You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Wednesday, December 27, 2017

مرزا اسد اللہ خان غالب

آج ۲۷ دسمبر دنیائے سخن وری کے مہتاب اور لازوال شاعر "مرزا اسد اللہ خان غالب" کا یومِ ولادت ہے—
آپ کی عظمت کا راز صرف آپ کی شاعری کے حُسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے— آپ کا ا صل کمال یہ ہے کہ آپ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کر دیتے— غالب جس پُر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا— غالباً ً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وُسعت پیدا کی—
مرزا غالب کا نام اسد اللّٰہ بیگ خاں تھا— والد کا نام عبداللّٰہ بیگ تھا— آپ ۲۷ دسمبر ۱۷۹۷ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے— غالب بچپن ہی میں یتیم ہو گئے تھے ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللّٰہ بیگ نے کی لیکن ۸ سال کی عمر میں ان کے چچا بھی فوت ہو گئے— نواب احمد بخش خاں نے مرزا کے خاندان کا انگریزوں سے وظیفہ مقرر کرا دیا— ۱۸۱۰ء میں تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی نواب احمد بخش کے چھوٹے بھائی مرزا الہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراء بیگم سے ہو گئی شادی کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی—
شادی کے بعد مرزا کے اخراجات بڑھ گئے اور مقروض ہو گئے— اس دوران میں انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ور قرض کا بوجھ مزید بڑھنے لگا— آخر مالی پریشانیوں سے مجبور ہو کر غالب نے قلعہ کی ملازمت اختیار کر لی اور ۱۸۵۰ء میں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدّولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب عطا فرمایا اور خاندانِ تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور کر دیا اور ۵۰ روپے ماہوار مرزا کا وظیفہ مقرّر ہوا—
غدر کے بعد مرزا کی سرکاری پنشن بھی بند ہو گئی— چنانچہ انقلاب ۱۸۵۷ء کے بعد مرزا نے نواب یوسف علی خاں والئ رامپور کو امداد کے لیے لکھا— انہوں نے سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا جو مرزا کو تا دمِ حیات ملتا رہا— کثرتِ شراب نوشی کی بدولت انکی صحت بالکل تباہ ہو گئی مرنے سے پہلے بے ہوشی طاری رہی اور اسی حالت میں ۱۵ فروری ۱۸۶۹ء کو انتقال فرمایا اور دہلی میں آسودۂ خاک ہوئے—
___
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
یا
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
.
اس شعر کی شرح مولوی نظم حیدر طباطبائی صاحب نے یوں فرمائی...
"مطلب یہ کہ بہشت کیا ہے، نافہموں کو ایک باغِ سبز دکھایا ہے—"
مولانا حسرت موہانی نے اس شعر کی کچھ ایسی ہی شرح کرتے وقت "معاذاللّٰہ" کا بھی اضافہ کر دیا—
اور یہ سب پڑھنے کے بعد میرے اندر کا باغی کھڑا ہو جاتا ہے اور غالب کے فرمان پر سر دھنتا ہے کہ اس رجلِ عظیم نے بھی کیا خوب کہا....
لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں
جانا کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے
علم بدیع کے علماء گواہ ہیں کہ صنعتِ ابہام وغیرہ شعری صنعتیں ہیں— اس سے شعر میں پہلو داری پیدا ہوجاتی ہے— شعر سننے پر اس کا ایک سادہ سا مطلب سمجھ آجاتا ہے— لیکن غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اندر کچھ اور معانی بھی چھپے ہوئے ہیں—
حیرت ہے کہ بزرگوں نے شرح کرتے وقت غالب کے علم و فضل اور ان کی شاعری میں کجروی اور ان کی عظیم ظرافت جو ان کو دنیا کا واحد حیوانِ ظریف بناتی ہے—
(ڈاکٹر لیول کے نقّاد اس بات پر متَّفق ہیں کہ دنیا میں ڈھائی حیوانِ ظریف ہوئے ہیں— مکمل حیوانِ ظریف مرزا غالب اور شیکسپیئر اور آدھا حیوانِ ظریف گوئٹے—)
اس پسِ منظر میں کوئی چارہ نہیں کہ شعر کی شرح کرنے اور اپنی کم فہمی کے باعث غالب پر لعن طعن کرنے سے پہلے کم از کم غالبیات پر اپنا علم پورا کریں یا پھر کسی ایسے سے مدد لیں جو اس وادئ پرخار کا باشندہ ہو—
شعر کا ظاہری مطلب سامنے ہے کہ جنت کا مذاق اڑایا گیا ہے اور بقول چند شارحین جنت کو سبز باغ کہا گیا ہے—
اگر غالب وجودِ جنّت کے منکر ہوتے تو یہ کیوں فرماتے...؟
خلد بہ غالب سپار زانکہ بدان روضہ در
نیک بود عندلیبِ خاصہ نو آئین نوا
اے خدا تو باغِ جنت مجھے سپرد کر دے کیونکہ اس باغ میں نئے نئے نغمے الاپنے والی بلبل (غالب) ہی موزوں رہے گی—
اور جن کو یہ بات سمجھ آگئی ہے وہ ذرا مزید غور فرمائیں....
اس دنیا میں کس جیتے جاگتے انسان نے جنّت دیکھی ہے...؟؟
کسی نے نہیں دیکھی....
ہم تک قرآنِ مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے خبر پہنچی ہے کہ اللہ تعالی نے ایک دار القرار بنایا ہے جسے عرفِ عام میں جنت کہتے ہیں—
جنّت ملے گی کسے...؟؟
جنّت ان لوگوں کو ملے گی جو نیک ہو ںگے اور نیک اعمال کرتے رہیں گے..
اب بتائیے....
کسی شیخی خورے کے علاوہ کس کو نیک ہونے کا دعویٰ ہے...؟؟
کیا کوئی ایسا ہے کہ جو وثوق سے کہہ سکے کہ ہاں میں اپنے اعمال کے بل بوتے پر جنت میں داخل کیا جاؤں گا...؟؟
ازراہِ عجز و انکساری سب لوگ یہی کہیں گے کہ اجی ہم تو بہت گناہگار ہیں— ہمارے اعمال اس لائق نہیں کہ جنت میں جا سکیں...
اب مرزا غالب کا طنز پہچانیے....
فرماتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کو جنت کی خبر ہے— ہر ایک جانتا ہے کہ جنّت میں داخلے کا میرٹ کیا ہے... لیکن پھر بھی ہم لاپرواہی سے گناہوں میں مشغول ہیں..
یہ دوہرا معیار ہے... کہ ایک طرف تو ہم جنت کے قصیدے پڑھتے ہیں... اس میں جانے کی دعائیں بھی مانگتے ہیں... لیکن وہ اعمال کرنے کو تیّار نہیں جس سے ہم میرٹ پر آ سکیں—
اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہوا کہ ہمارا ایمان اس درجے کمزور ہے کہ ہمیں جنّت کے ہونے کا یقین ہی نہیں... صرف زبانی کلامی چسکا اور دعاؤں کی ایک سطر کے طور پر رٹے رٹائے انداز میں جنّت مانگ کر بری الذّمہ ہوجاتے ہیں—
یہ انسانی نفسیات پر ایک بہت بڑا طنز ہے...
ہر بندہ جنّت کا شائق ہے.. جنّت میں جانا چاہتا ہے... لیکن وہ اعمال نہیں کرتا جس سے جنّت میں جائے... اور صرف اللّٰہ کی رحمت سے امید لگائی ہوئی ہے—
ہر بندہ جانتا ہے کہ جو پیدا ہوا وہ ایک دن مرتا ہے— مجھے بھی موت آنی ہے— کوئی قبر بھی ہوتی ہے— عالمِ برزخ کے مراحل بھی سامنے ہیں لیکن پھر بھی کم ہی لوگ آخرت کی تیاری میں مصروف ہیں— صاف مطلب ہے کہ اکثریت کا ایمان کمزور ہے—
یہ اس شعر کا ایک پہلو تھ— اب اس شعر کا دوسرا پہلو دیکھیے...
کچھ دیر کیلئے بات سمجھنے کو اگر ہم ایمان کے تین درجے فرض کرلیں تو...
ایک درجہ کمزور ایمان والوں کا
دوسرا درجہ کامل ایمان والوں کا
تیسرا درجہ اکمل ایمان والوں کا
کمزور ایمان والے اکثریت میں ہیں— جنّت کو مانتے ہیں لیکن اس پر یقین رکھ کے وہ اعمال کرنے کو تیّار نہیں اور صرف رحمتِ خداوندی سے امیدوار ہیں—
کامل ایمان والے اللہ سے ڈرتے ہیں— قرآنِ مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین پر عمل کرتے ہیں اور ان کا مقصود یہی ہے کہ رحمتِ خداوندی سے جنّت میں داخل ہو کر ابدی زندگی کا سکون پا لیں—
اکمل ایمان والوں کا مقصود جنّت سے بھی آگے ہے— ان کی نظر میں جنّت ایک چھوٹی جزا ہے ان کو اس سے بھی بڑی جزا چاہیے..
غالب فرماتے ہیں...
ستائش گر ہے زاہد اس قدر جس باغِ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بیخودوں کا طاقِ نسیاں کا
سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف، سب درست
لیکن خدا کرے وہ تری جلوہ گاہ ہو—
کس کی جلوہ گاہ ہو..؟؟ اس سوال کا جواب غالب کے ایک نعتیہ شعر میں دیکھیے...
جُستیم سراغِ چمن خلد بہ مستی
در گرد خرام تو رہ افتاد گماں را
ہم مستی کی حالت میں باغِ جنت کا سراغ لگا رہے تھے کہ ہمارا خیال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک قدموں سے اٹھنے والی گرد کی طرف چلا گیا—
بات واضح ہو گئی— غالب کی نظر میں جنّت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبارک قدموں سے اٹھنے والی گرد ہے— اب غالب کے نقطہ نظر پر غور فرمائیے جس کی نظر محبوب کے قدموں پر ہو وہ اٹھنے والی گرد کو کیا اہمیت دے گا؟
اس تاویل کی سند بھی خاکسار کلامِ غالب اور کلامِ اقبال سے لایا ہے— پہلے غالب کا نعتیہ شعر ملاحظہ ہو...
واعظ حدیثِ سایہ طوبیٰ فروگذار
کاینجا سخن ز سروِ روانِ محمد است
واعظ تو طوبیٰ کے سائے کی بات چھوڑ کیونکہ یہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سروِ رواں(قد مبارک) کی بات ہو رہی ہے...
حضرتِ رابعہ بصری سے ایک واقعہ منسوب ہے کہ ایک ہاتھ میں آگ اور ایک ہاتھ میں پانی لیے جا رہی تھیں— کسی نے پوچھا تو فرمایا جنّت کو آگ لگانے اور جہنم کو بجھانے جا رہی ہوں تا کہ لوگ کسی ڈر اور لالچ کے اس کی عبادت کریں—
اگر اس واقعے میں جنّت کا مذاق نہیں اڑایا گیا تو پھر یہ شعرِ غالب دیکھیے...
طاعت میں تا رہے نہ مے و انگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو
جب حیوانِ ظریف اپنی ظرافت کی انتہائی بلندیوں سے جنت کے گریڈی ڈوگز کو دیکھتے ہیں تو تبسّم فرماتے ہیں...
واعظ نہ تم پی سکو نہ کسی کو پلا سکو
کیا بات ہے تمہاری، شرابِ طہور کی...
یہ سب تو ایک حقیر و ناچیز بندے کی نظر سے غالب کا نقطہ نظر دیکھا گیا جو کہ یقیناً بہت سوں کیلئے لاف و گزاف ہوگا لیکن آئیے علامہ اقبال کے الفاظ میں غالب کا نقطہ نظر دکھاؤں...
جاوید نامہ میں اقبال کے الفاظ ہیں...
ارواح ِ جلیلہ حلاج و غالب و قرۃالعین طاہرہ کہ بہ نشیمنِ بہشتی نہ گردیدند و بگردشِ جاوداں گرائیدند
★ترجمہ؛
حلاج، غالب اور قرۃ العین طاہرہ کی عظیم روحیں جو کہ اپنے بہشتی نشیمن کی طرف مائل نہ ہوئیں اور سیرِ جاوداں میں مشغول رہیں—
(اقبال نے غالب کی روح کو ارواحِ جلیلہ میں سے ایک قرار دیا ہے اور اس لفظ کا ترجمہ خاکسار نے عظیم روحیں کیا ہے— اگر کسی ظاہر پرست کو اب بھی غالب کے مقام و مرتبے میں شک و شبہ رہ گیا ہو تو وہ صاحبِ علم میری غلطی درست کر دے—)
جاوید نامہ کے مطابق جب علّامہ اقبال کی ان عظیم ارواح سے ملاقات ہوئی تو اقبال نے پہلا سوال یہی پوچھا کہ......
از مقامِ مومناں دوری چرا؟
یعنی از فردوس مہجوری چرا؟
مومنوں کے مقام سے دور رہنا کیوں
یعنی فردوس سے باہر رہنا کیوں؟
ان عظیم ارواح کا جواب اقبال کے الفاظ میں...
ایک آزاد مرد جو اچھّے اور برے کو خوب پہچانتا ہے— اس کی روح بہشت کے اندر نہیں سما سکتی—
ملا کی جنت تو شراب، حور و غلمان والی جنت ہے— لیکن آزاد لوگوں کی جنت سیرِ جاوداں ہے—
ملا کی جنّت میں کھانا پینا، سونا اور موسیقی سننا ہے اور ایک عاشق کی جنّت وجود یعنی محبوبِ حقیقی کے دیدار کی خواہش ہے—
ملا کا حشر قبر کھلنے اور بانگِ صور پر مردوں کے اٹھنے کا نام ہے جبکہ ہنگامہ برپا کرنے والا عشق خود قیامت کی صبح ہے—
یہ اشعار ابھی اور بھی ہیں لیکن سند کیلئے اتنے اشعار کا ترجمہ ہی کافی ہے اور جن کی آنکھیں اب بھی بغضِ غالب کی نیند سے نہ کھلیں تو ایسوں کو سات سلام ہیں—
...

Saturday, November 25, 2017

ابا مجھے قران نہیں۔ گاڑی چاہیے

🕊🕊🕊

ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺎﻟﺞ ﺳﮯ ﮔﺮﯾﺠﻮﯾﭧ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺗﮭﺎ۔ ﭘﭽﮭﻠﮯ ﮐﭽﮫ ﻣﮩﯿﻨﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺍﯾﮏ ﮔﺎﮌﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺷﻮﺭﻭﻡ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ اﺳﭙﻮﺭﭨﺲ ﮐﺎﺭ ﺑﮩﺖ ﭘﺴﻨﺪ ﺗﮭﯽ۔ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺑﺎ ﺟﺎﻥ ﻭﮦ ﮐﺎﺭ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺑﺎ ﺟﺎﻥ ﮐﻮ ﮐﮩﮧ ﺭﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﮔﺮﯾﺠﻮﺍﯾﺸﻦ ﮐﮯ ﺗﺤﻔﮯ ﻣﯿﮟ ﻭﮨﯽ ﮐﺎﺭ ﭼﺎﮨﺌﯿﮯ۔ ﺟﯿﺴﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﮔﺮﯾﺠﻮﯾﺸﻦ ﮐﯽ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﮐﺎ ﺩﻥ ﻗﺮﯾﺐ ﺁ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ،
ﻭﯾﺴﮯ ﻭﯾﺴﮯ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﺎ ﺍﭘﻨﮯ ﺗﺤﻔﮯ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﺮﻭﺝ ﭘﮧ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺑﻶﺧﺮ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﮐﮯ ﺩﻥ ﮐﯽ ﺻﺒﺢ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺑﺎ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﺎﺹ ﻣﻄﺎﻟﻌﮯ ﮐﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﻼﯾﺎ۔
ﺍﺱ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﺴﮯ ﺫﮨﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﻨﺘﯽ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﭖ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﮧ ﺍﻥ ﮐﻮ ﮐﺘﻨﺎ ﻓﺨﺮ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﺘﻨﺎ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﻏﻼﻑ ﻣﯿﮟ ﻟﭙﭩﺎ ﮨﻮﺍ ﮈﺑﮧ ﺗﺤفے ﻣﯿﮟ ﺩﯾﺎ۔ ﮐﭽﮫ ﻣﺎﯾﻮﺳﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﺗﺠﺴﺲ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻭﮦ ﺗﺤﻔﮧ ﮐﮭﻮﻻ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﭼﻤﮍﮮ ﮐﮯ ﺩﺳﺘﮯ ﻭﺍﻻ ﻗﺮﺁﻥ ﺷﺮﯾﻒ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﺎ۔
ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻏﺼﮯ ﮐﮯ ﻣﺎﺭﮮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺭﻧﮕﺖ ﺳﺮﺥ ﭘﮍ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺑﺎ ﭘﮧ ﭼﻼ ﺍﭨﮭﺎ:
"ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺗﻨﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﺩﻭﻟﺖ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺻﺮﻑ ﯾﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﺗﺤﻔﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﺎ؟" ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺍﻧﻤﻮﻝ ﺗﺤﻔﮯ ﮐﻮ ﻭﮨﯿﮟ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﻧﮑﻼ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ۔
ﺑﮩﺖ ﺳﺎﻝ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ ﻭﮦ ﭘﻠﭧ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺑﺎ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﺏ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﺑﺰﻧﺲ ﻣﯿﻦ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺑﻨﮕﻼ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺏ ﺍﺳﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺑﺎ ﮐﯽ ﯾﺎﺩ ﺳﺘﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﮩﺖ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮨﻮ ﭼﮑﮯ ﮨﻮﻧﮕﮯ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﯾﺪ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ۔ ﻭﮦ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺑﺎ ﮐﻮ ﻣﻠﻨﮯ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﯿﮯ۔
ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺑﺎ ﮐﻮ ﻣﻠﻨﮯ ﺟﺎﺗﺎ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﺳﮯ ﺍﻃﻼﻉ ﻣﻠﯽ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺑﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮐﺮ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﺻﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﺮ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺳﮯ ﺍﻓﺮﺍﺗﻔﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﻏﻢ ﮐﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﺎ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺟﺎﻧﺎ ﭘﮍ ﮔﯿﺎ۔ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺍﺑﺎ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﻝ ﻏﻢ ﮐﯽ ﺷﺪﺕ ﺳﮯ ﺑﮭﺮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﭘﭽﮭﺘﺎﻭﮮ ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﮒ ﺍﭨﮭﺎ۔ ﺗﺪﻓﯿﻦ ﺳﮯ ﻓﺮﺍﻏﺖ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺑﺎ ﮐﮯ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﮐﺎ ﺟﺎﺋﺰﮦ ﻟﮯ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺗﺒﮭﯽ ﺍﺳﮯ ﻭﮨﯽ ﺗﺤﻔﮯ ﻭﺍﻻ ﻗﺮﺁﻥ ﻭﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻧﺌﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﺍ ﮨﻮﺍ ﻣﻼ ﺟﯿﺴﺎ ﻭﮦ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺳﮯ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﺷﺮﯾﻒ ﮐﻮ ﮐﮭﻮﻻ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻭﺭﺍﻕ ﭘﻠﭩﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﯾﻮﻧﮩﯽ ﺍﻭﺭﺍﻕ ﭘﻠﭩﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺻﻔﺤﮯ ﭘﮧ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺑﺎ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺁﯾﺖ ﭘﮧ ﻧﺸﺎﻥ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔
ﻭﮦ ﺳﻮﺭﮦ ﺭﻋﺪ ﮐﯽ ﺍﭨﮭﺎئیسویں ﺁﯾﺖ ﺗﮭﯽ :
"ﺑﮯ ﺷﮏ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﯾﺎﺩ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﮑﻮﻥ ﺑﺨﺸﺘﯽ ﮨﮯ۔"
ﺍﺱ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺁﯾﺖ ﭘﮍﮬﯽ۔ ﺗﺒﮭﯽ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﭘﭽﮭﻠﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﻧﯿﭽﮯ ﮔﺮﯼ۔ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﮐﺎﺭ ﮐﯽ ﭼﺎﺑﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﺩﮦ ﺷﻮﺭﻭﻡ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮐﺎﺭ ﮐﯽ ﭼﺎﺑﯽ ,ﺭﺳﯿﺪ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ۔ ﭼﺎﺑﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺭﺳﯿﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮔﺮﯾﺠﻮﺍﯾﺸﻦ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻟﮑﮭﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﮑﻤﻞ ﻗﯿﻤﺖ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﺘﻨﯽ ﮨﯽ ﺩﻓﻌﮧ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﻋﻄﺎ ﮐﺮﺩﮦ ﺍﻥ ﮔﻨﺖ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺻﺮﻑ ﺍﺱ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﭨﮭﮑﺮﺍ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺗﻮﻗﻌﺎﺕ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯿﮟ۔ اور بعض دفعہ جلد بازی میں غلط فیصلہ کر دیتے ہے جس کا دکھ اور نقصان پوری زندگی ہمیں اٹھانا پڑتا ہے۔

نامعلوم

حسن سلوک

" ثاقب ناچن کی رہائی اور جیل میں ان کا حسن سلوک"

ملنڈ بم دھماکہ کے الزام میں برسوں قید و بند کی تکلیف اٹھانے والے ثاقب ناچن کو دوران قید جیل میں اچھے برتاؤ اور بہتر ڈسپلن کے سبب پانچ مہینے اور 13 دن قبل رہا کر دیا گیا۔ ثاقب ناچن نے بم دھماکہ کیس کے دوران جس ثابت قدمی کے ساتھ اس کو فیس کیا اور جیل میں عمدہ اخلاق اور حسن سلوک کا جو غیر معمولی نمونہ پیش کیا ہے اس کو دیکھ کر پولیس بھی اس کی گواہی دینے پر مجبور ہوکر رہ گئی اور انہیں " ذہین ترین انسان قرار دیا۔" جو اپنے آپ میں بہت بڑی بات ہے۔ ثاقب ناچن کا تعلق جس تنظیم سے رہا ہے وہ بھی اسلام کی دعوت و تبلیغ کا کام طلبہ و نوجوانوں انجام دے رہی تھی اسی لیے وہ علمی اور فکری لحاظ سے اسلامی کی تعلیمات سے پوری طرح لیس تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جیل میں عمدہ اخلاق اور حسن سلوک کا مظاہرہ کیا اس کا اثر یہ ہوا کہ پولیس حکام بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ صحیح معنوں میں اس ملک کے مسلمان بھی اگر اسلامی تعلیمات پر صدق دل سے عمل پیرا ہوجائیں اور اسلام کی دعوت کو برادران میں پہنچانے کا کام انجام دینا شروع کردیں تو وہ دن دور نہیں جب یہی لوگ حق کی گواہی دینے پر آمادہ ہوجائیں گے۔ اور ایک بار پھر ثابت ہو جائے گا کہ اسلام تلوار سے نہیں اخلاق سے پھیلا ہے۔

محمد خالد داروگر'دولت نگر' سانتاکروز' ممبئی

Tuesday, October 24, 2017

یوم ولادت بہادر شاہ ظفر

*بہادر شاہ ظفر کا یوم ولادت*
آج 24 اکتوبر ایک خودار بادشاہ..حوصلہ مند مجاہد آزادی اور بہترین شاعر بہادر شاہ ظفر کا یوم ولادت ہے..تیمور خاندان نے جس  سلطنت مغلیہ کی بنیاد رکھی یہ اس کے آخری بادشاہ تھے....یہ وہ بدنصیب باپ ہے انگریزوں نے جس کے چاروں بیٹوں کے سروں  تن سے جدا کرکے تھال میں سجاکر ان کو پیش کئے گئے....
بہادر شاہ ظفر کو یہ شرف حاصل رہا کہ وہ  ابراہیم ذوق اور مرزا غالب جیسے شعراء کے شاگرد رہے...
موصوف کے کچھ منتخب اشعار احباب کی خدمت میں...

*

‏یہ چمن یونہی رہے گا اور ہزاروں بلبلیں
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گی

*‏دیکھے جو ہمارے بت مغرور کی گردن*
*غلمان کے تن سے ہو جدا حور کی گردن*

‏خاکساری کیلئے گرچہ بنایا تھا مجھے
کاش , خاک ِ  درِ  جانانہ  بنایا  ہوتا

‏ *صبح کے تخت نشیں شام کو مجرم ٹھہرے*
*ہم نے پل بھر میں نصیبوں کو بدلتے دیکھا*

‏تم نے کیا نہ یاد کبھی بھول کر ہمیں
ہم نے تمہاری یاد میں سب کچھ بھلا دیا

*اتنا نہ اپنے جامے سے باہر نکل کے چل*
*دنیا ہے چل چلاؤ کا رستہ سنبھل کے چل*

‏کوئی کیوں کسی کا لبھائے دل ، کوئی کیا کسی سے لگائے دل
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل ، وہ دکان اپنی بڑھا گئے

*‏اِتنا ہی ہُوا حُسن میں وہ شُہرۂ آفاق !*
*جِتنے ہُوئے ہم عِشق میں رُسوائے زمانہ*

‏عمرِ دراز مانگ لائے تھے، چار دن۔
دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں

*‏کانٹوں کو مت نکال چمن سے کہ باغبان*
*یہ بھی گلوں کے ساتھ پلے ہیں بہار میں*

‏اے فاتحہ کوئی آئے کیوں، کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی شمع آ کے جلائے کیوں کہ میں بے کسی کا مزار ہوں

*‏یار تھا گلزار تھا باد صبا تھی میں نہ تھا*
*لائق پابوس جاناں کیا حنا تھی میں نہ تھ*ا
                                    
‏کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

*یاں تک عدو کا پاس ہے ان کو کہ بزم میں*
*وہ بیٹھتے بھی ہیں تو مرے ہم نشیں سے دور*

ظفرؔ بدل کے ردیف اور تو غزل وہ سنا
کہ جس کا تجھ سے ہر اک شعر انتخاب ہوا

*بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی*
*جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی*

کہہ دو ان حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دل دغدار میں

*میرے سرخ لہو سے چمکی کتنے ہاتھوں میں مہندی*
*شہر میں جس دن قتل ہوا میں عید منائی لوگوں نے*

*ہم ہی ان کو بام پہ لائے اور ہمیں محروم رہے*
*پردہ ہمارے نام سے اٹھا آنکھ لڑائی لوگوں نے*

سب مٹا دیں دل سے ہیں جتنی کہ اس میں خواہشیں
گر ہمیں معلوم ہو کچھ اس کی خواہش اور ہے

*دولت دنیا نہیں جانے کی ہرگز تیرے ساتھ*
*بعد تیرے سب یہیں اے بے خبر بٹ جائے گی*

غزل

رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی
سائے سے مگر اس کو محبت بھی بہت تھی

خیمے نہ کوئی میرے مسافر کے جلائے
زخمی تھا بہت پاؤں مسافت بھی بہت تھی

سب دوست میرے منتظرِ پردہء شب تھے
دن میں تو سفر کرنے میں دِقت بھی بہت تھی

بارش کی دعاؤں میں نمی آنکھ کی مل جائے
جذبے کی کبھی اتنی رفاقت بھی بہت تھی

کچھ تو ترے موسم ہی مجھے راس کم آئے
اور کچھ مری مٹی میں بغاوت بھی بہت تھی

پھولوں کا بکھرنا تومقدر ہی تھا لیکن
کچھ اس میں ہواؤں کی سیاست بھی بہت تھی

وہ بھی سرِ مقتل ہے کہ سر جس کا تھا شاہد
اور واقفِ احوال عدالت بھی بہت تھی

اس ترکِ رفاقت پہ پریشاں تو ہوں لیکن
اب تک کے ترے ساتھ پہ حیرت بھی بہت تھی

خوش آئے تجھے شہرِ منافق کی امیری
ہم لوگوں کو سچ کہنے کی عادت بھی بہت تھی

پروین شاکر

Saturday, October 21, 2017

مرزا محمد ھادی رسوا

مرزا محمد ھادی رسوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج 21 ، اکتوبر معروف ناول نگار اور ادیب مرزا ھادی رسوا کا یومِ وفات ھے ۔
سال پیدائش : 1857ء
تاریخ وفات : 21، اکتوبر 1931ء
مرزا محمد ہادی رسوا (1857ء تا 21 اکتوبر، 1931ء) ایک اردو شاعر اور فکشن کے مصنف (بنیادی طور پر مذہب، فلسفہ، اور فلکیات کے موضوعات پر) گرفت رکھتے تھےانہیں اردو، فارسی، عربی، عبرانی، انگریزی، لاطینی، اور یونانی زبان میں مہارت تھی۔ ان کا مشہور زمانہ ناول امراؤ جان ادا 1905ء میں شائع ہوا جو ان کا سب سے پہلا ناول مانا جاتا ہے۔ یہ ناول لکھنؤ کی ایک معروف طوائف اور شاعرہ امراؤ جان ادا کی زندگی کے گرد گھومتا ہے بعد ازاں ایک پاکستانی فلم امراؤ جان ادا (1972)، اور دو بھارتی فلموں، امراو جان (1981) اور امراو جان (2006) کے لئے بنیاد بنا۔ 2003ء میں نشر کئے جانے والے ایک پاکستانی ٹی وی سیریل کی بھی بنیاد یہی ناول تھا۔
مرزا محمد ہادی رسوا کی زندگی کی درست تفصیلات دستیاب نہیں ہیں اور ان کے ہم عصروں کی طرف سے دی گئی معلومات میں تضادات موجود ہیں البتہ رسوا نے خود تذکرہ کیا ہے کہ ان کے آباء و جداد فارس سے ہندوستان میں آئے اور ان کے پردادا سلطنت اودھ کے نواب کی فوج میں ایک ایڈجوٹنٹ تھے۔ جس گلی میں رسوا کا گھر تھا اسے ایڈجوٹنٹ کی گلی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے والد اور دادا کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ نہیں بتایا کہ وہ دونوں ریاضی اور فلکیات میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔ مرزا محمد ہادی رسوا 1857ء کو، ایک گھڑسوار، فوجی افسر، مرزا محمد تقی کے گھر لکھنؤ، اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔انہوں نے گھر میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ وہ سولہ سال کے تھے جب ان کے والدین دنیا سے کوچ کر گئے۔ نوجوانی میں وفات پانے والےان کے بڑے بھائی مرزا محمد ذکی، ایک علمی شخصیت تھے۔ اس دور کے ایک مشہور خطاط حیدر بخش نے رُسوا صاحب کو خوش خطی سکھائی اور انہیں کام کرنے کے لئے کچھ رقم ادھار بھی لیکن حیدر بخش کی آمدنی ڈاک کی جعلی ٹکٹ سازی سے آتی تھی لہٰذا اُسے گرفتار کر لیا گیا اور ایک طویل مدت کے لئے قید کی سزا سنائی گئی۔رُسوا کے لکھنے کے کیریئر میں اُن کی مدد کرنے والے بہت سے لوگوں میں سے ایک اردو شاعر، دبیر بھی تھے۔ رسوا نے گھر میں تعلیم حاصل کی اور میٹرک پاس کیا، اس کے بعد انہوں نے منشی فاضل کے کورس کا امتحان دیا اور منشی فاضل ہوگئے۔؎کوئٹہ بلوچستان میں ریلوے میں ملازمت کی۔ دوران ملازمت کیمیا کا ایک رسالہ ہاتھ لگ گیا جس کے مطالعے کے بعد کیمیا گری کی طرف مائل ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ مرزا رسوا نے پچاس سے زیادہ تصنیفات یاد گار چھوڑیں تاہم اردو ادب میں ان کا نام ناول نگار کی حیثیت سے ہمیشہ زندہ رہے گا۔

اردو غزل

دبی دبی سی وہ مسکراہٹ لبوں پہ اپنے سجا سجا کے
وہ نرم لہجے میں بات کرنا ادا سے نظریں جھکا جھکا کے
وہ آنکھ تیری شرارتی سی وہ زلف ماتھے پہ ناچتی سی
نظر ہٹے نہ ایک پل بھی، میں تھک گیا ہوں ہٹا ہٹا کے
وہ تیرا ہاتھوں کی اُنگلیوں کو ملا کے زلفوں میں کھو سا جانا
حیا کو چہرے پہ پھر سجانا، پھول سا چہرہ کھلا کھلا کے
وہ ہاتھ حوروں کے گھر ہوں جیسے، وہ پاؤں پریوں کے پر ہوں جیسے
نہیں تیری مثال جاناں، میں تھک گیا ہوں بتا بتا کے۔۔

Sunday, October 08, 2017

ٹام الٹر ۔۔۔۔ آپ یاد آؤ گے

ٹام الٹر الوداع ........"

ٹام الٹر، نیلی انکھون والا ہندوستانی گورا جو ایک غضب کا اداکار تھا، اب ہمارے درمیان نہیں رہا۔
ٹام الٹر کا جنم 22 جون 1950 میں میسوری اتر کنڈ انڈیا میں ایک پادری کے گھر ہوا۔ انکے دادا، دادی عیسائیت کی تبلیغ کیا کرتے تھے اور اس سلسلے میں وہ امریکی ریاست اوہائیو سے نومبر 1916 کو بحری جہاز میں چنائی اگئے اور وہاں سے بذریعہ ٹرین لاہور چلے گئے۔ اس دوران انکے دادا دادی راولپنڈی پشاور اور سیالکوٹ میں عیسائیت کی تبلیغ کرتے رہے۔ ٹام الٹر کے والد کا جنم سیالکوٹ میں ہوا تھا، تقسیم ہند کے بعد انکے والد انڈیا اگئے جہاں وہ آلہ اباد کے ایک کریسچن کالج میں پڑھایا کرتے تھے۔ انہیں فلسفہ تاریخ اور مزہب سے سے بڑا لگاؤ تھا۔ ٹام الٹر کے دادا دادی نے پاکستان میں ہی رہنا پسند کیا۔ ٹام الٹر کا بچپن میسوری الہ آباد سہارن پور اور راج پور میں گزرا۔ ٹام الٹر نے ابتدائی تعلیم ووڈ سٹاک سکول میسوری سے حاصل کی، میٹرک کے بعد اٹھارہ سال کی عمر میں والد نے انہیں کالج پڑھنے کیلئے امریکا بھیجا لیکن وہاں مشکل پڑھائی کیوجہ سے انکا دل پڑھنے میں نہیں لگا وہ زیادہ دیر تک اوارہ گردی کرتے رہے اور پھر ایک سال بعد واپس انڈیا اگئے۔ انکے پادری والد نے انہیں فارغ رہنے نہیں دیا اور انہیں جگادری ہریانہ کے سینٹ ٹھامس سکول میں بھرتی کروایا جہاں انہوں نے چھ مہینے کرکٹ کوچنگ کی۔ ٹام الٹر کی زندگی میں ٹرنینگ پوائنٹ ہریانہ جگادری میں ہی آیا، شروع میں ٹام الٹر کا رجحان کھیلوں کی طر ف تھا، لیکن جگادری ہریانہ میں انہوں نے ایک دن راجیش کھنہ کی فلم ارادھنا دیکھی اور وہ اس فلم سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے من بنا لیا کہ اب وہ فلموں میں کام کرینگے۔ لیکن اسوقت سیدھا منہ اٹھا کر فلموں میں جو جلا جاتا تھا اسے منہ کی کھانی پڑتی تھی اس لئے ٹام الٹر نے اداکاری سیکھنے کیلئے پونا کا رخ کیا اور وہاں انہوں نے پونا فلم انسٹیٹیوٹ میں داخلہ لیا جہاں پر اوم پوری شبانہ اعظمی نصیرالدین شاہ اور بنجمن ایرانی بھی ایکٹینگ سیکھ رہے تھے۔ پونا میں ٹام الٹر کی نصیر الدین شاہ سے بہت گہری دوستی بنی وہ اپنے کرکٹ ٹیم کے کپتان بھی بنے اور نصیر الدین شاہ انکے ساتھ ٹیم میں شامل تھے۔ پونا میں ٹام الٹر نے 1972 سے لیکر 1974 تک دو سالوں میں اپنے گرو روشن تنیجا سے اداکاری سیکھی۔ اسکے بعد وہ ممبئی اگئے جہاں انہیں پہلا چانس رمانند ساگر کی فلم چرس میں ملا جس میں اسوقت کی مشہور جوڑی دھرمیندر اور ہیما مالینی نے کام کیا تھا یہ فلم 1976 میں ریلیز ہوئی۔ شروعات میں انہیں گورے رنگ کی وجہ سے انگریز افسر کا کردار ملا کرتا تھا جس میں عموماً وہ غنڈہ گردی کرتے نظر آیا کرتے تھے۔ بعد میں انہیں ہندی کردار بھی ملنے لگے۔ ٹام الٹر نے مشہور زمانہ بنگالی فلمساز ستیہ جیت رے کی ہندی فلم ’شطرنج کے کھلاڑی' میں کام کیا جسے بہت سراہا گیا بعد میں انہوں نے رچرڈ اینٹنبرو کی فلم گاندھی اور راج کپور کی فلم ’رام تیری گنگا میلی‘ جیسی کامیاب فلموں میں غضب اداکاری کی۔ منوج کمار محب وطنی پر بنی فلموں کیوجہ سے مشہور مانے جاتے ہیں اس لئے جب منوج کمار نے فلم ’کرانتی‘ بنانا شروع کی تو انہوں نے انگریز افسر کے کردار کیلئے ٹام الٹر کو چنا اور اس کردار میں ٹام الٹر نے شاندار اداکاری کی، اس فلم کے انکی منوج کمار سے بڑی اچھی دوستی بنی۔
ٹام الٹر نے جب ارادھنا فلم دیکھی تھی تب انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنے محبوب اداکار روجیش کھنہ کے ساتھ ایک دن کام کرینگے لیکن سچی لگن سے انہوں نے یہ خواب سچ کرکے دکھایا انہوں راجیش کھنہ کے ساتھ دو فلموں میں کام کیا۔ ہری کیش مکھرجی کی فلم نوکری اور 1993 میں بنی فلم سردار میں انہوں نے راجیش کھنہ کے ساتھ کام کیا فلم سرادر مشہور نیتا سردار پٹیل کی زندگی پر بنی تھی۔
ہندی کے علاوہ انہوں نے انگریزی فلم ’وِتھ لَو، دلّی‘، ’سن آف فلاور‘، ’سائیکل کِک‘، ’اَوتار‘، ’اوسیان آف اَن اولڈ مین‘، ’وَن نائٹ وتھ دی کنگ‘، ’سائلنس پلیز‘ جیسی فلموں میں اہم کردار ادا کیے۔
ٹام نے تقریباً 300 فلموں میں کام کیا۔
فلموں کے علاوہ انھوں نے اپنے کیریر کا ایک بڑا وقت تھیٹر کو دیا۔ ٹام الٹر نے 1977 میں اپنے دوست نصیر الدین شاہ اور بنجمن ایرانی کے ساتھ موٹلی کے نام سے ایک تھیٹر گروپ بنایا۔ ٹام الٹر مولانا عبدالکلام آزاد سے بہت متاثر تھے۔ انہوں نے 2014 میں راجیہ سبھا ٹی وی کے پروگرام ’سنویدھان‘ میں مولانا ابوالکلام آزاد کا کردار نبھایا جس میں ان کے کردار کی بہت تعریف ہوئی۔ ٹام الٹر نے ٹیلی وژن پر بھی کام کیا اور لوگوں کی دل میں ایک خاص مقام بنایا۔ اسی سال ان کی فلم ’سرگوشیاں‘ ریلیز ہوئی ہے جس میں انھوں نے مرزا غالب کا کردار نبھایا۔ تھیٹر میں ٹام الٹر نے کئی سالوں تک مولا عبدالکلام آزاد پلے کیا۔ اسکے علاوہ انہوں نے مولانا ظفر علی خان، گاندھی، ساحر لدھیانوی، غالب اور ٹیگور کا کردار ادا کیا۔ ٹام الٹر کو اردو زبان سے جنون کی حد تک عشق تھا۔ صاف اردو کیوجہ سے ٹام الٹر سٹیج پر اتنی جاندار اداکاری کرتے تھے کہ کسی کا دھیان ان کے گورے چہرے پر نہیں جاتا تھا،
ٹام الٹر کو فلموں کے علاوہ کھیل میں بھی کافی دلچسپی تھی۔ ٹام سچن تندولکر کا انٹرویو لینے والے پہلے شخص تھے۔ 1988 میں جب ماسٹر بلاسٹر سچن 15 سال کے تھے، تب ٹام نے ان کا پہلا انٹرویو لیا تھا۔
ٹام کو جلد کا کینسر تھا۔ وہ طویل مدت سے بیمار تھے۔ ان کا ممبئی کے سیف اسپتال میں علاج چل رہا تھا جہاں اکثر وہ تنہا ہی ہوتے تھے۔ اپنی اسی روداد کو ٹام نے ریختہ کو دیے انٹرویو میں غالب کے شعر کے بہانے شاید یوں بیان کیا تھا۔

"پڑیے اگر بیم.ار، تو کوئی نہ ہو تیماردار

اور مر جائیے اگر، تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو...

Tuesday, September 05, 2017

یوم اساتذہ مبارک

          
    کتنی محبتوں سے پہلا سبق پڑھایا،
   میں کچھ نہ جانتا تھا، سب کچھ مجھے سیکھایا،
   انپڑھ تھا اور جاہل، قابل مجھے بنایا،
   دنیائے علم و دانش کا راستہ دکھایا،
   مجھ کو دلایا کتنا اچھا مقام کہنا،
    استاد محترم سے میرا سلام کہنا.....
         
اسلام علیکم ،
                  
           اراکین بزم جو بطور اساتذہ، والدین، خواہر و برادر بزرگ، نسل نو کی تعلیم و تربیت  میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، میں ان کے جوش، جذبے، دلچسپی، محنت، لگن، عاجزی، انکساری، ایثار و قربانی اور جہد مسلسل کو سلام محبت پیش کرتا ہوں اور ان کی کامیابی کے لئیے دعا گو ہوں.......
             رب کریم انہیں اجر عظیم عطا فرمائے، آمین.
       استطاعت کے مطابق تو کیا جگ روشن،
      ہم وہ جگنو ہیں جو تنویر سے بھی بچتے رہے."
یومِ اساتذہ مبارک

Sunday, September 03, 2017

صابرہ سکوانی

آہ صابرہ سکوانی

مبئی کی مشہور ومعروف سوشل ورکر صابرہ سکوانی کاانتقال


ممبئی کی مشہور ومعروف سوشل ورکر صابرہ سکوانی کاآج صبح سویرے ان کی رہائش گاہ نزد جے جے اسپتال انتقال ہوگیا۔ 49سالہ صابرہ سکوانی غریب ویتیم لڑکیوں  کی شادی کراتی تھیں اور یتیم بچوں  کو تہوار کے موقع پرتفریح  کرانے ان کی دعوتیں کرتیں انھیں پیارکرتی تھیں۔شوہر اسلم سکوانی، بیٹا رضوان اور ایک بیٹی ہے۔وہ سماجی کاموں کے ساتھ ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں بھی مصروف تھیں اور این سی پی کی ورکر تھیں۔ ذرائع  کے مطابق مرحومہ سکوانی کا جنازہ رات نماز عشاء پر اٹھایاجائیگاباور پرنسس بلڈنگ جے جے جنکشن کے عقب میں بی آئی ٹی چال سڈنہم کمپاونڈ  میں نماز جنازہ ہوگی اور بڑے قبرستان کے پاس منگل واڑی میں واقع کچھی میمن جماعت قبرستان میں تدفین عمل میں آئے گی، صابرہ سکوانی کے انتقال کے سبب علاقے میں صدمہ کی لہر صابرہ سکوانی بہت ملنسار اور خوش مزاج تھی۔ہر وقت سب کی مدد کے لیے تیار رہتی تھی۔لن ترانی کی ٹیم دعاگو ہیں اللہ ان کی مغفرت کریں۔اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائیں

Monday, July 17, 2017

غزل


بے زبانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں
اِس کہانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں

درد ایسا ہے کہ پتھّر کا کلیجہ پھٹ جائے
سخت جانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں

میہماں بن کے ستم گر نے ستم ڈھایا ہے
میزبانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں

کس نے بخشے ہیں اِن آنکھوں کو اُبلتے آنسو
حق بیانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں

تنگ ظرفی کی علامت ہے جتانا احساں
مہربانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں

ٹوٹ جائے نہ بھرم پیار کا اِک دن راغبؔ
خوش گمانی کا تقاضا ہے کہ ہم چُپ ہی رہیں

شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: لفظوں میں احساس

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP