آدمی زندہ ہے لیکن وسوسوں کے درمیان
ایک شیشہ رہ گیا ہے پتھروں کے درمیاں
سب نے اس منظر کو اپنے طور پر برتا مگر
چاند بے چارہ گھرا تھا بدلیوں کے درمیاں
زندگی کی ناؤ کو طوفان جب سے لے گۓ
ساری موجیں سورہی ہیں ساحلوں کے درمیاں
آنکھیں پھر فیشن زدہ ماحول سے پتھرا گئیں
گورے اجلے جسم دیکھیں چند یوں کے درمیاں
کوئی ساعت ،کوئی لمحہ ،کوئی پل اپنا نہیں
وقت شاید پھنس گیا ہے دشمنوں کے درمیاں
نقلی چہرہ اصلی چہرے اغوا کرکے لے گیا
ایک چہرہ گھومتا ہے آئینوں کے درمیاں
آج پھر ماچس کی ڈبیا سازشوں کی زد میں ہے
کانا پھوسی چل رہی ہے تیلیوں کے درمیاں
( ڈاکٹرمحمد کلیم ضیاء )
Sunday, July 04, 2010
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment