اس نے پیچھے بہت برائی کیاب تو صورت نہیں صفائی کیمیرے کاندھوں پہ اس نے پاوں رکھےجس کو خواہش تھی خود نمائی کیاس کے چہرے کو جب کتاب لکھااس نے بھی رسم ِ رونمائی کیمیری آمد پہ روپڑا وہ شخصاور تقسیم پھر مٹھائی کیکیارگوں میں کسی کی خون نہیںکس کو حاجت ہے روشنائی کیجس نے ظلمت کا سینہ چھیر دیاہے فراست دیا سلائی کیمیں نے بھی ہاتھ اپنا کھینچ لیااس نے بھی زور آزمائی کیخود گرفتاریاں بھی دیتے ہواور تمنا بھی ہے رہائی کیمیں نے پھولوں سے داد مانگی تھیخارزاروں نے پابجائی کیآپ اوروں پہ مت ہنسو مہتابیہ بھی صورت ہے جگ ہنسائی کیمہتاب قدرMahtab Qadr
Sunday, March 23, 2014
Ek Taaza Ghazal
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment