خوشبو اور مٹھاس سے بھر پور پھلوں سے لدی ہو ئی شاخیں خود بخود جھک جاتی ہیں
چہرے پر تمازت اور اپنا یت ۔
معصوم اور پیارے سے بچّےسی کھلکھلاہٹ
معتبّر بزرگوں جیسی سنجیدگی اور بڑی اپنا یت سے صلاح مشورے اور ہدایت دینا
یہ ہے ہمارے عبداللہ کصنڈوانی صاحب
کل بروز جمعرات مورخہ 12 مئی 2010ئ کو ہم دوپہر تین بجے وقت مقّررہ پر ان
سےملاقات کے لۓ باندرہ کارٹر روڈ پر واقع خوبصورت بنگلہ ( گولڈ مسٹ) پر پہنچے ۔دربان سے پوچھ کر جب ہم ان کے بنگلہ میں داخل ہوۓ تو سامنے ہی مسکراتے ہوۓ انھوں نے بہت ہی پر تپاک انداز میں ہمارا استقبال کیا ۔بڑی اپنایت سے ہماری ضیافت کیں ۔انھوں نے اپنا اسٹین گلاس ورک کا کیا ہوا کام بتایا ۔ پگھلے ہوۓ کانچ میں مختلف رنگوں کے شیڈ س لا کر آرٹ تیار کرنا۔اسٹین گلاس نامی آرٹ کہلاتا ہے ۔جو کہ عبداللہ کھنڈوانی صاحب کے دماغ کی تخلیقات ہیں ۔اس آرٹ سے بنی ہوئی کچھ کانچ پر بنی ہوئی خوبصورت تخلیق تھری ،ڈی بھی ہیں۔ پھر ہم ان کے ساتھ انکے ریکارڈنگ روم میں گۓ ۔جوکہ کافی کشادہ تھا وہاں پچھلے پینتیس چالیس سالوں میں جو تصویریں اکٹّھا ہوئیں تھیں ۔ان کے دو لاکھ سے زیادہ نیگیٹیوس کو ڈیجیٹیلائٹج کر کے آنے والی پشتوں کے لۓ ایک ورچّول خزانہ جمع کر رہے ہیں ۔جوکہ ہندوستانی علمی و ادبی ۔تعلیمی تہذیبی اور ثقافتی جمع پونجی جس کو نیشنل ہیریٹیج کا درجہ دیا گیا ہے ۔کھنڈوانی صاحب ایک سلجھے ہوۓ انسان ہے ۔بہت ملنسار اور خوبصورت شخصیت کے مالک ہے ۔بار بار مسسز سدھا کھنڈوانی آپ کی شریک حیات کا بھی ذکر ہوتا رہا جوکہ ڈانس جیسے آرٹ میں اور بہت سی خوبیوں کی مالک ہے ۔ساتھ ہی ہر بار دہلی دربار کے مالک جعفر بھائی کا بھی ذکر ہوتا رہا ۔ان کا شعر و شا عری سےوا لہانہ لگاؤ اور علمی و ادبی دوستی کہ کس طرح کئی اہم شخصیات جیسے مجروح سلطانپوری ،سردار جعفری ،کیفی اعظمی احمد فراز اور خوشبو خانم کے اپنے بنگلہ پر پروگرام کرواۓگۓ ۔تمام علم و دوست و احباب کوبلا کر شعر و شاعری کی محفلیں سجائی گئی ۔ان کی معلومات دیں ۔ سی ڈی بتائي ۔یہ ہماری ٹیم کےساتھ تیسری ملاقات تھی ۔مگر ایسا محسوس ہورہاتھا حیسے برسوں سے ان کے ساتھ ہمارا پیارا سا رشتہ ہے ۔وہیں پر ہماری ملاقات مسٹر عرفان سعید کھنڈوانی سے ہوئی پرسوں ہی ان کی دوبئي شارجہ سے آمد ہوئی تھی ۔ان سے مل کر اور بابو جی سے مل کر گفتگو کر کے بہت اچھا لگا ۔کب شام کے سات بجے وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔گھر تو لوٹنا ہی تھا ۔ ملاقات کی تشنگی باقی رہی ۔
Friday, May 14, 2010
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment