☄ نظیر اکبر آبادی ☄
آج نظیر اکبر آبادی کا یوم پیدائش ہے. نظیر نے اردو ادب میں عوامی موضوعات کو مرکزی نقطہ نظر سے پیش کیا اور عوامی شاعری کو موضوع سخن بنایا اگر نظیر اکبر آبادی اردو زبان کو ہندوستان کے گلی کوچوں اور میلوں ٹهیلوں سے واقف نہ کراتے تو شاید آج اردو زبان کا بھی وہی حال ہوتا جو سنسکرت کا ہوا ہے جسکے بولنے، لکھنے اور پڑھنے والے صرف پنڈت ہی رہ گئے ہیں. نظیر کے اس احسان کو اردو اور اردوداں طبقہ ہمیشہ یاد رکھے گا ان ہی ایک نظم موسم کی مناسبت سے خراج عقیدت کے ساتھ واٹسپ گروپ کے لئے پیش خدمت ہے.
🌨🌨برسات کی بہاریں 🌨🌨
ہیں اس ہوا میں کیا کیا برسات کی بہاریں
سبزوں کی لہلہاہٹ باغات کی بہاریں
بوندوں کی جهم جهماہٹ قطرات کی بہاریں
ہر بات کے تماشے ہر گھات کی بہاریں
کیا کیا مچی ہے یاروں برسات کی بہاریں
بادل ہوا کے اوپر ہو مست چها رہے ہیں
جهڑیوں کی مستیوں سے جهومیں مچا رہے ہیں
پڑتے ہیں پانی ہرجا جل تھل بنا رہے ہیں
گلزار بھیگتے ہیں سبزے نہا رہے ہیں
کیا کیا مچی ہے یاروں برسات کی بہاریں
جنگل سب اپنے تن پر ہریالی سج رہے ہیں
گل بوٹے جھاڑ بونے کر اپنی دهج رہے ہیں
بجلی چمک رہی ہے بادل گرج رہے ہیں
اللہ کے نقارے نوبت کے بج رہے ہیں
کیا کیا مچی ہے یاروں برسات کی بہاریں
سبزوں کی لہلہاہٹ کچھ ابر کی سیاہی
اور چها رہی گھٹائیں سرخ اور سفید کاہی
سب بھیگتے ہیں گھر گھر لے ماہ تا بہ ماہی
یہ رنگ کون رنگے تیرے سوا الہی
کیا کیا مچی ہے یاروں برسات کی بہاریں
کیا کیا رکھے ہے یارب سامان تیری قدرت
بدلے ہے رنگ کیا کیا ہر آن تیری قدرت
سب مست ہو رہے ہیں ہر آن تیری قدرت
تیتر پکارتے ہیں ہر سبحان تیری قدرت
کیا کیا مچی ہے یاروں برسات کی بہاریں
یہ رت وہ ہے کہ جس میں خورد و کبیر خوش ہیں
ادنی غریب مفلس شاہ و وزیر خوش ہیں
معشوق شاد و خرم عاشق اسیر خوش ہیں
جتنے ہیں اب جہاں میں سب اے نظیر خوش ہیں
کیا کیا مچی ہے یاروں برسات کی بہاریں
No comments:
Post a Comment