یو پی اسمبلی الیکشن کے نتائیج آ گئے - پورے ملک میں نتائیج پر چرچے ہیں - ہاں برسوں پہلے ، کانگریس کی لیڈر اندرا گاندھی کے ہوتے ہوئے ، کانگریس کو الیکشن میں غیر معمولی کامیابی ملی تھی - تب یہ کہا گیا تھا - '' بائ کا کمال ہے ،سیاہی کا کمال ہے -'' اب خاطر خواہ لوگوں کو حالیہ یوپی الیکشن میں بی جے پی کی کامیابی حیرت انگیز لگ رہی ہے - وہ اس کے لئے الیکٹرانک ووٹینگ مشین میں گڑ بڑی کو اسکی وجہ بتلا رہے ہیں -
مسلمانوں کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ مودی کی سرکار آئے یا کسی اور کی ! بائ کا کمال ہوکہ سیاہی کا کمال یا پھر موجودہ الیکٹرک ووٹینگ میں گڑبڑی کا کمال ، اس سے مسلمانوں کی ترقی بقاء تعمیر پر خاطر خواہ اثر پڑتا دکھاہی نہیں دیتا -
ہم میں سے اکثر لوگ ، ہماری ترقی و تنزلی کے لئے سیاست اور ووٹ ہی پر حد سے زیادہ تکیہ کرتے ہیں - بے شک سیاست ہمارے لئے لازم وملزوم ہو کر رہ گئ ہے - سیاست ہی کو ہم کلی طور انتہای اہمیت و افادیت کا ماننے لگے ہیں -
ہم ہمارے وجود ترقی بقاء کے لئے ، سیاست ہی کو سب کچھ ماننے لگ جایں تو ، پھر ہمارے مذہب ، مذہب اسلام کا وجود ہی بے معنی رہ جائے گا -
کانگریس کہتی آئ ہمارے ہاتھ مضبوط کرو ، کبھی کہتے آئ مرکز میں ہماری سرکار کے ساتھ صوبوں میں بھی ہمیں مضبوط کرو - ایسا بھی ہوا - کانگریس کو راجیو گاندھی کی قیادت میں ملک کے صوبوں اور مرکز میں بے پناہ مضبوط کیا - مرکز کے دہلی کے پایہ تخت پر انتہاہی مضبوطی کے ساتھ بٹھا دیا - بالخصوص مسلمانوں کی کون سی تقدیر بدل گئ - بابری مسجد کا دروازہ کھول دیا گیا - شیلانیاس ہوئ - پوجا ہوئ - کانگریسی وزیراعظم راجیو گاندھی نے بہ نفس نفیس شرکت کی - کانگریسی وزیراعظم راجیو گاندھی نے اپنی انتخابی کا آغاز ایودھیا سے ،ملک میں رام راج لانے سے کیا - کیا اپنے آپ کو قومی یکجہیتی اور سیکولر ازم پر جلنے والی کانگریس پارٹی اس کے لیڈر راجیو گاندھی کو ، یہ زیب دیتا تھا کہ ان کے راج میں ایودھیا میں ، کانگریس سرکار کی مدد سے بابری مسجد کا تالا کھلوا کر وہاں مذہبی تقریب شیلا نیاس میں کانگریسی وزیراعظم راجیو گاندھی شرکت کریں - کس نے انہیں یہ سب کچھ کرنے پر مجبور کیا ؟ ملک اور پارلیمینٹ میں ان کی طاقت مضبوط تھی - چار سو سے زائید ان کے ممبران پارلیمینٹ تھے - ان کے نانا اور ماں اندرا گاندھی کے وقت بھی اتنے نہ تھے - کانگریسی وزیراعظم اور کانگریس چاہتی تو کتنے ہی ویرینہ مسلم مسائیل کو حل کر سکتی تھی - کانگریس تو کہتی تھی ہمارے ہاتھ مضبوط کرو - ان ہاتھوں کو مضبوط کرنے میں ، مسلمانوں نے بھی تاریخی سطح پر مدد و تعاون دیا - جس کی اک مستند تاریخ اور ری کارڈ ہے - آر ، ایس ، کی نور نظر بی جے پی کے وزیراعظم واجپئ کی چودہ روزہ مرکزی سرکار ہند کو ،کشمیر کے اک مسلم ممبر پارلیمینٹ سیف الدین سوز کے اک ووٹ کی بناء پر شکست فاش ہوہی انہیں سرکار چھوڑنا پڑا - اگے چل کر پھر بے پنا شہرت پبلیسٹی پرچار '' شاہینیگ انڈیا '' ہونے کے باوجود بی جے پی کی مرکزی سرکار کو پارلیمانی الیکشن میں شکست فاش ہوئ - کس قدر مولوی ، ملا ،شاہی امام بخاری اور اردو کے نمایاں شعراء کی حمایت اور منبر و محراب سے حق وصداقتوں کے ڈنکے پیٹنے والوں کی طرف سے واجپئ جی کو عمامے ، صافحے ، پہنانے اور واجپائ کی جانب سے درگاہوں پر چادریں پیش کرنے والوں نے کیا کچھ نہ کیا - نتیجہ بالکل الٹا نکلا - پارلیمانی الیکشن میں واجپائ کی بی جے پی سرکار کو ، سونیا گاندھی کی کانگریس کے ہاتھوں بری طرح سے کراری ہار کا سامنا کرنا پڑا - منمو ہن سنگھ کانگریس کے ملک کے وزیراعظم بنے - پارلیمانی الیکشن میں مسلمانوں نے بے پناہ کانگریس کا ساتھ دیا - جس کا اقرار بذات خود سونیا گاندھی اور کانگریسی وزیراعظم منموہن سنگھ نے بھی کیا -
اک سے دو بار کانگریس کے منموہن سنگھ کی بطور وزیراعطم ، مرکز میں سرکار بنی ، واضح اور مثبت و مستند طور پر جواز ہونے کے باوجود کئ اہم مسلم معاملات و مسائیل ، صرف اور صرف کانگریس کی عدم توجہ سے حل نہ ہو سکے - سپریم کورٹ میں کئ سالوں سے مسلمانوں کی جانب سے اپیل داخل ہے کہ ہندووں کے انتہائ سماجی ، پسماندہ طبقات اور ذاتوں کی طرح سرکاری مراعات اور سہولیات مسلمانوں کو بھی ملیں ، سپریم کورٹ میں کیس کی پیشی کے دوران کانگریسی حکومت ،سال ہا سال سے اپنا موقف پیش نہیں کرتی رہی - مسلمانوں کے لئے '' شیڈول کاسٹ '' کا ریزرویشن ، ان کا آئینی و دستوری حق ہی تو ہے - کئ سرکاری کمیشنوں نے بھی اس کی سفارش کی ہے - مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے دستوری حق پر اور متعدد مسلم مسائیل کے تدارک پر کانگریس سرد مہری دکھلاتی رہی - آزادی کے بعد سے آج تک ، ملک میں ہزاروں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے - جس میں مسلمانوں کا بے پناہ جانی ومالی نقصانات اور عزت و آبرو پر حملے ہوئے - آخر یہ سب کچھ کب تک ؟ لسانی اور فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے کے لئے کانگریس ہی کی ایماء پر ماہرین نے ، کانگریسی حکومت کو مشاورتی مسودہ بھی تیار کر کے دیا - اس تعلق سے بنائے گئے بل کو قانون بنانے کے لئے کانگریس ہی نہیں متعدد سیکولر پارٹیوں کا رویہ بھی ، پاریمینٹ میں بل پر مباحثہ پر سرد مہری پر مبنی رہا - یہاں تک کہ کانگریس کی سرکار بھی چلی گئ - جس کے قائیم کرنے میں ، ملک کے مسلم رائے دہندگان کا نمایاں مثبت رول تھا - جس کا اعتراف کانگریسی وزیراعظم منموہن سنگھ اور کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی بھی کرتی آئیں - آتنگ واد اور دہشت کے نام پر سالہا سال سے مسلمان پریشان ہیں - دراصل دہشت پسندی اک انتہائ خطرناک بات ہے - چاہے جو کوئ بھی دہشت گرد ہو اس کی سخت سزا ہونا ضروری ہے - برہمن وادی اور ہندوتواوادی سوچ و فکر میں ملک کا ہر مسلمان غدار اور دیس دروہی ہے - اچھے برے ہر جگہ ہوتے ہیں - محض شک وشبہ کی بنیاد پر ، یہاں کوئ دہشت پسندی کا واقعہ ہوا اور خاص طور الیکٹرک میڈیا بناء ٹھوس ثبوت کے دہشت پسندی مسلمانوں کے سر مونڈھ دیتی جا رہی ہے - کتنے ہی معاملات میں مسلمان ، سالوں سال کی انتہائ جسمانی ذہنی اذیتوں کے بعد عدالتوں سے رہا ہو رہے ہیں - دہشت پسندی کے نام پر مسلمان ہی نہیں بڑی تعداد میں ملک کے غیر مسلم دانشوران ، سماجی اصلاح کار بھی آواز اٹھاتے آرہے ہیں - پولیس کے اک اعلی افیسر ہیمنت کرکرے کی مکہ مسجد ، سمجھوتہ ایکسپریس ، اجمیر درگاہ و دیگر بم دھماکوں پر انتہائ عرق ریزی جانفشانی کے ساتھ تیار کی گئ رپورٹ گویا کانگریسی سرکار نے ردی کی ٹوکری میں ڈال دی کہ جس سے ملک میں آتنگ ، دہشت واد ، بم دھماکوں کی قلعئ کھول جاتی - جب تک کرکرے نے زعفرانی ہندوتواوادیوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار نہ کیا تھا - ہندوتواوادی بڑھ چڑھ کر بول رہے تھے - کہ '' اسلام آتنک ، دہشت کی تعلیم وتلقین نہیں کرتا مگر دہشت گردی کی الزام میں پکڑے جانے والے سبھی مسلمان ہیں '' کرکرے کی آتنک واد پر رپورٹ نے ہندوتواوادیوں کے منہ پر تالے لگادئیے - مرکزی کانگریسی سرکار کے لئے موقع غنیمت تھا کہ کرکرے کی رپورٹ پر ہندوتواوادی آتنک وادیوں کے خلاف ، بیخ کنی کرے - ملک کے عوام کا بھی آتنک واد اور ہندوتواواد پر موڈ بنا تھا مگر کانگریس نے موقع سے فائیدہ اٹھا کر دہشت پسندی جیسے ، انتہاہی سنگین معاملہ پر ، اک آئینی دستوری عملی قدم نہ اٹھا سکی - گویا وہ نرم ہندوتوا پر چل رہی تھی اور آج تک دہشت کے نام پر ، معصوم مسلمانوں پر دہشت کا نام پر ، ظلم ، بربریت ستم کی تلوار لٹک رہی ہے - لاتعداد مسلمان ، سالہا سال سے جیلوں میں ، ان کی زندگی برباد ہو رہی ہے - اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ یہ کانگریس کی دین ہے - کہ مسلمانوں ہی کے نہیں دلتوں ،بپسماندہ طبقات درج فہرست قبائیل ، ادی واسیوں چھوٹے کسانوں ، ہنر مندوں ، دبے کچلے عوام کے ساتھ ملک کی آزادی کے بعد سے آج تک کھلواڑ ہی ہوتا آیا ہے - اس پاپ میں صرف کانگریس ہی نہیں ملک کی اکثر و بیشتر، کم و بیش سیکولر پارٹیاں شامل رہی ہیں - ہاں کچھ سیلولر پارٹیوں اور سیکولر سیاسی شخصیتوں کا کردار کسی حد تک قابل اطمینان رہا - جن میں ارویند کیجریوال عام آدمی پارٹی ، ممتا بنر جی ترنمول کانگریس پارٹی ، کمیونسٹ پارٹیاں اور لالو پرساد یادو جیسے شامل ہیں -
ہم اکثر سوچتے ہیں کہ ملک میں اس پارٹی کی حکومت آ جائے تو بہیتر ہے اس پارٹی کی آ جائے تو بہیتر ہے - ہم سیاسی اعتبار سے اپنی ابتری دور کرنے اور سماجی ترقی و بقاء کے لئے ملک کی متعدد سیاسی پارٹیوں کے سیاسی کردار کو جانتے آئے ہیں - کس نے کیا کیا سمجھ رہے ہیں - اب اس نتیجہ پر پہونچے ہیں کہ بناء سماجی آب یاری کے ہمیں ہمارے دستوری آئینی حقوق بھی نہیں مل سکتے - کم از کم یہ تو حاصل ہوں - اب تو اس کے خطرات پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئے ہیں - کیوں کہ آر ایس ایس کی نور نظر بی جے پی کی مرکز میں حکومت ہے ، متعدد صوبوں میں تھی ہی اب یوپی جیسی ملک کی انتہاہی افادیت کی ریاست میں بھی حکومت بنا لی - آ ایس ایس کا وجود 1924 کو ہوا - یہ برہمن وادی ، ہندوتواوادی جماعت تنظیم ہے - اپنے روز قیام سے ہی یہ ہمارے ملک کا سینکڑوں سال پرانا ورثہ قومی یکجہیتی سے کھلواڑ کرتی آئ ہے - ملک کی آزادی کے بعد ، انتہاہی مطالعہ و عرق ریزی کے ساتھ ملک کا دستور ، آئین ننایا گیا - جو ملک کے ہر شہری کو بناء امتیاز مذہب و کسی بھی بھید بھاو کی بناء پر ، ملک میں رہنے کا یکساں طور پر ، برابری کا حق دیتا ہے - سبھی کو اک جیسی مذہبی سماجی آزادی دیتا ہے - ہمارے ملک کا دستور جمہریت پر مبنی ہے - آگے چلکر اسے سیکولر ازم سے منسلک کر دیا - آر ایس ایس کو دستور ہند سے نفرت ہے - جو ملک کو ہندو راشٹر بنانے پر تلے ہیں - جنہیں مسلمانوں ، دلتوں ، پچھڑوں ، اقلیتوں ، ادی واسیوں ، درج فہرست قبائیل ،کمزوروں سے عداوت ہے - یہ سب کچھ اک مفرو ضہ نہیں - اس کی مستند ٹھوس حقیقت ہے - کسی بھی جماعت ، تنظیم ، ادارے کو جاننے کے لئے اس کے بانیان ، لیڈران کی تحریریں تقاریر کو ہڑھنا سمجھنا ضروری ہے - آر ایس ایس کے لیڈران ہیگڈے وار ، ساورکر ، ڈاکٹر مولجے ، بالا صاحب دیورس ،وغیرہ کے خیالات نظریات کتابوں میں محفوظ ہیں - انہیں پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ انسانیت اور ملک کے لئے کس قدر خطرناک ہیں - ملک کی اکثیرتی آبادی کے خلاف یہ لوگ سوچتے سمجھتے اور عمل کرتے آئے ہیں - سالہاسال سے آر ایس ایس اک منظم سازش اور انتہاہی مشقت کے ساتھ ملک میں سماج میں متعدد طبقات گروہوں میں گھس پیٹ بنا لی ہے - ملک کے شہریوں کے دلوں میں اک دوسر ےکے خلاف دوریاں پیدا کرتی آئ ہے - دلتوں ،انتہاہی پسماندہ طبقات ، جن کی بھلاہی یہاں تک کہ جن کے وجود سے بھی آر ایس ایس کے فلسفہ میں کوئ جگہ نہیں ، انسانیت سماجی کار گذاری کا نقاب اوڑھ کر ان میں گھس آئ ہے -طان کی ہمدرد بنی ہے -
کہتے ہیں کہ کوئ بھی فلم پکچر اک کامیاب ویلن کے بغیر کامیاب نہیں ہوتی - آر ایس ایس کی بنائ گئ فلم میں مسلمانوں کو ویلن کا رول دیا گیا ہے - وہ ڈاکو ہے - ملیچھ ہے - ملک میں مسلمانوں کا دور حکومت ہندووں پر ظلم وستم سے بھرا پڑا ہے - وہ مندروں کو مسمار اور لوٹتے تھے - ہندووں کو زبردستی مار کر مسلمان بناتے تھے - ہندووں میں ذات پات کو انہوں نے ہی جاری کیا - وہ آتنک وادی ہیں - وغیرہ وغیرہ اس طرح آر ایس ایس ملک کی اکثیرتی آبادی کو مسلمانوں سے بدظن کرتی آئ ہے -
آج وہ تمام افراد جماعتیں طبقات جو آر ایس ایس اور اس کی ذیلی شاخوں کے شکار ہیں - ان کو متحد ہو کر اپنے دستوری حقوق کی باز یابی کے لئے کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کی ضرورت ہے - جو تنظیمیں ادارے افراد آر ، ایس ، ایس کے شکار طبقات ، گروہوں کو ایک متحدہ پلیٹ فارم پر لے کر اپنے دستوری حقوق کے تحفظ کے لئے ساتھ ساتھ ہیں - ان کا ساتھ دینا ہمارا فرض منصبی ہے - دستوری آزادی وقت کی اہم ضرورت ہے -
مولانا سجاد نعمانی ، ولی رحمانی ، مولانا سلمان ندوی ، وامن میشرام ، پرکاش امبیڈکر وغیرہ وغیرہ کا ساتھ دیا جائے - جو اقلتوں ، دلتوں مسلمانوں اور جو سارے مظلوموں کو دستوری حقوق کی خاطر ، دستوری آزادی کے لئے میدان عمل میں ہیں - برہمن وادی آر، ایس ،ایس اس کی نور نظر بی جے پی کو لگام دینے کے لئے صرف سیاست ہی نہیں سماجیات کی ضرورت ہے - صرف سیاست ہی سے کام نہیں چلے گا -
مسلمانوں کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ مودی کی سرکار آئے یا کسی اور کی ! بائ کا کمال ہوکہ سیاہی کا کمال یا پھر موجودہ الیکٹرک ووٹینگ میں گڑبڑی کا کمال ، اس سے مسلمانوں کی ترقی بقاء تعمیر پر خاطر خواہ اثر پڑتا دکھاہی نہیں دیتا -
ہم میں سے اکثر لوگ ، ہماری ترقی و تنزلی کے لئے سیاست اور ووٹ ہی پر حد سے زیادہ تکیہ کرتے ہیں - بے شک سیاست ہمارے لئے لازم وملزوم ہو کر رہ گئ ہے - سیاست ہی کو ہم کلی طور انتہای اہمیت و افادیت کا ماننے لگے ہیں -
ہم ہمارے وجود ترقی بقاء کے لئے ، سیاست ہی کو سب کچھ ماننے لگ جایں تو ، پھر ہمارے مذہب ، مذہب اسلام کا وجود ہی بے معنی رہ جائے گا -
کانگریس کہتی آئ ہمارے ہاتھ مضبوط کرو ، کبھی کہتے آئ مرکز میں ہماری سرکار کے ساتھ صوبوں میں بھی ہمیں مضبوط کرو - ایسا بھی ہوا - کانگریس کو راجیو گاندھی کی قیادت میں ملک کے صوبوں اور مرکز میں بے پناہ مضبوط کیا - مرکز کے دہلی کے پایہ تخت پر انتہاہی مضبوطی کے ساتھ بٹھا دیا - بالخصوص مسلمانوں کی کون سی تقدیر بدل گئ - بابری مسجد کا دروازہ کھول دیا گیا - شیلانیاس ہوئ - پوجا ہوئ - کانگریسی وزیراعظم راجیو گاندھی نے بہ نفس نفیس شرکت کی - کانگریسی وزیراعظم راجیو گاندھی نے اپنی انتخابی کا آغاز ایودھیا سے ،ملک میں رام راج لانے سے کیا - کیا اپنے آپ کو قومی یکجہیتی اور سیکولر ازم پر جلنے والی کانگریس پارٹی اس کے لیڈر راجیو گاندھی کو ، یہ زیب دیتا تھا کہ ان کے راج میں ایودھیا میں ، کانگریس سرکار کی مدد سے بابری مسجد کا تالا کھلوا کر وہاں مذہبی تقریب شیلا نیاس میں کانگریسی وزیراعظم راجیو گاندھی شرکت کریں - کس نے انہیں یہ سب کچھ کرنے پر مجبور کیا ؟ ملک اور پارلیمینٹ میں ان کی طاقت مضبوط تھی - چار سو سے زائید ان کے ممبران پارلیمینٹ تھے - ان کے نانا اور ماں اندرا گاندھی کے وقت بھی اتنے نہ تھے - کانگریسی وزیراعظم اور کانگریس چاہتی تو کتنے ہی ویرینہ مسلم مسائیل کو حل کر سکتی تھی - کانگریس تو کہتی تھی ہمارے ہاتھ مضبوط کرو - ان ہاتھوں کو مضبوط کرنے میں ، مسلمانوں نے بھی تاریخی سطح پر مدد و تعاون دیا - جس کی اک مستند تاریخ اور ری کارڈ ہے - آر ، ایس ، کی نور نظر بی جے پی کے وزیراعظم واجپئ کی چودہ روزہ مرکزی سرکار ہند کو ،کشمیر کے اک مسلم ممبر پارلیمینٹ سیف الدین سوز کے اک ووٹ کی بناء پر شکست فاش ہوہی انہیں سرکار چھوڑنا پڑا - اگے چل کر پھر بے پنا شہرت پبلیسٹی پرچار '' شاہینیگ انڈیا '' ہونے کے باوجود بی جے پی کی مرکزی سرکار کو پارلیمانی الیکشن میں شکست فاش ہوئ - کس قدر مولوی ، ملا ،شاہی امام بخاری اور اردو کے نمایاں شعراء کی حمایت اور منبر و محراب سے حق وصداقتوں کے ڈنکے پیٹنے والوں کی طرف سے واجپئ جی کو عمامے ، صافحے ، پہنانے اور واجپائ کی جانب سے درگاہوں پر چادریں پیش کرنے والوں نے کیا کچھ نہ کیا - نتیجہ بالکل الٹا نکلا - پارلیمانی الیکشن میں واجپائ کی بی جے پی سرکار کو ، سونیا گاندھی کی کانگریس کے ہاتھوں بری طرح سے کراری ہار کا سامنا کرنا پڑا - منمو ہن سنگھ کانگریس کے ملک کے وزیراعظم بنے - پارلیمانی الیکشن میں مسلمانوں نے بے پناہ کانگریس کا ساتھ دیا - جس کا اقرار بذات خود سونیا گاندھی اور کانگریسی وزیراعظم منموہن سنگھ نے بھی کیا -
اک سے دو بار کانگریس کے منموہن سنگھ کی بطور وزیراعطم ، مرکز میں سرکار بنی ، واضح اور مثبت و مستند طور پر جواز ہونے کے باوجود کئ اہم مسلم معاملات و مسائیل ، صرف اور صرف کانگریس کی عدم توجہ سے حل نہ ہو سکے - سپریم کورٹ میں کئ سالوں سے مسلمانوں کی جانب سے اپیل داخل ہے کہ ہندووں کے انتہائ سماجی ، پسماندہ طبقات اور ذاتوں کی طرح سرکاری مراعات اور سہولیات مسلمانوں کو بھی ملیں ، سپریم کورٹ میں کیس کی پیشی کے دوران کانگریسی حکومت ،سال ہا سال سے اپنا موقف پیش نہیں کرتی رہی - مسلمانوں کے لئے '' شیڈول کاسٹ '' کا ریزرویشن ، ان کا آئینی و دستوری حق ہی تو ہے - کئ سرکاری کمیشنوں نے بھی اس کی سفارش کی ہے - مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے دستوری حق پر اور متعدد مسلم مسائیل کے تدارک پر کانگریس سرد مہری دکھلاتی رہی - آزادی کے بعد سے آج تک ، ملک میں ہزاروں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے - جس میں مسلمانوں کا بے پناہ جانی ومالی نقصانات اور عزت و آبرو پر حملے ہوئے - آخر یہ سب کچھ کب تک ؟ لسانی اور فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے کے لئے کانگریس ہی کی ایماء پر ماہرین نے ، کانگریسی حکومت کو مشاورتی مسودہ بھی تیار کر کے دیا - اس تعلق سے بنائے گئے بل کو قانون بنانے کے لئے کانگریس ہی نہیں متعدد سیکولر پارٹیوں کا رویہ بھی ، پاریمینٹ میں بل پر مباحثہ پر سرد مہری پر مبنی رہا - یہاں تک کہ کانگریس کی سرکار بھی چلی گئ - جس کے قائیم کرنے میں ، ملک کے مسلم رائے دہندگان کا نمایاں مثبت رول تھا - جس کا اعتراف کانگریسی وزیراعظم منموہن سنگھ اور کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی بھی کرتی آئیں - آتنگ واد اور دہشت کے نام پر سالہا سال سے مسلمان پریشان ہیں - دراصل دہشت پسندی اک انتہائ خطرناک بات ہے - چاہے جو کوئ بھی دہشت گرد ہو اس کی سخت سزا ہونا ضروری ہے - برہمن وادی اور ہندوتواوادی سوچ و فکر میں ملک کا ہر مسلمان غدار اور دیس دروہی ہے - اچھے برے ہر جگہ ہوتے ہیں - محض شک وشبہ کی بنیاد پر ، یہاں کوئ دہشت پسندی کا واقعہ ہوا اور خاص طور الیکٹرک میڈیا بناء ٹھوس ثبوت کے دہشت پسندی مسلمانوں کے سر مونڈھ دیتی جا رہی ہے - کتنے ہی معاملات میں مسلمان ، سالوں سال کی انتہائ جسمانی ذہنی اذیتوں کے بعد عدالتوں سے رہا ہو رہے ہیں - دہشت پسندی کے نام پر مسلمان ہی نہیں بڑی تعداد میں ملک کے غیر مسلم دانشوران ، سماجی اصلاح کار بھی آواز اٹھاتے آرہے ہیں - پولیس کے اک اعلی افیسر ہیمنت کرکرے کی مکہ مسجد ، سمجھوتہ ایکسپریس ، اجمیر درگاہ و دیگر بم دھماکوں پر انتہائ عرق ریزی جانفشانی کے ساتھ تیار کی گئ رپورٹ گویا کانگریسی سرکار نے ردی کی ٹوکری میں ڈال دی کہ جس سے ملک میں آتنگ ، دہشت واد ، بم دھماکوں کی قلعئ کھول جاتی - جب تک کرکرے نے زعفرانی ہندوتواوادیوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار نہ کیا تھا - ہندوتواوادی بڑھ چڑھ کر بول رہے تھے - کہ '' اسلام آتنک ، دہشت کی تعلیم وتلقین نہیں کرتا مگر دہشت گردی کی الزام میں پکڑے جانے والے سبھی مسلمان ہیں '' کرکرے کی آتنک واد پر رپورٹ نے ہندوتواوادیوں کے منہ پر تالے لگادئیے - مرکزی کانگریسی سرکار کے لئے موقع غنیمت تھا کہ کرکرے کی رپورٹ پر ہندوتواوادی آتنک وادیوں کے خلاف ، بیخ کنی کرے - ملک کے عوام کا بھی آتنک واد اور ہندوتواواد پر موڈ بنا تھا مگر کانگریس نے موقع سے فائیدہ اٹھا کر دہشت پسندی جیسے ، انتہاہی سنگین معاملہ پر ، اک آئینی دستوری عملی قدم نہ اٹھا سکی - گویا وہ نرم ہندوتوا پر چل رہی تھی اور آج تک دہشت کے نام پر ، معصوم مسلمانوں پر دہشت کا نام پر ، ظلم ، بربریت ستم کی تلوار لٹک رہی ہے - لاتعداد مسلمان ، سالہا سال سے جیلوں میں ، ان کی زندگی برباد ہو رہی ہے - اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ یہ کانگریس کی دین ہے - کہ مسلمانوں ہی کے نہیں دلتوں ،بپسماندہ طبقات درج فہرست قبائیل ، ادی واسیوں چھوٹے کسانوں ، ہنر مندوں ، دبے کچلے عوام کے ساتھ ملک کی آزادی کے بعد سے آج تک کھلواڑ ہی ہوتا آیا ہے - اس پاپ میں صرف کانگریس ہی نہیں ملک کی اکثر و بیشتر، کم و بیش سیکولر پارٹیاں شامل رہی ہیں - ہاں کچھ سیلولر پارٹیوں اور سیکولر سیاسی شخصیتوں کا کردار کسی حد تک قابل اطمینان رہا - جن میں ارویند کیجریوال عام آدمی پارٹی ، ممتا بنر جی ترنمول کانگریس پارٹی ، کمیونسٹ پارٹیاں اور لالو پرساد یادو جیسے شامل ہیں -
ہم اکثر سوچتے ہیں کہ ملک میں اس پارٹی کی حکومت آ جائے تو بہیتر ہے اس پارٹی کی آ جائے تو بہیتر ہے - ہم سیاسی اعتبار سے اپنی ابتری دور کرنے اور سماجی ترقی و بقاء کے لئے ملک کی متعدد سیاسی پارٹیوں کے سیاسی کردار کو جانتے آئے ہیں - کس نے کیا کیا سمجھ رہے ہیں - اب اس نتیجہ پر پہونچے ہیں کہ بناء سماجی آب یاری کے ہمیں ہمارے دستوری آئینی حقوق بھی نہیں مل سکتے - کم از کم یہ تو حاصل ہوں - اب تو اس کے خطرات پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئے ہیں - کیوں کہ آر ایس ایس کی نور نظر بی جے پی کی مرکز میں حکومت ہے ، متعدد صوبوں میں تھی ہی اب یوپی جیسی ملک کی انتہاہی افادیت کی ریاست میں بھی حکومت بنا لی - آ ایس ایس کا وجود 1924 کو ہوا - یہ برہمن وادی ، ہندوتواوادی جماعت تنظیم ہے - اپنے روز قیام سے ہی یہ ہمارے ملک کا سینکڑوں سال پرانا ورثہ قومی یکجہیتی سے کھلواڑ کرتی آئ ہے - ملک کی آزادی کے بعد ، انتہاہی مطالعہ و عرق ریزی کے ساتھ ملک کا دستور ، آئین ننایا گیا - جو ملک کے ہر شہری کو بناء امتیاز مذہب و کسی بھی بھید بھاو کی بناء پر ، ملک میں رہنے کا یکساں طور پر ، برابری کا حق دیتا ہے - سبھی کو اک جیسی مذہبی سماجی آزادی دیتا ہے - ہمارے ملک کا دستور جمہریت پر مبنی ہے - آگے چلکر اسے سیکولر ازم سے منسلک کر دیا - آر ایس ایس کو دستور ہند سے نفرت ہے - جو ملک کو ہندو راشٹر بنانے پر تلے ہیں - جنہیں مسلمانوں ، دلتوں ، پچھڑوں ، اقلیتوں ، ادی واسیوں ، درج فہرست قبائیل ،کمزوروں سے عداوت ہے - یہ سب کچھ اک مفرو ضہ نہیں - اس کی مستند ٹھوس حقیقت ہے - کسی بھی جماعت ، تنظیم ، ادارے کو جاننے کے لئے اس کے بانیان ، لیڈران کی تحریریں تقاریر کو ہڑھنا سمجھنا ضروری ہے - آر ایس ایس کے لیڈران ہیگڈے وار ، ساورکر ، ڈاکٹر مولجے ، بالا صاحب دیورس ،وغیرہ کے خیالات نظریات کتابوں میں محفوظ ہیں - انہیں پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ انسانیت اور ملک کے لئے کس قدر خطرناک ہیں - ملک کی اکثیرتی آبادی کے خلاف یہ لوگ سوچتے سمجھتے اور عمل کرتے آئے ہیں - سالہاسال سے آر ایس ایس اک منظم سازش اور انتہاہی مشقت کے ساتھ ملک میں سماج میں متعدد طبقات گروہوں میں گھس پیٹ بنا لی ہے - ملک کے شہریوں کے دلوں میں اک دوسر ےکے خلاف دوریاں پیدا کرتی آئ ہے - دلتوں ،انتہاہی پسماندہ طبقات ، جن کی بھلاہی یہاں تک کہ جن کے وجود سے بھی آر ایس ایس کے فلسفہ میں کوئ جگہ نہیں ، انسانیت سماجی کار گذاری کا نقاب اوڑھ کر ان میں گھس آئ ہے -طان کی ہمدرد بنی ہے -
کہتے ہیں کہ کوئ بھی فلم پکچر اک کامیاب ویلن کے بغیر کامیاب نہیں ہوتی - آر ایس ایس کی بنائ گئ فلم میں مسلمانوں کو ویلن کا رول دیا گیا ہے - وہ ڈاکو ہے - ملیچھ ہے - ملک میں مسلمانوں کا دور حکومت ہندووں پر ظلم وستم سے بھرا پڑا ہے - وہ مندروں کو مسمار اور لوٹتے تھے - ہندووں کو زبردستی مار کر مسلمان بناتے تھے - ہندووں میں ذات پات کو انہوں نے ہی جاری کیا - وہ آتنک وادی ہیں - وغیرہ وغیرہ اس طرح آر ایس ایس ملک کی اکثیرتی آبادی کو مسلمانوں سے بدظن کرتی آئ ہے -
آج وہ تمام افراد جماعتیں طبقات جو آر ایس ایس اور اس کی ذیلی شاخوں کے شکار ہیں - ان کو متحد ہو کر اپنے دستوری حقوق کی باز یابی کے لئے کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کی ضرورت ہے - جو تنظیمیں ادارے افراد آر ، ایس ، ایس کے شکار طبقات ، گروہوں کو ایک متحدہ پلیٹ فارم پر لے کر اپنے دستوری حقوق کے تحفظ کے لئے ساتھ ساتھ ہیں - ان کا ساتھ دینا ہمارا فرض منصبی ہے - دستوری آزادی وقت کی اہم ضرورت ہے -
مولانا سجاد نعمانی ، ولی رحمانی ، مولانا سلمان ندوی ، وامن میشرام ، پرکاش امبیڈکر وغیرہ وغیرہ کا ساتھ دیا جائے - جو اقلتوں ، دلتوں مسلمانوں اور جو سارے مظلوموں کو دستوری حقوق کی خاطر ، دستوری آزادی کے لئے میدان عمل میں ہیں - برہمن وادی آر، ایس ،ایس اس کی نور نظر بی جے پی کو لگام دینے کے لئے صرف سیاست ہی نہیں سماجیات کی ضرورت ہے - صرف سیاست ہی سے کام نہیں چلے گا -
No comments:
Post a Comment