ڈاکٹر عبدالعزیز عرفانؔ صاحب کی حال ہی میں منظرِ عام پر آئی ہوئی تصنیف ’’انڈیا کی مشہور خواتین‘‘ اسم بامسمی عنوان و
کتاب میں موجود مشمولات کی فہرست ، پیش لفظ سے صفحہ آخر تک کے تحت ہے جو تقریباً 310صفحات پر مشتمل ضخیم کتاب ہی۔ اس ضخیم کتاب کے پیشِ لفظ سے آخری صفحہ تک کا مطالعہ کرنے کے بعد الحاج ڈاکٹر عبدالعزیز عرفان صاحب کے اِس موضوع پر انتخاب اور کام کی اہمیت ، نوعیت وافادیت و عظمت و ضرورت کا اندازہ ہوتا ہی۔ بڑی عرق ریزی، محنت طلب کام جو تحقیق کے زمرے سے متعلق ہی۔ اس موضوع پر دستاویزی نوعیت کی اُردو میں کوئی کتاب میرے مطالعہ میں نہیں آئی تا ہم عرفان صاحب از خود وہ کتاب مجھے مہیا کرکے پڑھنے اور تبصرہ و تاثر کی گذارش و مخلصانہ مشورہ جسے میں خود کو جو نیر کے لئے حکم سمجھتے ہوئے تعمیلِ حکم کی بجا آوری میں چند سطور قارئینِ اُردو کے گوشِ گذار کرنے کی جسارت کررہا ہوں اور دُعائیں چاہتا ہوں۔ (دولت اور تشہیر کی قطعی خواہش نہیں ہی) چاشنیِٔ زبانِ اُردو و ادب و تہذیب و اُردو رسم الخط کے علمی مواد کو تحقیق کا جامہ پہنا کر ملکی تاریخ و ثقافت سے مُنسلک کرنے اور اپنے ملک ِ عزیز ہندوستان کی آنے والی نسلوں تک ملک ِ جمہوریہ کے مختلف شعبۂ حیات میں نمایاں اور حسنِ کارکردگی کے تاریخی جھروکوں سے ، اک دریچہ سے ایک جھونکا خُنک ہواؤں کے ساتھ سرور وانبساط کی موجوں کو دستک دے رہا ہے اور یہ کہلوارہا ہے کہ ’’وجو دِ زن سے ہے کائنات میں رنگ‘‘ یوں ہی نہیں کہا گیا ہے ؟ اور احساس و خیال کو دعوت ِ فکر و عمل بھی دے رہا ہے کہ ’’نہیں ہے کوئی چیز نکمی قدرت کے کارخانے میں ‘‘ ڈاکٹر عبدالعزیز عرفانؔ صاحب کی اُردو زبان سے اٹوٹ وابستگی ، تاریخی کتابوں کا مطالعہ ترجمہ نگاری، تحقیقی ذہن و شعور و تجربہ مختلف سطور ِ کتاب میں عیاں ہی۔ اِس تاب کا ہر لفظ مرصَّع اور ہر انتخاب اُردو زبان کے واقف کار قاری اور خاص طور پر تاریخی ورثہ کے جانکاروں اور تمام ہندوستانی اہلِ زبانِ اُردو ادب و ثقافت و صحافت سے وابستہ عام و خاص قارئین کے لئے اہمیت اور معلومات میں اضافہ کے ساتھ خدمات ِ ادب و ثقافت و مختلف شعبۂ حیات میں صنف ِ نسواں و جود ِ زن کا رُتبہ و اہمیت و عظیم ترین حُسن کارکردگی و کارہائے نمایاں کی مکمل دستاویز ہی۔ جو ملک ِ ہندوستان کی عظمت میں ایک اہم رول کے اہمیت کو اہمیت کی نظر اور اعتراف ِ خدمات و خراجِ تحسین کی نگاہ سے عزت و احترام وقار و تمکنت سی، عظمت اور بڑائی کے ساتھ دیکھنے سمجھنے پڑھنے یاد رکھنے کے لئے اُردو قارئینِ ہند بلکہ عالمی منظر نامہ کے لئے بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ کہ اس ملک کو سونے کی چڑیا ہی نہیں بلکہ لعل و یاقوت و گوہر سے بالاتر شخصیات کے سبب امتیاز اور وقار حاصل ہی۔ یہاں کے ہر ذرّے میں دیوتا ہے میری مرادسچّے اوردُھن کے پکّے انسانوں میں جلوۂ ِ خدا نظر آتا ہی۔ اسی لئے زبانِ خلق کو نقارۂ ِ خدا سمجھو کا وجود ہی۔ یہ کتاب مطالعہ کے لئے ہر لائبریری میں بطور ِ خاص اُردو لائبریری میں ہونا ضروری ہے کیونکہ اِس کتاب میں ہندوستان ہی۔ ہندوستانی قوم کی عظیم مائیں ہیں، عظیم بہنیں ہیں، عظیم بیٹیاں ہیں جو قوم اور ملک کے تاج کو سربلندی عطا کررہی ہیں۔ ملک کے ادب، تہذیب ، ثقافت مذہب، کلچر، شعبۂ موسیقی، سیاست، آرٹ سے منسلک ہیں۔ قدیم و جدید ادب، ہم رتبہ ، جونیئر ، سینئر ، طلباء و طالبات اُردو عام ہندوستانی شہریوں کے ساتھ رہتے ہوئے ۔ نت نئی چنوتیوں اور صبر آزما اور اذّیت ناک، تذبذب و الجھن ، تصادم اور اختلافی ماحول جیسی تابناک اور پُر سکون فضاؤں اور حالات میں بھی نشیب و فراز ِ حیات میں مستعدی و چابکدستی سے صبر و تحمل کے عاجزی و انکساری و بہادری ، موقع محل کی مناسبت سے سنجیدگی کے مظاہرے جیسی شعور اور خوش گوئی، خوش گفتاری ، بذلہ سنجی اور تلخ گوئی کے ماحول و فضاء میں خود کو منفرد و مختلف بنانے اور پیش کرنے کا مصنوعی خیال ذہن میں نہ لاتے ہوئی۔ ’’حیات لے کے چلو، کائنات لے کے چلو‘‘ کے مصداق اپنے آپ کو غرقِ حسنِ کاکردگی میں لگائے رکھااور مٹادے اپنی ہستی کو اگرتو مرتبہ چاہے کو کبھی ذہن میں نہیں لایا اِک شمع کی مانند جلتے ہیں۔ جلتے رہے ہیں اور آج بھی ان کا نام، کام زبان زدِ خاص و عام ہی۔ امر ہے اور امر رہیں گے اور جن کارکردگی کے عمل سے منسلک و مربوط ہیں۔ انسان ہیں ۔ انسانیت کے علمبردار ہیں۔ انسانوں میں رہی، جئے اور انسانوں کے لئے جئے اور اپنی صلاحیت اور ذوق، محنت کو ہر ہندوستانی اُردو ہندی کے جانکاروں و فن کاروں میں اپنی شناخت سے سکّہ منوایا۔ ملک کی ترقی میں ادب ، آرٹ ،موسیقی ، فلمی دنیا، سائنسی دنیا، سیاسی دنیا وغیرہ مختلف شعبۂ حیات میں حسن ِ کارکردگی سے ملّتِ ملک کو سنبھال کراور تاج ِ ہند کو سربلندی عطا کرتا وہی کرسکتا ہی۔ جسے مدد خدا بذریعۂ بندۂ خدا اور عطائے دُعائے بزرگان ملتی ہیں۔ اسی سر بلندی نے اور دُعاؤں نے اس دستاویز کے منظرِ عام پر لانے کا محرّک اور کام کے کتابی صورت میں منظرِ عام پر لاکر اُردو زبان سے وابستہ تاریخ کے موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ قیمتی تحفہ ہمارے ہاتھوں میں ہی۔ کتاب کے مقوّہ ، کاغذاور چھپائی عمدہ ہی۔ اُردو زبان و ادب اور ہندوستانی معاشرے کے ہر طبقے ، مسلک و مذہب کی اعلیٰ ترین شخصیات Personlities کا تعارف اور ان کی قربانیاں Devotions اُن کے مرتبہ و وقار میں عظمت میں چار چاند لگاچکے ہیںاور اس ہندوستانی دستاویز ِ تاریخ کی حفاظت و بقاکا جذبۂ حبُّ الوطنی اور محب ِ اُردو زبان کی حیثیت سے خرید کر پڑھنا اور اُسے عام کرنے کے لئے ملک کی ہر لائبریری میں ہونا اور اس کا مطالعہ اور طلباء و طالبات کے مطالعہ میں تحتانیہ ، وسطانیہ اور فوقانیہ ، ثانوی ، اعلیٰ ثانوی درجہ کے تاریخی کتب میں شامل کرنے سے کون ذی فہم منع کرسکتا ہی؟ ہر لفظ ِ کتاب ،ہر باب ِ کتاب ، ہر انتخاب خوب سے خوب تر ہی۔ ہر شخصیت اپنے آپ میں اِک انجمن ہی۔ اپنے اپنے شعبوں میں انفرادیت کی ہر حاصل ہی۔ ہرروشنی آفتاب است اور ادب میں آداب کے ساتھ اعزاز و مرتبہ کے ساتھ ادب و احترام کئے جانے کی حامل ہی۔ کتاب کی انفرادیت یہ ہی۔
اُردو زبان کے جان کاروں کو Appeal کرتی ہے کہ وہ طبقۂ نسواں وزن
کا وجود ہر میدان میں منفرد ہی۔ ہم کسی سے کم نہیں۔ کم از کم مردوں سے کہیں کم نہیں
ہیں۔ ڈاکٹر عبدالعزیز عرفان صاحب نے مشمولات کے انتخاب میں کسی ازم، ذات، دھرم ،
پارٹی وغیرہ کی تنگ نظری سے اُٹھ کر خاص ’’وجود ِ زن‘‘ کو موضوع بنا کر یہ کتاب
مرتب کی ہی۔ جس سے ان کی وسیع النظری عیاں ہوتی ہی۔میں اس کتاب پر یا مشمولات پر ،
علمی مواد کی کمی یا زیادتی پر کوئی تنقیص یا نکتہ چینی یا تنقید ادبیت پر یا کسی
شخصیت کی مدح سرائی بغرضِ مفادیا مبالغہ آرائی سے منسلک ہونے کا قائل نہیں ہوں۔
معصوم تو صرف مرے آقا صحابہ وولی اللہ ہیں۔ تو پھر مجھے تحریر و تقریر ، کتاب کے
اوراق وغیرہ کے مصنف کی تحریری کاوش کے نقص کا اظہارچہ معنی ؟
میں الحاج ڈاکٹر
عبدالعزیز عرفانؔ صاحب کی اس کاوش علم و ادب و تاریخ کو اس علمی کاوش پر دل کی
اَتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد دیتا ہوں۔ الحاج ڈاکٹر عبدالعزیز عرفانؔ صاحب اس کاوش
ادب و تاریخ معہ پیش لفظ و مکمل کتاب کے منظرِ عام پر لانے کے عرفان کو کارنامے کو
عرفانی نہ کہوں تو کیا کہوں ؟ اور اس کتاب کو محنت و جانفشانی سے سجایا ہوا
خوبصورت گلستاں (ہندوستان) نہ کہوں تو پھر کیا ؟ اور پھر شہر اولیاء اورنگ آباد سے
مدینہ و مکّہ شریف سے تشریف لائے ہوئے اس مصنف الحاج ڈاکٹر عبدالعزیز عرفاں نہ
کہوں تو کیا کہوں ؟
یہ کتاب درج ذیل پتہ
سے Rs.300/- بھیج کر خریدی جاسکتی ہی۔ کیوں کہ اچھی کتابیں خرید کر پڑھنا ہر اہلِ علم
کا شیوہ رہا ہی۔ جس کتاب کا کوئی مول نہیں جسکی کوئی قیمت طئے کرنا مناسب نہیں۔ ایسی
لاجواب اور انمول کتاب ضروریات ِ زندگی کی بے تحاشہ فضول خرچیوں سے بچ کر خریدیں
تو کیا بُرا ہی؟ کفایت شعاری پیسے جمع کرکے خریدیں تو کیا ۔
کتاب
کا نام : ’’انڈیا کی مشہور خواتین‘‘
مصنف
کا نام : الحاج ڈاکٹر عبدالعزیز عرفانؔ
No comments:
Post a Comment