دیپ بن جائیں گے جو پاؤں کے چھالے ہوں گے
ہم جو پہنچیں گے تو منزل پہ اجالے ہوں گے
جب جنوں ساز نگاہیں تری اٹھیں ہوں گی
ہاتھ لوگوں نے گریبان میں ڈالے ہوں گے
مدّتوں خون رگِ گُل سے بہے گا یارو
پھر کہیں جا کے خزاؤں کے ازالے ہوں گے
ہم سفر دشتِ وفا کے تو مجھے یاد تو کر
میں نے کانٹے ترے پیروں سے نکالے ہوں گے
میں نے پلکوں سے چُنیں چاند کی ٹوٹی کرنیں
میری آنکھوں میں ابھی شب کے حوالے ہوں گے
چُپ کے موسم میں جو اظہار کی تہمت لے لے
اُس نے جذبوں کے تقاضے تو نہ ٹالے ہوں گے
جرم چہرے سے کھرچ دے گا مگر دیکھ سلیمؔ
آنکھ میلی ہے تو پھر ہاتھ بھی کالے ہوں گے
: سلیم کوثر
No comments:
Post a Comment