حضرت شیخ الاسلام امام غزالی نے احیاء العلوم میں ایک حاسد آدمی کی یہ حکایت فرمائی ہے کہ ایک شخص بادشاہ کے سامنے کھڑا ہوکر یہ کہا کرتا تھا کہ نیک لوگوں کے ساتھ نیکی کرو اور محسن کے احسان کا بدلہ دو کیوںکہ برائی کرنے والے کی برائی تمہاری طرف سے خود کفایت کرے گی۔ یہ شخص بادشاہ کے سامنے یہ نصیحت کیا کرتا تھا جس سے اس کی بڑی عزت تھی۔ اس کی عزت، عظمت اور مرتبہ کو دیکھ کر ایک شخص کو حسد پیدا ہوگیا۔ اس نے بادشاہ سے شکایت کی کہ یہ شخص حضور کے سامنے کھڑا ہوکر گندہ دہن بتاتا ہے۔ بادشاہ نے کہا اس کی تصدیق کیسے ہو؟ حاسد نے کہا جب وہ آپ کے پاس آئے تو آپ اسے اپنے قریب بلا لیجیے، جب وہ آپ کے بالکل قریب آجائے گا تو اپنی ناک بند کرلے گا، تاکہ آپ کے منہ کی بدبو نہ آنے پائے۔ بادشاہ نے کہا بہت اچھا، کل امتحان کریں گے۔ ادھر اس حاسد نے بادشاہ سے یہ کہا، ادھر اس نے جاکر اس ناصح و نیک آدمی کی دعوت کرکے ایسا کھانا کھلایا جس میں لہسن بہت سا تھا۔ یہ کھانا کھا کر فارغ ہی ہوا تھا کہ دربار کا وقت آگیا۔ بدستور سابق بادشاہ کے سامنے کھڑے ہوکر اس نے وہی جملہ کہا جو کہا کرتا تھا۔ بادشاہ نے اس کو اپنے پاس بلانے کا اشارہ کیا، اس نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا تاکہ اپنے منہ کی بدبو بادشاہ تک نہ پہنچنے پائے۔ منہ پر ہاتھ رکھے وہ بادشاہ کے پاس پہنچ گیا۔ بادشاہ کو کل کی بات پر یقین آگیا کہ وہ بات بالکل سچ ہے، جو حاسد نے کہی تھی۔ اسی وقت بادشاہ نے اپنے ہاتھ سے اپنے خاص گورنر کے پاس اس مضمون کا ایک خط لکھا کہ جب حامل رقعہ ہذا تمہارے پاس پہنچے تو فوراً اسے قتل کرکے اس کے چمڑے میں بھس بھروا کر ہمارے پاس بھیج دو۔ اس خط کو اس شخص کے حوالے کرکے کہا کہ فلاں حاکم کے پاس اس خط کو لے جاؤ۔ چناںچہ وہ خط لے کر بادشاہ کے دربار سے باہر آیا۔ اس بادشاہ کا دستور تھا کہ جب وہ دستی خط لکھتا تھا تو کسی کے نام جاگیر و انعام کے لیے لکھتا تھا۔ راستہ میں وہی حاسد ملا، اس کے ہاتھ میں خط دیکھ کر پوچھا یہ کیا ہے۔ اس نے کہا کہ یہ شاہی خط ہے جو مجھے لکھ کر دیا ہے کہ فلاں حاکم کے پاس لے جاؤں۔ اس حاسد نے یہ سمجھا کہ اس شاہی خط میں بادشاہ نے کچھ انعام اور جاگیر کے لیے لکھا ہوگا۔ اس حاسد نے اس شخص سے کہا کہ یہ خط مجھے دے دو میں لے جاؤں گا۔ اس شخص نے کہا کہ اچھا میں تمہیں یہ خط ہبہ کرتا ہوں، لے جاؤ۔ اس حاسد نے اس خط کو انعام کے لالچ میں اس حاکم کے سامنے لے جا کر پیش کیا۔ حاکم نے اس خط کو پڑھ کر حامل رقعہ سے کہا کہ اس خط میں بادشاہ نے یہ لکھا ہے کہ میں تمہیں قتل کرکے تمہاری کھال کھنچوا کر اس میں بھس بھروا کے بادشاہ کے پاس بھیجوں۔ تو یہ حاسد حامل رقعہ بہت گھبرایا اور کہنے لگا کہ یہ دوسرے کا خط ہے جو میں لے آیا ہوں، خدا کے واسطے یہ خط مجھے واپس کردو۔ میں بادشاہ کے پاس واپس لے جاؤں۔ اس حاکم نے کہا کہ بادشاہ کا آیا ہوا خط واپس نہیں جاسکتا۔ اب میں تم کو قتل کروں گا اور بادشاہ کے حکم کے مطابق تمہارے چمڑے میں بھس بھروا کر بادشاہ کے پاس بھیجوں گا۔ چناںچہ اس حاسد کو قتل کرا کر اس کے چمڑے میں بھس بھروا کر بادشاہ کے پاس بھیج دیا۔ ادھر وہ نیک شخص جو بادشاہ کے سامنے روزانہ کھڑا ہوکر یہ کہا کرتا تھا کہ محسن کے احسان کا بدلہ اچھا دینا چاہیے کیوںکہ برائی کرنے والے کو خود اس کی برائی ہلاک کرے گی بادشاہ کے پاس گیا اور اپنی عادت کے مطابق وہی کہا تو بادشاہ کو بہت تعجب ہوا کہ میں نے تو اسے قتل کرانے کے لیے فلاں حاکم کے پاس بھیج دیا تھا، یہ کیسے آگیا اور پھر حاسد کا بھس بھرا چمڑہ بھی آگیا تو بادشاہ نے پوچھا یہ کیا ماجرا ہے۔ اس بزرگ شخص نے کہا حضور اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔ بادشاہ نے اس سے کہا کہ اس نے تمہارے متعلق مجھ سے کہا تھا کہ تم میری برائیاں کرتے پھرتے ہو اور مجھے گندہ دہن کہتے ہو۔ اس نے کہا کہ میں نے ہرگز یہ بات نہیںکہی ہے۔ بادشاہ نے کہا جب میں نے تمہیں اپنے پاس بلایا تھا تو تم نے اپنے ہاتھ کو اپنے منہ پر کیوں رکھ لیا تھا؟ اس نے کہا کہ اس نے میری دعوت کی تھی اور کھانے میں لہسن ڈال دیا تھا۔ آپ نے مجھے بلایا، میں آگیا، تو میں نے اپنے دل میں یہ خیال کیا کہ لہسن کی بدبو آپ کو ناگوار گزرے گی، اس لیے میں نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا تاکہ آپ کو بدبو نہ پہنچے۔ بادشاہ نے کہا، سچ ہے تم اپنا کام کرو، بدی کرنے والے کو اس کی بدی تمہاری طرف سے کافی ہوگئی۔
سچ فرمایا اللہ نے:
وَلَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّیءُ اِلَّا بِاَہْلِہٖ۔ (فاطر:۴۳)
اور بری تدبیر کرنے والوں کا وبال ان بری تدبیر کرنے والوں ہی پر پڑتا ہے۔
Wednesday, May 11, 2016
حضرت شیخ الاسلام امام غزالی نے احیاء العلوم میں ایک حاسد آدمی کی یہ حکایت فرمائی ہے کہ ایک شخص بادشاہ کے سامنے کھڑا ہوکر یہ کہا کرتا تھا کہ نیک لوگوں کے ساتھ نیکی کرو اور محسن کے احسان کا بدلہ دو کیوںکہ برائی کرنے والے کی برائی تمہاری طرف سے خود کفایت کرے گی۔ یہ شخص بادشاہ کے سامنے یہ نصیحت کیا کرتا تھا جس سے اس کی بڑی عزت تھی۔ اس کی عزت، عظمت اور مرتبہ کو دیکھ کر ایک شخص کو حسد پیدا ہوگیا۔ اس نے بادشاہ سے شکایت کی کہ یہ شخص حضور کے سامنے کھڑا ہوکر گندہ دہن بتاتا ہے۔ بادشاہ نے کہا اس کی تصدیق کیسے ہو؟ حاسد نے کہا جب وہ آپ کے پاس آئے تو آپ اسے اپنے قریب بلا لیجیے، جب وہ آپ کے بالکل قریب آجائے گا تو اپنی ناک بند کرلے گا، تاکہ آپ کے منہ کی بدبو نہ آنے پائے۔ بادشاہ نے کہا بہت اچھا، کل امتحان کریں گے۔ ادھر اس حاسد نے بادشاہ سے یہ کہا، ادھر اس نے جاکر اس ناصح و نیک آدمی کی دعوت کرکے ایسا کھانا کھلایا جس میں لہسن بہت سا تھا۔ یہ کھانا کھا کر فارغ ہی ہوا تھا کہ دربار کا وقت آگیا۔ بدستور سابق بادشاہ کے سامنے کھڑے ہوکر اس نے وہی جملہ کہا جو کہا کرتا تھا۔ بادشاہ نے اس کو اپنے پاس بلانے کا اشارہ کیا، اس نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا تاکہ اپنے منہ کی بدبو بادشاہ تک نہ پہنچنے پائے۔ منہ پر ہاتھ رکھے وہ بادشاہ کے پاس پہنچ گیا۔ بادشاہ کو کل کی بات پر یقین آگیا کہ وہ بات بالکل سچ ہے، جو حاسد نے کہی تھی۔ اسی وقت بادشاہ نے اپنے ہاتھ سے اپنے خاص گورنر کے پاس اس مضمون کا ایک خط لکھا کہ جب حامل رقعہ ہذا تمہارے پاس پہنچے تو فوراً اسے قتل کرکے اس کے چمڑے میں بھس بھروا کر ہمارے پاس بھیج دو۔ اس خط کو اس شخص کے حوالے کرکے کہا کہ فلاں حاکم کے پاس اس خط کو لے جاؤ۔ چناںچہ وہ خط لے کر بادشاہ کے دربار سے باہر آیا۔ اس بادشاہ کا دستور تھا کہ جب وہ دستی خط لکھتا تھا تو کسی کے نام جاگیر و انعام کے لیے لکھتا تھا۔ راستہ میں وہی حاسد ملا، اس کے ہاتھ میں خط دیکھ کر پوچھا یہ کیا ہے۔ اس نے کہا کہ یہ شاہی خط ہے جو مجھے لکھ کر دیا ہے کہ فلاں حاکم کے پاس لے جاؤں۔ اس حاسد نے یہ سمجھا کہ اس شاہی خط میں بادشاہ نے کچھ انعام اور جاگیر کے لیے لکھا ہوگا۔ اس حاسد نے اس شخص سے کہا کہ یہ خط مجھے دے دو میں لے جاؤں گا۔ اس شخص نے کہا کہ اچھا میں تمہیں یہ خط ہبہ کرتا ہوں، لے جاؤ۔ اس حاسد نے اس خط کو انعام کے لالچ میں اس حاکم کے سامنے لے جا کر پیش کیا۔ حاکم نے اس خط کو پڑھ کر حامل رقعہ سے کہا کہ اس خط میں بادشاہ نے یہ لکھا ہے کہ میں تمہیں قتل کرکے تمہاری کھال کھنچوا کر اس میں بھس بھروا کے بادشاہ کے پاس بھیجوں۔ تو یہ حاسد حامل رقعہ بہت گھبرایا اور کہنے لگا کہ یہ دوسرے کا خط ہے جو میں لے آیا ہوں، خدا کے واسطے یہ خط مجھے واپس کردو۔ میں بادشاہ کے پاس واپس لے جاؤں۔ اس حاکم نے کہا کہ بادشاہ کا آیا ہوا خط واپس نہیں جاسکتا۔ اب میں تم کو قتل کروں گا اور بادشاہ کے حکم کے مطابق تمہارے چمڑے میں بھس بھروا کر بادشاہ کے پاس بھیجوں گا۔ چناںچہ اس حاسد کو قتل کرا کر اس کے چمڑے میں بھس بھروا کر بادشاہ کے پاس بھیج دیا۔ ادھر وہ نیک شخص جو بادشاہ کے سامنے روزانہ کھڑا ہوکر یہ کہا کرتا تھا کہ محسن کے احسان کا بدلہ اچھا دینا چاہیے کیوںکہ برائی کرنے والے کو خود اس کی برائی ہلاک کرے گی بادشاہ کے پاس گیا اور اپنی عادت کے مطابق وہی کہا تو بادشاہ کو بہت تعجب ہوا کہ میں نے تو اسے قتل کرانے کے لیے فلاں حاکم کے پاس بھیج دیا تھا، یہ کیسے آگیا اور پھر حاسد کا بھس بھرا چمڑہ بھی آگیا تو بادشاہ نے پوچھا یہ کیا ماجرا ہے۔ اس بزرگ شخص نے کہا حضور اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔ بادشاہ نے اس سے کہا کہ اس نے تمہارے متعلق مجھ سے کہا تھا کہ تم میری برائیاں کرتے پھرتے ہو اور مجھے گندہ دہن کہتے ہو۔ اس نے کہا کہ میں نے ہرگز یہ بات نہیںکہی ہے۔ بادشاہ نے کہا جب میں نے تمہیں اپنے پاس بلایا تھا تو تم نے اپنے ہاتھ کو اپنے منہ پر کیوں رکھ لیا تھا؟ اس نے کہا کہ اس نے میری دعوت کی تھی اور کھانے میں لہسن ڈال دیا تھا۔ آپ نے مجھے بلایا، میں آگیا، تو میں نے اپنے دل میں یہ خیال کیا کہ لہسن کی بدبو آپ کو ناگوار گزرے گی، اس لیے میں نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا تاکہ آپ کو بدبو نہ پہنچے۔ بادشاہ نے کہا، سچ ہے تم اپنا کام کرو، بدی کرنے والے کو اس کی بدی تمہاری طرف سے کافی ہوگئی۔ سچ فرمایا اللہ نے: وَلَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّیءُ اِلَّا بِاَہْلِہٖ۔ (فاطر:۴۳) اور بری تدبیر کرنے والوں کا وبال ان بری تدبیر کرنے والوں ہی پر پڑتا ہے۔
Labels:
URDU BLOGGING MUNAWWAR S MUMBAI
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment