Wednesday, April 27, 2011
تقریب رونمائی
ا
تعارف پیش کیا ۔ پھر اظہار خیال کا سلسلہ شروع ہوا اور پونے اعظم کیمپس کے چیئرمین جناب منور پیر بھائی، ممتاز پیر بھائی ، مسسز ریحانہ اندرے صاحبہ ، جناب اقبال کوارے صاحب ( چیئرمین آف آئيڈیل فاؤنڈشن') ڈاکٹر قاسم امام ،خان عارفہ نوید الحق، ڈاکٹر شعور اعظمی ، احمد وصی صاحب،محترمہ مسرت صاحب علی ،کوئئز ٹائم کے چیرمین حامد اقبال صحدیقی ، ساگر ترپاٹھی، اور سنتوش سریواستو ( ہیمنت فاؤوڈیشن کی مینیجنگ ٹرسٹی ) نے اپنے تاثرات پیش کۓ ۔ اور عائشہ سمن کی کتاب کا تبصرہ کیا اور مبارکباد پیش کیں ۔ جناب اقبال کوارے صاحب نے لنترانی ڈاٹ کام پر بھی اپنے تاثرات پیش کۓ اور لنترانی ڈاٹ کام کو مبارکباد دیں ۔اور کہا کہ لنترانی ایک جدید ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر کی بیداری کی ایک لہر ہے جو اٹھ رہی ہے اور ایک تحریک کی طرح انجمن بن رہی ہے ۔ ۔حامد اقبال صدیقی نے اپنے تاثرات میں کہا کہ انجمن میں بہت سی معلمات ایسی ہے کہ جو اپنے فرائض کے علاوہ بہت سے قوم کی خدمات کے کام انجام دے رہی ہے ۔صدر انجمن ڈاکٹر ظہیر قاضی صاحب نے عائشہ سمن اور لنترانی ڈاٹ کام کومبارکباد پیش کیں اور کہا کہ اردو کے فروغ کے لۓ کام کرنے والی تمام شخصیات کو لے کر ایک فورم بنائی جاۓ ۔اور اس کام کی ذمہ داری حامد اقبال صدیقی صاحب کو دی۔ کتاب کا اجراء ہوا اور گلپوشی کی گئی ۔اور لنترانی ڈاٹ کام کی جانب سے میمنٹو پیش کۓ گۓ ۔
اس تقریب میں مالیگاؤں ، پونہ ، بھیونڈی ، کلیان، میرا روڈ کی اور علم وادب اور سماجی کاموں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات موجود تھیں ۔ اعزازی مہمانان میں انجمن اسلام کی ڈائریکٹر آف ایجوکیشن مسز سلمہ لوکھنڈوالا ۔انجمن اسلام بلاسس روڈ اسکول اینڈ جونیئر کالج کی پرنسپل مسسز نجمہ قاضی ،کینسر فاؤنڈیشن کی سیکریٹری محترمہ رشیدہ قاضی ،ڈاکٹر شیخ عبداللہ ، مصطفی پنجابی ۔اردو مرکز کے ڈائریکر زبیر اعظم اعظمی ، ھدی ٹائمز کے ایڈیٹر جناب مستقیم مکّی ، ڈاکٹر خالد شیخ ۔ گل بوٹے کے روح رواں جناب فاروق سیّد ،کردار آرٹ کے چیرمین جناب اقبال نیازی ۔تحفظ ملّت کے ایڈیٹر جناب لقمان انصاری ۔ جناب پرویز خان، مشہور ماہر تعلیم جناب حسن فاروقی صاحب ،تیسرا محاذ اور اردو ٹائمز کے رپورٹر عبدالحلیم صدیقی ۔ جناب بشیر ملّا ، جناب فرید خان ،عامر ادریسی ، جناب مرزا نوید احمد ، رخسانہ صباء ،نعیمہ امتیاز، نوری اقبال کوارے، عزالہ آزاد ،سعدیہ مرچنٹ ، پریہ گانگولی ،زاہدہ صدیقی ،عبدالقیوم نعیمی، جناب آصف پلاسٹک والا ،جناب مزمل زولے ، جناب نہال صغیر ،وقار جعفری جناب رفیق منصوری، جناب نہال احمد، جناب مسعود پیش امام صاحب ، ریکھا کنگر روشنی ،محترمہ نادرہ ، ریاض احمد ، مریم غزالہ ، جناب عظیم ملک ، واقف احمد ،ڈاکٹر شبانہ ، بشیر خان ،روبینہ فاطمہ، جاوید بھساولی اور دوسری اہم مہمانان تشریف لاۓ تھے ۔ مشہور شاعرجناب عبدالاحد ساز اوربال بھارتی کے اردو کے اسپیشل آفیسراور سیکریٹری جناب خان نویدالحق صاحب کسی وجہ سے پروگرام میں شرکت نہ کرسکے ۔انھوں نے ویڈیو میسیجنگ کے ذریعے اپنی نیک خواہشات اور مبارکباد دیں ۔اس پروگرام میں خاص کر کے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوۓ ۔اسٹیج پر لگے ہوۓ اسکرین پر پروجیکٹر کے ذریعے رسم اجراء پر پرزنٹیشن چلتا رہا ۔اور عائشہ سمن کی لکھی ہوئی غزلیں پریہ گالگولی( پاکیزہ خانم ) اور نندنی نے اپنی خوبصورت آواز میں پیش کیں ۔ ۔پروگرام کافی کامیاب رہا۔ضیافت کا انتظام کیا گیا تھا ۔آخری میں لنترانی ڈاٹ کام کی چیف ایڈیٹر منور سلطانہ نے رسم شکریہ ادا کیا ۔
تعارفِ سَمَن
ہر زبان کی طرح اُردوٗ ادب میں بھی خصوصاً صنفِ شاعری میں خواتین کی تعدادہر دَور میں محدود رہی ہے۔اس کی کئی وُجوہات ہیں، جن پر بحث کرنا مقصود نہیں ہے۔ البتہ ہر دَور میں کوئی نہ کوئی شاعرہ ایسی ضرور گذری ہے جس کی شاعری نے قاری کو متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے۔موجودہ زمانہ میں مختلف وُجوہات کی بناء پرشاعرات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔محترمہ عائشہ سَمَنؔ بھی اپنے وطنِ مالوف مالیگاؤں ،ضلع ناشک،مہاراشٹر جیسے مردُم خیزعلمی،ادبی اور شعری فَضاؤں سے پُر علاقے سے آکر عروٗس البِلاد ممبئی میں اپنی شاعری کا طلسم بکھیرنے کے لیے کو شاں ہیں۔ شعروسخن کی محفلوں میں اپنی الگ شناخت بناچکی ہیں۔ممبئی کی ادبی اور شعری محفلوں میں دادِسخن پاتی رہتی ہیں۔ بیشتر ادبی و شعری محفلوں میں بطور خاص مدعو کی جاتی ہیں۔ اُن کے متعددحلقے اور حیثیتیں ہیں ،وہ افسانہ نگار اور شاعرہ بھی ہیں اورہر دلعزیزمعلمہ کی حیثیت سے بھی مقبول و معروف ہیں۔اس کے باوجودوہ کسی مخصوص مکتبۂ فکر یا جماعتی نظریہ کی پابند نظرنہیںآتیں بلکہ عام مخلص اور حساس فنکار کی حیثیت سے انھوں نے جو کچھ محسوس کیا اسے زبان و بیان کی خوبصورتی کے ساتھ قاری کے سامنے رکھ دیا ہے۔ شرافت،عالی ظرفی،رکھ رکھاؤ، ایثار، وضعداری اور خوش طبعی اُن کی فطرت کا حصّہ ہیں۔خود سری، غرور، نمائشی پِندار اور خود نمائی کے جذبات کو انھوں نے اپنی زندگی میں داخل ہونے کی اجازت ہی نہیں دی ہے۔وہ ایسی انسان ہے کہ ان سے مل کر طبیعت خوش ہوجاتی ہے۔ نہ کسی کی بُرائی، نہ کسی کی غیبت، نہ کسی سے حسد، نہ اپنی بڑائی، نہ شاعری کا تذکرہ، نہ شخصی وجاہتوں کا اظہار۔ملاقات ہو تو باتیں ہی باتیں کرتی چلی جائیں گی۔ ہنسی کی باتیں، دوستوں کی کمزوریوں سے زیادہ ان کی خوبیوں کاذکر،منفی پہلوؤں کے بجائے مُثبَت پہلوؤں کا تذکرہ ، وار کرنے کے بجائے وار سہنے پر ہمیشہ آمادہ۔
یوں تو محترمہ ،عائشہ شیخ ہیں لیکن طبیعت گلوں کی طرح باغ وبہار پائی ہے،کانٹوں سے نباہ کرنے کا ہنر بھی جانتی ہیں،شاید اسی لیے اپنا تخلص سَمَنؔ رکھ لیا ہے۔وہ بھرے شباب یا کم عمری ہی میں محبوب کی نازبرداریوں سے نکل کر گیسوئے حیات کو سُلجھانے میں مصروف ہوگئیں ہیں۔وہ ہمیشہ مُتبسِّم نظر آتی ہیں اور ماحول کو بھی خوشگوار اور نَشاط انگیزمُسرَّت سے پُر دیکھنا چاہتی ہیں لیکن پتہ نہیں ان کی زندگی میں اِنبساط ہے یا زخم ہائے پنہاں کا حجابِ لطیف۔
’’نُقرئی کنگن بول اُٹھے‘‘ عائشہ سَمَنؔ کا اولین شعری مجموعہ ہے، جس میں غزلوں کے ساتھ ساتھ نظمیں بھی شامل ہیں۔ یہ مجموعہ سَمَنؔ کی تازہ شعری وتخلیقی صلاحیتوں کا مظہر ہے۔اس مجموعے میں جو نُقرئی آوازیں سنائی دیتی ہیں وہ نئے مُثبَت امکانات کا پتہ دیتی ہیں۔اس مجموعے کے ذریعے سمنؔ نے اپنی فکروفن کو اظہار کے نئے اُسلوب سے آشنا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے یہاں اظہارِ ذات اور جہاں بینی ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔ ’’نُقرئی کنگن بول اُٹھے ‘‘کی غزلیں اور نظمیں ذات، صفات اور زمانے کے مسائل کی عکاسی کرتی ہیں۔سمن ؔ کے یہاں فکر کی بلندی، خیالات کی وسعت اور جذبات کی گہرائی سبھی کچھ کسی نہ کسی حد تک موجود ہے۔محترمہ ابھی بحیثیت شاعر ابتدائی دَور سے گذر رہی ہیں تاہم ان کے کلام میں سلاستِ بیان موجود ہے۔ ممکن ہے کلام میں کچھ کمزوریاں بھی ہوں اور معنوی اسقام بھی لیکن اس کے باوجود شعریت اور نغمگی کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ اُن کے لہجہ سے ایک نئی آواز کا گمان اُبھرتا ہے۔اُن کے یہاں خیالات ، سادگی اور روانی کے ساتھ ادا ہوئے ہیں۔میری نظر میں زبان کی صفائی اُن کا سب سے بڑا وصف ہے،کیونکہ اُنھوں نے فارسی تراکیب اور محاوروں کے بے جا استعمال سے اجتناب برتا ہے۔
سمنؔ کو دوستوں کی محبتیں مُیسَّرہیں ،ادبی محفلوں اور درس وتدریس کی نشستوں سے اُنھوں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔وہ درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں اسی لیے زبان و بیان پر خصوصی توجہ دی ہے۔ لہٰذایہی وجہ ہے کہ اُن کا کلام زبان کی خامیوں سے پاک نظر آتاہے۔اُنھوں نے شاعرانہ ہنر مندی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے ہندی کے ثقیل الفاظ اور بعید از قِیاس استعاروں کے استعمال سے بھی اپنے کلام کو محفوظ رکھا ہے،جس سے کلام میں روانی اور صفائی،بیان اور اثر میں وسعت پیدا ہوئی ہے۔ اُن کا کلام اُن کے مافی الضمیرکا آئینہ دار ہے۔وہ مذہب پرست بھی ہیں،اسی لیے انھوں نے اپنے مجموعے کی ابتداء حمد ونعت سے کی ہے۔حمد کے یہ ا شعار دیکھیے جہاں سَمَن نے اللہ کی کبریائی بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے انھیں شعور عطا کیا ہے اوراُن کے لفظوں میں تاثیریں پیدا کی ہیں:
وِجدان و اِدراک ترے ہیں ، تیرے ہیں احساس و شعور
میرے کاسۂ لفظ کے اندر تاثیریں بھی تیری ہیں
کسی ایسی شخصیت پر اظہارِ خیال کا سوال آئے جس سے ذاتی اور قریبی تعلق ہوتوتحریر میں توازن برقرار رکھنا نہایت مشکل ہوجاتا ہے۔عائشہ سَمَنؔ کے تعلق سے لکھتے وقت مجھے بھی ایسی ہی مشکل کا سامنا کرنا پڑاہے۔
مِرے شعور میں شائستگی تجھی سے ہے
مِرے خدا ، مِری دیدہ وری تجھی سے ہے
اُن کی غزلیں اُن کے خیالات و نظریات کی غمازی کرتی نظر آتی ہیں۔اُنھوں نے اپنے پسندیدہ شاعر احمد فرازؔ کی زمین میں جو غزل کہی ہے اس میں محبوب کی عدم توجہی اور بے اعتنائی کی جانب اشارہ دکھائی دیتا ہے۔
بوڑھی نہ میں ہوجاؤں اسی شوقِ جنوں میں
اے ابرِ کرم مجھ کو منانے کے لیے آ
مانا کہ سَمَنؔ کچھ بھی نہیں تیری نظر میں
اک درد کے رشتے کو نبھانے کے لیے آ
سَمَنؔ کی شخصیت کی طرح ان کی شاعری بھی دلآویز ہے۔خلوص ومحبت ان کی فطرت ثانیہ ہے، جو اُن کے کلام سے بھی ظاہر ہے۔ اُن کی گفتگو ،اُن کا لہجہ اور اُن کے احسات و جذبات اُن کی ذات کی عکاسی کرتے ہیں۔ان کی شاعری میں غم و ہجروفراق کا وہ پاکیزہ جذبہ ہے ، جو دلِ بے قرار کو جینے کا حوصلہ عطا کرتا ہے اور شاعرہ کی بے چین روح کو سکون ومُسرت کی خوشبوؤں سے معطر کرتا ہے۔ اُن کی نظموں سے اُن کی ذہنی کیفیت ، اُن کے سوچنے اور محسوس کرنے کا انداز نمایاں ہے۔ اُن کے دِل میں رہ رہ کر جو ٹیسیں اُٹھتی ہیں اس کا ماجرا بیان کرنے کے لیے اُنھوں نے دیوارِ شب کا توڑنا ،مہکتے ہوئے بادل کا برسنا ، ابر کے سایہ کا سر سے گزرنا ، بہاروں کا دستک دینا اور خون کے آنسو رلاناجیسی ترکیبوں اور علامتوں سے کام لیاہے۔یہ ساری ترکیبیں اورعلامتیں اُن کی زخمی روح ہی کی آواز معلوم ہوتی ہیں۔ اُکتاہٹ اور تھکن کی جو کیفیت اُن پر گزری ہے اس کی نمائندگی کرتی ہوئی اس نظم کے اشعار ملاحظہ فرمائیں اور اسی کے ذریعے اُن کے فن کے جمالیاتی و شعری محاسن کو جانچیں۔ دیکھیے نظم ’’تو امّی یاد آتی ہیں ، تو ابّا یاد آتے ہیں‘‘ کے یہ مصرعے:
کبھی مہتاب جب دیوارِ شب کو توڑدیتا ہے
کبھی جب ٹوٹ کر مہکا ہوا بادل برستا ہے
کبھی جب ابر کا سایہ مِرے سر سے گزرتا ہے
کبھی جب بھی بہاریں آکے دستک دینے لگتی ہیں
مجھے جب خون کے آنسو مِرے اپنے رُلاتے ہیں
اُن کے کلام کا بنیادی تخاطب مقامی اور ذاتی وابستگیوں سے زیادہ، دبی کچلی انسانی روحوںیعنی نسوانیت اور اُن کو پستی او رذلت وخواری کی طرف لے جانے والی استحصالی قوتوں کے خلاف ہے۔اسی لیے وہ چاہتی ہیں کہ اب عورت کے کردار،کرب اور اس کی ذات کی دلی کیفیات کو بھی شاعری میں وسیلۂ اظہارکا ذریعہ بنایا جائے۔ کہتی ہیں کہ:
بہت لکھا ہے تم نے خِلعتِ زردار کا قصّہ
کبھی اشکوں سے لکھ ڈالو مِرے کردار کا قصّہ
ہمارے دیدۂ نم کی کہانی بھی کبھی لکھو
سبھی لکھتے ہیں زلفوں کا ، لب و رُخسار کا قصّہ
سَمَنؔ کی شاعری صرف زندگی کے تلخ و شیریں مظاہر تک محدود نہیں بلکہ ایک قسم کی فنی و معاشرتی جدوجہد بھی ہے۔کہیں کہیں اُن کی شاعری پڑھ کر یہ تاثر بھی اُبھرتا ہے کہ وہ ایک طرح کی اُداسی اور باطن کی آگ میں آہستہ آہستہ جل رہی ہیں۔نظمیں اور غزلیں کہہ کر وہ اس ذہنی بوجھ سے آزاد ہوجاتی ہیں۔ یہ شعردیکھیے:
مجھے سونے کے اور چاندی کے زیور کیا دکھاتے ہو
میں کاغذ سے ، قلم سے ، آگہی سے پیار کرتی ہوں
اُن کے یہاں کسی بھی طرح کی بلندآہنگی، خطابت یا وفورِ جذبات کے لیے کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔وہ اپنے کلام میں ایک لطیف احساس اور ذاتی قسم کی تنہائی کے تجربے کو بڑے ہی دھیمے تاثر اور نرم انداز میں پیش کرتی نظر آتی ہیں۔ اُن کا اپنا ایک منفرِد جمالیاتی احساس اور لطیف عاشقانہ وِجدان بھی ہے۔ وہ زیادہ تر اپنے لہجے کا دھیما پن برقرار رکھتی ہیں۔
محبت کے سفر میں ہے یہی رختِ سفر جاناں
میں آنسو سے ، کراہوں سے ، غموں سے پیار کرتی ہوں
ہر شاعر کی طرح سَمَنؔ کے شعری اور فنی امتیازات کے اسباب، موضوعات اور تصورات سے زیادہ اُن کے اُسلوب اور وسیلۂ اظہارمیں مُضمَر ہیں۔ چنانچہ صنف غزل کے مخصوص تقاضوں اور حد بندیوں کے باوجود، اُن کی غزلوں میں اسلوب اور وسیلۂ اظہار کی سطح پر ایک خاص طرح کے تخلیقی ذہن کی کارفرمائی کا بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔اس غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں، جہاں ناامیدی، بے یقینی اور مایوسی کی نمائندگی واضح طورپرنظرآتی ہے۔
خواب میں آنکھیں ڈوب گئیں ہیں کیسے ملیں گی تعبیریں
آنسو ، آہیں اور کراہیں ، یہ ہیں اپنی جاگیریں
زُلف کا گجرا سوکھ گیا ہے ہاتھ کی مہندی کالی ہے
کمرے کی دیوار پہ دیکھو ماند ہوئیں ہیں تصویریں
شور بپا ہے شہرِ وفا میں کون سنے چوڑی کی کھنک
آؤ سَمَنؔ اب توڑ ہی ڈالیں شیشوں کی یہ زنجیریں
ایک خاتون اپنی ازدواجی زندگی کوکامیاب بنانے کے لیے کیا کیا کچھ نہیں کرتی ، اس کا اظہار اُن کی نظم ’’ضرورت‘‘ میں بڑے سلیقے سے پایا جاتا ہے۔رشتوں کاتقدس، خلوص،حلاوت، محبت اور سب کچھ ان کی نظموں ’’میری بیٹی‘‘اور ’’میرا بیٹا‘‘ سے چھلکتا ہے۔ تنہائی، محبوب کی بے اعتنائی اور اکیلے پن کے درد کا احساس’’تنہائی‘‘ اور ’’شکایت ہے مجھے تم سے‘‘ جیسی نظموں میں انتہا کو پہنچا ہوا نظرآتا ہے۔اس احساس سے چھٹکارا پانے اور کسی طرح اپنی محرومی کی تسکین کا سامان خوابوں میں تلاش کرنے کے لیے نظم ’’اک سوال‘‘ کا مطالعہ ناگزیر ہے۔یہ اور اس قسم کی دیگرساری کیفیات ذاتی اور زمانی دونوں قسم کی ہیں،یعنی یہ عالمِ نسواں کی کیفیات ہیں۔
سَمَنؔ کے کلام کی خاص بات یہ ہے کہ اُن کے یہاں سادگی کا عنصر بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔وہ عام طور پرمُکالماتی انداز اپناتے ہوئے اپنے ذاتی تجربوں کی بازیافت کی کوشش کرتی نظر آتی ہیں۔
امید ہے کہ ان کے اس شعری مجموعے ’’نُقرئی کنگن بول اُٹھے‘‘ کو ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا اور توقع سے زیادہ اس کی پذیرائی ہوگی۔
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
خان نویدالحق انعام الحق
اسپیشل آفیسر فار اردو
مہاراشٹر راجیہ پاٹھیہ پستک نرمتی و ابھیاس کرم سنشودھن منڈل،
بال بھارتی، سینا پتی باپٹ روڈ، پونہ۔ ۰۰۴ ۴۱۱
موبائل : 9970782076
ای میل: khan18664@gmail.com
عالم نقوی کے اعزاز میں ادبی مجلس اور الوداعی تقریب کا انعقاد
جناب علی ایم شمشی کی صدارت میں منعقد اس ادبی ،تہنیتی اور الوداعی جلسہ کی نظامت کے فرائض جناب مصطفیٰ پنجابی ادا کئے تلاوت قرآن پاک کے بعد عالم نقوی نے اپنا مقالہ ’’صحافت اور اخلاقی اقدار ‘‘ پیش کئے جس میں انہوں نے صحافت کے ذریعہ پھیلائی جارہی گمراہی کا بڑی بیباکی اور باریک بینی سے نقطہ نظر حاضرین کے سامنے رکھا۔انہوں نے اپنے مقالے میں بڑی صاف گوئی سے کہا کہ ’’کتابی علم کے مطابق میڈیا کا کام سچائی کو عوام کے سامنے پیش کرنا،لیکن فی زمانہ اس کا کام حقائق پر پردہ ڈالنااور گمراہی پھیلانا ،کارپوریٹ دنیا کی وکالت کرنا ،ان کے منافع کے لئے کام کرنا ،عوامی مشکلات اور انکی ضروریات سے چشم پوشی کرنا موجودہ میڈیا کا عام مقصد بن گیا ہے،موجودہ کارپوریٹ کلچر میں ایک خوبی دکھتی ہے کہ انکے یہاں وقت کی بڑی پابندی ہے،اسکی وجہ یہ ہے کہ اس میں منافع ہی منافع ہے،اسلئے اسے اپناتے ہیں،حقوق انسانی ،اعلیٰ اخلاقی قدریں انکے یہاں بے وقعت ہیں ،انکی نظر میں یہ دنیا ایک بازار ہے اور اس بازار میں ہر چیز بیچی اور خریدی جاسکتی ہے۔ہم سب اسی گنہگار معاشرے کے فرد ہیں ،ہمارے درمیان سے احساس گناہ بھی ختم ہوچکا ہے۔انہوں نے اپنے مقالے کی شروعات اللہ کے اس فرمان ’’جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالیں ‘‘سے کیا۔
عالم نقوی کے اس مقالہ پر ممتاز میر ،سکندر علی ،عمر فراہی اور سرفراز آرزو ایڈیٹر روزنامہ ’’ہندوستان‘‘نے اپنے تاثرات پیش کئے جو کافی معلوماتی اور چشم کشا ثابت ہوئے۔جناب سکندر علی صاحب نے بھی بہت ہی تفصیل کے ساتھ موجودہ میڈیا کی گمرہی کا احاطہ کیا۔سرفراز آرزو نے کہا کہ ’’ہم کب تک اسی طرح گلے شکوے کرتے رہیں گے،ہمیں انکے بارے میں منفی سوچ سے ہٹ کر مثبت سوچ بھی رکھنا چاہیئے اگر انہوں نے گمراہی پھیلائی ہے تو انسانیت کی بھلائی کے بھی کام کچھ کم نہیں کئے ہیں،اس پر بھی غور کرنا چاہیئے اور ان سے روشنی حاصل کرتے ہوئے معاشرے کے لئے کچھ ٹھوس قدم اٹھانا چاہئے ۔عمر فراہی نے بھی کم و بیش یہی باتیں کیں کہ ہم مسائل پر بات خوب کرتے ہیں لیکن اسکے حل کے متعلق ہمارے پاس کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔ممتاز میر نے کہا کہ نہ صرف یہ کہ میڈیا ہی اخلاقی اقدار کے زوال کا شکار ہے بلکہ دوسرے شعبہ ہائے زندگی بھی اس کے زد میں ہیں تعلیم ،کھیل، عدلیہ ،مقننہ کہیں بھی اخلاقی اقدار کی بات نہیں کی جاتی تمام ہی شعبہ ہائے زندگی اس سے متاثر ہیں ۔
حاضرین میں بھی کافی تعداد میں علمی ادبی اور سماجی شخصیات کی شرکت نے اس جلسہ کو ایک یادگار جلسہ بنادیا۔
Sunday, April 24, 2011
Friday, April 22, 2011
ہومیوپیتھی اوراسلام
یر انور کے استاد ڈاکٹر ارو ن بھسے ( نائب صدر سینٹرل کاؤنسل آف ہومیوپیتھی گورنمنٹ آف انڈیا ) نے اپنے تاثرات میں کہا کہ آج مجھے فخر محسوس ہورہا ہے کہ میرے شاگرد ڈاکٹر انور امیر کی تحقیقات سے ملک و بیرون ملک استفادہ کیا جا رہا ہے ۔ انجمن اسلام ممبئی کے صدر ڈاکٹر ظہیر قاضی نے کہا کہ مجھے خود اس بات کا اعتراف ہے کہ ہومیو پیتھی کا نسخہ تیر بہدف ہوتا ہے ۔جے کا مجھے خود بھی تجربہ ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہومیوپیتھی پرکٹس کے لۓ انجمن کے دروازے ڈاکٹر انور امیر کے لۓ ہمیشہ کھلے رہیں گے ۔ اس تقریب میں ممبئی اور بیرون ممبئی کے مختلف سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات نے شرکت کیں ۔ یہ پروگرام کامیاب رہا
Tuesday, April 19, 2011
انجمن ترقی اردو ہند : ممبئ
Wednesday, April 13, 2011
افسانہ چھت
پانی آج بھی نہیں آیا ۔ گھر میں پینےکےلئےبھی پانی نہیں ہے۔ نسرین کی بات
سنتےہی جھنجھلا کر غصےسےاس نےنسرین کی طرف دیکھا پھر بےبسی سےپلنگ پر
بیٹھ گیا ۔
اتنا بھی پانی نہیں ہےکہ آج کا کام چل جائے؟
نہیں .... ! نسرین نےدھیرےسےجواب دیا اور اپنا سر جھکا لیا ۔ اگر ایک کین
بھی پانی مل جائےتو کام چل جائےگا ۔ کل پانی ضرور آئےگا ۔ اس وقت
سامنےوالی آبادی میں پانی آتا ہے۔ جھونپڑ پٹی کی دوسری عورتیں وہاں
سےپانی لارہی ہیں ۔
دوسری عورتیں وہاں سےپانی لا رہی ہیں لیکن تم نہیں لا سکتیں کیونکہ تم
ایک وائٹ کالر جاب والےآدمی کی بیوی ہو ۔ اس نےسوچا اور پھر دھیرےسےبولا
۔
ٹھیک ہےکین مجھےدو میں پانی لاتا ہوں ۔
آفس سےآیا تو اتنا تھک گیا تھا کہ اس کا دل چاہ رہا تھا وہ بستر پر لیٹ
کر ساری دنیا سےبےخبر ہوجائے۔ لیکن نسرین نےجو مسئلہ پیش کیا تھا ایک
ایسا مسئلہ تھا جس سےوہ دو دونوں سےآنکھ چرا رہا تھا ۔ اور اب اس سےآنکھ
چرانا نا ممکن تھا ۔
اس گندی بستی کو جس پائپ لائن سےپانی سپلائی ہوتا تھا اس کا پائپ پھٹ گیا
تھا اور تین دنوں سےنلوں میں پانی نہیں آرہا تھا ۔ شکایت کی گئی تھی لیکن
جواب دیا گیا تھا کہ کام چل رہا ہے۔ کام ختم ہوجائےگا تو معمول سےایک
گھنٹہ زیادہ پانی دیا جائےگا ۔ کام چیونٹی کی رفتار سےچل رہا تھا کب ختم
ہوگا کوئی کہہ نہیں سکتا تھا اور کب پانی آئےگا کہا نہیں جاسکتا تھا ۔
جھونپڑ پٹی کا معاملہ تھا ۔ میونسپلٹی والےجھونپرپٹی والوں کو پانی
سپلائی کرنےکی ذمہ داری نبھانےکےتابعدار نہیں تھے۔ کیونکہ ان کی نظرمیں
وہ جھونپڑپٹی غیر قانونی ہے۔ اس جھونپڑ پٹی میں غیر قانونی ڈھنگ سےرشوت
دےکر نل کےکنکشن دئےگئےہیں ۔ میونسپلٹی چاہےتو ان تمام کنکشنوں کو کاٹ کر
پانی کی سپلائی بند کرسکتی ہے۔ لیکن انسانیت کےناطےاس بستی کو پانی
سپلائی کررہی تھی ۔ اس لئےاس بستی کےلوگوںکو میونسپلٹی والوں کا شکر گذار
ہونا چاہئے۔ قانون کی زبان میں بات کرنےکےبجائےعاجزی سےدرخواست کرنی
چاہیئے۔ تب میونسپلٹی کےاعلیٰ افسران ان کی پریشانیوں کےبارےمیں سنجیدگی
سےغور کریں گے۔
فرانس میں حجاب پر پابندی
فرانس میں حجاب پر پابندی کی خبریں پڑھ رہا تھاکہ ایک خبر ایسی بھی نظر آئی جس نے بے چین کر دیا۔ جدھر دنیا بھر کے مسلمان ( بشمول ہندوستان) فرانس کی حکومت کے ظالمانہ فیصلے پر افسوس ، تو کچھ مباحثہ کررہے ہیں وہیں یہ خبر بھی تھی کہ ملاڈ ( ممبئی ) کی ایک خاتون جس کا تعلق کسی مسلم گھرانے سے تھا اپنے شوہر کو چھوڑ کر کسی غیر مسلم مرد کے ساتھ اپنے بچوں کو لے کر الگ رہنے لگی جن میں ایک 12-13 سال لڑکی بھی تھی ۔ اپنی ہوس پرست زندگی میں کھو کر وہ شراب اور عیش پرستانہ زندگی کی اس قدر عادی ہوچکی تھی کہ اس نے اپنے بچوں کو بھی کم عمری میں مزدوری کرنے کے لیے مجبور کردیا ۔ بچے دن بھر محنت کر کے جو بھی لاتے اسے وہ خاتون اور اس کا ساتھی عیش و عیاشی میں اڑاد یتے ۔ جس دن فرانس میں حجاب پر پابندی پر ساری اسلامی دنیا میں غم کا ماحول تھا ۔ اس خاتون نے ممتا کو شرمسار کرتے ہوئے اپنی بیٹی کو اپنے ساتھی کی خواہش پرا س کے سامنے پیش کردیا بلکہ اس سے بھی زیادہ اپنے شوق پورے کرنے کے لیے اپنی ہی بیٹی کو جسم فروشی کے لیے مجبور کرنے لگی ۔ وہ اور اسکا ساتھی اس لڑکی کے سامنے زنا کرتے اور اسکے بعد ماں اپنی بیٹی کو بھی اس فرد کے ساتھ وہی حرکات کرنے کے لیے کہتی تھی۔
لڑکی کسی طر ح سے بچ کر اپنی خالہ کے پاس پہنچ گئی جس پر مزید ظلم کے پولیس نے شکایت کے باوجودجب تک میڈیا نے مداخلت نہیں کی مجرمین کے خلاف کوئی خاص ایکشن نہیں دکھایا ۔
رمضان ، عیدالاضحی کے موقع پر جگہ جگہ سے ظاہر ہوجانے والے وہ دارلعلوم کہاں ہیں جو ہمیں ایسے مجبور بچوں کی کفالت کا تیقن دلا کر زکوٰۃ، صدقات اور چرم جمع کرتے ہیں ، ہماری وہ دینی تحریکات کہاں ہیں جو دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں پوری یکسوئی سے لگی ہوئی ہیں، ہمارے وہ ہمدردانِ ملت و، علماء و ائمہ کہاں ہیں جو ملت کے خطیب ہونے کا دعوی کرے ہیں ۔ ہمارے دانش وران فرانس کے جارحانہ قدم پر تو افسوس کر رہے ہیں مگر ہمارے ہی ملت میں ایک ایسی بے غیر ت ماں بھی تھی جو اسی دن اپنی بیٹی کے پیرہین چاک کر اسے ہوس پرست درندوں کا چارہ بننے کے لیے مجبور کررہی تھی۔
عبدالمقیت عبدالقدیر ، بھوکر دنیا میں ایسی ماں بھی ہے!!!!
Saturday, April 09, 2011
ویسٹ اگینسٹ پیس
Wednesday, April 06, 2011
مبارک باد
قوم و ملّت کے مایہ ناز ادارے انجمن اسلام کے عہدہ صدارت کے لۓ موجودہ صدر ڈاکٹر ظہیر قاضی کو دوسری مرتبہ بلا مقابلہ منتخب کی گیا ہے ۔صدر دفتر کے احمد ذکریہ ہال میں جنرل کاؤنسل کے ممبران نے انتخابی عمل میں حصّہ لیا ہر تین سال کے بعد صدارت کے عہدہ کے لۓ انتخاب عمل میں آتا ہے ۔ گزشتہ چودہ پندرہ مہینوں سے ڈاکٹر ظہیر قاضی ہی صدر کے عہدہ پر فائز تھے ۔انھوں نے انجمن کی ترقی کے لۓ کئ اقدامات کۓ حاجی عبدالرزاق کالسیکر کی جانب سے چالیس کڑوڑ کا عطیہ حاصل کیا اور ایک خطیر رقم سے پنویل میں انجینئیر کالج آرکیٹیکچر کالج ،فارمیسی کالج 400 طلبہ کے لۓ ہوسٹل اور ایک ایڈمنسٹریٹیو بلڈنگ کی تعمیر کا کام جاری ہۓ ۔قاضی صاحب ہی کی صدارت میں سوسال سے بھی پرانی تاریخی کریمی لائـبریری کا کام پائہ تکمیل کو پہنچا ہے آئيندہ تین برسوں کے لۓ انھوں نے انجمن اسلام کے قائد کی حیّثیت سے قوم و ملّت کی فلاح و بہبود کے لۓ معتدد منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کا بیڑہ اٹایا ہے ۔ آپ دوبارہ صدر منتخب ہونے پر لنترانی ٹیم تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتی ہیں ۔۔
انسانیت ابھی ختم نہیں ہوئی
کے ای ایم اسپتال کی جواں سال نرس ارونا کی عصمت کوایک صفائی کرمچاری نے تار تارکردیا تھا ۔اس گھناؤنےجرم کے لۓ اسے صرف سات سال کی سزا کا فرمان جاری ہوا تھا ۔ سزا تو اس وقت سنائی جاتی ہے ۔جب گناہ ثابت ہوجاتا ہے ۔ تب تو اس بے رحم درندہ کو پھانسی کی سزا ہونی جاہیۓ تھی ۔کیونکہ 37 سال کی کسمپرسی کے سامنے کچھ معنی نہیں رکھتی ۔ ارونا شان باگ اس حادثہ کا شکار ہونے سے پہلے نہایت ہی شان سے زندگی بسر کر رہی تھی ۔ اس کے شب و روز باغ و بہار کے ساۓ میں گزر رہے تھے ۔۔ لیکن اب وہ اسپتال کے بستر پر پڑی اپنی بے نور آنکھوں سے چھت کو ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہتی ہے ۔ارونا کی تیماداری میں جس جس دور میں نرسیں معمور رہی ہیں ۔ان نرسوں کے جذبہ کی سچائی کو ہر کسی نے محسوس کیا ۔ انہوں نے کبھی بھی اس کی خدمت میں کو تاہی یا بیزاری کا اظہار نہیں کیا ۔ ان سفید ملبوسات میں لپٹی ہوئی دو شیزاؤں کے ہدیہ خلوص کو سلام کرنا ضروری ہے ۔ کیونکہ آج نفسانفسی کا یہ عالم ہے کہ کچھ ناخلف ( نالائق) بچے اس قسم کی بیماریمیں مبتلا اپنے والدین کو تنہا چھوڑ کر کسی بڑھا ہاؤس یا شیلٹر ہاؤس میں داخل کر کے اپنے فرائض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں ۔ کیا ان کی نظر وں میں والدین کی انگلی پکڑ کر بڈھےہونے کے مراحلوں کی یہی قیمت ہوتی ہے ۔ ان لاپرواہ اولادوں کے اس سلوک اور برتاؤ کا صلہ اس دنیا میں انہیں ملے یا نہ ملے مگر روز محشر میں اس کا حساب ہو کر رہے گا ۔
مذہب اسلام میں دختر کشی کی سخت ممانعت کی گئ ہے ۔ بلکہ آنحضرت نے لڑکی کی پیدائش پر خوشی کے اظہار کرنے کو اولیت دی ہے۔ اور اسی فلسفہ کو مدّنظر رکھ کر سپریم کورٹ نے پنکی ویرانی کی درخواست کو بونا کرکے ارونا کو زندگی کا بہترین تحفہ دیا ہے اور دینا بھی چاہیۓ ۔ کیونکہ ہمارا مہذب معاشرہ ( یوتھا نیشا) حیسے بے رحم لفظ کو کسی بھی حال میں قبولیت کے زمرے میں شامل کرنے کی جسارت نہیں کرسکتا ۔مقابلے کی بات کی جاۓ توہماری دختران نے ہرشعبہ میں بازی مار لڑکوں کو پیچھے کی سمت میں ڈھکیل دیا ہے۔پھر بھی یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ لڑکے کی چاہت میں کیوں لڑکی کو آنے سے روک دیا جاتا ہے ۔اس ضمن میں ارونا کو نئی حیات بخشنے ڈاکٹروں کا جو پینل موجود تھا ان کی ستائش ضرور کرنی چاہیۓ ۔کیونکہ مسیجائی کے علاوہ انسانیت کے سبق کو وہ نہیں بھولے تھے ۔اور یہ بھی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ زندگی کی ذور اوپر والے کے ہاتھ میں ہیں ۔پھر بھلا ہم اسے کس طرح توڑ سکتے ہیں
( اّثر ستار ممبئی )