Shazia Andleeb
خود کشی کا ذمہ دار کون؟
تحریر شازیہ عندلیب
غلطی میری تھی۔یہ الفاظ پاکستانی کمیونٹی کی ایک جانی پہچانی لکھاری کے تھے۔ایسے جملے جن میںاعتراف ہو ہمارے پاکستانی معاشرے اور کمیونٹی میں بہت کم سنائی دیتے ہیں۔بلکہ اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کا مطلب ہے کہ تسلیم کرنے والے کی زندگی میں ایک مثبت تبدیلی آنے والی ہے اب وہ اس غلطی کا ازالہ کرنے والا ہے لیکن اگر غلطی کو سرے سے تسلیم ہی نہ کیا جائے تو اسکا مطلب ہے کہ غلطی کرنے والا کبھی اپنی اصلاح نہیں کرے گا بلکہ بار بار غلطی کو دہرا کر اپنی مشکلات میں اضافہ کرے گا۔ہماری پاکستانی کمیونٹی میں نہ صرف غلطی کا اعتراف نہیں کیا جاتا بلکہ اسے کس اور کے سر پہ تھوپا جاتاہے اور الزام تراشیاں کی جاتی ہیں۔خود کو سچا ثابت کرنے کے لیے جھوٹی گواہیاں دی جاتی ہیں اس طرح ایک غلطی اور کئی جھوٹ مل کر مصیبتوں کے پہاڑ کھڑے کر دیتے ہیں اور انسان مشکلات کی دلدلوں میں دھنستا ہی چلا جاتا ہے۔
دوسری جانب غلطی کا اعتراف انسان کو تھوڑی دیر کے لیے جھکا تو دیتا ہے مگر پھر اسے ہمیشہ سر اٹھا کر چلنے کی ہمت بھی دیتا ہے اور یہی ہمت اسے زندگی کی بھرپور گہما گہمیوں کی جانب گامزن کر دیتی ہے۔
مذکورہ بالا خاتون لکھاری نے اپنی غلطی اس وقت تسلیم کی جب وہ ایک مقدمہ میں جیت گئیں۔مگر غلطی تسلیم کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ قصور وار تھیں پھر تو انہیں سزا ملنی چاہیے تھی ۔یہ سزا وہ پہلے ہی اس مقدمہ کی پیشیوں کی صورت میں بھگت چکی تھیں۔ا گر وہ یہ مقدمہ ہار جاتیں تو انہیں اپنے بچوں سے ہاتھ دھونے پڑتے۔اس مقدمہ کی وجہ یہ بنی کہ وہ خود اپنی زندگی سے ہاتھ دھونے لگی تھیں۔ناروے کے قانون کے مطابق اگر بچوں کی دیکھ بھال کے ادارے کو کہیں سے بھی یہ سن گن مل جائے کہ والدین بچوں کی تربیت میں کوتاہی یا غفلت کے مرتکب ہو رہے ہیں یا انہیں مار پیٹ کر رہے ہیں انکی ضروریات کا خیال نہیں رکھتے تب ایسی صورت میں والدین کو اسکا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔اس کوتاہی کے نتیجے میںوالدین اپنے بچے کھو دیتے ہیں۔ نارویجن حکومت کا ادارہ برائے اطفال بچوں کو اپنی تحویل میں لے کر انکی تعلیم و تربیت اور پرورش کرتا ہے۔ایسے بچوں کے لیے نئے والدین تلاش کیے جاتے ہیں جہاں حکومت کے خرچے پر بچوں کی پرورش کی جاتی ہے۔ گویا یہ ادارہ نارویجن بچوں کے دوسرے سرپرست ہیں۔لہذٰ ذا اصل والدین کو بہت ہشیار رہ کر بچوں کی تربیت کرنی پڑتی ہے ورنہ انکے ثانوی سرپرست انہیں لے جائیں گے۔یعنی کہ ناروے میں پرورش پانے والے بچے صرف والدین کے ہی نہیں بلکہ حکومت کی بھی ذمہ داری ہیں۔یہ ادارہ بچوں کے ساتھ کوئی بھی نارو ا سلوک ہر گز برداشت نہیں کرتا۔اگر والدین بچوں سے مار پیٹ کریں چانٹا رسید کریں یا جوتے ڈنڈے سے پٹائی کی محض دھمکی ہی دیں اور بچہ اسکول میں شکائیت کر دے تو ایسی صورت میں ٹیچر فوراًاس ادارے کو اطلاع کرتا ہے کہ بچے کی تربیت صحیح نہیں ہو رہی اور ادارہ ایکشن میں آکر ضرورت سمجھے تو میٹنگ میں تنبیح کرتا ہے ورنہ ذیادہ پیچیدہ صورتحال میں مثلاً بچے کے جسم پر مار پیٹ کے نشان ہوں یا بچے کی صحت ٹھیک نہ ہو یا وہ افسردہ رہتا ہے ۔یہ ادارہ بغیر کسی نوٹس کے بھی بچوں کو اپنی تحویل میں لے لیتا ہے چاہے وہ دس سے بھی ذیادہ ہوں ادارہ سب بچے لے جاتا ہے۔پھر اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے بچے والدین کو نہیں مل سکتے۔منہ بولے والدین بچوں کو اتنا پیار دیتے ہیں انکی ضروریات کا اسقدر خیال رکھتے ہیں کہ بچے اپنے اصل والدین کو ہی فراموش کر دیتے ہیں ۔پھر انہیں اپنے والدین سے ملنے کی چاہ ہی نہیں رہتی۔ادارہ تحفظ اطفال کی جانب سے وارننگ کی صورتحال اس وقت پیش آئی جب ایک لکھاری خاتون نے ڈپریشن کی وجہ سے نیند کی پندرہ گولیاں کھا کر اپنی جان لینے کی کوشش کیاور ہسپتال پہنچ گئیں۔وہ ڈاکٹروں کی توجہ اور محنت سے صحتیاب تو ہو گئیں مگر ادارہء تحفظ اطفال نے ان سے بچے تحویل میں لینے کی وارننگ دے دی۔صحتیاب ہونے کے بعد ان کے اندر سوئی ہوئی ماں کی ممتا جاگ اٹھی۔وہ جس نے نیند کی گولیاں کھاتے وقت اپنے بچوں کے بارے میں نہ سوچا اب انکی خاطر اس ادارے سے ٹکر لینے کے لیے تیار ہوگئی۔ان کی ثابت قدمی اور عزم نے رنگ دکھایا اور وہ تین سال تک اس مقدمہ کی پیشیاں بھگتتی رہیں۔یہ مرحلہ ایک ماں کے لیے بڑا کٹھن ہوتا ہے،ہر وقت یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کب اس کے جگر گوشے اس سے چھن جائیں۔کون سی پیشی اسے اس کے بچوں سے محروم کردے۔کب وہ اپنے معصوم بچوں سے ہمیشہ کے لیے دور کر دی جائے۔کئی مائیں اپنے حواس کھو بیٹتی ہیں اس خوف سے ڈپریشن کا شکار ہو کر الٹی سیدھی حرکتیں کرتی ہیں اس طرح اس ادارے کاکام آسان ہو جاتا ہے اور مقدمہ کا فیصلہ والدین کے خلاف ہو جاتا ہے کہ وہ بچوں کی تربیت کے اہل ہی نہیں۔
یہی خوف اور دھڑکا اس خاتون کو بھی لگا رہتا کہ جانے کب کیا ہو جائے کب اس ماں کی جنت اجڑ جائے کب اسکی آنکھوں کی ٹھنڈک چھن جائے کب وہ برباد و خانماں رہ جائے۔مگر اس باہمت خاتون نے سب مراحل بڑی ہمت سے طے کیے اور ساری مشکلات کے پہاڑ عبور کر کے بالآخر مقدمہ جیت گئیں یہ خاتون ان تمام والدین کے لیے ایک بہترین مثال ہیں جو اس صورتحال کا شکار ہیں۔یہ خاتون چاہیں تو انکی رہنمائی بھی کر سکتی ہیں۔
یہاں تک تو سب ٹھیک تھا مگر ان کی خود کشی کے واقعہ سے کئی اور سوال بھی اٹھتے ہیں کہ آخر انہیں ڈپریشن کی گولیاں کھانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟اس وقت ان کے عزیا اور دست احباب کہاں تھے؟ وہ کون سی صورتحال تھی جس نے انہیں یہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کیا؟وہ ایک مشکل صورتحال میں کیوں تنہا رہ گئیں کہ اس کے بعد انہیں دوسری بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔کوئی شخص زندگی جیسی قیمتی چیز یونہی نہیں ہارنے بیٹھ جاتا۔اس کے پیچھے کئی عوامل،افراد اور غلطیاں کارفرما ہوتی ہیں تب جا کر نوبت یہاں تک پہنچتی ہے۔اگر ان سارے سوالوں کے جواب مل جائیں تو ڈپریشن میں مبتلاء اور خود کشی کا رجحان رکھنے والے کئی افراد کی رہنمائی بھی ہو سکتی ہے۔