Friday, May 01, 2009
چلو کہ نظر کرے
چلو کہ نظر کرے زندگی کا نذرانہ
بلا رہا ہے ۔سوۓ دار کوئی دیوانہ
یہاں سوغات میں ملتے ہیں ۔بربادی کے افسانے
کوچہ قاتلوں کا ہے اماں کوئی نہیں دیگا
غموں کی دھوپ میں سب جل رہے ہیں ں
کسی کے سر پر بھی سایہ نہیں ہیں
صدمے تیری فرقت کے اٹھاۓ نہیں جاتے کاا
زحم اور دل زار پہ کھاۓ نہیں جاتے
تشنگی لے آئی صحراؤں سے دریا کی طرف
موج کی صورت لب ساحل سے ٹکراتا ہوں میں
سوچوں تو کئی تیر ہیں پیوست بدن میں
دیکھوں تو کہیں زخم دکھا ئی نہیں دیتا
سنانیں تان لو سر پر یہی دیں گی تمہیں سایہ
یہاں تپتے سروں کو کو ئی سا ئباں نہیں دےگا
سر پر سورج کی تمازت اور یہ صحرا کا سفر
اے میری بستی کے برگد تیری یاد آئی بہت
گھٹاؤں سے یہ کس نے کہہ دیا ہے
کوئی اس شہر میں پیاسا نہیں ہے
( ڈاکٹر محبوب راہی)
Labels:
India,
munawwar sultana,
urdu,
urdu blogging
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
1 comment:
बहुत खूब।
----------
किस्म किस्म के आम
क्या लडकियां होती है लडको जैसी
Post a Comment