You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Friday, March 28, 2014

Tehrir


Shazia Andleeb
خود کشی کا ذمہ دار کون؟

تحریر شازیہ عندلیب 
غلطی میری تھی۔یہ الفاظ پاکستانی کمیونٹی کی ایک جانی پہچانی لکھاری کے تھے۔ایسے جملے جن میںاعتراف ہو ہمارے پاکستانی معاشرے اور کمیونٹی میں بہت کم سنائی دیتے ہیں۔بلکہ اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کا مطلب ہے کہ تسلیم کرنے والے کی زندگی میں ایک مثبت تبدیلی آنے والی ہے اب وہ اس غلطی کا ازالہ کرنے والا ہے لیکن اگر غلطی کو سرے سے تسلیم ہی نہ کیا جائے تو اسکا مطلب ہے کہ غلطی کرنے والا کبھی اپنی اصلاح نہیں کرے گا بلکہ بار  بار غلطی کو دہرا کر اپنی مشکلات میں اضافہ کرے گا۔ہماری پاکستانی کمیونٹی میں نہ صرف غلطی کا اعتراف نہیں کیا جاتا بلکہ اسے کس اور کے سر پہ تھوپا جاتاہے اور الزام تراشیاں کی جاتی ہیں۔خود کو سچا ثابت کرنے کے لیے جھوٹی گواہیاں دی جاتی ہیں اس طرح ایک غلطی اور کئی جھوٹ مل کر مصیبتوں کے پہاڑ کھڑے کر دیتے ہیں اور انسان مشکلات کی دلدلوں میں دھنستا ہی چلا جاتا ہے۔
دوسری جانب غلطی کا اعتراف انسان کو تھوڑی دیر کے لیے جھکا تو دیتا ہے مگر پھر اسے ہمیشہ سر اٹھا کر چلنے کی ہمت بھی دیتا ہے اور یہی ہمت اسے زندگی کی بھرپور گہما گہمیوں کی جانب گامزن کر دیتی ہے۔
مذکورہ بالا خاتون لکھاری نے اپنی غلطی اس وقت تسلیم کی جب وہ ایک مقدمہ میں جیت گئیں۔مگر غلطی تسلیم کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ قصور وار تھیں پھر تو انہیں سزا ملنی چاہیے تھی ۔یہ سزا وہ پہلے ہی اس مقدمہ کی پیشیوں کی صورت میں بھگت چکی تھیں۔ا گر وہ یہ مقدمہ ہار جاتیں تو انہیں اپنے بچوں سے  ہاتھ دھونے پڑتے۔اس مقدمہ کی وجہ یہ بنی کہ وہ خود اپنی زندگی سے ہاتھ دھونے لگی تھیں۔ناروے کے قانون کے مطابق اگر بچوں کی دیکھ بھال کے ادارے کو کہیں سے بھی یہ سن گن مل جائے کہ والدین بچوں کی تربیت میں کوتاہی یا غفلت کے مرتکب ہو رہے ہیں یا انہیں مار پیٹ کر رہے ہیں انکی ضروریات کا خیال نہیں رکھتے تب ایسی صورت میں والدین کو اسکا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔اس کوتاہی کے نتیجے میںوالدین اپنے بچے کھو دیتے ہیں۔ نارویجن حکومت کا ادارہ برائے اطفال بچوں کو اپنی تحویل میں لے کر انکی تعلیم و تربیت اور پرورش کرتا ہے۔ایسے بچوں کے لیے نئے والدین تلاش کیے جاتے ہیں جہاں حکومت کے خرچے پر بچوں کی پرورش کی جاتی ہے۔ گویا یہ ادارہ نارویجن بچوں کے دوسرے سرپرست ہیں۔لہذٰ ذا  اصل والدین کو بہت ہشیار رہ کر بچوں کی تربیت کرنی پڑتی ہے ورنہ انکے ثانوی سرپرست انہیں لے جائیں گے۔یعنی کہ ناروے میں پرورش پانے والے بچے صرف والدین کے ہی نہیں بلکہ حکومت کی بھی ذمہ داری ہیں۔یہ ادارہ بچوں کے ساتھ کوئی بھی نارو ا سلوک ہر گز برداشت نہیں کرتا۔اگر والدین بچوں سے مار پیٹ کریں چانٹا رسید کریں یا جوتے ڈنڈے سے پٹائی کی محض دھمکی ہی دیں اور بچہ اسکول میں شکائیت کر دے تو ایسی صورت میں ٹیچر فوراًاس ادارے کو اطلاع کرتا ہے کہ بچے کی تربیت صحیح نہیں ہو رہی اور ادارہ ایکشن میں آکر ضرورت سمجھے تو میٹنگ میں تنبیح کرتا ہے ورنہ ذیادہ پیچیدہ صورتحال میں مثلاً بچے کے جسم پر مار پیٹ کے نشان ہوں یا بچے کی صحت ٹھیک نہ ہو یا وہ افسردہ رہتا ہے ۔یہ ادارہ بغیر کسی نوٹس کے بھی بچوں کو اپنی تحویل میں لے لیتا ہے چاہے وہ دس سے بھی ذیادہ ہوں ادارہ سب بچے لے جاتا ہے۔پھر اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے بچے والدین کو نہیں مل سکتے۔منہ بولے والدین بچوں کو اتنا پیار دیتے ہیں انکی ضروریات کا اسقدر خیال رکھتے ہیں کہ بچے اپنے اصل والدین کو ہی فراموش کر دیتے ہیں ۔پھر انہیں اپنے والدین سے ملنے کی چاہ ہی نہیں رہتی۔ادارہ تحفظ اطفال کی جانب سے وارننگ کی صورتحال اس وقت پیش آئی جب ایک لکھاری خاتون نے ڈپریشن کی وجہ سے  نیند کی پندرہ گولیاں کھا کر اپنی جان لینے کی کوشش کیاور ہسپتال پہنچ گئیں۔وہ ڈاکٹروں کی توجہ اور محنت سے صحتیاب تو ہو گئیں مگر ادارہء تحفظ اطفال نے ان سے بچے تحویل میں لینے کی وارننگ دے دی۔صحتیاب ہونے کے بعد ان کے اندر سوئی ہوئی ماں کی ممتا جاگ اٹھی۔وہ جس نے نیند کی گولیاں کھاتے وقت اپنے بچوں کے بارے میں نہ سوچا اب انکی خاطر اس ادارے سے ٹکر لینے کے لیے تیار ہوگئی۔ان کی ثابت قدمی اور عزم نے رنگ دکھایا اور وہ تین سال تک اس مقدمہ کی پیشیاں بھگتتی رہیں۔یہ مرحلہ ایک ماں کے لیے بڑا کٹھن ہوتا ہے،ہر وقت یہی دھڑکا لگا رہتا ہے  کہ کب اس کے جگر گوشے اس سے چھن جائیں۔کون سی پیشی اسے اس کے بچوں سے محروم کردے۔کب وہ اپنے  معصوم بچوں سے ہمیشہ کے لیے دور کر دی جائے۔کئی مائیں اپنے حواس کھو بیٹتی ہیں اس خوف سے ڈپریشن کا شکار ہو کر الٹی سیدھی حرکتیں کرتی ہیں اس طرح اس ادارے کاکام آسان ہو جاتا ہے اور مقدمہ کا فیصلہ والدین کے خلاف ہو جاتا ہے کہ وہ بچوں کی تربیت کے اہل ہی نہیں۔
یہی خوف اور دھڑکا اس خاتون کو بھی  لگا رہتا کہ جانے کب کیا ہو جائے کب اس ماں کی جنت اجڑ جائے کب اسکی آنکھوں کی ٹھنڈک چھن جائے کب وہ برباد و خانماں رہ جائے۔مگر اس باہمت خاتون نے سب مراحل بڑی ہمت سے طے کیے اور ساری مشکلات کے پہاڑ عبور کر کے بالآخر مقدمہ جیت گئیں یہ خاتون ان تمام والدین کے لیے ایک بہترین مثال ہیں جو اس صورتحال کا شکار ہیں۔یہ خاتون چاہیں تو انکی رہنمائی  بھی کر سکتی ہیں۔
یہاں تک تو سب ٹھیک تھا مگر ان کی خود کشی کے واقعہ سے کئی اور  سوال بھی  اٹھتے ہیں کہ آخر انہیں ڈپریشن کی گولیاں کھانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟اس وقت ان کے عزیا اور دست احباب کہاں تھے؟ وہ کون سی صورتحال تھی جس نے انہیں یہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کیا؟وہ ایک مشکل صورتحال میں کیوں تنہا رہ گئیں کہ اس کے بعد انہیں دوسری بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔کوئی شخص زندگی جیسی قیمتی چیز یونہی نہیں ہارنے بیٹھ جاتا۔اس کے پیچھے کئی عوامل،افراد اور غلطیاں کارفرما ہوتی ہیں تب جا کر نوبت یہاں تک پہنچتی ہے۔اگر ان سارے سوالوں کے جواب مل جائیں تو ڈپریشن میں مبتلاء اور خود کشی کا رجحان رکھنے والے کئی افراد کی رہنمائی  بھی ہو سکتی ہے۔

--

News from Kanpur


World Poetry Day Celebration At URDU MARKAZ







Sunday, March 23, 2014

Ek Taaza Ghazal


اس نے پیچھے بہت برائی کی
       اب تو صورت نہیں صفائی کی
میرے کاندھوں پہ اس نے پاوں رکھے
جس کو خواہش تھی خود نمائی کی
اس کے چہرے کو جب کتاب لکھا
اس نے بھی رسم ِ رونمائی کی
میری آمد پہ روپڑا وہ شخص
اور تقسیم پھر مٹھائی کی
کیارگوں میں کسی کی خون نہیں
کس کو حاجت ہے روشنائی کی
جس نے ظلمت کا سینہ چھیر دیا
ہے فراست دیا سلائی کی
میں نے بھی ہاتھ اپنا کھینچ لیا
اس نے بھی زور آزمائی کی
خود گرفتاریاں بھی دیتے ہو
اور تمنا بھی ہے رہائی کی
میں نے پھولوں سے داد مانگی تھی
خارزاروں نے پابجائی کی
آپ اوروں پہ مت ہنسو مہتاب
یہ بھی صورت ہے جگ ہنسائی کی
                   مہتاب قدر
               Mahtab Qadr 
              
       

Saturday, March 08, 2014


مصنف ِ کتاب ’’انڈیا کی مشہور خواتین‘‘





ڈاکٹر عبدالعزیز عرفانؔ صاحب کی حال ہی میں منظرِ عام پر آئی ہوئی تصنیف ’’انڈیا کی مشہور خواتین‘‘ اسم بامسمی عنوان و 
کتاب میں موجود مشمولات کی فہرست ، پیش لفظ سے صفحہ آخر تک کے تحت ہے جو تقریباً 310صفحات پر مشتمل ضخیم کتاب ہی۔ اس ضخیم کتاب کے پیشِ لفظ سے آخری صفحہ تک کا مطالعہ کرنے کے بعد الحاج ڈاکٹر عبدالعزیز عرفان صاحب کے اِس موضوع پر انتخاب اور کام کی اہمیت ، نوعیت وافادیت و عظمت و ضرورت کا اندازہ ہوتا ہی۔ بڑی عرق ریزی، محنت طلب کام جو تحقیق کے زمرے سے متعلق ہی۔ اس موضوع پر دستاویزی نوعیت کی اُردو میں کوئی کتاب میرے مطالعہ میں نہیں آئی تا ہم عرفان صاحب از خود وہ کتاب مجھے مہیا کرکے پڑھنے اور تبصرہ و تاثر کی گذارش و مخلصانہ مشورہ جسے میں خود کو جو نیر کے لئے حکم سمجھتے ہوئے تعمیلِ حکم کی بجا آوری میں چند سطور قارئینِ اُردو کے گوشِ گذار کرنے کی جسارت کررہا ہوں اور دُعائیں چاہتا ہوں۔ (دولت اور تشہیر کی قطعی خواہش نہیں ہی) چاشنیِٔ زبانِ اُردو و ادب و تہذیب و اُردو رسم الخط کے علمی مواد کو تحقیق کا جامہ پہنا کر ملکی تاریخ و ثقافت سے مُنسلک کرنے اور اپنے ملک ِ عزیز ہندوستان کی آنے والی نسلوں تک ملک ِ جمہوریہ کے مختلف شعبۂ حیات میں نمایاں اور حسنِ کارکردگی کے تاریخی جھروکوں سے ، اک دریچہ سے ایک جھونکا خُنک ہواؤں کے ساتھ سرور وانبساط کی موجوں کو دستک دے رہا ہے اور یہ کہلوارہا ہے کہ ’’وجو دِ زن سے ہے کائنات میں رنگ‘‘ یوں ہی نہیں کہا گیا ہے ؟ اور احساس و خیال کو دعوت ِ فکر و عمل بھی دے رہا ہے کہ ’’نہیں ہے کوئی چیز نکمی قدرت کے کارخانے میں ‘‘ ڈاکٹر عبدالعزیز عرفانؔ صاحب کی اُردو زبان سے اٹوٹ وابستگی ، تاریخی کتابوں کا مطالعہ ترجمہ نگاری، تحقیقی ذہن و شعور و تجربہ مختلف سطور ِ کتاب میں عیاں ہی۔ اِس تاب کا ہر لفظ مرصَّع اور ہر انتخاب اُردو زبان کے واقف کار قاری اور خاص طور پر تاریخی ورثہ کے جانکاروں اور تمام ہندوستانی اہلِ زبانِ اُردو ادب و ثقافت و صحافت سے وابستہ عام و خاص قارئین کے لئے اہمیت اور معلومات میں اضافہ کے ساتھ خدمات ِ ادب و ثقافت و مختلف شعبۂ حیات میں صنف ِ نسواں و جود ِ زن کا رُتبہ و اہمیت و عظیم ترین حُسن کارکردگی و کارہائے نمایاں کی مکمل دستاویز ہی۔ جو ملک ِ ہندوستان کی عظمت میں ایک اہم رول کے اہمیت کو اہمیت کی نظر اور اعتراف ِ خدمات و خراجِ تحسین کی نگاہ سے عزت و احترام وقار و تمکنت سی، عظمت اور بڑائی کے ساتھ دیکھنے سمجھنے پڑھنے یاد رکھنے کے لئے اُردو قارئینِ ہند بلکہ عالمی منظر نامہ کے لئے بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ کہ اس ملک کو سونے کی چڑیا ہی نہیں بلکہ لعل و یاقوت و گوہر سے بالاتر شخصیات کے سبب امتیاز اور وقار حاصل ہی۔ یہاں کے ہر ذرّے میں دیوتا ہے میری مرادسچّے اوردُھن کے پکّے انسانوں میں جلوۂ ِ خدا نظر آتا ہی۔ اسی لئے زبانِ خلق کو نقارۂ ِ خدا سمجھو کا وجود ہی۔ یہ کتاب مطالعہ کے لئے ہر لائبریری میں بطور ِ خاص اُردو لائبریری میں ہونا ضروری ہے کیونکہ اِس کتاب میں ہندوستان ہی۔ ہندوستانی قوم کی عظیم مائیں ہیں، عظیم بہنیں ہیں، عظیم بیٹیاں ہیں جو قوم اور ملک کے تاج کو سربلندی عطا کررہی ہیں۔ ملک کے ادب، تہذیب ، ثقافت مذہب، کلچر، شعبۂ موسیقی، سیاست، آرٹ سے منسلک ہیں۔ قدیم و جدید ادب، ہم رتبہ ، جونیئر ، سینئر ، طلباء و طالبات اُردو عام ہندوستانی شہریوں کے ساتھ رہتے ہوئے ۔ نت نئی چنوتیوں اور صبر آزما اور اذّیت ناک، تذبذب و الجھن ، تصادم اور اختلافی ماحول جیسی تابناک اور پُر سکون فضاؤں اور حالات میں بھی نشیب و فراز ِ حیات میں مستعدی و چابکدستی سے صبر و تحمل کے عاجزی و انکساری و بہادری ، موقع محل کی مناسبت سے سنجیدگی کے مظاہرے جیسی شعور اور خوش گوئی، خوش گفتاری ، بذلہ سنجی اور تلخ گوئی کے ماحول و فضاء میں خود کو منفرد و مختلف بنانے اور پیش کرنے کا مصنوعی خیال ذہن میں نہ لاتے ہوئی۔ ’’حیات لے کے چلو، کائنات لے کے چلو‘‘ کے مصداق اپنے آپ کو غرقِ حسنِ کاکردگی میں لگائے رکھااور مٹادے اپنی ہستی کو اگرتو مرتبہ چاہے کو کبھی ذہن میں نہیں لایا اِک شمع کی مانند جلتے ہیں۔ جلتے رہے ہیں اور آج بھی ان کا نام، کام زبان زدِ خاص و عام ہی۔ امر ہے اور امر رہیں گے اور جن کارکردگی کے عمل سے منسلک و مربوط ہیں۔ انسان ہیں ۔ انسانیت کے علمبردار ہیں۔ انسانوں میں رہی، جئے اور انسانوں کے لئے جئے اور اپنی صلاحیت اور ذوق، محنت کو ہر ہندوستانی اُردو ہندی کے جانکاروں و فن کاروں میں اپنی شناخت سے سکّہ منوایا۔ ملک کی ترقی میں ادب ، آرٹ ،موسیقی ، فلمی دنیا، سائنسی دنیا، سیاسی دنیا وغیرہ مختلف شعبۂ حیات میں حسن ِ کارکردگی سے ملّتِ ملک کو سنبھال کراور تاج ِ ہند کو سربلندی عطا کرتا وہی کرسکتا ہی۔ جسے مدد خدا بذریعۂ بندۂ خدا اور عطائے دُعائے بزرگان ملتی ہیں۔ اسی سر بلندی نے اور دُعاؤں نے اس دستاویز کے منظرِ عام پر لانے کا محرّک اور کام کے کتابی صورت میں منظرِ عام پر لاکر اُردو زبان سے وابستہ تاریخ کے موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ قیمتی تحفہ ہمارے ہاتھوں میں ہی۔ کتاب کے مقوّہ ، کاغذاور چھپائی عمدہ ہی۔ اُردو زبان و ادب اور ہندوستانی معاشرے کے ہر طبقے ، مسلک و مذہب کی اعلیٰ ترین شخصیات Personlities کا تعارف اور ان کی قربانیاں Devotions اُن کے مرتبہ و وقار میں عظمت میں چار چاند لگاچکے ہیںاور اس ہندوستانی دستاویز ِ تاریخ کی حفاظت و بقاکا جذبۂ حبُّ الوطنی اور محب ِ اُردو زبان کی حیثیت سے خرید کر پڑھنا اور اُسے عام کرنے کے لئے ملک کی ہر لائبریری میں ہونا اور اس کا مطالعہ اور طلباء و طالبات کے مطالعہ میں تحتانیہ ، وسطانیہ اور فوقانیہ ، ثانوی ، اعلیٰ ثانوی درجہ کے تاریخی کتب میں شامل کرنے سے کون ذی فہم منع کرسکتا ہی؟ ہر لفظ ِ کتاب ،ہر باب ِ کتاب ، ہر انتخاب خوب سے خوب تر ہی۔ ہر شخصیت اپنے آپ میں اِک انجمن ہی۔ اپنے اپنے شعبوں میں انفرادیت کی ہر حاصل ہی۔ ہرروشنی آفتاب است اور ادب میں آداب کے ساتھ اعزاز و مرتبہ کے ساتھ ادب و احترام کئے جانے کی حامل ہی۔ کتاب کی انفرادیت یہ ہی۔
                         اُردو زبان کے جان کاروں کو Appeal کرتی ہے کہ وہ طبقۂ نسواں وزن کا وجود ہر میدان میں منفرد ہی۔ ہم کسی سے کم نہیں۔ کم از کم مردوں سے کہیں کم نہیں ہیں۔ ڈاکٹر عبدالعزیز عرفان صاحب نے مشمولات کے انتخاب میں کسی ازم، ذات، دھرم ، پارٹی وغیرہ کی تنگ نظری سے اُٹھ کر خاص ’’وجود ِ زن‘‘ کو موضوع بنا کر یہ کتاب مرتب کی ہی۔ جس سے ان کی وسیع النظری عیاں ہوتی ہی۔میں اس کتاب پر یا مشمولات پر ، علمی مواد کی کمی یا زیادتی پر کوئی تنقیص یا نکتہ چینی یا تنقید ادبیت پر یا کسی شخصیت کی مدح سرائی بغرضِ مفادیا مبالغہ آرائی سے منسلک ہونے کا قائل نہیں ہوں۔ معصوم تو صرف مرے آقا صحابہ وولی اللہ ہیں۔ تو پھر مجھے تحریر و تقریر ، کتاب کے اوراق وغیرہ کے مصنف کی تحریری کاوش کے نقص کا اظہارچہ معنی ؟
                        میں الحاج ڈاکٹر عبدالعزیز عرفانؔ صاحب کی اس کاوش علم و ادب و تاریخ کو اس علمی کاوش پر دل کی اَتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد دیتا ہوں۔ الحاج ڈاکٹر عبدالعزیز عرفانؔ صاحب اس کاوش ادب و تاریخ معہ پیش لفظ و مکمل کتاب کے منظرِ عام پر لانے کے عرفان کو کارنامے کو عرفانی نہ کہوں تو کیا کہوں ؟ اور اس کتاب کو محنت و جانفشانی سے سجایا ہوا خوبصورت گلستاں (ہندوستان) نہ کہوں تو پھر کیا ؟ اور پھر شہر اولیاء اورنگ آباد سے مدینہ و مکّہ شریف سے تشریف لائے ہوئے اس مصنف الحاج ڈاکٹر عبدالعزیز عرفاں نہ کہوں تو کیا کہوں ؟
                        یہ کتاب درج ذیل پتہ سے Rs.300/- بھیج کر خریدی جاسکتی ہی۔ کیوں کہ اچھی کتابیں خرید کر پڑھنا ہر اہلِ علم کا شیوہ رہا ہی۔ جس کتاب کا کوئی مول نہیں جسکی کوئی قیمت طئے کرنا مناسب نہیں۔ ایسی لاجواب اور انمول کتاب ضروریات ِ زندگی کی بے تحاشہ فضول خرچیوں سے بچ کر خریدیں تو کیا بُرا ہی؟ کفایت شعاری پیسے جمع کرکے خریدیں تو کیا ۔
کتاب کا نام                      :           ’’انڈیا کی مشہور خواتین‘‘

مصنف کا نام                     :           الحاج ڈاکٹر عبدالعزیز عرفانؔ

Friday, March 07, 2014

آج کی خواتین کے عمل و فعل.رہن سہن بتا رہے ہیں کہ وہ

قرآن کے احکامات کو بُھلا رہی ہی
            جہا لت کے دور میں لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا  جس کی سخت مذمت کی گئی . اور مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا  کہ وہ اپنی لڑکیوں کو لڑکوں سے زیادہ چاہے .ہمارا قرآن ہم سے کہتا ہے  کہ اپنی اولاد کو مفلسی کے اندیشے سے قتل ناں کرو۔کیونکہ ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں. اور تم کو بھی.بے شک ان کا قتل کرنا  بھا ری گناہ ہی. اور آج کے دور میں جبکہ لوگوں کو یہ پتہ چل گیا ہے کہ قرآن ہم سے کیا کہہ رہا ہی. ایسے تعلیم یافتہ دور میں  ہما ری بہنیں میڈیکل سا ئنس کا سہارا لیکر سونو گرافی  کے ذ ریعہ یہ معلوم کراتی ہیں. کہ اسکی کو کھ میں پلنے وا لی بیٹی ہے یا  کہ  بیٹا  اور اگر بیٹی ہے تو وہ اسے دنیا  میں آنے سے پہلے ہی  اپنی کو کھ میں زندہ  دفن کر دیتی ہی. جس دور میں لڑکیوں کو زندہ دفن کیا جاتا تھا اس کے ساتھ جانوروں جیسا بر تاٶ کیا جاتا تھا .وہ دور  جسے دورِ جاہلیت کہتے ہے قرآن کے اور اسلام کے  آنے کے پہلے کا دور تھا. جبکہ لوگوں کوگناہ اور ثواب کی  کوئی معلومات نہیں تھی. ا  ور یہ دور قرآن کے آنے کے بعد کا دور ہے . جب کہ لوگوں کو گناہ  کیا  ہی. یہ معلو مات بخوبی ہے . پھر بھی لوگ یہ گناہ کر رہے  ہیں. دنیا میں آنے سے پہلے ہی ایک معصوم جان کا قتل کئے جا رہے ہیں. جس کے لئے قرآن نے بھاری گناہ کا اعلان  بھی کیا ہی.                جاہلیت کے دور میںعورت  کو  بہت سا ری مصیبتو ں پریشا نیوں .ا ذیتوں اور ظلموں کا سامنا کرنا پڑا تھا.دور جہا لت میں عورت کے سا تھ بے حد نا ا  نصا فیا ں اور من ما نیاں ہوا کرتی تھی .عورت کو ہر کوئی اپنی ملکیت  سمجھا کرتا تھا  .اسکا نہ  توکو ئی لحا ظ تھا  نہ عزت .پورے عالم میں عورت کو کمتر سمجھا جاتا تھا. عورت پر بڑے بڑے ظلم ڈھائے جا تے تھی.مرد عورتوں کی جان و مال کا اپنے آپ  کو مالک سمجھتے تھے .  مگر  قرآ  ن کریم  کے ذریعہ عورتوں کو ہر ظلم سے نجات ملی. اللہ تبارک و تعالی  قرانِ کریم میں  ااِرشاد فرماتے ہے کہ(  اے ایمان والوں تمہا رے لئے یہ حلال نہیں کہ تم جبراََ عورتوں کے مالک بن بیٹھو ). قرآ ن کریم کی ایسی کئی آیتوں میں  خدا  نے عورتوں پر ہو نے وا لے مظا لم کی روک تھام اور ا  ن مظا لم کے کئے جا نے کی سزا کا ذکر کچھ اس طرح فر ما یا ہے کہ لو گو ں کو عورت کی اہمیت اسکی  عظمت اور اسکے سارے حقوق کا پتہ چل گیا اورجہا  ں میں پھیلی  جہا  لت ا  ور من مانی ختم ہو گئی اور عورتوں پر مظا لم اور  سختیاں کم ہو گئی  اور لو گوں کے دلوں میں عورت کی عزت  عظمت اور قدر بڑھ گئی.ہر عورت کو چا ہئے کہ اللہ کے عطا کر دہ اس مر تبے کی وہ 
عزت کرے قدر کر ی.مگر افسوس  کہ اس اعلی مقام کو اللہ کے عطا کردہ  رحم  وکرم  کو دور جدید کی  زیادہ سے 

عام انتخابات میں معمولی سی غفلت جمہوریت اور دستورِ ہند کی تباہی کا سبب بن سکتی ہی

عام انتخابات میں معمولی سی غفلت جمہوریت اور دستورِ ہند کی تباہی کا سبب بن سکتی ہی
اسلام جمخانہ کے جابر ہال میں مختلف تنظیموں کے اشتراک سے منعقد مذاکرہ میں مقررین کا اظہار خیال،سچ کا سفر نامی مہم کا شبنم ہاشمی اور تشار گاندھی کے ہاتھوں افتتاح
مرین لائنس:عام انتخابات میں برسراقتدار آنے کے لیے فرقہ پرست طاقتیں بے چین ہیں اور اس کے لیے تمام حربے استعمال کررہی ہیں۔ جہاں ان کی جانب سے تذبذب کی کیفیت پیدا کی جارہی ہے اور حقائق کو چھپانے کے لیے جھوٹ کا بازار گرم کیا جارہاہے وہیں ان فرقہ پرستوں کے ناپاک منصوبوں کو خاک میں ملانے اور انھیں اقتدار سے دور رکھنے کے لیے ملّی، سماجی اور مذہبی تنظیموں کے علاوہ سیکولرازم میں یقین رکھنے والے افراد اپنی سی کوشش کررہے ہیں۔ اسی تعلق سے جمعرات کو اسلام جمخانہ کے جابر ہال میں ’سچ کا سفر‘ عنوان سے ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حاضرین نے اس سے اتفاق کیا کہ جمہوریت اور دستورِ ہند کا تحفظ وقت کا تقاضا ہی، ہماری معمولی سی غفلت اس کی تباہی کا سبب بن سکتی ہی۔
معروف سماجی خدمتگار اور ’انہد‘ نامی تنظیم کے روح رواں شبنم ہاشمی نے اردو کیجر یوال اور انّا ہزار کے تعلق سے کہا کہ ’’یہ سب آر ایس ایس کے لوگ ہیں اور سب سے زیادہ کنفیوزن اروند کیجریوال نے پیدا کیاہی۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ عام آدمی پارٹی نے جن ۰۲سیٹوں پر اپنے اُمیدوار کھڑا کرنے کا اعلان کیا ہے ان میں سے ۹۱سیٹوں پر سیکولرپارٹیوں کے اُمیدواروں کا نقصان ہوگا۔‘ ‘انھوں نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس وقت ملک انتہائی نازک دور سے گزررہاہے اور اگر سب نے فکر نہ کی تو جمہوریت کو بچاپانا مشکل ہوگا اور اگر فاشٹ طاقتیں اقتدار میں آئیں تو دستورِ ہند کی جگہ کوڑے دان ہوگی جبکہ یہ طاقتیں سب سے پہلے اقلیتوں اور آدیواسیوں پر حملہ آور ہوں گی۔‘‘ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’اس وقت وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے دفاتر، آئی بی، میڈیا اور این اائی اے میں آرایس ایس کے لوگ گھس چکے ہیں۔ مودی امریکہ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا چہیتا ہے کیونکہ وہ ان کے منصوبوں کو عملی جامہ پہناتاہی۔ اگر وہ سر کے بل بھی معافی مانگے تو میں معاف نہیں کروں گی۔ اس وقت ضرورت سیکولر اُمیدواروں کو کامیاب بنانے کی ہی۔‘‘
مہاتما گاندھی کے پوتے تشارگاندھی نے کہا کہ’’جمہوریت خطرے میں ہے جس کے لیے ہم کو تیاری کرکے فاسٹ طاقتوں کے خلاف عملی طور پر میدان میں آنا ہوگا۔ اس بار ملت کو بھی بانٹنے کی کوشش کی جارہی ہے اور کسی حد تک فرقہ پرست اپنی اس سازش میں کامیاب بھی نظر آرہے ہیں، ہمیں ان کے نا پاک عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے حکمت عملی طے کرنی ہوگی۔‘‘
مولانا ظہیر عباس رضوی نے کہا کہ ’’فسطائی طاقتوں کا ایجنڈا کسی مخصوص ذات برادری کے لیے نہیں بلکہ ملک کی سالمیت کے لیے مسئلہ ہے اور اس فکر و نظر یہ کو بڑھاوادیاجارہاہے کہ اس ملک میں وہی لوگ رہیں گے جن کی پرورش آر ایس ایس کررہی ہی، جو انتہائی خطرناک ہی۔ مجھے یہ کہنے میں پس وپیش نہیں ہے کہ ۲۰۰۲ء میں اگر فرقہ پرستوں کے خلاف کسی نے لڑائی لڑی تو وہ ہندو بھائی تھے کیونکہ یہ مسلمانوں کے بس کی بات نہیں تھی۔‘‘
برہانی کالج کی پرنسپل فروغ وارث نے کہا کہ ’’بیداری اور ذہن سازی کے لیے جو پروگرام ترتیب دئیے جارہے ہیں، انھیں فوری طور پر عمل میں لانے کی ضرورت ہی۔‘‘ عظمیٰ ناہید نے کہا کہ ’’فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دینے کے لیے بیداری مہم کی ضرورت ہی۔‘‘
مہاڈا کے چیئر مین یوسف ابراہانی نے کہا کہ ’’مودی اینڈ کمپنی کے جھوٹ کو روکا جائی۔وہ میڈیا جو ۷ماہ قبل تک مودی کے خلاف تھا، وہ اسے ہیروبناکر پیش کررہاہی۔ اس کے علاوہ انّا کے دھرنے کو کامیاب بنانے میں آرایس ایس نے اپنا تعاون قبول کیا ہے جس سے انّا اور کیجریوال وغیرہ کو سمجھنا مشکل نہیں ہی۔‘‘
سرفراز آرزو نے کہا کہ ’’مسلم مسائل سے چشم پوشی اور سیکولر ازم سے کھلواڑ کی بناء پر ہی فرقہ پرستوں کو اتنی مضبوطی ملی ہے کہ وہ آج ایک چیلنج بن گئے ہیں ورنہ کانگریس کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتی۔‘‘
جمعتہ العلماء مہاراشٹر کے صدر مستقیم احمد عاظمی نے کہا کہ ’’فرقہ پرستوں کو بہر قیمت روکیں اور اپنے درمیان کالی بھیڑوں کو پہچانیں اور مسلمانوں کے ایسے طبقے کو روکیں جو راج ناتھ سنگھ کے معافی مانگنے پر ان کے ساتھ جانے کی بات کررہاہی۔‘‘
سعید خان نے کہا کہ ’’اس وقت ملک آرپار کی لڑائی کی راہ پر کھڑا ہے اور سیکولرازم کے علمبرداروں کے سامنے یہ چیلنج یہ ہے کہ یہ ملک سیکولرازم کو قائم رکھ پائے گا یا فسطائی طاقتیں اسے برباد کردیں گی۔‘‘

عامر ادریسی نے کہا کہ ’’سچ کا سفر‘کے عنوان پر ۴مراحل میں کام کیا جائے گا اور اس کے ذریعہ عوام میں بیداری لانا اور ان کی ذہن سازی کرنا ہے کہ وہ ووٹ دیں اور اپنا ووٹ ضائع ہونے سے بھی بچائیں۔ ان مراحل میں مس کال، ویب سائٹ کا افتتاح اور لوگوں سے ملاقاتیں جیسی سرگرمیاں شامل ہیں۔

Wednesday, March 05, 2014

ملک عزیز میں عدل اور عدالت کا مطلب


عدالت کا تعلق عدل سے ہے ۔جب کوئی لفظ عدالت اپنی زبان سے ادا کرتا ہے تو مخاطب کو یہ سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی کہ یہ عدل و انصاف کی وہ جگہ ہے جہاں کسی معاملے کا تشفیہ عدل کے معیار پر ہوگا اور حق دار کو اس کا حق مل جائے گا ۔پر ملک عزیز کے عدالت کی ادا ہی نرالی ہے ۔اول تو یہاں جو عدالتوں کا معاملہ ہے وہ یہاں برسوں سے التواء میں پڑے ہوئے لاکھوں مقدمات سے پتہ چلتا ہے کہ عدالتیں اور منصف عدل کی حساسیت سے کس قدر واقف ہیں ۔18 ؍فروری کو سپریم کورٹ نے راجیو کی قتل کی سازش میں ملوث قرار دیئے گئے لوگوں کی پھانسی کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کردیا اور عدالت نے ریاستی حکومت کو یہ مشورہ بھی دے دیا کہ اگر وہ چاہے تو اپنے اختیارات کا استعمال کرکے ان مجرموں کو رہا بھی کرسکتی ہے ،کیوں کہ عمر قید کی سزا کے مطابق 23 سال جیل میں گذار چکے ہیں۔ٹھیک دوسرے دن تمل ناڈو کی وزیر اعلیٰ نے اپنے کابینی فیصلہ میں اس کو منظوری دیدی کہ جنکی پھانسی کو سپریم کورٹ نے عمر قید میں تبدیل کی ہے انہیں رہا کردیا جائے ۔اب وہ مرکز کو اس کی سفارش بھیجیں گی ۔اگر مرکز نے اجازت دینے میں آنا کانی کی تو وہ اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے انہیں رہا کردیں گی۔یہ ایک قانونی اور انسانی پہلو ہے اس پر نہ مجھے اعتراض ہے اور نہ کسی کو ہونا چاہئے ۔کیوں کہ جب کوئی شخص کسی فوری ہیجان سے مجبور ہو کر کوئی قدم اٹھاتا ہے تو یہ اس کا فوری اور ذاتی رد عمل ہوتا ہے ۔ موجودہ ظلم اور نا انصافی سے بھری دنیا میں یہ کہیں بھی اور کبھی بھی ہوسکتا ہے۔اس پر ضرور غور کیا جانا چاہئے لیکن اس میں کسی خاص عینک سے معاملات نہ دیکھا جانا چاہئے۔لیکن جب بات انتہائی اقدام کی ہو جس کے اثرات پورے معاشرے پر پڑنے کا خدشہ ہو تو اس کی سزا اوراس کے بارے میں تھوڑا اس نکتہ نظر سے سوچتے اور عمل کرتے ہیں کہ معاشرہ اس کے منفی عمل سے کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے ۔اسی زمرے میں قتل اور زنا جیسی بھیانک واردات آتی ہے ۔اسلام نے قتل کی سزا قتل ہی رکھی ہے اور اس کو قوم اور معاشرے کی زندگی سے تعبیر کیا ہے ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اگر معاشرے میں قتل اور خونریزی کی سزا سخت نہ ہو تو قاتلوں کے حوصلے بڑھ جائیں گے اور وہ بات بات پر کسی کو بھی قتل کر ڈالیں گے جس سے سماج میں انارکی پھیل جائے گی ۔آج ہم ان معاشرے میں جہاں اسلام کا عمل دخل نہیں ہے اسی انارکی کا مشاہدہ کررہے ہیں ۔اخبار اٹھا کر دیکھ لیں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب اخبارات قتل و خونریزی اور زنا بالجبر کے واقعات سے بھرے نہ ہوتے ہیں ۔راجیو گاندھی کا قتل بھی اسی انارکی اور افراتفری اور ناانصافی کے ماحول کی پیدا وار ہے ۔
بات لمبی ہو جائے گی لیکن ہم اصل بات کی طرف آتے ہیں ۔راجیو گاندھی کے قاتلوں کو معافی جن کا جرم ثابت ہو گیا کہیں مقدمات میں کسی کمی یا فرضی دستاویزات پیش کرکے فرضی چارج شیٹ کا کوئی معاملہ کہیں روشنی میں نہیں آیا یعنی کہ وہ واقعی قتل کی سازش میں ملوث ہیں ۔اب سے ایک سال قبل بڑی افراتفری میں افضل گورو کو پھانسی دیدی گئی اور اس کی لاش بھی اس کے گھر والوں کو نہیں سونپی گئی ۔افضل گورو کا گناہ صرف یہ تھا کہ اول تو وہ کشمیری تھا اوردوئم وہ مسلمان بھی تھا۔اور ملک عزیزمیں یہ دونوں نام اور کردار والے لوگ معتوب ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسے پھانسی دینے میں کوئی کوتاہی نہیں کی گئی نہ کسی کو کوئی رحم آیا اور نہ ہی کسی نے اس پر احتجاج کیا ۔جنہوں نے اس پر احتجاج کیا ان کی باتوں کو ان سنا کردیا گیا اور کافی عرصے سے ایسا ہی ہو رہا ہے ۔اگر آپ کی بات میں دم ہے اور آپ اس کو مضبوط دلائل کی روشنی میں لوگوں کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں تو اسے نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔ہمارے سامنے دو مثالیں موجود ہیں ۔مثالیں تو اور ہوں گی لیکن اس پر نہ توتحقیق ہوئی اور نہ وہ منظر عام پر آئیں۔ ایک معاملہ تو یہی افضل گورو کا ہے جس کو پھانسی کی سزا سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ کوئی واضح ثبوت نہیں ہوتے ہوئے بھی عوام کی اجتماعی ضمیر کی تسکین کیلئے اس کو پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے ۔اب یہ اجتماعی ضمیر ہے کیا اور اس کی تخلیق کس طرح ہوئی یہ بھی ایک دلچسپ اور عدلیہ اور انتظامیہ کی مسلمانوں کے تئیں گھناؤنے نفرت اور نسلی امتیاز کو دکھاتا ہے ۔افضل غورو کو گرفتار کرنے کے بعد اسے سخٹ اذیت دیکر اس سے ایک ویڈیو بیان لیا گیا اور اس ویڈیو بیان کو ٹی وی چینلوں پر نشر کیا گیا ۔یہ ویڈیو بیان اسے اس دھمکی کے ساتھ لیا گیا تھا اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو اس کا انجام اس کے گھر والوں کو بھگتنا ہوگا ۔سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے پر مشہور مصنفہ اور سماجی کارکن اروندھتی رائے نے سخت احتجاج کیا لیکن اسے نظر انداز کردیا گیا۔دوسری مثال ممبئی کے26/11 دہشت گردانہ حملہ پر مہاراشٹر پولس کے سابق آئی جی ایس ایم مشرف کے ذریعہ اٹھائے گئے سوالات ہیں جس پر انہوں نے ایک پوری تحقیقاتی کتاب بھی لکھ ڈالی ’’ہو کلڈ کرکرے‘‘ جو کہ اردو میں ’’کرکرے کے قاتل کون‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی اور بھی کئی ہندوستانی زبانوں میں اسے اشاعت کا شرف حاصل ہوا ۔مشرف کی مذکورہ کتاب پر بامبے ہائی کورٹ میں ایک شخص نے پی آئی ایل بھی داخل کیا کورٹ نے حکومت کو نوٹس بھی جاری کیا لیکن اس کے بعد پتہ نہیں کہ کیا ہوا ۔عوام کو اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ اس کے ذہنوں پر کسی نئے واقعہ کی دھول جم جاتی ہے اور پچھلا واقعہ پس منظر میں چلا جاتا ہے۔برسوں سے یہی ہوتا آرہا ہے ۔پولس ،نام نہاد دہشت گردی مخالف دستوں اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ایسے مکروہ اور ذلیل کارنامے کئی بار منظر عام پر آگئے ہیں ۔لیکن نہ تو حکومت نے بیان بازی سے ہٹ کر کوئی ٹھوس قدم اٹھایا ،نہ ہی معمولی معمولی واقعات پر جن عدالتوں کا ضمیر بیدار ہوتا ہے اور وہ سو موٹو لیکر حکومت اور انتظامیہ کے کان پکڑنے والی عدالتوں نے اس پر کبھی اپنے ضمیر میں جھانکنے کی کوشش کی اور نہ ہی مسلم لیڈروں اور تنظیموں نے خوف کی نفسیات سے نکل کر اس پر کسی طرح کی ٹھوس کارروائی کی۔
راجیو گاندھی کے قتل کی سازش میں ملوث افراد کی سزا عمر قید میں تبدیل کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا ’’جس آدمی کے سر پر پھانسی کا پھندہ لٹکتا رہے ،جس کی رحم کی درخواست پر پہلے ہی اتنی دیر ہو چکی ہے، ظاہر ہے اسے بہت تکلیف برداشت کرنی پڑی ہے ۔ان حالات میں اس کی موت کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کرنا ہی درست ہے‘‘ ۔جو سپریم کورٹ ان پر اتنی مہربان ہے وہ افضل گورو کے معاملے میں وہ نرمی وہ ہمدردانہ رویہ کیوں نہیں اپنا پائی؟کیا صرف اس لئے کہ وہ مسلمان تھا اور ساتھ میں کشمیری بھی ۔وہ بھی تو پھانسی کی سزا کا کافی دنوں سے منتظر تھا ۔اسے بھی تو انہی اذیتوں میں زندگی گزارنی پڑی جس میں بقول سپریم کورٹ راجیو گاندھی قتل کے مجرمین نے گزاری ہے ۔جبکہ خود سپریم کورٹ کے ہی مطابق پارلیمنٹ پر حملے کی سازش میں ملوث ہونے کا کوئی واضح ثبوت بھی نہیں تھا ۔سپریم کورٹ نے دوسرا مشورہ دیتے ہوئے ریاستی حکومت کو یہ بھی کہا ہے کہ وہ اپنی عمر کی مدت پوری کر چکے ہیں جبکہ یہی سپریم کورٹ ممبئی بم دھماکہ کیس میں عمر کی معیاد پوری زندگی متعین کرتا ہے ۔ اب جو لوگ جے للیتا کے خلاف مورچہ کھولے ہوئے ہیں خاص طور پر کانگریسی ورکرجنہوں نے جے للیتا کے پتلے جلائے اور احتجاج کیا ،یہ ان کا حق ہے لیکن انہیں یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ جے للیتا نے وہی کیا جو اس وقت کا تقاضہ ہے یعنی تمل باشندوں کی ہمدردی حاصل کرنا ۔کوئی بھی سیاسی پارٹی وہی کرتی جو جے للیتا نے کیاہے۔ اصل معاملہ تو سپریم کورٹ کے اس مشورے کا ہے کہ’’ حکومت چاہے تو انہیں رہا بھی کرسکتی ہے کیوں کہ وہ اپنی عمر قید کی مدت پوری کر چکے ہیں‘‘ ۔ عدالتوں سے لیکر حکومتوں تک اور انتظامیہ سے لے کر مقننہ تک مسلمانوں کے ساتھ یہ ظلم اور نا انصافی کیا رخ لے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔ہم تو صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ملک کے اتحاد اور سا لمیت کیلئے خطرناک ہے ۔اس کا تدارک کرنا اور مسلمانوں سمیت سبھی فرقوں میں یہ احساس بیدارکرانا کہ یہ ان کا اپنا ملک ہے اور اس کی ترقی اور بقا میں ہی ان کی اپنی ترقی اور بقا بھی ہے ۔لیکن یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب ارباب اقتدار ،مسلم تنظیمیں اور مسلم لیڈران اخلاس کے ساتھ عمل کریں ۔ منافقت سے نہ ملک کا اتحاد سلامت رہے گا نہ اس کے بقا کی ضمانت دی جاسکتی ہے اور نہ ہی و نئے عالمی منظر نامے میں اپنا منفرد مقام بنا پائے گا۔


http://mail.google.com/mail/u/0/images/cleardot.gif


Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP