Sunday, April 04, 2010
سو رہ رحمن کا منظوم تر جمہ
اے فنا انجام انساں ، کب تجھے ہوش آۓ گا
تیر گی میں ٹھوکریں ، آ خر کہاں تک کھاۓ گا
اس تمّرد کی روش سے بھی کبھی شر ماۓ گا
کیا کرے گا سامنے سے جب حجاب اٹھ جاۓگا
کب تلک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلاۓ گا
یہ سحر کا حسن یہ سیارگاں اور یہ فضا
یہ معتبر باغ ، یہ سبزہ ، یہ کلیاں دل روباء
یہ بیا باں ، یہ کھلے میدان ، یہ ٹھنڈی ہوا
سوچ تو کیا کیا ہے تجھ کو قدرت نے ادا
کب تلک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلاۓ گا
خلد میں حوریں تیری مشتاق ہیں ۔ آنکھیں اٹھا
سچّی نظریں ۔ جن کا زیور ، جن کی آرائش حیا
جن و انساں میں کس نے بھی نہیں جن کو چھوا
جن کی باتیں عطر میں ڈوبی ہوئي جیسے صبا
کب تلک آخر اپنےرب کی نعمتیں جھٹلاۓ گا
اپنے مر کز سے نہ چل منہ پھیر کر بہر خدا
بھولتا ہے کو ئی اپنی انتہا ، اور ابتداء
یاد ہے وہ دور بھی تجھ کو کہ جب تو خاک تھا
کس نے اپنی سانس سے بحھ کو منوّر کر دیا
کب تلک آخر اپنےرب کی نعمتیں جھٹلاۓ گا
سبز گہرے رنگ کی بیلیں ، چڑھتی ہیں جابجا
نرم شاخیں ، جھومتیں ہیں ۔رقص کرتی ہیں صباء
پھل وہ شاخوں میں لگے ہیں ۔دل فریب و خوشنما
جس کا ہر ریشہ ہے ۔قرد و شہد میں ڈوبا ہوا
کب تلک آخر اپنےرب کی نعمتیں جھٹلاۓ گا
پھول میں خوشبو بھری ، جنگل کی بوٹی میں دوا
بحر سے مو تی نکالے ،صاف روشن خوشنما
آگ سے شعلہ نکالا ، ابر سے آب صفا
کس سے ہو سکتا ہے ۔ اس کی بخششو ں کا حق ادا
کب تلک آخر اپنےرب کی نعمتیں جھٹلاۓ گا
ہر نفس طوفان ہے ، ہر سانس ہے ایک زلزلہ
موت کی جانب رواں ہیں ۔زندگی کا قافلہ
مضطرب ہر چیز ہے جنبش میں ہے ارض و سماں
ان میں قائم لے ۔تیرے رب کے چہرے ئ ضیاں
کب تلک آخر اپنےرب کی نعمتیں جھٹلاۓ گا
صبح کے شفاف تاروں سے برستی ہے ضیاں
شام کو رنگ شفق کرتا ہے ایک محشر بپا
چودھویں کے چاند سے ،بہتا ہے دریا نور کا
جھوم کر برسات میں اٹھتی ہے متوالی گھٹا
کب تلک آخر اپنےرب کی نعمتیں جھٹلاۓ گا
( جوش ملیح آ بادی )
مرسلہ، ( خان حسن آراء واشی نوی ممبئي )
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment