رقص حیرت میں ہے پیروں میں کرن باندھے ہوۓ
جیسے اک شعر،نیا رنگ سخن باندھے ہوۓ
چاند بھی ڈوب رہا تھا ۔مرے دل کے ہمراہ
اپنا غم ،اپنی تھکن ،اپنی جلن باندھے ہوۓ
تو کہاں کھو گئی اے نیند کہ سڑکوں پہ تیری
روز پھرتا ہوں میں خوابوں کا بدن باندھے ہوۓ
-------------ق--------------
رات کی راکھ تلے نیند کا غم دفن کروں
مضمحل پلکوں سے خوابوں کی تھکن باندھے ہوۓ
اک شہکار تراشوں میں تیرے حسن کے نام
ہر رگ سنگ سے فنکار کا فن باندھے ہوۓ
کون یہ میری غزل گاتا ہے صحرا میں نبیل
اپنی آواز میں صدیوں کی اگن باندھے ہوۓ
( عزیز نبیل---دوحہ ،قطر
---------------------------------------------
زہر کے دانت
زہر کے دانت مرے پاس بھی ہے
زہر تازہ بھی ،پرانا بھی بھرا ہے جن میں
میں مگر موڑ کے محفوظ ہی رکھتا ہوں جن میں
اپنے دہن کے اندر
( نا مناسب مجھے لگتا ہے برتنا ان کا )
پھر بھی احباب سے درخواست ہے، ہشیار رہیں
خیر دم کو ٹھکرا کے گزر جاتے ہیں جو
پاؤں سر پر مرے رکھنے کی زحمت نہ کریں
ڈستے پھرنا ،مری تر جیح نہیں ہے لیکن
مجھ کو آمادہ کیا جاۓ تو ڈس سکتا ہوں
خاص کر ان کو ،جو میرے لۓ کچھ خاص بھی ہے
زہر کے دانت مرے دوست 'مرے پاس بھی ہیں
( عبدالاحد ساز---ممبئی
Monday, May 17, 2010
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment