Wednesday, April 27, 2011
تعارفِ سَمَن
ہر زبان کی طرح اُردوٗ ادب میں بھی خصوصاً صنفِ شاعری میں خواتین کی تعدادہر دَور میں محدود رہی ہے۔اس کی کئی وُجوہات ہیں، جن پر بحث کرنا مقصود نہیں ہے۔ البتہ ہر دَور میں کوئی نہ کوئی شاعرہ ایسی ضرور گذری ہے جس کی شاعری نے قاری کو متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے۔موجودہ زمانہ میں مختلف وُجوہات کی بناء پرشاعرات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔محترمہ عائشہ سَمَنؔ بھی اپنے وطنِ مالوف مالیگاؤں ،ضلع ناشک،مہاراشٹر جیسے مردُم خیزعلمی،ادبی اور شعری فَضاؤں سے پُر علاقے سے آکر عروٗس البِلاد ممبئی میں اپنی شاعری کا طلسم بکھیرنے کے لیے کو شاں ہیں۔ شعروسخن کی محفلوں میں اپنی الگ شناخت بناچکی ہیں۔ممبئی کی ادبی اور شعری محفلوں میں دادِسخن پاتی رہتی ہیں۔ بیشتر ادبی و شعری محفلوں میں بطور خاص مدعو کی جاتی ہیں۔ اُن کے متعددحلقے اور حیثیتیں ہیں ،وہ افسانہ نگار اور شاعرہ بھی ہیں اورہر دلعزیزمعلمہ کی حیثیت سے بھی مقبول و معروف ہیں۔اس کے باوجودوہ کسی مخصوص مکتبۂ فکر یا جماعتی نظریہ کی پابند نظرنہیںآتیں بلکہ عام مخلص اور حساس فنکار کی حیثیت سے انھوں نے جو کچھ محسوس کیا اسے زبان و بیان کی خوبصورتی کے ساتھ قاری کے سامنے رکھ دیا ہے۔ شرافت،عالی ظرفی،رکھ رکھاؤ، ایثار، وضعداری اور خوش طبعی اُن کی فطرت کا حصّہ ہیں۔خود سری، غرور، نمائشی پِندار اور خود نمائی کے جذبات کو انھوں نے اپنی زندگی میں داخل ہونے کی اجازت ہی نہیں دی ہے۔وہ ایسی انسان ہے کہ ان سے مل کر طبیعت خوش ہوجاتی ہے۔ نہ کسی کی بُرائی، نہ کسی کی غیبت، نہ کسی سے حسد، نہ اپنی بڑائی، نہ شاعری کا تذکرہ، نہ شخصی وجاہتوں کا اظہار۔ملاقات ہو تو باتیں ہی باتیں کرتی چلی جائیں گی۔ ہنسی کی باتیں، دوستوں کی کمزوریوں سے زیادہ ان کی خوبیوں کاذکر،منفی پہلوؤں کے بجائے مُثبَت پہلوؤں کا تذکرہ ، وار کرنے کے بجائے وار سہنے پر ہمیشہ آمادہ۔
یوں تو محترمہ ،عائشہ شیخ ہیں لیکن طبیعت گلوں کی طرح باغ وبہار پائی ہے،کانٹوں سے نباہ کرنے کا ہنر بھی جانتی ہیں،شاید اسی لیے اپنا تخلص سَمَنؔ رکھ لیا ہے۔وہ بھرے شباب یا کم عمری ہی میں محبوب کی نازبرداریوں سے نکل کر گیسوئے حیات کو سُلجھانے میں مصروف ہوگئیں ہیں۔وہ ہمیشہ مُتبسِّم نظر آتی ہیں اور ماحول کو بھی خوشگوار اور نَشاط انگیزمُسرَّت سے پُر دیکھنا چاہتی ہیں لیکن پتہ نہیں ان کی زندگی میں اِنبساط ہے یا زخم ہائے پنہاں کا حجابِ لطیف۔
’’نُقرئی کنگن بول اُٹھے‘‘ عائشہ سَمَنؔ کا اولین شعری مجموعہ ہے، جس میں غزلوں کے ساتھ ساتھ نظمیں بھی شامل ہیں۔ یہ مجموعہ سَمَنؔ کی تازہ شعری وتخلیقی صلاحیتوں کا مظہر ہے۔اس مجموعے میں جو نُقرئی آوازیں سنائی دیتی ہیں وہ نئے مُثبَت امکانات کا پتہ دیتی ہیں۔اس مجموعے کے ذریعے سمنؔ نے اپنی فکروفن کو اظہار کے نئے اُسلوب سے آشنا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے یہاں اظہارِ ذات اور جہاں بینی ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔ ’’نُقرئی کنگن بول اُٹھے ‘‘کی غزلیں اور نظمیں ذات، صفات اور زمانے کے مسائل کی عکاسی کرتی ہیں۔سمن ؔ کے یہاں فکر کی بلندی، خیالات کی وسعت اور جذبات کی گہرائی سبھی کچھ کسی نہ کسی حد تک موجود ہے۔محترمہ ابھی بحیثیت شاعر ابتدائی دَور سے گذر رہی ہیں تاہم ان کے کلام میں سلاستِ بیان موجود ہے۔ ممکن ہے کلام میں کچھ کمزوریاں بھی ہوں اور معنوی اسقام بھی لیکن اس کے باوجود شعریت اور نغمگی کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ اُن کے لہجہ سے ایک نئی آواز کا گمان اُبھرتا ہے۔اُن کے یہاں خیالات ، سادگی اور روانی کے ساتھ ادا ہوئے ہیں۔میری نظر میں زبان کی صفائی اُن کا سب سے بڑا وصف ہے،کیونکہ اُنھوں نے فارسی تراکیب اور محاوروں کے بے جا استعمال سے اجتناب برتا ہے۔
سمنؔ کو دوستوں کی محبتیں مُیسَّرہیں ،ادبی محفلوں اور درس وتدریس کی نشستوں سے اُنھوں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔وہ درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں اسی لیے زبان و بیان پر خصوصی توجہ دی ہے۔ لہٰذایہی وجہ ہے کہ اُن کا کلام زبان کی خامیوں سے پاک نظر آتاہے۔اُنھوں نے شاعرانہ ہنر مندی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے ہندی کے ثقیل الفاظ اور بعید از قِیاس استعاروں کے استعمال سے بھی اپنے کلام کو محفوظ رکھا ہے،جس سے کلام میں روانی اور صفائی،بیان اور اثر میں وسعت پیدا ہوئی ہے۔ اُن کا کلام اُن کے مافی الضمیرکا آئینہ دار ہے۔وہ مذہب پرست بھی ہیں،اسی لیے انھوں نے اپنے مجموعے کی ابتداء حمد ونعت سے کی ہے۔حمد کے یہ ا شعار دیکھیے جہاں سَمَن نے اللہ کی کبریائی بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے انھیں شعور عطا کیا ہے اوراُن کے لفظوں میں تاثیریں پیدا کی ہیں:
وِجدان و اِدراک ترے ہیں ، تیرے ہیں احساس و شعور
میرے کاسۂ لفظ کے اندر تاثیریں بھی تیری ہیں
کسی ایسی شخصیت پر اظہارِ خیال کا سوال آئے جس سے ذاتی اور قریبی تعلق ہوتوتحریر میں توازن برقرار رکھنا نہایت مشکل ہوجاتا ہے۔عائشہ سَمَنؔ کے تعلق سے لکھتے وقت مجھے بھی ایسی ہی مشکل کا سامنا کرنا پڑاہے۔
مِرے شعور میں شائستگی تجھی سے ہے
مِرے خدا ، مِری دیدہ وری تجھی سے ہے
اُن کی غزلیں اُن کے خیالات و نظریات کی غمازی کرتی نظر آتی ہیں۔اُنھوں نے اپنے پسندیدہ شاعر احمد فرازؔ کی زمین میں جو غزل کہی ہے اس میں محبوب کی عدم توجہی اور بے اعتنائی کی جانب اشارہ دکھائی دیتا ہے۔
بوڑھی نہ میں ہوجاؤں اسی شوقِ جنوں میں
اے ابرِ کرم مجھ کو منانے کے لیے آ
مانا کہ سَمَنؔ کچھ بھی نہیں تیری نظر میں
اک درد کے رشتے کو نبھانے کے لیے آ
سَمَنؔ کی شخصیت کی طرح ان کی شاعری بھی دلآویز ہے۔خلوص ومحبت ان کی فطرت ثانیہ ہے، جو اُن کے کلام سے بھی ظاہر ہے۔ اُن کی گفتگو ،اُن کا لہجہ اور اُن کے احسات و جذبات اُن کی ذات کی عکاسی کرتے ہیں۔ان کی شاعری میں غم و ہجروفراق کا وہ پاکیزہ جذبہ ہے ، جو دلِ بے قرار کو جینے کا حوصلہ عطا کرتا ہے اور شاعرہ کی بے چین روح کو سکون ومُسرت کی خوشبوؤں سے معطر کرتا ہے۔ اُن کی نظموں سے اُن کی ذہنی کیفیت ، اُن کے سوچنے اور محسوس کرنے کا انداز نمایاں ہے۔ اُن کے دِل میں رہ رہ کر جو ٹیسیں اُٹھتی ہیں اس کا ماجرا بیان کرنے کے لیے اُنھوں نے دیوارِ شب کا توڑنا ،مہکتے ہوئے بادل کا برسنا ، ابر کے سایہ کا سر سے گزرنا ، بہاروں کا دستک دینا اور خون کے آنسو رلاناجیسی ترکیبوں اور علامتوں سے کام لیاہے۔یہ ساری ترکیبیں اورعلامتیں اُن کی زخمی روح ہی کی آواز معلوم ہوتی ہیں۔ اُکتاہٹ اور تھکن کی جو کیفیت اُن پر گزری ہے اس کی نمائندگی کرتی ہوئی اس نظم کے اشعار ملاحظہ فرمائیں اور اسی کے ذریعے اُن کے فن کے جمالیاتی و شعری محاسن کو جانچیں۔ دیکھیے نظم ’’تو امّی یاد آتی ہیں ، تو ابّا یاد آتے ہیں‘‘ کے یہ مصرعے:
کبھی مہتاب جب دیوارِ شب کو توڑدیتا ہے
کبھی جب ٹوٹ کر مہکا ہوا بادل برستا ہے
کبھی جب ابر کا سایہ مِرے سر سے گزرتا ہے
کبھی جب بھی بہاریں آکے دستک دینے لگتی ہیں
مجھے جب خون کے آنسو مِرے اپنے رُلاتے ہیں
اُن کے کلام کا بنیادی تخاطب مقامی اور ذاتی وابستگیوں سے زیادہ، دبی کچلی انسانی روحوںیعنی نسوانیت اور اُن کو پستی او رذلت وخواری کی طرف لے جانے والی استحصالی قوتوں کے خلاف ہے۔اسی لیے وہ چاہتی ہیں کہ اب عورت کے کردار،کرب اور اس کی ذات کی دلی کیفیات کو بھی شاعری میں وسیلۂ اظہارکا ذریعہ بنایا جائے۔ کہتی ہیں کہ:
بہت لکھا ہے تم نے خِلعتِ زردار کا قصّہ
کبھی اشکوں سے لکھ ڈالو مِرے کردار کا قصّہ
ہمارے دیدۂ نم کی کہانی بھی کبھی لکھو
سبھی لکھتے ہیں زلفوں کا ، لب و رُخسار کا قصّہ
سَمَنؔ کی شاعری صرف زندگی کے تلخ و شیریں مظاہر تک محدود نہیں بلکہ ایک قسم کی فنی و معاشرتی جدوجہد بھی ہے۔کہیں کہیں اُن کی شاعری پڑھ کر یہ تاثر بھی اُبھرتا ہے کہ وہ ایک طرح کی اُداسی اور باطن کی آگ میں آہستہ آہستہ جل رہی ہیں۔نظمیں اور غزلیں کہہ کر وہ اس ذہنی بوجھ سے آزاد ہوجاتی ہیں۔ یہ شعردیکھیے:
مجھے سونے کے اور چاندی کے زیور کیا دکھاتے ہو
میں کاغذ سے ، قلم سے ، آگہی سے پیار کرتی ہوں
اُن کے یہاں کسی بھی طرح کی بلندآہنگی، خطابت یا وفورِ جذبات کے لیے کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔وہ اپنے کلام میں ایک لطیف احساس اور ذاتی قسم کی تنہائی کے تجربے کو بڑے ہی دھیمے تاثر اور نرم انداز میں پیش کرتی نظر آتی ہیں۔ اُن کا اپنا ایک منفرِد جمالیاتی احساس اور لطیف عاشقانہ وِجدان بھی ہے۔ وہ زیادہ تر اپنے لہجے کا دھیما پن برقرار رکھتی ہیں۔
محبت کے سفر میں ہے یہی رختِ سفر جاناں
میں آنسو سے ، کراہوں سے ، غموں سے پیار کرتی ہوں
ہر شاعر کی طرح سَمَنؔ کے شعری اور فنی امتیازات کے اسباب، موضوعات اور تصورات سے زیادہ اُن کے اُسلوب اور وسیلۂ اظہارمیں مُضمَر ہیں۔ چنانچہ صنف غزل کے مخصوص تقاضوں اور حد بندیوں کے باوجود، اُن کی غزلوں میں اسلوب اور وسیلۂ اظہار کی سطح پر ایک خاص طرح کے تخلیقی ذہن کی کارفرمائی کا بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔اس غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں، جہاں ناامیدی، بے یقینی اور مایوسی کی نمائندگی واضح طورپرنظرآتی ہے۔
خواب میں آنکھیں ڈوب گئیں ہیں کیسے ملیں گی تعبیریں
آنسو ، آہیں اور کراہیں ، یہ ہیں اپنی جاگیریں
زُلف کا گجرا سوکھ گیا ہے ہاتھ کی مہندی کالی ہے
کمرے کی دیوار پہ دیکھو ماند ہوئیں ہیں تصویریں
شور بپا ہے شہرِ وفا میں کون سنے چوڑی کی کھنک
آؤ سَمَنؔ اب توڑ ہی ڈالیں شیشوں کی یہ زنجیریں
ایک خاتون اپنی ازدواجی زندگی کوکامیاب بنانے کے لیے کیا کیا کچھ نہیں کرتی ، اس کا اظہار اُن کی نظم ’’ضرورت‘‘ میں بڑے سلیقے سے پایا جاتا ہے۔رشتوں کاتقدس، خلوص،حلاوت، محبت اور سب کچھ ان کی نظموں ’’میری بیٹی‘‘اور ’’میرا بیٹا‘‘ سے چھلکتا ہے۔ تنہائی، محبوب کی بے اعتنائی اور اکیلے پن کے درد کا احساس’’تنہائی‘‘ اور ’’شکایت ہے مجھے تم سے‘‘ جیسی نظموں میں انتہا کو پہنچا ہوا نظرآتا ہے۔اس احساس سے چھٹکارا پانے اور کسی طرح اپنی محرومی کی تسکین کا سامان خوابوں میں تلاش کرنے کے لیے نظم ’’اک سوال‘‘ کا مطالعہ ناگزیر ہے۔یہ اور اس قسم کی دیگرساری کیفیات ذاتی اور زمانی دونوں قسم کی ہیں،یعنی یہ عالمِ نسواں کی کیفیات ہیں۔
سَمَنؔ کے کلام کی خاص بات یہ ہے کہ اُن کے یہاں سادگی کا عنصر بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔وہ عام طور پرمُکالماتی انداز اپناتے ہوئے اپنے ذاتی تجربوں کی بازیافت کی کوشش کرتی نظر آتی ہیں۔
امید ہے کہ ان کے اس شعری مجموعے ’’نُقرئی کنگن بول اُٹھے‘‘ کو ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا اور توقع سے زیادہ اس کی پذیرائی ہوگی۔
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
خان نویدالحق انعام الحق
اسپیشل آفیسر فار اردو
مہاراشٹر راجیہ پاٹھیہ پستک نرمتی و ابھیاس کرم سنشودھن منڈل،
بال بھارتی، سینا پتی باپٹ روڈ، پونہ۔ ۰۰۴ ۴۱۱
موبائل : 9970782076
ای میل: khan18664@gmail.com
Labels:
book release,
critical analysis
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment