🌸 *آج کے دن* 🌸
آج ممتاز شاعر ڈاکٹر *معین احسن جذبیؔ*کا یومِ پیدائش ہے۔
ڈاکٹر معین احسن جذبی ممتاز ترین ترقی پسند شاعروں میں نمایاں ہیں۔ 21 اگست 1912ء کو مبارک پور، ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم جھانسی میں حاصل کی۔ 1936ء میں اینگلوعریبک کالج دہلی سے بی اے کیا۔ 1942ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ اس کے بعد جذبی نے \"حالی کی سیاسی شاعری\" پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ کچھ عرصہ رسالہ \"آج کل\" کے ادارتی فرائض انجام دیے۔ بعد ازاں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبۂ اردو میں لیکچرر کے عہدے پر فائز ہوئے اور پروفیسر اور شعبے کے سربراہ کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ وہ علی گڑھ کے ہی ہو کر رہ گئے تھے۔جذبی نے باقاعدہ شاعری کا آغاز 1929ء میں کیا۔ شروع میں حامد شاہ جہاں پوری اور صادق دہلوی سے اپنے کلام پر اصلاح لی۔ جذبی نے نظمیں بھی کہی ہیں، مگر بنیادی طور پر وہ غزل کے شاعر تھے۔ ان کے تین شعری مجموعے \"فروزاں\" ، سخنِ مختصر\" اور \"رودادِ شب\" شائع ہوئے۔ انہیں مودی غالب ایوارڈ، میر اکادمی ایوارڈ اور اترپردیش اکادمی ایوارڈ کے علاوہ حکومتِ ہند نے سب سے بڑے ادبی ایوارڈ \"پدم بھوشن\" سے نوازا۔ڈاکٹر جذبی 13 فروری 2005ء کو علی گڑھ میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
*منتخب کلام*:
مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے
یہ دنیا ہو یا وہ دنیا اب خواہش دنیا کون کرے
جب کشتی ثابت وسالم تھی، ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں سے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے
دنیا نے ہمیں چھوڑا جذبؔی ہم چھوڑ نہ دیں کیوں دنیا کو
دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں اب دنیا دنیا کون کرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملے غم سے اپنے فرصت، تو سنائیں وہ فسانہ
کہ ٹپک پڑے نظر سے مئے عشرتِ زمانہ
یہی زندگی مصیبت، یہی زندگی مسرت
یہی زندگی حقیقت، یہی زندگی فسانہ
کبھی درد کی تمنّا، کبھی کوششِ مداوہ
کبھی بجلیوں کی خواہش، کبھی فکرِ آشیانہ
مرے قہقہوں کی زد پر کبھی گردشیں جہاں کی
مرے آنسوؤں کی رَو میں کبھی تلخیِ زمانہ
کبھی میں ہوں تجھ سے نالاں، کبھی مجھ سے تو پریشاں
کبھی میں ترا ہدف ہوں، کبھی تو مرا نشانہ
جسے پا سکا نہ زاہد، جسے چھُو سکا نہ صوفی
وہی تار چھیڑتا ہے مرا سوزِ شاعرانہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم ایک خواب لیے ماہ و سال سے گزرے
ہزاروں رنج ہزاروں ملال سے گزرے
ہمیں ملا جو کوئی آسماں تو صورت ماہ
نہ جانے کتنے عروج و زوال سے گزرے
کبھی غریبوں کی آہوں میں کی بسر ہم نے
کبھی امیروں کے جاہ و جلال سے گزرے
وہ بے سہارا سے کچھ لوگ جان سے بیزار
خبر ملی ہے کہ اوج کمال سے گزرے
یہ زندگی بھی عجیب راہ تھی کہ ہم جس سے
قدم بڑھاتے جھجکتے نڈھال سے گزرے
حقیقتیں تو نگاہوں کے سامنے تھیں مگر
ہم ایک عمر فریب خیال سے گزرے
حکایت گل و بلبل پہ خندہ زن ہیں وہی
جو شام ہجر نہ صبح وصال سے گزرے
گلے لگاتی ہے منزل انہیں بھی اے جذبیؔ
قدم قدم پہ جو خوف مآل سے گزرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتنی بلندیوں پہ سر دار آۓ ہیں
کسی معرکہ میں اہل جنوں ہار آۓ ہیں
گھبرا اٹھے ہیں ظلمت شب سے تو بارہا
نالے ہمارے لب پہ شرربار آۓ ہیں
اے قصہ گو ازل سے جو بیتی ہے وہ سنا
کچھ لوگ تیرے فن کے پرستار آۓ ہیں
پائی گلوں سے آبلہ پائی کہ جب نہ داد
دیوانے ہیں کہ سوۓ لب خار آۓ ہیں
غم خواریوں کی تہہ میں دبی سی مسرتیں
یوں میرے پاس بھی مرے غم خوار آۓ ہیں
پہنچے ہیں جب بھی خلوت دل میں تو اے ندیم
اکثر ہم اپنے آپ سے بے زار آۓ ہیں
اس بزم میں تو مے کا کہیں ذکر تک نہ تھا
اور ہم وہاں سے بے خود و سرشار آۓ ہیں
اس کی گلی میں ہم نے لٹا دی متاع جاں
اس کی گلی سے ہم تو سبک سار آۓ ہیں
کرتے رہے ہیں فن کی پرستش تمام عمر
محشر میں کیسے کیسے گنہ گار آۓ ہیں
جذبیؔ جو ہو سکے تو مری حیرتوں سے پوچھ
کس طرح میرے ذہن میں اشعار آۓ ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داغِ غم دل سے کسی طرح مٹایا نہ گیا
میں نے چاہا بھی مگر تم کو بھلایا نہ گیا
عمر بھر یوں تو زمانے کے مصائب جھیلے
تیری نظروں کا مگر بار اٹھایا نہ گیا
روٹھنے والوں سے اتنا کوئی جا کر پوچھے
خود ہی روٹھے رہے یا ہم سے منایا نہ گیا
پھول چننا بھی عبث ، سیرِ بہاراں بھی پھول
دل کا دامن ہی جو کانٹوں سے بچایا نہ گیا
اُس نے اس طرح محبت کی نگاہیں ڈالیں
ہم سے دنیا کا کوئی راز چھپایا نہ گیا
تھی حقیقت میں وہی منزلِ مقصد جذبیؔ
جس جگہ تجھ سے قدم آگے بڑھایا نہ گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( *پیشکش : شفیق جے ایچ* )
🍁
No comments:
Post a Comment