🌸 آج کے دن 🌸
21 اگست
*ظہیر کاشمیری* کی پیدائش:
پسے ہوئے طبقوں کی آواز، اردو کے ممتاز ترقی پسند شاعر اور ادیب ظہیر کاشمیری 21 اگست 1919 کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام دستگیر ظہیر پیرزادہ تھا۔ ایم اے او کالج امرتسر سے بی اے کی ڈگری لی لیکن سیاسی سرگرمیوں کے باعث تعلیم ترک کرنا پڑی۔ متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ مارکسزم کے پیروکار بن کر اپنی شاعری میں پسے ہوئے طبقے کی بھرپور ترجمانی کی۔ وہ ادب کی ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ قیام پاکستان سے قبل ظہیر کاشمیری لاہور آگئے اور فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔ کہانیاں لکھیں، کچھ فلموں کی ہدایت کاری بھی کی۔ اس کے علاوہ کئی ادبی مجلوں کی ادارت بھی کی، کچھ عرصہ روزنامہ ’’مساوات‘‘ سے بھی وابستہ رہے۔ شاعری میں ان کا اسلوب ترقی پسندانہ ہے۔ مزدوروں کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والے شاعر اور انسانی حقوق کے علمبردار ظہیر کاشمیری کے ترقی پسندانہ نظریات نے انجمن ترقی پسند مصنفین پر گہرے نقوش ثبت کئے۔
ان کے شعری مجموعوں میں آدمی نامہ، جہان آگہی، چراغ آخر شب اور حرف سپاس شامل ہیں۔ ظہیر کاشمیری 12 دسمبر 1994 کو لاہور میں وفات پاگئے اور میانی صاحب کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔ حکومت پاکستان نے انہیں ان کی وفات کے بعد صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔
ان کا ایک مشہور شعر ملاحظہ ہو:
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے
منتخب کلام :
موسم بدلا، رُت گدرائی اہلِ جنوں بے باک ہوئے
فصلِ بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے
گُل بوٹوں کے رنگ اور نقشے، اب تو یونہی مٹ جائیں گے
ہم کہ فروغِ صبحِ چمن تھے، پابندِ فتراک ہوئے
مہرِ تغیّر اس دھج سے آفاق کے ماتھے پر چمکا!
صدیوں کے افتادہ ذرّے، ہم دوشِ افلاک ہوئے
دل کے غم نے دردِ جہاں سے مل کے بڑا بے چین کیا
پہلے پلکیں پُرنم تھیں، اب عارض بھی نمناک ہوئے
کتنے الہڑ سپنے تھے جو دورِ سحر میں ٹوٹ گئے
کتنے ہنس مُکھ چہرے ، فصل بہاراں میں غمناک ہوئے
برقِ زمانہ دور تھی لیکن مشعلِ خانہ دور نہ تھی
ہم تو ظہیر اپنے ہی گھر کی آگ میں جل کر خاک ہوئے
No comments:
Post a Comment