آج کے دن
داغؔ دہلوی کا یومِ پیدائش
May 25, 1831
والد کا نام شمس الدین خاں تھا. جو فیروز پور جھتکہ کے رئیس اور احمد بخش خاں کے بیٹے تھے، یہ خاندان دہلی کا مشہور و معروف خاندان تھا، غالب کے خسر الٰہی بخش انہیں شمس الدین خاں کے چچا اور امین الدین خاں و ضیاءالدین خاں نیرورخشاں ان کے چھوٹے بھائی تھے.
آپ کے والد شمس الدین خاں نے اپنے ملازم کریم خاں سے ولیم فریزر کو قتل کرادیا اور اسی الزام میں انگریزوں نے ان پر سرسری مقدمہ چلا کر 3، اکتوبر 1838ء کو کشمیری دروازے کے قریب فوج کی نگرانی میں پھانسی دے دی اور ان کے سوتیلے بھائیوں نے فیروز پور جھرکہ اور ان کی ساری جائیداد پہ قبضہ کر لیا.
والد کے انتقال کے بعد آپ کی والدہ نے آپ کو اپنی بڑی بہن عمدہ خانم کے پاس رام پور بھیج دیا. رام پور پہنچ کر داغ نے مولوی غیاث الدین (صاحبِ غیاث اللغات) سے فارسی پڑھنی شروع کی. جب داغ کی والدہ نے مرزا فخرو خلف بہادر شاہ ظفر و ولی عہد سے نکاح کر لیا اور قلعہ معلی میں پہنچ گئیں تو انہوں نے داغ کو بھی اپنے پاس بلا لیا.
یہاں آپ کو مولوی سید احمد ابن میر غلام حسین شکیبا نے درسی کتابیں پڑھائیں اور سید امیر پنجہ کس نے خطاطی سکھائی.
اردو زبان نے جب دنیا میں آنکھ کھولی تو قطب شاہ نے اسے گودوں کھلایا پھر ولی، میر و سودا، غالب و مومن اور ذوق جیسے نامور شعراء نے اسے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا.. مانا کہ مذکورہ بالا سبھی حضرات نے اردو کو ہنسنا، بولنا، سکھایا. پھر 25 مئی 1831ء کو پیدا ہونے والی ہستی نے اس زبان کو نا صرف گودوں کھلایا، بلکہ اسے اپنے قدم مضبوط کرنے میں مدد دی. اردو ان کا عشق تھا، جبھی وہ کہتے ہیں..
** اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے.
" داغ کی اردو اتنی عمدہ ہے کہ کسی کی کیا ہوگی!ذوق نے اردو کواپنی گو دمیں پالا تھا. داغ اس کو نہ صرف پال رہا ہے بلکہ اس کو تعلیم بھی دے رہا ہے."
داغ چھ برس کے تھے جب والد محترم کا سایہ سر پر سے اٹھا گیا. آپ کی والدہ نے بہادر شاہ ظفر کے پوتے مرزا فخرو سے شادی کی، تو داغ دہلوی کو بہادر شاہ ظفر اور ابراہیم ذوق جیسی ہستیوں کی صحبت نصیب ہوئی. جس اردو کو ذوق نے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا تھا اسی کو داغ نے اپنے قدموں پہ دوڑنا سکھایا. داغ کی اردو سنوارنے میں ذوق کا بڑا حصہ ہے. غالب نے داغ کے بارے میں جو کہا وہ آپ نے پڑھ لیا، اب دیگر قدردان کیا کہہ گئے، آئیے پڑھتے ہیں:
"خاص کر داغ نے غزل کی زبان میں نہایت وسعت اور صفائی اور بانکپن پیدا کر دیا ہے." حالی.
امیر مینائی کہتے ہیں:
"میرے سامنے جو داغ کو برا کہتا ہے میرا جی چاہتا ہے کہ میں اس کا منہ نوچ لوں. ایسا مطلع کون کہہ سکتا ہے، کوئی کہہ کر تو دکھائے."
** خار حسرت بیان سے نکلا.
دل کا کانٹا زبان سے نکلا.
اور مولانا عبدالسلام ندوی کچھ یوں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں:
"نواب مرزا داغ جیسا برجستہ گو شاعر پیدا ہوا جس کی ذات پر اردو شاعری کے آخری دور میں دل کو ناز تھا."
مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہاں کی ہے
سنتا ہوں اب کہ روز طلب قصہ خواں کی ہے
میری زباں کی ہے نہ تمہاری زباں کی ہے
آج مقبول ترین شاعر داغؔ دہلوی کا یومِ پیدائش.
داغ دہلوی 12،ذی الحجہ 1246 ہجری مطابق 25، مئی 1831ء کو چہار شنبہ کے روز دن کے دو بجے چاندنی چوک دہلی میں پیدا ہوئے نام نواب مرزا خان تھا اور داغ تخلص استعمال کرتے.
یہاں ذکر ہے "نواب مرزا خان داغ دہلوی" جنہوں نے اردو کو نیا رتبہ اور الگ مقام عطا کیا. وہیں ارود نے انہیں بھی بہت سے جگمگاتے ستاروں میں قطب ستارہ بنایا. مرزا غالب نے ان کے بارے میں یوں کہا:
منتخب کلام:
کعبے کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے
سن کر مرا فسانہ انہیں لطف آگیا
پیغامبر کی بات پر آپس میں رنج کیا
کچھ تازگی ہو لذتِ آزار کے لئے
ہر دم مجھے تلاش نئے آسماں کی ہے
جانبر بھی ہوگئے ہیں بہت مجھ سے نیم جان
کیا غم ہے اے طبیب جو پوری وہاں کی ہے
حسرت برس رہی ہے ہمارے مزار پر
کہتے ہیں سب یہ قبر کسی نوجواں کی ہے
وقتِ خرامِ ناز دکھا دو جدا جدا
یہ چال حشر کی یہ روش آسماں کی ہے
فرصت کہاں کہ ہم سے کسی وقت تو ملے
دن غیر کا ہے رات ترے پاسباں کی ہے
قاصد کی گفتگو سے تسلی ہو کس طرح
چھپتی نہیں وہ بات جو تیری زباں کی ہے
جورِ رقیب و ظلمِ فلک کا نہیں خیال
تشویش ایک خاطرِ نامہرباں کی ہے
سن کر مرا فسانہء غم اس نے یہ کہا
ہوجائے جھوٹ سچ یہی خوبی بیاں کی ہے
دامن سنبھال باندھ کمر آستیں چڑھا
خنجر نکال دل میں اگر امتحاں کی ہے
ہر ہر نفس میں دل سے نکلنے لگا غبار
کیا جانے گردِ راہ یہ کس کارواں کی ہے
کیونکر نہ آتے خلد سے آدم زمین پر
موزوں وہیں وہ خوب ہے جو سنتے جہاں کی ہے
تقدیر سے یہ پوچھ رہا ہوں کہ عشق میں
تدبیر کوئی بھی ستمِ ناگہاں کی ہے
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
..........( پیشکش : ایچ )...........