Thursday, April 16, 2009
اندھیرا
اس اندھیرے میں وہ مرتے ہوۓ جسموں کی کراہ
وہ عزازیل کے کتّوں کی کمیں گاہ
وہ تہذیب کے زخم
خند قیں
باڑھ کے تار
باڑھ کے تاروں میں الجھے ہوۓ انسانوں کے جسم
اور انسانوں کے جسموں پہ وہ بیٹھے ہوے گدھ
وہ تڑختے ہوۓ سر
میتیں ہاتھ کٹی پاؤں کٹی
لاش کے ڈھانچے کے اس پار سے اس پار تلک
سرد ہوا
نوحہ و فریاد کناں
شب کے سناٹے میں رونے کی صدا
کبھی بچّوں کی کبھی ماؤں کی
چاند کے تاروں کے ماتم کی صدا
رات کے ماتھے پہ آزردہ ستاروں کا ہجوم
صرف خورشید درخشاں کے نکلنے تک ہے
رات کے پاس اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں
رات کے پاس اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں
Labels:
munawwar sultana,
Qasim Imam,
urdu,
urdu blogging
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment