Monday, May 24, 2010
امی جان
رسالہ شاعر کے مدیر افتخار امام صدیقی اور حامد اقبال صدیقی کی والدہ ماجدہ
بیگم نسیم اعجاز صدیقی آج شام اس دار فانی سے کوچ کر گیئں. امی جان ہماری یادوں میں ہمیشہ ساتھ رہینگی. لنترانی ٹیم صدیقی خاندان کے غم میں برابر شریک ہے اور دعا گو ہیں کے اللہ انکی روح کو جنّت الفردوس میں مقام عطا فرماییں.
Monday, May 17, 2010
منٹو کی معنو یت
نیڈس اور بر ہانی کا لج آف کامرس اینڈ آرٹس ممبئي کے زیر اہتمام بہ اشتراک مہا راشٹر ساہتیہ اردو اکیڈمی ممبئی سے سعادت حسن منٹو کی زندگی اور فن بروز جمعہ اور سنیچر مورخہ 16 اور 17 ا پریل2010ئ کو بمقام برہانی کا لج مجگاؤں ممبئي میں دو روزہ قومی سیمینار منعقد کیا گیا تھا ۔اس پروگرام کے روح رواں ڈاکٹر قاسم امام ، اسلم پر ویز ،ساجد رشید اور مظہر سلیم تھے ۔ان کی محنتوں اور کاوشوں کے بل پر یہ پروگرام بہت کامیاب رہا ۔ان دو دنوں میں مختلف پروگرام منعقد کۓ گۓ۔شہر اور اطراف کی تمام علمی ادبی ،سیاسی اور فلمی شخصیات موجود تھیں ۔منٹو کی پیدائش سے ان کی وفات تک کی اور ان کے بچپن اور جوانی کی بہت ساری تصویریں ۔ان کے افسانے ، افسانوں کا مجموعہ اور کتابوں کی نمائش لگائی گئی کلیدی خطبہ وارث علوی صاحب نے دیا ۔ان کی طبیعت بہت زیادہ ناساز ہونے کے باوجود ان کے خطبہ کی سی ڈی بنا کر سامعین کو سنائی گئي ۔منٹو کے افسانوں کے مجموعہ کا اجرائ نادرہ ظہیر ببّر ، جاوید صدیقی اور ساجد رشید کے ہاتھوں کیا گیا ۔راج بببّر نے ٹوبہ ٹیگ سنگھ عنوان کی اسٹوری اپنے مخصوص انداز میں پڑھی ۔اور نادرہ ببّر نے منٹو کے افسانہ ( سڑک کے کنارے )بڑے ڈرامیٹیک انداز میں اسٹوری ریڈنگ کیں ۔اور مختلف افسانوں پر ڈرامے کۓ گۓ ۔ دوسرے دن سیمینار کا سیشن ہوا جس میں بہت سے علاقائی اور غیر علاقائی ادیبوں نے شرکت کیں ۔جاوید صدیقی ، ہمایوں ،سلیم شہزاد ، اشرف شمس الحق عّثمانی ۔اور ساگر سرحدی ۔ منٹو اور ممبئی سے سنیل باگ کی ہدایت میں '' میری شادی '' اس کو حبیب بابر خان نے ڈرامیٹک ریڈنگ میں بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا ۔ان دنوں تمام لوگوں کے ذہن پر سعادت حسن منٹو ہی چھاۓ رہے۔ ضیافت کا انتظام مشہور و معروف دہلی دربار کے مالک جعفر بھائی کے طرف سے کیا گيا تھا ۔تمام شرکائ کو شال مو مینٹو اور گلوں سے نوازا گيا ۔اورکمیشنر سے ملاقات کر کے پلّے ہاؤس جہاں منٹو رہتے تھے اس روڈ کا نام منٹو کے نام سے منسوب کیا گیا ۔یہ دو دنوں کا سیمینار بہت کامیاب رہا
1 comments
Labels:
mumbai,
munawwar sultana,
saadat hasan manto,
urdu,
urdu blogging
امیر خسرو کی یاد میں ایک شام
بروزبدھ مورخہ 22اپریل 2010ء کو نہرو سینٹر کے آڈیو ٹوریم میں امیر خسرو کی یاد میں ایک شام منائي گئی ۔ اس پروگرام کی اسکرپٹ سہیل وارثی نے لکھی تھی ۔اس پروگرام میں امیر خسرو کا کردار بہت ہی خوبصورت انداز میں مشہور فلم اداکار شہباز خان نے نبھایا ۔امیر خسرو کا حضرت نظام الدین اولیاء سے بے انتہا اور والہانہ محبت اور ان کی حقیقت اور معرفت کی شاعریاور صوفیا نہ کلام کو نہایت ہی پاکی اور بےانتہا خوبصورتی سے واضح کیا گیا ہے ۔ان کے کلام کو میوزک کے ساتھ گروپ میں پیش کیا گیا ۔اور اسٹیج کے سماں سے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے کہ ہم امیر خسرو کے زمانے میں پہنچ گۓ ہوں ۔اور امیر خسرو ہمارے سامنے زندہ جاوداں موجود ہیں ۔ اس پروگرام میں بہت سی فلمی ہستیاں موجود تھیں۔اور ساتھ ہی علمی و ادبی ذوق رکھنے والی اہم شخصیات تھیں ۔موسیقی کے ساتھ ان کے صوفیا نہ کلام سے سارا مجمع مسحور ہو گیا تھا ۔آخر نہرو سینٹر کے کلچرل ڈائریکٹر جناب لطافت قاضی نے تمام فنکاران کا تعارف کروایا ۔اور تمام کو مبارکباد پیش کیں ۔یہ پروگرام بہت کامیاب رہا دل تو یہ ہی چاہ رہا تھا کہ وقت تھم جاۓ ۔اور یہ پروگرام یوں ہی چلتا رہے ۔
0
comments
Labels:
amir khusro,
munawwar sultana,
urdu,
urdu blogging
رقص حیرت میں ہے
رقص حیرت میں ہے پیروں میں کرن باندھے ہوۓ
جیسے اک شعر،نیا رنگ سخن باندھے ہوۓ
چاند بھی ڈوب رہا تھا ۔مرے دل کے ہمراہ
اپنا غم ،اپنی تھکن ،اپنی جلن باندھے ہوۓ
تو کہاں کھو گئی اے نیند کہ سڑکوں پہ تیری
روز پھرتا ہوں میں خوابوں کا بدن باندھے ہوۓ
-------------ق--------------
رات کی راکھ تلے نیند کا غم دفن کروں
مضمحل پلکوں سے خوابوں کی تھکن باندھے ہوۓ
اک شہکار تراشوں میں تیرے حسن کے نام
ہر رگ سنگ سے فنکار کا فن باندھے ہوۓ
کون یہ میری غزل گاتا ہے صحرا میں نبیل
اپنی آواز میں صدیوں کی اگن باندھے ہوۓ
( عزیز نبیل---دوحہ ،قطر
---------------------------------------------
زہر کے دانت
زہر کے دانت مرے پاس بھی ہے
زہر تازہ بھی ،پرانا بھی بھرا ہے جن میں
میں مگر موڑ کے محفوظ ہی رکھتا ہوں جن میں
اپنے دہن کے اندر
( نا مناسب مجھے لگتا ہے برتنا ان کا )
پھر بھی احباب سے درخواست ہے، ہشیار رہیں
خیر دم کو ٹھکرا کے گزر جاتے ہیں جو
پاؤں سر پر مرے رکھنے کی زحمت نہ کریں
ڈستے پھرنا ،مری تر جیح نہیں ہے لیکن
مجھ کو آمادہ کیا جاۓ تو ڈس سکتا ہوں
خاص کر ان کو ،جو میرے لۓ کچھ خاص بھی ہے
زہر کے دانت مرے دوست 'مرے پاس بھی ہیں
( عبدالاحد ساز---ممبئی
جیسے اک شعر،نیا رنگ سخن باندھے ہوۓ
چاند بھی ڈوب رہا تھا ۔مرے دل کے ہمراہ
اپنا غم ،اپنی تھکن ،اپنی جلن باندھے ہوۓ
تو کہاں کھو گئی اے نیند کہ سڑکوں پہ تیری
روز پھرتا ہوں میں خوابوں کا بدن باندھے ہوۓ
-------------ق--------------
رات کی راکھ تلے نیند کا غم دفن کروں
مضمحل پلکوں سے خوابوں کی تھکن باندھے ہوۓ
اک شہکار تراشوں میں تیرے حسن کے نام
ہر رگ سنگ سے فنکار کا فن باندھے ہوۓ
کون یہ میری غزل گاتا ہے صحرا میں نبیل
اپنی آواز میں صدیوں کی اگن باندھے ہوۓ
( عزیز نبیل---دوحہ ،قطر
---------------------------------------------
زہر کے دانت
زہر کے دانت مرے پاس بھی ہے
زہر تازہ بھی ،پرانا بھی بھرا ہے جن میں
میں مگر موڑ کے محفوظ ہی رکھتا ہوں جن میں
اپنے دہن کے اندر
( نا مناسب مجھے لگتا ہے برتنا ان کا )
پھر بھی احباب سے درخواست ہے، ہشیار رہیں
خیر دم کو ٹھکرا کے گزر جاتے ہیں جو
پاؤں سر پر مرے رکھنے کی زحمت نہ کریں
ڈستے پھرنا ،مری تر جیح نہیں ہے لیکن
مجھ کو آمادہ کیا جاۓ تو ڈس سکتا ہوں
خاص کر ان کو ،جو میرے لۓ کچھ خاص بھی ہے
زہر کے دانت مرے دوست 'مرے پاس بھی ہیں
( عبدالاحد ساز---ممبئی
0
comments
Labels:
aziz nabeel,
doha qatar,
ghazal,
urdu,
urdu blogging
شاہ فیصل ۔۔ ۔تجھے سلام
کشمیر کے ہونہار طالب علم شاہ ،فیصل نے یونین پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں پورے ملک میں ٹاپ کرکے قوم کا
سر فخر سے بلند کر دیا ۔یہ خبر کے پڑھتے ہی آنکھیں مسرّت سے چھلک پڑی ۔سول سروس میں ٹاپ کرنے والے شاہ فیصل پہلے کشمیری اور چوتھے مسلمان ہیں ۔دو دہائیوں کے بعد کشمیر نے سول سروس امتحانات میں اپنی نما ئندگی درج کر وائی ہے اور امتحان میں اول آکر کشمیر کا سر اونچا کر دیا ہے ۔شاہ فیصل کی کامیابی کا ایک دلچسپ اور اہم پہلو یہ ہے کہ شاہ فیصل نے سول سروس میں اردو مضمون کو چنا ۔حالانکہ انھوں نے میڈیسن میں گریجو یشن کیا ہے ۔وہ چاہتے تو کوئی دوسرا مضمون چن سکتے تھے ۔انصوں نے اردو کو چنا اور عالی شان کامیابی حاصل کیں ۔فیصل کی کامیابی ہندوستان کے اردو داں نوجوانوں کے لۓ ایک بڑی مثال رہی ہے ۔شاہ فیصل نے بڑے نامسار حالات میں تعلیم حاصل کی جب وہ دسویں جماعت میں تھا ۔تو نا معلوم بندوق برداروں نے ان کے والد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا ۔والدہ کپواڑہ سے سرینگر منتفل ہو گئيں ۔ماں ،دو بھائی اور ایک بہن پر مشتمل خاندان ہے ۔شاہ فیصل ایک حسّاس منفرد اور ایکسٹرا اوڈنیری نوجوان ہے ۔انھوں نے بتایا ہے کہ اردو زبان سے انھیں روحانی لگاؤ ہے ۔اور اب اردو کو نظر انداز کیا جارہا ہے ۔اس لۓ ( فیصل ) نے اردو کا انتخاب کیا ۔ تاکہ اس بہانے اردو ادب پڑھنے کا موقع مل جاۓ گا اور امتحان کی تیاری بھی ہو جاۓ گی ۔ایسے نوجوان ہر دور میں نہیں ہوتے ۔لیکن یہ نوجوان آنے والی نسلوں کے لۓ مشعل راہ ضرور بنتے ہیں
سر فخر سے بلند کر دیا ۔یہ خبر کے پڑھتے ہی آنکھیں مسرّت سے چھلک پڑی ۔سول سروس میں ٹاپ کرنے والے شاہ فیصل پہلے کشمیری اور چوتھے مسلمان ہیں ۔دو دہائیوں کے بعد کشمیر نے سول سروس امتحانات میں اپنی نما ئندگی درج کر وائی ہے اور امتحان میں اول آکر کشمیر کا سر اونچا کر دیا ہے ۔شاہ فیصل کی کامیابی کا ایک دلچسپ اور اہم پہلو یہ ہے کہ شاہ فیصل نے سول سروس میں اردو مضمون کو چنا ۔حالانکہ انھوں نے میڈیسن میں گریجو یشن کیا ہے ۔وہ چاہتے تو کوئی دوسرا مضمون چن سکتے تھے ۔انصوں نے اردو کو چنا اور عالی شان کامیابی حاصل کیں ۔فیصل کی کامیابی ہندوستان کے اردو داں نوجوانوں کے لۓ ایک بڑی مثال رہی ہے ۔شاہ فیصل نے بڑے نامسار حالات میں تعلیم حاصل کی جب وہ دسویں جماعت میں تھا ۔تو نا معلوم بندوق برداروں نے ان کے والد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا ۔والدہ کپواڑہ سے سرینگر منتفل ہو گئيں ۔ماں ،دو بھائی اور ایک بہن پر مشتمل خاندان ہے ۔شاہ فیصل ایک حسّاس منفرد اور ایکسٹرا اوڈنیری نوجوان ہے ۔انھوں نے بتایا ہے کہ اردو زبان سے انھیں روحانی لگاؤ ہے ۔اور اب اردو کو نظر انداز کیا جارہا ہے ۔اس لۓ ( فیصل ) نے اردو کا انتخاب کیا ۔ تاکہ اس بہانے اردو ادب پڑھنے کا موقع مل جاۓ گا اور امتحان کی تیاری بھی ہو جاۓ گی ۔ایسے نوجوان ہر دور میں نہیں ہوتے ۔لیکن یہ نوجوان آنے والی نسلوں کے لۓ مشعل راہ ضرور بنتے ہیں
0
comments
Labels:
munawwar sultana,
shah faisal,
urdu,
urdu blogging
Friday, May 14, 2010
ایک خوبصورت ملا قات
خوشبو اور مٹھاس سے بھر پور پھلوں سے لدی ہو ئی شاخیں خود بخود جھک جاتی ہیں
چہرے پر تمازت اور اپنا یت ۔
معصوم اور پیارے سے بچّےسی کھلکھلاہٹ
معتبّر بزرگوں جیسی سنجیدگی اور بڑی اپنا یت سے صلاح مشورے اور ہدایت دینا
یہ ہے ہمارے عبداللہ کصنڈوانی صاحب
کل بروز جمعرات مورخہ 12 مئی 2010ئ کو ہم دوپہر تین بجے وقت مقّررہ پر ان
سےملاقات کے لۓ باندرہ کارٹر روڈ پر واقع خوبصورت بنگلہ ( گولڈ مسٹ) پر پہنچے ۔دربان سے پوچھ کر جب ہم ان کے بنگلہ میں داخل ہوۓ تو سامنے ہی مسکراتے ہوۓ انھوں نے بہت ہی پر تپاک انداز میں ہمارا استقبال کیا ۔بڑی اپنایت سے ہماری ضیافت کیں ۔انھوں نے اپنا اسٹین گلاس ورک کا کیا ہوا کام بتایا ۔ پگھلے ہوۓ کانچ میں مختلف رنگوں کے شیڈ س لا کر آرٹ تیار کرنا۔اسٹین گلاس نامی آرٹ کہلاتا ہے ۔جو کہ عبداللہ کھنڈوانی صاحب کے دماغ کی تخلیقات ہیں ۔اس آرٹ سے بنی ہوئی کچھ کانچ پر بنی ہوئی خوبصورت تخلیق تھری ،ڈی بھی ہیں۔ پھر ہم ان کے ساتھ انکے ریکارڈنگ روم میں گۓ ۔جوکہ کافی کشادہ تھا وہاں پچھلے پینتیس چالیس سالوں میں جو تصویریں اکٹّھا ہوئیں تھیں ۔ان کے دو لاکھ سے زیادہ نیگیٹیوس کو ڈیجیٹیلائٹج کر کے آنے والی پشتوں کے لۓ ایک ورچّول خزانہ جمع کر رہے ہیں ۔جوکہ ہندوستانی علمی و ادبی ۔تعلیمی تہذیبی اور ثقافتی جمع پونجی جس کو نیشنل ہیریٹیج کا درجہ دیا گیا ہے ۔کھنڈوانی صاحب ایک سلجھے ہوۓ انسان ہے ۔بہت ملنسار اور خوبصورت شخصیت کے مالک ہے ۔بار بار مسسز سدھا کھنڈوانی آپ کی شریک حیات کا بھی ذکر ہوتا رہا جوکہ ڈانس جیسے آرٹ میں اور بہت سی خوبیوں کی مالک ہے ۔ساتھ ہی ہر بار دہلی دربار کے مالک جعفر بھائی کا بھی ذکر ہوتا رہا ۔ان کا شعر و شا عری سےوا لہانہ لگاؤ اور علمی و ادبی دوستی کہ کس طرح کئی اہم شخصیات جیسے مجروح سلطانپوری ،سردار جعفری ،کیفی اعظمی احمد فراز اور خوشبو خانم کے اپنے بنگلہ پر پروگرام کرواۓگۓ ۔تمام علم و دوست و احباب کوبلا کر شعر و شاعری کی محفلیں سجائی گئی ۔ان کی معلومات دیں ۔ سی ڈی بتائي ۔یہ ہماری ٹیم کےساتھ تیسری ملاقات تھی ۔مگر ایسا محسوس ہورہاتھا حیسے برسوں سے ان کے ساتھ ہمارا پیارا سا رشتہ ہے ۔وہیں پر ہماری ملاقات مسٹر عرفان سعید کھنڈوانی سے ہوئی پرسوں ہی ان کی دوبئي شارجہ سے آمد ہوئی تھی ۔ان سے مل کر اور بابو جی سے مل کر گفتگو کر کے بہت اچھا لگا ۔کب شام کے سات بجے وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔گھر تو لوٹنا ہی تھا ۔ ملاقات کی تشنگی باقی رہی ۔
چہرے پر تمازت اور اپنا یت ۔
معصوم اور پیارے سے بچّےسی کھلکھلاہٹ
معتبّر بزرگوں جیسی سنجیدگی اور بڑی اپنا یت سے صلاح مشورے اور ہدایت دینا
یہ ہے ہمارے عبداللہ کصنڈوانی صاحب
کل بروز جمعرات مورخہ 12 مئی 2010ئ کو ہم دوپہر تین بجے وقت مقّررہ پر ان
سےملاقات کے لۓ باندرہ کارٹر روڈ پر واقع خوبصورت بنگلہ ( گولڈ مسٹ) پر پہنچے ۔دربان سے پوچھ کر جب ہم ان کے بنگلہ میں داخل ہوۓ تو سامنے ہی مسکراتے ہوۓ انھوں نے بہت ہی پر تپاک انداز میں ہمارا استقبال کیا ۔بڑی اپنایت سے ہماری ضیافت کیں ۔انھوں نے اپنا اسٹین گلاس ورک کا کیا ہوا کام بتایا ۔ پگھلے ہوۓ کانچ میں مختلف رنگوں کے شیڈ س لا کر آرٹ تیار کرنا۔اسٹین گلاس نامی آرٹ کہلاتا ہے ۔جو کہ عبداللہ کھنڈوانی صاحب کے دماغ کی تخلیقات ہیں ۔اس آرٹ سے بنی ہوئی کچھ کانچ پر بنی ہوئی خوبصورت تخلیق تھری ،ڈی بھی ہیں۔ پھر ہم ان کے ساتھ انکے ریکارڈنگ روم میں گۓ ۔جوکہ کافی کشادہ تھا وہاں پچھلے پینتیس چالیس سالوں میں جو تصویریں اکٹّھا ہوئیں تھیں ۔ان کے دو لاکھ سے زیادہ نیگیٹیوس کو ڈیجیٹیلائٹج کر کے آنے والی پشتوں کے لۓ ایک ورچّول خزانہ جمع کر رہے ہیں ۔جوکہ ہندوستانی علمی و ادبی ۔تعلیمی تہذیبی اور ثقافتی جمع پونجی جس کو نیشنل ہیریٹیج کا درجہ دیا گیا ہے ۔کھنڈوانی صاحب ایک سلجھے ہوۓ انسان ہے ۔بہت ملنسار اور خوبصورت شخصیت کے مالک ہے ۔بار بار مسسز سدھا کھنڈوانی آپ کی شریک حیات کا بھی ذکر ہوتا رہا جوکہ ڈانس جیسے آرٹ میں اور بہت سی خوبیوں کی مالک ہے ۔ساتھ ہی ہر بار دہلی دربار کے مالک جعفر بھائی کا بھی ذکر ہوتا رہا ۔ان کا شعر و شا عری سےوا لہانہ لگاؤ اور علمی و ادبی دوستی کہ کس طرح کئی اہم شخصیات جیسے مجروح سلطانپوری ،سردار جعفری ،کیفی اعظمی احمد فراز اور خوشبو خانم کے اپنے بنگلہ پر پروگرام کرواۓگۓ ۔تمام علم و دوست و احباب کوبلا کر شعر و شاعری کی محفلیں سجائی گئی ۔ان کی معلومات دیں ۔ سی ڈی بتائي ۔یہ ہماری ٹیم کےساتھ تیسری ملاقات تھی ۔مگر ایسا محسوس ہورہاتھا حیسے برسوں سے ان کے ساتھ ہمارا پیارا سا رشتہ ہے ۔وہیں پر ہماری ملاقات مسٹر عرفان سعید کھنڈوانی سے ہوئی پرسوں ہی ان کی دوبئي شارجہ سے آمد ہوئی تھی ۔ان سے مل کر اور بابو جی سے مل کر گفتگو کر کے بہت اچھا لگا ۔کب شام کے سات بجے وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔گھر تو لوٹنا ہی تھا ۔ ملاقات کی تشنگی باقی رہی ۔
0
comments
Labels:
abdulla khandwani,
mumbai,
munawwar sultana,
urdu,
urdu blogging
Wednesday, May 05, 2010
تعلیمی و ثقافتی تقریب
ادارہ دعوت القرآن و السّنھّء اور طہورہ سو ئیٹس ممبئي کے زیر اہتمام مورخہ 24 اپریل 2010ئ بروز سنیچر کو صبح دس بجے بمقام سوئیس ہائی اسکول کے گراؤنڈ عثمان آ باد مالیگاؤں ناسک مہاراشٹر ۔میں تعلیمی و ثقافتی پروگرام کی تقریبات منعقد کی گئي تھیں ۔جس میں دو شیشن رکھے گۓ تھے ۔پہلا شیشن صبح دس بجے الحاج ڈاکٹر منظورحسن ایوبی صاحب کی صدارت میں منعقد کیا گيا جس میں مہمان خصوصی کس طور پر لنترانی کی ماڈریٹر منوّر سلطانہ کو مدعو کیا گيا تھا ۔پہلے شیشن میں تعلیمی بیداری براۓ طلبہ و والدین رکھا گیا ۔جس میں ممبئي شہر کے مشہور و معروف کیریئر گا ئيڈس شکیل شیخ صاحب نے بہت خوبصورت انداز میں سامعین سے مخاطب کیا ۔اس کے بعد مناف واڈکر اور عامر انصاری نے اپنے خطابات میں طلاہ اور والدین میں تعلیمی بیداری لانے کی پوری کوشش کیں ۔پھر تحریری مقابلے کے انعام یافتگان کو انعامات سے نوازا گیا ۔
عبداللہ سعید خطیب کی تر تیب کردہ اردو داں طبقہ کو موثر اور آسانی سے سکھا ئی حانے والی کتاب "" مد ّرس '' کا اجراء کیا گیا ۔اس کے بعد ڈاکٹر محمد علی پاٹنکر کی کتاب کی رونمائي عبدالحفیظ انصاری ، ڈاکٹر منظور حسن ایوبی ، پروفیسرمناف واڈکر ،پروفیسر عامر انصاری، شکیل شیخ منوّر سلطانہ اور ڈاکٹر روپیش سریواستو کے ہاتھوں کی گئي۔
دوسرے شیشن کا آغاز رمضان فیمس صاحب کی صدارت اور مہمان خصوصی ڈاکٹر سریواستو سے ہوا ۔اس میں مختلف عنوانات پر 1 ۔مالیگا ؤں کی ہمہ جہت ترقی میں مسلمانوں اور برادران وطن کا حصہ 2۔ مالیگاؤں میں تعلیم اور تہذیب و ثقافت کا ارتقائ 3۔ مالیگاؤں میں صحافتی ترقی 4۔ مالیگاؤں میں ادب اور مو سیقی 5۔مالیگآؤں میں سما جی فلاح و بہبوداور امن عامّہ
خطابات کۓ گۓ ۔ڈاکٹر منظورحسن صاحب کو لائف ٹائم اچیو مینٹ کا ایوارڈ دیا گيا ۔اور دیگر بہترین خدمات کے ایوارڈسے معزّزین کو نوازا گیا ۔اس موقع پر شہر کی مشہور ومعروف شخصیا ت موجود تھیں ۔یہ پروگرام کامیاب رہا ۔
0
comments
Labels:
book release,
malegaon,
mudarris,
munawwar sultana,
urdu,
urdu blogging
Subscribe to:
Posts (Atom)