیں ہمارے اندر سے اخلاق و کردار
کو کھرچ کھرچ کر نکال دیا ہے آج ہم دشمن تو دشمن، دوستوں اور اپنوں سے ایسا سلوک نہیں
کرتے اور نہ ہی ان سے امید رکھتے ہیں۔اپنے بھائیوں کو تو گلے لگانے سے گئے ،دشمنوں
کو کیا خاک گلے لگائیں گی۔ دشمن کو معاف کرنا تو بڑی بات ہے ہم تو اپنے خونی رشتوں
کو بھی نہیں بخشتی۔ نفس پرستی کی آگ نے آج ہمیں انسانیت سے گرادیا ہی۔ آج حضرت محمد
صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و کردار کو اپنانے اور انہیں اپنی زندگی میںاتارنے کی
ضرورت ہی۔اور اپنے فکر وعمل سے اسلام کی سچی تصویر پیش کرنا وقت کا اہم تقاضا ہی۔
٭٭
Dr. Aslam Jamshedpuri
HOD, Urdu,
CCS University, Meerut
aslamjamshedpuri@gmail.com
09456259850
No comments:
Post a Comment