You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Thursday, May 26, 2016

ساغر صدیقی

ساغر صدیقی اردو شاعری کا ایک معتبر اور قدآور نام
ساغر صدیقی1928ءانبالہ بھارت میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنا بچپن سہارنپور اور انبالہ میں گزرا ۔ساغر صدیقی کا اصل نام محمداختر شاہ تھا اور وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے ۔​
ساغر صدیقی نے ایک مرتبہ کہا تھا:​
"میری ماں دلی کی تھی، باپ پٹیالے کا، پیدا امرتسر میں ہوا، زندگی لاہور میں گزاری! میں بھی عجیب چوں چوں کا مربّہ ہوں"
اس قول میں صرف ایک معمولی غلطی کے سوا اور سب سچ ہے۔"
ساغر کو اپنے اکلوتے ہونے کا بھی بہت رنج تھا، وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
"میں نے دنیا میں خداوندِ رحیم و کریم سے بہن بھائی کا عطیہ بھی نہیں پایا۔ یہ معلوم نہیں کہ خدا کو اِس تنہائی سے یگانہ بنانا مقصود تھا یا بیگانہ؟ بہر حال شاید میری تسکینِ قلبی کے لئے کسی کا نام بھائی رکھ دیا گیا ہوجو سراسر غلط ہے۔ دنیا کی چھ سمتوں پہ نظر رکھنے والے صاحبِ فراست لاہور کی سڑکوں پر مجھے جب چاہیں ٹوٹا ہوا بازو کالی چادر میں چھپائے، احساس کے الٹے پاؤں سے چلتا پھرتا دیکھ سکتے ہیں۔اگر کوئی بہن بھائی ہوتا تو یہ حال نہ ہوتا۔"​
ساغر کا بچپن انتہائی نا مساعد حالات میں گزرا۔ ساغر نے حبیب حسن خاں سے گھر پہ ہی اردو زبان کی تعلیم حاصل کی۔ اسی دور میں ساغر میں شاعری کا جذبہ پروان چڑھا جس نے محمد اختر شاہ کو ساغر صدیقی بنا دیا۔ ساغر نے ابتدا میں ناصر حجازی تخلص رکھا تھا مگر بعد میں ساغر صدیقی رکھ لیا۔ ساغر نے کلام پر اصلاح لینے کے لیے لطیف انور گورداسپوری مرحوم کا انتخاب کیا اور ان سے بہت فیض اٹھایا۔ساغر نے امرتسر میں کنگھیاں بنانے کا کام بھی کیا۔​
ساغر کی اصل شہرت 1944ء میں ہوئی۔ اس سال امرتسر میں ایک بڑے پیمانے پر مشاعرہ قرار پایا۔ اس میں شرکت کے لیے لاہور کے بعض شاعر بھی مدعو تھے۔ ان میں ایک صاحب کو معلوم ہوا کہ یہ "لڑکا" (ساغر صدیقی) بھی شعر کہتا ہے۔ انہوں نے منتظمین سے کہہ کر اسے مشاعرے میں پڑھنے کا موقع دلوا دیا۔ ساغر کی آواز میں بلا کا سوز تھا اور وہ ترنم میں پڑھنے میں جواب نہیں رکھتا تھا۔ بس پھر کیا تھا، اس شب اس نے صحیح معنوں میں مشاعرہ لوٹ لیا۔​
1947ء میں پاکستان بنا تو وہ امرتسر سے لاہور چلا گیا۔ یہاں دوستوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس کا کلام مختلف پرچوں میں چھپنے لگا۔ سینما فلم بنانے والوں نے اسے گیتوں کی فرمائش کی اور اسے حیرت ناک کامیابی ہوئی۔ اس دور کی متعدد فلموں کے گیت ساغر کے لکھے ہوئے ہیں۔ اس زمانے میں اس کے سب سے بڑے سرپرست انور کمال پاشا (ابن حکیم احمد شجاع مرحوم) تھے۔ جو پاکستان میں فلم سازی کی صنعت کے بانیوں میں ہیں۔ انہوں نے اپنی بیشتر فلموں کے گانے ساغر سے لکھوائے اور یہ بہت مقبول ہوئے۔ساغر نے لکھا تھا کہ​
"تقسیم کے بعدصرف شعر لکھتا ہوں، شعر پڑھتا ہوں، شعر کھاتا ہوں، شعر پیتا ہوں۔"​
ساغر کی شاعری کے سلسلے میں ایک واقعہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ:​
لائل پور کاٹن مل میں ملک گیر طرحی مشاعرہ ہوتا تھا۔ 1958ء میں جگر مراد آبادی کی صدارت میں مشاعرہ ہوا۔ مصرع طرح تھا​
سجدہ گاہ عاشقاں پر نقش پا ہوتا نہیں​
مختلف شعراء کے بعد ساغر صدیقی نے اپنی یہ غزل سنائی​
ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں​

ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں​
جی میں آتا ہے الٹ دیں انکے چہرے سے نقاب​
حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں​
شمع جس کی آبرو پر جان دے دے جھوم کر​
وہ پتنگا جل تو جاتا ہے فنا ہوتا نہیں​
اب تو مدت سے رہ و رسمِ نظارہ بند ہے​
اب تو ان کا طُور پر بھی سامنا ہوتا نہیں​
ہر شناور کو نہیں ملتا تلاطم سے خراج​
ہر سفینے کا محافظ ناخدا ہوتا نہیں​
ہر بھکاری پا نہیں سکتا مقامِ خواجگی​
ہر کس و ناکس کو تیرا غم عطا ہوتا نہیں​
ہائے یہ بیگانگی اپنی نہیں مجھ کو خبر​
ہائے یہ عالم کہ تُو دل سے جُدا ہوتا نہیں
بارہا دیکھا ہے ساغرؔ رہگذارِ عشق میں
کارواں کے ساتھ اکثر رہنما ہوتا نہیں​
یہ غزل سن کر جگر جھوم اٹھے اور حاضرین محفل نے خوب داد دی ۔ جگر مرادآبادی نے اپنی باری آنے پر کہا کہ میری غزل کی ضرورت نہیں حاصل مشاعرہ غزل ہو چکی اور اپنی غزل کو اسیٹج پر ہی پھاڑ دیا۔​
ساغر صدیقی نے ہفت روزہ "تصویر" کی ادارت بھی کی۔ ایک اور واقعہ جو وکیپیڈیا سے لیا گیا ہے، پڑھنے اور ساغر کوخراجِ تحسین پیش کرنے کے قابل ہے۔​
اکتوبر 1958ء میں پاکستان میں فوجی انقلاب میں محمد ایوب بر سر اقتدار آگئے اور تمام سیاسی پارٹیاں اور سیاست داں جن کی باہمی چپقلش اور رسہ کشی سے عوام تنگ آ چکے تھے۔ حرف غلط کی طرح فراموش کر دیے گئے۔ لوگ اس تبدیلی پر واقعی خوش تھے۔ ساغر نے اسی جذبے کا اظہار ایک نظم میں کیا ہے، اس میں ایک مصرع تھا:​
کیا ہے صبر جو ہم نے، ہمیں ایوب ملا​
یہ نظم جرنیل محمد ایوب کی نظر سے گزری یا گزاری گئی۔ اس کے بعد جب وہ لاہور آئے تو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میں اس شاعر سے ملنا چاہتا ہوں جس نے یہ نظم لکھی تھی۔ اب کیا تھا! پولیس اور خفیہ پولیس اور نوکر شاہی کا پورا عملہ حرکت میں آگیا اور ساغر کی تلاش ہونے لگی۔ لیکن صبح سے شام تک کی پوری کوشش کے باوجود وہ ہاتھ ‍ نہ لگا۔ اس کا کوئی ٹھور ٹھکانہ تو تھا نہیں، جہاں سے وہ اسے پکڑ لاتے۔ پوچھ‍ گچھ‍ کرتے کرتے سر شام پولیس نے اسے پان والے کی دوکان کے سامنے کھڑے دیکھ‍ لیا۔ وہ پان والے سے کہہ رہا تھا کہ پان میں قوام ذرا زیادہ ڈالنا۔ پولیس افسر کی باچھیں کھل گئیں کہ شکر ہے ظلّ سبحانی کے حکم کی تعمیل ہو گئی۔ انہوں نے قریب جا کر ساغر سے کہا کہ آپ کو حضور صدر مملکت نے یاد فرمایا ہے۔ ساغر نے کہا:​
بابا ہم فقیروں کا صدر سے کیا کام! افسر نے اصرار کیا، ساغر نے انکار کی رٹ نہ چھوڑی۔ افسر بے چارا پریشان کرے تو کیا کیونکہ وہ ساغر کو گرفتار کرکے تو لے نہیں جا سکتا تھا کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا تھا اور اسے کوئی ایسی ہدایت بھی نہیں ملی تھی، جرنیل صاحب تو محض اس سے ملنے کے خواہشمند تھے اور ادھر یہ "پگلا شاعر" یہ عزت افزائی قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اب افسر نے جو مسلسل خوشامد سے کام لیا، تو ساغر نے زچ ہو کر اس سے کہا:​
ارے صاحب، مجھے گورنر ہاؤس میں جانے کی ضرورت نہیں۔ وہ مجھے کیا دیں گے۔ دو سو چار سو، فقیروں کی قیمت اس سے زیادہ ہے۔ جب وہ اس پر بھی نہ ٹلا تو ساغر نے گلوری کلے میں دبائی اور زمین پر پڑی سگرٹ کی خالی ڈبیہ اٹھا کر اسے کھولا۔ جس سے اس کا اندر کا حصہ نمایاں ہو گیا۔ اتنے میں یہ تماشا دیکھنے کو ارد گرد خاصی بھیڑ جمع ہو گئی تھی۔ ساغر نے کسی سے قلم مانگا اور اس کاغذ کے ٹکڑے پر یہ شعر لکھا:​
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
(ساغر صدیقی بقلم خود)​
اور وہ پولیس افسر کی طرف بڑھا کر کہا:​
یہ صدر صاحب کو دے دینا، وہ سمجھ جائیں گے اور اپنی راہ چلا گیا۔​

No comments:

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP