امام الحرمین شریفین کا دورۂ ہند ، اور ایک دینی جماعت کی جانب سے عظمت صحابہ کانفرنس ایک مسرت کن خبر ہے ۔ لیکن جب حالات کا بغور جائزہ لیں تو کچھ ایسی باتیں محسوس ہونے لگتی ہیں جنھیں سوچ کر ہی دل بیٹھا جاتا ہے۔ شروع میں دو ایک اخبارات نے اس کانفرنس ، شیخ کے دور ے کے فوائد اور اثرات کا باریک بینی سے جائزہ لینے کی کوشِش کی لیکن اس کی پاداش میں ان تبصرہ نگاروں کو کافی تلخ تجربات کا سامنا کرنا پڑا۔ صحیح ہے اتنے بڑے اور مبارک موقع پر تبصرہ نگاروں کی اس طرح کی حرکت ہر کسی کو ناگوار ضرور گزرے گی۔ اس پر ذرا غور کریں تو کچھ اور شبہات نظر آنے لگتے ہیں۔ جب لیبیا، بحرین، یمن اور شام سلگ رہے ہیں ایسے میں شیخ کا ہند میں آنا بے مطلب نہیں لگتا۔ کچھ دنوں پہلے ہی ایک اور اسلامی تنظیم نے شیخ صاحب کوایک دعوتی اجتماع میں مدعو کیا ۔ ملک ہی نہیں دنیا بھر میں دعوت نامے تقسیم کیے گئے۔ ٹی۔وی ، اخبارات ،پوسٹرس ،ہورڈنگس اور پمفلٹس غرض تقریباًتمام ذرائع ابلاغ کا استعمال کیا گیا۔ مگر عین وقت جب تیاری مکمل ہوچکی شیخ کے آنے سے ایک دن پہلے بھی اعلانات جاری تھے کہ کل کی نماز شیخ پڑھائینگے، مگرایسا نہ ہوا شاید عرب حکومتوں نے شیخ کو بھیجنا گوارہ نہ کیابالآخر شیخ السدیس کے ایک متبادل کو روانہ کیا جنھوں نے متعلقہ کانفرنس میں شیخ السدیس کے فرائض انجام دیے۔
اب جب کہ سارا وسط ایشاء (عرب مملکتیں) جل رہی ہیں اچانک امام الحرمین کو یہاں آنے کی سوجھی اس پر بھی ظلم کے اس بڑھتی بدامنی کو شیعہ سنی رخ دینے میں مدد گار بننے چلے آئے ۔یہاں آکر شیخ صاحب نے ملک کی تمام بڑی تحریکات کے دفاتر پر حاضری دی ان دوروں میں بھی یہ بات خاص ذہن میں رکھی گئی کہ کسی شیعہ عالم دین یا اہل تشیع کی کسی اسلامی تنظیم سے ملاقات نہ ہو ۔
آج جہاں ملت اسلامیہ کو اتحاد کی ضرورت ہے وہاں پر عظمت صحابہ کانفرنس کے انعقاد میں بھی ہندوستان کی ملت اسلامیہ میں انتشار کے بیج بونے کا ایک ذریعہ بن گئی ۔ افسوس کہ امت کی ان جلیل القدر ہستیوں کی عظمت کے نام پر امت کے انتشار کو ہوا دی گئی۔ بھلا وہ کو ن بد بخت مسلمان ہوگا جسے صحابہ رضوان اللہ علیم اجمعین کی عظمتوں کا اعتراف نہ ہو۔ امام حرم ایک غیر سیاسی شخصیت ہیں لیکن ان سیاسی داؤ پیچ سے وہ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ کیا ہی اچھا ہوتا کہ عالمِ اسلام کی موجودہ صورتحال میں امت کے اتحاد پر کوئی کانفرنس ہوتی ۔ جس میں وسط ایشاء میں بدلتے ہوئے سیاسی حالات اور ان پر یوروپی اقوام کی یلغار کا ملت اسلامیہ کسی طرح مقابلہ کرے ۔ اس پر رہنمائی کی جاتی مگر افسوس صد افسوس ایسا کچھ نہ ہوا ، او ر جو کچھ بھی ہوا وہ صرف قابلِ افسوس ہی رہا۔
امام الحرم کا یہ دورہ جو شام ، لبنان، یمن ،بحرین یا کم از کم لیبیا کے بجائے ہند میں ہوا اسکے متعلق علامہ اقبال کے شعر کا یہ مصرعہ ہی بار بار میرے ذہن میں گونج رہا ہے کہ ’’ ناداں گرپڑے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا‘‘
عبدالمقیت عبدالقدیر ، بھوکر
9867368440
Friday, March 25, 2011
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment