عدالت کا تعلق عدل
سے ہے ۔جب کوئی لفظ عدالت اپنی زبان سے ادا کرتا ہے تو مخاطب کو یہ سمجھنے میں
کوئی دقت نہیں ہوتی کہ یہ عدل و انصاف کی وہ جگہ ہے جہاں کسی معاملے کا تشفیہ عدل
کے معیار پر ہوگا اور حق دار کو اس کا حق مل جائے گا ۔پر ملک عزیز کے عدالت کی ادا
ہی نرالی ہے ۔اول تو یہاں جو عدالتوں کا معاملہ ہے وہ یہاں برسوں سے التواء میں
پڑے ہوئے لاکھوں مقدمات سے پتہ چلتا ہے کہ عدالتیں اور منصف عدل کی حساسیت سے کس
قدر واقف ہیں ۔18 ؍فروری کو سپریم کورٹ نے راجیو کی قتل کی سازش میں ملوث قرار
دیئے گئے لوگوں کی پھانسی کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کردیا اور عدالت نے ریاستی
حکومت کو یہ مشورہ بھی دے دیا کہ اگر وہ چاہے تو اپنے اختیارات کا استعمال کرکے ان
مجرموں کو رہا بھی کرسکتی ہے ،کیوں کہ عمر قید کی سزا کے مطابق 23 سال جیل میں
گذار چکے ہیں۔ٹھیک دوسرے دن تمل ناڈو کی وزیر اعلیٰ نے اپنے کابینی فیصلہ میں اس
کو منظوری دیدی کہ جنکی پھانسی کو سپریم کورٹ نے عمر قید میں تبدیل کی ہے انہیں
رہا کردیا جائے ۔اب وہ مرکز کو اس کی سفارش بھیجیں گی ۔اگر مرکز نے اجازت دینے میں
آنا کانی کی تو وہ اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے انہیں رہا کردیں
گی۔یہ ایک قانونی اور انسانی پہلو ہے اس پر نہ مجھے اعتراض ہے اور نہ کسی کو ہونا
چاہئے ۔کیوں کہ جب کوئی شخص کسی فوری ہیجان سے مجبور ہو کر کوئی قدم اٹھاتا ہے تو
یہ اس کا فوری اور ذاتی رد عمل ہوتا ہے ۔ موجودہ ظلم اور نا انصافی سے بھری دنیا
میں یہ کہیں بھی اور کبھی بھی ہوسکتا ہے۔اس پر ضرور غور کیا جانا چاہئے لیکن اس
میں کسی خاص عینک سے معاملات نہ دیکھا جانا چاہئے۔لیکن جب بات انتہائی اقدام کی ہو
جس کے اثرات پورے معاشرے پر پڑنے کا خدشہ ہو تو اس کی سزا اوراس کے بارے میں تھوڑا
اس نکتہ نظر سے سوچتے اور عمل کرتے ہیں کہ معاشرہ اس کے منفی عمل سے کس طرح محفوظ
رہ سکتا ہے ۔اسی زمرے میں قتل اور زنا جیسی بھیانک واردات آتی ہے ۔اسلام نے قتل کی
سزا قتل ہی رکھی ہے اور اس کو قوم اور معاشرے کی زندگی سے تعبیر کیا ہے ۔ حقیقت
بھی یہی ہے کہ اگر معاشرے میں قتل اور خونریزی کی سزا سخت نہ ہو تو قاتلوں کے
حوصلے بڑھ جائیں گے اور وہ بات بات پر کسی کو بھی قتل کر ڈالیں گے جس سے سماج میں
انارکی پھیل جائے گی ۔آج ہم ان معاشرے میں جہاں اسلام کا عمل دخل نہیں ہے اسی
انارکی کا مشاہدہ کررہے ہیں ۔اخبار اٹھا کر دیکھ لیں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب اخبارات
قتل و خونریزی اور زنا بالجبر کے واقعات سے بھرے نہ ہوتے ہیں ۔راجیو گاندھی کا قتل
بھی اسی انارکی اور افراتفری اور ناانصافی کے ماحول کی پیدا وار ہے ۔
بات لمبی ہو جائے گی لیکن ہم اصل بات کی طرف آتے ہیں ۔راجیو گاندھی کے قاتلوں کو معافی جن کا جرم ثابت ہو گیا کہیں مقدمات میں کسی کمی یا فرضی دستاویزات پیش کرکے فرضی چارج شیٹ کا کوئی معاملہ کہیں روشنی میں نہیں آیا یعنی کہ وہ واقعی قتل کی سازش میں ملوث ہیں ۔اب سے ایک سال قبل بڑی افراتفری میں افضل گورو کو پھانسی دیدی گئی اور اس کی لاش بھی اس کے گھر والوں کو نہیں سونپی گئی ۔افضل گورو کا گناہ صرف یہ تھا کہ اول تو وہ کشمیری تھا اوردوئم وہ مسلمان بھی تھا۔اور ملک عزیزمیں یہ دونوں نام اور کردار والے لوگ معتوب ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسے پھانسی دینے میں کوئی کوتاہی نہیں کی گئی نہ کسی کو کوئی رحم آیا اور نہ ہی کسی نے اس پر احتجاج کیا ۔جنہوں نے اس پر احتجاج کیا ان کی باتوں کو ان سنا کردیا گیا اور کافی عرصے سے ایسا ہی ہو رہا ہے ۔اگر آپ کی بات میں دم ہے اور آپ اس کو مضبوط دلائل کی روشنی میں لوگوں کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں تو اسے نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔ہمارے سامنے دو مثالیں موجود ہیں ۔مثالیں تو اور ہوں گی لیکن اس پر نہ توتحقیق ہوئی اور نہ وہ منظر عام پر آئیں۔ ایک معاملہ تو یہی افضل گورو کا ہے جس کو پھانسی کی سزا سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ کوئی واضح ثبوت نہیں ہوتے ہوئے بھی عوام کی اجتماعی ضمیر کی تسکین کیلئے اس کو پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے ۔اب یہ اجتماعی ضمیر ہے کیا اور اس کی تخلیق کس طرح ہوئی یہ بھی ایک دلچسپ اور عدلیہ اور انتظامیہ کی مسلمانوں کے تئیں گھناؤنے نفرت اور نسلی امتیاز کو دکھاتا ہے ۔افضل غورو کو گرفتار کرنے کے بعد اسے سخٹ اذیت دیکر اس سے ایک ویڈیو بیان لیا گیا اور اس ویڈیو بیان کو ٹی وی چینلوں پر نشر کیا گیا ۔یہ ویڈیو بیان اسے اس دھمکی کے ساتھ لیا گیا تھا اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو اس کا انجام اس کے گھر والوں کو بھگتنا ہوگا ۔سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے پر مشہور مصنفہ اور سماجی کارکن اروندھتی رائے نے سخت احتجاج کیا لیکن اسے نظر انداز کردیا گیا۔دوسری مثال ممبئی کے26/11 دہشت گردانہ حملہ پر مہاراشٹر پولس کے سابق آئی جی ایس ایم مشرف کے ذریعہ اٹھائے گئے سوالات ہیں جس پر انہوں نے ایک پوری تحقیقاتی کتاب بھی لکھ ڈالی ’’ہو کلڈ کرکرے‘‘ جو کہ اردو میں ’’کرکرے کے قاتل کون‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی اور بھی کئی ہندوستانی زبانوں میں اسے اشاعت کا شرف حاصل ہوا ۔مشرف کی مذکورہ کتاب پر بامبے ہائی کورٹ میں ایک شخص نے پی آئی ایل بھی داخل کیا کورٹ نے حکومت کو نوٹس بھی جاری کیا لیکن اس کے بعد پتہ نہیں کہ کیا ہوا ۔عوام کو اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ اس کے ذہنوں پر کسی نئے واقعہ کی دھول جم جاتی ہے اور پچھلا واقعہ پس منظر میں چلا جاتا ہے۔برسوں سے یہی ہوتا آرہا ہے ۔پولس ،نام نہاد دہشت گردی مخالف دستوں اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ایسے مکروہ اور ذلیل کارنامے کئی بار منظر عام پر آگئے ہیں ۔لیکن نہ تو حکومت نے بیان بازی سے ہٹ کر کوئی ٹھوس قدم اٹھایا ،نہ ہی معمولی معمولی واقعات پر جن عدالتوں کا ضمیر بیدار ہوتا ہے اور وہ سو موٹو لیکر حکومت اور انتظامیہ کے کان پکڑنے والی عدالتوں نے اس پر کبھی اپنے ضمیر میں جھانکنے کی کوشش کی اور نہ ہی مسلم لیڈروں اور تنظیموں نے خوف کی نفسیات سے نکل کر اس پر کسی طرح کی ٹھوس کارروائی کی۔
راجیو گاندھی کے قتل کی سازش میں ملوث افراد کی سزا عمر قید میں تبدیل کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا ’’جس آدمی کے سر پر پھانسی کا پھندہ لٹکتا رہے ،جس کی رحم کی درخواست پر پہلے ہی اتنی دیر ہو چکی ہے، ظاہر ہے اسے بہت تکلیف برداشت کرنی پڑی ہے ۔ان حالات میں اس کی موت کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کرنا ہی درست ہے‘‘ ۔جو سپریم کورٹ ان پر اتنی مہربان ہے وہ افضل گورو کے معاملے میں وہ نرمی وہ ہمدردانہ رویہ کیوں نہیں اپنا پائی؟کیا صرف اس لئے کہ وہ مسلمان تھا اور ساتھ میں کشمیری بھی ۔وہ بھی تو پھانسی کی سزا کا کافی دنوں سے منتظر تھا ۔اسے بھی تو انہی اذیتوں میں زندگی گزارنی پڑی جس میں بقول سپریم کورٹ راجیو گاندھی قتل کے مجرمین نے گزاری ہے ۔جبکہ خود سپریم کورٹ کے ہی مطابق پارلیمنٹ پر حملے کی سازش میں ملوث ہونے کا کوئی واضح ثبوت بھی نہیں تھا ۔سپریم کورٹ نے دوسرا مشورہ دیتے ہوئے ریاستی حکومت کو یہ بھی کہا ہے کہ وہ اپنی عمر کی مدت پوری کر چکے ہیں جبکہ یہی سپریم کورٹ ممبئی بم دھماکہ کیس میں عمر کی معیاد پوری زندگی متعین کرتا ہے ۔ اب جو لوگ جے للیتا کے خلاف مورچہ کھولے ہوئے ہیں خاص طور پر کانگریسی ورکرجنہوں نے جے للیتا کے پتلے جلائے اور احتجاج کیا ،یہ ان کا حق ہے لیکن انہیں یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ جے للیتا نے وہی کیا جو اس وقت کا تقاضہ ہے یعنی تمل باشندوں کی ہمدردی حاصل کرنا ۔کوئی بھی سیاسی پارٹی وہی کرتی جو جے للیتا نے کیاہے۔ اصل معاملہ تو سپریم کورٹ کے اس مشورے کا ہے کہ’’ حکومت چاہے تو انہیں رہا بھی کرسکتی ہے کیوں کہ وہ اپنی عمر قید کی مدت پوری کر چکے ہیں‘‘ ۔ عدالتوں سے لیکر حکومتوں تک اور انتظامیہ سے لے کر مقننہ تک مسلمانوں کے ساتھ یہ ظلم اور نا انصافی کیا رخ لے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔ہم تو صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ملک کے اتحاد اور سا لمیت کیلئے خطرناک ہے ۔اس کا تدارک کرنا اور مسلمانوں سمیت سبھی فرقوں میں یہ احساس بیدارکرانا کہ یہ ان کا اپنا ملک ہے اور اس کی ترقی اور بقا میں ہی ان کی اپنی ترقی اور بقا بھی ہے ۔لیکن یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب ارباب اقتدار ،مسلم تنظیمیں اور مسلم لیڈران اخلاس کے ساتھ عمل کریں ۔ منافقت سے نہ ملک کا اتحاد سلامت رہے گا نہ اس کے بقا کی ضمانت دی جاسکتی ہے اور نہ ہی و نئے عالمی منظر نامے میں اپنا منفرد مقام بنا پائے گا۔
بات لمبی ہو جائے گی لیکن ہم اصل بات کی طرف آتے ہیں ۔راجیو گاندھی کے قاتلوں کو معافی جن کا جرم ثابت ہو گیا کہیں مقدمات میں کسی کمی یا فرضی دستاویزات پیش کرکے فرضی چارج شیٹ کا کوئی معاملہ کہیں روشنی میں نہیں آیا یعنی کہ وہ واقعی قتل کی سازش میں ملوث ہیں ۔اب سے ایک سال قبل بڑی افراتفری میں افضل گورو کو پھانسی دیدی گئی اور اس کی لاش بھی اس کے گھر والوں کو نہیں سونپی گئی ۔افضل گورو کا گناہ صرف یہ تھا کہ اول تو وہ کشمیری تھا اوردوئم وہ مسلمان بھی تھا۔اور ملک عزیزمیں یہ دونوں نام اور کردار والے لوگ معتوب ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسے پھانسی دینے میں کوئی کوتاہی نہیں کی گئی نہ کسی کو کوئی رحم آیا اور نہ ہی کسی نے اس پر احتجاج کیا ۔جنہوں نے اس پر احتجاج کیا ان کی باتوں کو ان سنا کردیا گیا اور کافی عرصے سے ایسا ہی ہو رہا ہے ۔اگر آپ کی بات میں دم ہے اور آپ اس کو مضبوط دلائل کی روشنی میں لوگوں کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں تو اسے نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔ہمارے سامنے دو مثالیں موجود ہیں ۔مثالیں تو اور ہوں گی لیکن اس پر نہ توتحقیق ہوئی اور نہ وہ منظر عام پر آئیں۔ ایک معاملہ تو یہی افضل گورو کا ہے جس کو پھانسی کی سزا سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ کوئی واضح ثبوت نہیں ہوتے ہوئے بھی عوام کی اجتماعی ضمیر کی تسکین کیلئے اس کو پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے ۔اب یہ اجتماعی ضمیر ہے کیا اور اس کی تخلیق کس طرح ہوئی یہ بھی ایک دلچسپ اور عدلیہ اور انتظامیہ کی مسلمانوں کے تئیں گھناؤنے نفرت اور نسلی امتیاز کو دکھاتا ہے ۔افضل غورو کو گرفتار کرنے کے بعد اسے سخٹ اذیت دیکر اس سے ایک ویڈیو بیان لیا گیا اور اس ویڈیو بیان کو ٹی وی چینلوں پر نشر کیا گیا ۔یہ ویڈیو بیان اسے اس دھمکی کے ساتھ لیا گیا تھا اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو اس کا انجام اس کے گھر والوں کو بھگتنا ہوگا ۔سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے پر مشہور مصنفہ اور سماجی کارکن اروندھتی رائے نے سخت احتجاج کیا لیکن اسے نظر انداز کردیا گیا۔دوسری مثال ممبئی کے26/11 دہشت گردانہ حملہ پر مہاراشٹر پولس کے سابق آئی جی ایس ایم مشرف کے ذریعہ اٹھائے گئے سوالات ہیں جس پر انہوں نے ایک پوری تحقیقاتی کتاب بھی لکھ ڈالی ’’ہو کلڈ کرکرے‘‘ جو کہ اردو میں ’’کرکرے کے قاتل کون‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی اور بھی کئی ہندوستانی زبانوں میں اسے اشاعت کا شرف حاصل ہوا ۔مشرف کی مذکورہ کتاب پر بامبے ہائی کورٹ میں ایک شخص نے پی آئی ایل بھی داخل کیا کورٹ نے حکومت کو نوٹس بھی جاری کیا لیکن اس کے بعد پتہ نہیں کہ کیا ہوا ۔عوام کو اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ اس کے ذہنوں پر کسی نئے واقعہ کی دھول جم جاتی ہے اور پچھلا واقعہ پس منظر میں چلا جاتا ہے۔برسوں سے یہی ہوتا آرہا ہے ۔پولس ،نام نہاد دہشت گردی مخالف دستوں اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ایسے مکروہ اور ذلیل کارنامے کئی بار منظر عام پر آگئے ہیں ۔لیکن نہ تو حکومت نے بیان بازی سے ہٹ کر کوئی ٹھوس قدم اٹھایا ،نہ ہی معمولی معمولی واقعات پر جن عدالتوں کا ضمیر بیدار ہوتا ہے اور وہ سو موٹو لیکر حکومت اور انتظامیہ کے کان پکڑنے والی عدالتوں نے اس پر کبھی اپنے ضمیر میں جھانکنے کی کوشش کی اور نہ ہی مسلم لیڈروں اور تنظیموں نے خوف کی نفسیات سے نکل کر اس پر کسی طرح کی ٹھوس کارروائی کی۔
راجیو گاندھی کے قتل کی سازش میں ملوث افراد کی سزا عمر قید میں تبدیل کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا ’’جس آدمی کے سر پر پھانسی کا پھندہ لٹکتا رہے ،جس کی رحم کی درخواست پر پہلے ہی اتنی دیر ہو چکی ہے، ظاہر ہے اسے بہت تکلیف برداشت کرنی پڑی ہے ۔ان حالات میں اس کی موت کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کرنا ہی درست ہے‘‘ ۔جو سپریم کورٹ ان پر اتنی مہربان ہے وہ افضل گورو کے معاملے میں وہ نرمی وہ ہمدردانہ رویہ کیوں نہیں اپنا پائی؟کیا صرف اس لئے کہ وہ مسلمان تھا اور ساتھ میں کشمیری بھی ۔وہ بھی تو پھانسی کی سزا کا کافی دنوں سے منتظر تھا ۔اسے بھی تو انہی اذیتوں میں زندگی گزارنی پڑی جس میں بقول سپریم کورٹ راجیو گاندھی قتل کے مجرمین نے گزاری ہے ۔جبکہ خود سپریم کورٹ کے ہی مطابق پارلیمنٹ پر حملے کی سازش میں ملوث ہونے کا کوئی واضح ثبوت بھی نہیں تھا ۔سپریم کورٹ نے دوسرا مشورہ دیتے ہوئے ریاستی حکومت کو یہ بھی کہا ہے کہ وہ اپنی عمر کی مدت پوری کر چکے ہیں جبکہ یہی سپریم کورٹ ممبئی بم دھماکہ کیس میں عمر کی معیاد پوری زندگی متعین کرتا ہے ۔ اب جو لوگ جے للیتا کے خلاف مورچہ کھولے ہوئے ہیں خاص طور پر کانگریسی ورکرجنہوں نے جے للیتا کے پتلے جلائے اور احتجاج کیا ،یہ ان کا حق ہے لیکن انہیں یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ جے للیتا نے وہی کیا جو اس وقت کا تقاضہ ہے یعنی تمل باشندوں کی ہمدردی حاصل کرنا ۔کوئی بھی سیاسی پارٹی وہی کرتی جو جے للیتا نے کیاہے۔ اصل معاملہ تو سپریم کورٹ کے اس مشورے کا ہے کہ’’ حکومت چاہے تو انہیں رہا بھی کرسکتی ہے کیوں کہ وہ اپنی عمر قید کی مدت پوری کر چکے ہیں‘‘ ۔ عدالتوں سے لیکر حکومتوں تک اور انتظامیہ سے لے کر مقننہ تک مسلمانوں کے ساتھ یہ ظلم اور نا انصافی کیا رخ لے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔ہم تو صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ملک کے اتحاد اور سا لمیت کیلئے خطرناک ہے ۔اس کا تدارک کرنا اور مسلمانوں سمیت سبھی فرقوں میں یہ احساس بیدارکرانا کہ یہ ان کا اپنا ملک ہے اور اس کی ترقی اور بقا میں ہی ان کی اپنی ترقی اور بقا بھی ہے ۔لیکن یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب ارباب اقتدار ،مسلم تنظیمیں اور مسلم لیڈران اخلاس کے ساتھ عمل کریں ۔ منافقت سے نہ ملک کا اتحاد سلامت رہے گا نہ اس کے بقا کی ضمانت دی جاسکتی ہے اور نہ ہی و نئے عالمی منظر نامے میں اپنا منفرد مقام بنا پائے گا۔
No comments:
Post a Comment