قرآن کے احکامات کو بُھلا رہی ہی
جہا لت کے
دور میں لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا جس کی سخت مذمت کی گئی . اور مسلمانوں کو یہ
حکم دیا گیا کہ وہ اپنی لڑکیوں کو لڑکوں
سے زیادہ چاہے .ہمارا قرآن ہم سے کہتا ہے
کہ اپنی اولاد کو مفلسی کے اندیشے سے قتل ناں کرو۔کیونکہ ہم ان کو بھی رزق
دیتے ہیں. اور تم کو بھی.بے شک ان کا قتل کرنا
بھا ری گناہ ہی. اور آج کے دور میں جبکہ لوگوں کو یہ پتہ چل گیا ہے کہ قرآن
ہم سے کیا کہہ رہا ہی. ایسے تعلیم یافتہ دور میں
ہما ری بہنیں میڈیکل سا ئنس کا سہارا لیکر سونو گرافی کے ذ ریعہ یہ معلوم کراتی ہیں. کہ اسکی کو کھ میں
پلنے وا لی بیٹی ہے یا کہ بیٹا
اور اگر بیٹی ہے تو وہ اسے دنیا میں
آنے سے پہلے ہی اپنی کو کھ میں زندہ دفن کر دیتی ہی. جس دور میں لڑکیوں کو زندہ دفن
کیا جاتا تھا اس کے ساتھ جانوروں جیسا بر تاٶ کیا جاتا تھا .وہ
دور جسے دورِ جاہلیت کہتے ہے قرآن کے اور
اسلام کے آنے کے پہلے کا دور تھا. جبکہ
لوگوں کوگناہ اور ثواب کی کوئی معلومات نہیں
تھی. ا ور یہ دور قرآن کے آنے کے بعد کا
دور ہے . جب کہ لوگوں کو گناہ کیا ہی. یہ معلو مات بخوبی ہے . پھر بھی لوگ یہ
گناہ کر رہے ہیں. دنیا میں آنے سے پہلے ہی
ایک معصوم جان کا قتل کئے جا رہے ہیں. جس کے لئے قرآن نے بھاری گناہ کا اعلان بھی کیا ہی. جاہلیت کے دور میںعورت کو بہت
سا ری مصیبتو ں پریشا نیوں .ا ذیتوں اور ظلموں کا سامنا کرنا پڑا تھا.دور جہا لت میں
عورت کے سا تھ بے حد نا ا نصا فیا ں اور
من ما نیاں ہوا کرتی تھی .عورت کو ہر کوئی اپنی ملکیت سمجھا کرتا تھا .اسکا نہ
توکو ئی لحا ظ تھا نہ عزت .پورے
عالم میں عورت کو کمتر سمجھا جاتا تھا. عورت پر بڑے بڑے ظلم ڈھائے جا تے تھی.مرد
عورتوں کی جان و مال کا اپنے آپ کو مالک
سمجھتے تھے . مگر قرآ ن
کریم کے ذریعہ عورتوں کو ہر ظلم سے نجات
ملی. اللہ تبارک و تعالی قرانِ کریم میں ااِرشاد فرماتے ہے کہ( اے ایمان والوں تمہا رے لئے یہ حلال نہیں کہ تم
جبراََ عورتوں کے مالک بن بیٹھو ). قرآ ن کریم کی ایسی کئی آیتوں میں خدا نے
عورتوں پر ہو نے وا لے مظا لم کی روک تھام اور ا
ن مظا لم کے کئے جا نے کی سزا کا ذکر کچھ اس طرح فر ما یا ہے کہ لو گو ں کو
عورت کی اہمیت اسکی عظمت اور اسکے سارے
حقوق کا پتہ چل گیا اورجہا ں میں پھیلی جہا لت
ا ور من مانی ختم ہو گئی اور عورتوں پر
مظا لم اور سختیاں کم ہو گئی اور لو گوں کے دلوں میں عورت کی عزت عظمت اور قدر بڑھ گئی.ہر عورت کو چا ہئے کہ
اللہ کے عطا کر دہ اس مر تبے کی وہ
عزت کرے قدر کر ی.مگر افسوس کہ اس اعلی مقام کو اللہ کے عطا کردہ رحم
وکرم کو دور جدید کی زیادہ سے
زیا دہ عور تیں اپنی کوکھ میں اپنی بچی کو زندہ دفن کرنے کے
اپنے ظالمانہ بر تاٶسی.اپنے لباس و پوشاک سی. بے پردگی بے حیائی
اور عریانیت سی. اور اپنے غلط فعل و عمل سے بھلابیٹھی ہیں.
آج ہماری بیٹیاں اور بہنیں جو بے شک بنتِ حوّا
ہیں. وہ اپنے تنگ اور کم کپڑوں سے
کھلے عام عریانیت کا جو مظاہرہ کر رہی ہیں. یہ بلا شبہ بے پر دگی ہی ہی. ہم دیکھتے ہیں کہ بازاروں اور
تفریح گاہوں میں جوان لڑکیاں کھلی بانہوں
اور چھوٹے چھوٹے اور بہت ہی تنگ کپڑوں میں گھومتی نظر آتی ہیں. افسوس اس بات کا ہے کہ ایسے شرمناک کپڑے پہن کر لڑکیاں
اپنے والدین کے ساتھ اور عورتیں اپنے خاوند کے ساتھ نظر آتی ہیں . جبکہ تنگ اور چست لباس اور باریک کپڑے پہننے میں جو
جو برائیاں اور فتنہ فساد پیدا ہوتے ہیں. وہ کوئی چھپی
چھپائی بات تو ہے نہیں .ظاہر سی بات ہے .کہ آج جو زیادہ سے زیادہ تعداد میں ریپ کی وارداتیں آئے دن ہورہی ہیں.
اس کا اصلی سبب یہ عریانیت ہی ہیں .جب عورت ذات
چست اور کم کپڑوں کو پہن کر اپنے کھلے جسم کی نمائش کرے گی تو ظاہر ہے کہ
فتنہ تو پیدا ہوگا ہی. سب سے بڑے فتنے کا
سبب ہے غیر محرم مردوں کا اور عورتوں کا تنہائی میں ملنا جلنا اور سفر کرنا. یعنی
ساتھ گھومنا پھرنا. جو بلاشبہ آج ایک عام سی بات
ہو گئی ہے . تنہائی کے علاوہ ہوٹلوں. پارکوں. اسٹیشنوں. اور سمندر کے
کناروں پر یہ شرمناک مناظرروز ہی دیکھے جا
تے ہیں.جبکہ رسولِِ کریم ؐ کا فرمان ہے کہ
جب کوئی عورت کسی غیر محرم کے پاس جائے تو اسکے ساتھ اس عورت کے محرم کا ہونا بھی ضروری ہی.اور یہ بھی فرمایا ہے ہمارے نبی
نے کہ جب کوئی غیر محرم کسی عورت کے پاس بیٹھتا ہے تو اس کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا
ہی.نیز فرمایا کہ کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ رات ناں گزاری. سوائے خاوند یا اسکے
محرم کی.یہ اچھی اچھی باتیں اور ہدایتیں ہمارے نبی نے ہم کوفتنے سے بچے
رہنے کے لئے دی ہے . صد ہزار افسوس کہ اس کے برعکس آج ہماری عورتیں یعنی
حوا کی بیٹیاں کر رہی ہیں .اور نبی کے احکامات کے برعکس عمل کرنے کا انجام بھی
ہمارے سامنے ہی. کہ آج آئے دن اسی نافرمانی
کی سزا ئیںعورتیں بھگت رہی ہیں. زنا
بالجبر جیسی رونگٹے کھڑے ہو جانے والی وارداتوں کے ساتھ. یعنی دو نامحرم کے ساتھ تیسرا
شیطان اپنا کام کررہا ہے .جو نہیں ہونا چا ہئے
)
زمانہ حال میں زیادہ سے زیادہ
بیویاں اپنے شوہر کی نا فرما نی کرتی نظر آتی ہیں. زرا زرا سی بات پر اپنے
خاوند سے زبان لڑا نا. کھٹ کھٹ
کرنا. اور سارا دن کام پر سے تھکے ہارے گھر آئے خاوند سے اس طرح بد سلوکی سے پیش آنا جیسے
پورا دن وہ آرام کر
کے گھر لوٹا ہو. جبکہ خاوند گھر لو ٹتے
وقت صرف آرام اور سکون کا خیال ہی
ساتھ لے کر گھر لو ٹتے ہیں۔مگر گھر آنے بعد
بیوی سوال پرسوال کرنے لگتی ہی. اب تک کہاں تھے ؟کیا کررہے تھے ؟.اور
پھر اپنی تھکان اور پریشانیوں کی تفصیل لیکر
بیٹھ جاتی ہی. اور بے چارے خاوند کا سکون
درہم برہم ہو جاتا ہی. آج کی بیوی زرا زرا
سی بات کا پتنگڑ بنا کر اپنے خاوند سے لڑ پڑتی ہی. اور ہر معاملے میں اپنی بات منوانا چاہتی ہے بلکہ اپنے خاوند سے وہ ہی کرواتی ہے جو وہ چاہتی ہے
. خا ونداگر سمجھا نے کی کو شش کرے
تو بیوی فو راََ الٹی میٹم دے دیتی ہی. کہ بھئی آپ کو
اگر میں غلط لگتی ہوں تو یہ ہی سہی میں چلی اپنے میکی. تم کو ئی دوسری لے آو جو تمہارے
حکم کی غلام بن کر رہی. مجھ سے تو یہ سب نہیں ہونے والا. اور خاوند یہ
سوچ کر خامو ش ہو جاتا ہی. کہ بھئی ایسی اب کہاں ملے گی تم ہی بس ہو .مشکل سے مشکل
ترین حالات میں اپنے شوہر کا حکم ماننے والی عورت کوقرآنِ کریم میں
جنت کی بشارت دی گئی ہے . اور اللہ
تعلی نے بیوی کو اپنے شوہر کی اطاعت
کا حکم دیا ہی. اور
نعوذوباللہ آج سب کچھ اللہ کے حکم کے بر عکس ہو رہا ہی. جو نہیں ہونا چاہئی.
تعجب ہے کہ جب عورت پر ظلم ہوا کرتے تھے تو عورت شرم و حیا کی
ایک اچھی مثال تھی اور آج ہمارے مذہب نے عورت کو ایک اعلی مقام عطا کیا ہے تو عورت
شرم و حیا کو بھلا بیٹھی ہی. اللہ کی نوازش ہے کہ آج جس ملک میں
ہم رہتے ہیں اس ملک کی حکومت کے قوانین نے بھی عورت کو اتنی ہی پاور اور
حقوق دیئے ہیں جتنے کے مرد حضرات کو دیئے ہیں.یہ سہولتیں پاکر کتنی ہی عورتیں حکومت سے ملے ان حقوق کا صحیح استعمال کر رہی ہی.
. جو بلا شبہ ہمارا حق ہی. مگر کئی عورتیںحکومت کی جانب سے ملی ان سہولتوں کی وجہ
سے بہت انا پرست اور باغی بن گئی ہیں. ان کو لگتا ہے کہ اب وہ ہر کسی کو اپنی انگلی
پر نچوا سکتی ہی.ان کی یہ سوچ انہیں یہ
بھلا رہی ہے کہ وہ ایک عورت ہے . آج جو سہولتیں ہم عورتوں کو ملی ہے ہم کو چاہئے
کہ ہم اس کا صحیح استعمال کریں اور عورت ہونے کے پاکیزہ احساس کے دائرے میں رہ کر
اپنے حقائق سے ترقی حاصل کری. اپنی ایک
قابلِ احترام پہچان بنالی.مگر ایسا بہت کم نظر آرہا ہے کہ جہاں عورت
اپنی شرم وحیا کی پہچان کو ناں
بھلاتے ہوئے اپنے حقوق کے ساتھ ایک عورت کی طرح جی رہی ہو.بلکہ آج کے دور میںہم دیکھتے ہیں بلکہ بہت زیادہ اپنے اطراف و اکناف
میں دیکھ رہے ہیں کہ آج زیادہ تعدامیں عورتیں مردوںکی نقل کر تی نظر آ رہی ہیں .
مطلب مردوں کی طرح اپنے سر کے بالوں کو ترشوانا .اور مردوں ہی کی مشابہت کرتے ہوئے ان ہی کی طرح لباس پہننا.
مطلب سوٹ اور کوٹ پہن کر جاب کرنا. اور اپنے آفس کے اسٹا ف پر رعب
جماتے ہوئے اپنی کرخت آواز میں بات
کرنا.اور مردوں ہی کی طرح اکڑ کر چلنا. مردوں کے سامنے اپنی اس طرح کی اہمیت کامظاہرہ کرنا
کہ دیکھو ہم کسی بھی میدان میں کسی
بھی تجربے میں آپ سے کم نہیں ہیں. بلا شبہ مردوں سے مشابہت رکھنے والی عورت عادات
و اطوار سے بھی مردوں ہی کی طرح پیش آتی ہے . ایسی عورت کے اندر
ظاہر ہے کہ نمائش بے پردگی اور
برابری کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے .اور اس جذبے کے تحت عورت کبھی کبھار بہت بڑی
نادانی بہت بڑی بھول کر جاتی ہی.وہ مردوں
سے دو قدم آگے ہی رہنا چاہتی ہے .اس کی فطرت میں یہ بات رچ بس جاتی ہے کہ وہ ہمیشہ
مردوں کے سامنے فتح حاصل کرتی رہے . جو عورتیں اپنے عورت ہونے کے احساس کو بھول کر
مردوں کی نقالی اور مشابہت کرتی ہیں. ان
کے لئے یہ جان لینانہایت ہی
ضروری ہے کہ مردوں کی مشابہت اور نقل کرنا
بے شک گناہِ کبیرہ ہے . ا سکے لئے حد یث کہتی ہے کہ اللہ کی لعنت ہو ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت
کرتی ہیں .اور اللہ کی لعنت ہو ان مردوں پر جو عورتوں سے مشابہت کرتے ہیں.لحاظہ عورتوں کو چاہئے کہ وہ ایسے لباس اور پوشاک
کو زیب تن ناں کریں جو ممنوع ہے یعنی جسے اللہ نے منع فرمایا ہے .
ہمیں اللہ تعالی نے ہم پرزیب کرنے جیسے لباس
عطا کئے ہے .جسے ہم نے اللہ کے احکام
کے مطابق اپنانا ہے تا کہ ہم گناہِ
کبیرہ سے محفوظ رہیں.اور جو حقوق ہمیں اللہ نے قرآن کے ذریعے عطا کئے ہیں اور جو
ہدایات ہمیں اللہ نے قرآن میں دی ہے ہم اسی پر عمل پیر ا رہیں.
. اللہ ربُ ا لعزت ہم سب
کو پورے عالم کی خواتین کو نیک عمل کی توفیق عطا فرمائی.
اور بے حیائی. بے پردگی. جہالت. عریانیت..
نافرمانی. اور گمراہی سے محفوظ رکھیں .آمین ..
فیروزہ فدا حسین تسبی
ٍ
No comments:
Post a Comment