شہر رنگ ونور علم وادب کے مقدس دیار دیوبند کا خمیر فکری یکانگت بلندی اور بلند پروازی کا حامل ہے یہاں لاکھوں افراد آتے ہیں اپنے قلوب میں اس چنگاری کو لیجاتے ہیں اور کائنات کی روشنی کے لئے یہی چنگاری وقت کے بہاؤ میں مشعل کی شکل اختیار کرلیتی ہے تاریخ اور مشاہدہ ان حقائق کو شک وشبہ سے بالا تر کرتا ہے اور اس طرح علم و ادب کی روشنی دنیا کے چار سو پھیل گئی اور خود اس سرزمین سے تعلق رکھنے والے افراد نے ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور ثابت کردیا کہ انکا خمیر کس مٹی سے بنا اور کن اہل علم و فن کے درمیان انہوں نے شعور سلیقہ حاصل کیا کون سی فضا ہے جس میں انکی صلاحتیں مہمیز ہوئی ہیں کن اکابر کا دیدار انکی آنکھوں کو نصیب ہوا انکی شخصیت کن عناصر سے ترکیب پائی یہ وہ حقائق ہیں جو شہر دیوبند کی مٹی کو بھی سونا کردیتے ہیں ہر فن کے شہ پارے اور عظیم فنکار اس تاریخی سرزمین کے سینہ کو کشادہ کرتے ہیں، غزل نظم رباعی تحقیق و تنقید کے شہسوار اس زمین کی گود میں کھیلے اور دنیائے ادب کی آبرو ثابت ہوئے ۔ دیوبند کا شعری ذخیرہ جناب وحشی دیوبندی، علامہ انور صابری اور عامر عثمانی سے ہوتا ہوا تاجدار تاج تک پہونچتا ہے یہ سلسلہ اپنے آپ میں ایک دبستان کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاجدار تاج کی شخصیت اور انکی شاعری دونوں ہی پہلو عظیم تر ہیں جن پر سیر حاصل بحث بڑا مشکل کام ہے جس مقام کی حامل انکی شاعری ہے، اسی شرف و وقار کی حامل انکی ذات بھی ہے دیوبند میں پیدائش حالات و مصائب سے ٹکرانا اپنے لئے خود راہیں تلاش کرنا وطن عزیز کو خیرآباد کہنا بیگانہ شہر جہاں کی تہذیب سے ناآشناء ہے لوگوں کے مزاج و طبائع کا علم نہیں دیوبند سے ہزاروں میل دور گلیمر کی دنیا خوبصورتی وصناعی کے شہر میں جہاں ہر چیز کی اصلیت کا جاننا ایک معمہ ہوتا ہے اپنی حیثیت بنانا، اپنا مقام بنانا اور اپنی حیثیت تسلیم کرانا، اپنی زمین تیار کرنا شہرت و عظمت کا گرانقدر سرمایہ حاصل کرنا یہ کوشش وکاوش طویل سفر جس میں نا سفر کی تھکن اور تعب کا شکوہ ہے نا مقدر سے کوئی فریاد نا وقت سے کوئی شکایت نہ زمین و زمان کی تبدیلی کا رونا یہ وہ اعلی صفات ہیں جو انکو عظیم بناتی ہیں۔
انہوں نے ثابت کردیا کہ جد وجہد محنت و مشقت کے ذریعہ ہر زمین فتح کی جاسکتی ہے مشکل تر معاملات کو آسانی سے سر کیا جاسکتا ہے جس طرح تاجدار تاج نے ممبئی کی سرزمین پر اپنے وجود کے اثرات چھوڑے ہیں اسی طرح غزل میں بھی اپنی شناخت قائم کی اور اردو ادب میں اپنی شاعری سے گرانقدراضافہ کیا ہے جو بلاشبہ اہمیت کا حامل ہے جس سے آنے والے وقت میں اکتساب فیض کیا جاتا رہیگا انکی شاعری وقت کی رفتار کو بھانپتی ہے معاشرہ سماج کلچر اور تہذیب کو گویائی دیتی ہے، وہ سکوت جمود کا شکار نہیں ہوتے بلکہ گردش وقت سے پیدا ہوئے سماجی اخلاقی معاشرتی بحران پر طنز کرتے ہیں اور کاروان حیات کو صحیح سمت پر گامزن کرنے کے لئے کوشاں ہیں وہ صرف طعنہ زنی تک محدود نہیں رہتے بلکہ اصلاح پر بھی بھرپور توجہ دیتے ہیں اس سب کہ باوجود انکا کارنامہ یہ ہے کہ غزل کے نرم ونازک وجودکو اور اسکی خوبصورت شکل کو بدنما نہیں ہونے دیتے وہ شعلہ بیاں خطیب کی تقریر محسوس نہیں ہوتی اس میں نعرہ زنی کا عنصر پیدا نہیں ہوتا اس میں سختی اور کرختگی کا احساس نہیں ہوتا یہی تاجدار تاج کی وہ خصوصیت ہے جو انہیں منفرد و ممتاز کرتی ہے اور انکا تشخص قائم کرتی ہے انہوں نے کھلی آنکھوںسے زندگی کے کھیل کو دیکھا اور فتح و کامرانی نے انکے قدم چومے جس کا بیان بھی انکے اشعار میں نظر آتا ہے احساس ذات سے احساس کائنات تک تاجدار تاج ایک کامیاب شاعر ہیں نمونہ کے طور پر انکے مجموعہ سے چند اشعار پیش ہیں جن سے ہر ذی شعور انکے فن کی بلندی کو محسوس کریگا اور میرا دعوی حقیقت میں تبدیل ہوجائیگا۔
تم تو کہتے تھے دھوپ آئیگی کھڑکی کھول دو ٭ کیوں میرے کمرے میں زہریلی ہوا آنے لگی
ڈر ہے بکھر ناجائے مکاں چپ رہا کرو ٭بچے جواب دیں تو میاں چپ رہا کرو
حصار بام و در سے کوئی گھر نہیں بنتا ٭دلوں کے درمیاں رشتوں کی سچائی ضروری ہے
رشتوں کی سچائی ،زہریلی ہوا ، بچوں کا جواب دینا کس خوبصورتی سے وہ معاشرہ کی تصویر کشی کرتے ہیں مگر تاجدار تاج کی شاعری کایہ اشعار پورے طور پر آئینہ نہیں ہیں بلکہ در حقیقت انکی شاعری میں احساس ذات کا عنصر غالب ہے انکا درد و کرب انکی مشکلات انکی تکالیف پر اس اچھوتے نرالے انداز سے اپنے احساسات کو پیش کرتے ہیں کہ وہ ہر شخص کو اپنا فسانہ اپنی زندگی کے حقائق محسوس ہونے لگتے ہیں اسی طرح داخلیت سے خارجیت کی جانب انکی شاعری سفر کرتی ہے اور ذات کا کرب سماج کا درد بن جاتا ہے یہ طرہ اور طریقہ انکی فنی پختگی کے اظہار کے لئے کافی ہے انہوں نے شاعری کو اس طرز و انداز میں پیش کیا ہے وہ سامعین کے جذبات و احساسات پر کھرے اترتے ہیں مگر انکی غلامی قبول نہیں کرتے انکی شاعری اس شخص کی ہے جس کی زندگی محنت و مشقت سے عبارت ہے جس نے اپنے خوابوں کو راتوں کی نیند قربان کرکے شرمندہ تعبیر کیا ہے وہ جذبہ انکی شاعری میں موجود ہے مثال دیکھیں۔
سب اپنے چراغوں کی ہوا باندھ رہے ہیں ٭محفل میں کسی نے مجھے جلتے نہیں دیکھا
زہر سے تو ایک ہی دن آدمی مرتا ہے تاجؔ٭ روز مرتا ہے کسی کی بات کا مارا ہوا
رنجشوں کے دل شکن صدمات کا مارا ہوا ٭آدمی ہے آدمی کی ذات کا مارا ہوا
یہ اشعار اس آئینہ کے مثل ہیں جن میں ہر انسان اپنی زندگی کو دیکھ سکتا اورمحسوس کرسکتا ہے یہی تاجدار تاج کی شاعری کی روح ہے جو انکے اشعار میں جلوہ گر ہوتی ہے ۔ اس تڑپ تکلیف اور کڑہن کے باوجود جب وہ عشق و محبت کے حسیں جذبات پر دستک دیتے ہیں تو ان مشکلات کا اثر انکی شاعری بالکل نظر نہیں آتا وہ دل آنکھیں حسن و عشق کے محل کو بھی خوبی سے تعبیر کرتے ہیں مگر حیا انکے اور طبیعت میں ہے بے حجابی اور بے حیائی انکے اشعار میں ملتی ہے انکے عشقیہ اشعار جذبات کی تکمیل ناقص نہیں ہیں بڑی خوبصورتی سے انہوں نے یہ میدان جیتا ہے مثال کے طور ملاحظہ کیجئے
اس قدر بھی اپنے جلووں کی فراوانی نہ کر ٭میرے شوق دید کو حیا آنے لگی
آج تک ہم یہ سمجھتے رہے دل دھڑکا ہے٭آج پہچان لی آواز تمہاری ہم نے
ان اشعار سے انداز سے اندازہ کیا جاسکتا ہے عشقیہ جذبے کو انہوںنے کتنے خوبصورت پیرائے میں پیش کیا اور اپنے جذبات کو غزل کا خوبصورت لباس اسی طرح پہنایا ہے جس طرح شمیم، خمارنے، اخترالایمان کے میدان نظم میں بھی انکی حیثیت اور وقار ہے اگر چہ وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں مگر انکی نظمیں شہررنگ و نور، میں جس بستی میں رہتا ہوں، میرا وطن اردو ادب کی شاہکار نظموں میں سے ہیں ان کی نظموں میں معنی آفرینی اور زبان کا معیار قابل بیان ہے اور یہ ایک ناقابل انکار حقیقت کہ آنے والے وقت میں ان نظموں کا وقار مزید بلند ہوگاایک وہ زمانہ تھا جب غزل زلف و رخسار کی باتیں، عارض و کاکل کا بیان، عشق و محبت کی داستان ہوا کرتی تھی پھر وقت بدلا اور زندگی کے مسائل پروئے گئے نظم نے حالات و واقعات کو پیش کرنا شروع کیا اور آج ہم جس دور میں ہیں اس دور میں شاعری احتجاج کی شکل اختیار کر چکی ہے پچھلے کچھ عرصہ سے ماں پر بہت اشعار کہے گئے اور خاص طور پر منور رانا نے کثرت سے اشعار کہے ،مگر تاجدار تاج کی ایک نظم ان تمام اشعار پر بھاری ہے یہ بلاتأمل کہاجا سکتا ہے میں اس نظم کے چند اشعار پیش کرتا ہوں جو میرے دعوے کی دلیل ہے۔
دودھ کا قرض لہو دے کے چکانا مشکل
ماں خفا ہو تو خدا کو بھی منانا مشکل
ماں کے مقروض ولی غوث پیمبر سب ہیں
ماں کے رتبے سے ہو افضل یہ زمانہ مشکل
ان اشعار سے اندزاہ لگایا جاسکتا ہے تاجدار تاج اس عہد کے عظیم شعرا میں سے تھے مگر تنہائی اور خاموشی انکا زیور تھی جو عمر کے ساتھ بڑھتی گئی اور وہ ایک یکسو انسان کی طرح انپے فن کو پیش کرتے رہے ہمہ جہت اور اعلی درجہ کی شاعری کی زبان و بیان پر انکو دسترس حاصل تھی انکے اشعار گویا ہوتے ہیں کہ میں تاجدار تاج کی تخلیق ہوں زندگی کے مسائل و حالات پر فتح پانے کے بعد تاجدارتاج ہمارے درمیاں سے رخصت ہوئے انکے تین مجموعے زبر، آوارہ پتھر، برفیلی زمین کا سورج زیور طبع سے آراستہ ہو کر شہرت عامہ حاصل کرچکے انکا جانا یقینا اردو ادب کے لئے عظیم خسارہ ہے مگر وقت پر کسی کی اجارہ داری اور حاکمیت نہیں ہے دریا کے بہاؤ روکا جاسکتا ہے مگر وقت کو نہیں۔ ان کا وقت موعود آچکا تھا ، ان کی پکار آچکی تھی، وہ رخصت ہوگئے اور دیوبند ہی نہیں بلکہ ان کی دنیا اپنے ایک بڑے فنکار سے محروم ہوگئی۔
Tuesday, August 30, 2016
ادب کے تاجدار .....تاجدار تاج
ادب کے تاجدار ۔ تاجدار تاجؔ راحت علی صدیقی قاسمی شہر رنگ ونور علم وادب کے مقدس دیار دیوبند کا خمیر فکری یکانگت بلندی اور بلند پروازی کا حامل ہے یہاں لاکھوں افراد آتے ہیں اپنے قلوب میں اس چنگاری کو لیجاتے ہیں اور کائنات کی روشنی کے لئے یہی چنگاری وقت کے بہاؤ میں مشعل کی شکل اختیار کرلیتی ہے تاریخ اور مشاہدہ ان حقائق کو شک وشبہ سے بالا تر کرتا ہے اور اس طرح علم و ادب کی روشنی دنیا کے چار سو پھیل گئی اور خود اس سرزمین سے تعلق رکھنے والے افراد نے ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور ثابت کردیا کہ انکا خمیر کس مٹی سے بنا اور کن اہل علم و فن کے درمیان انہوں نے شعور سلیقہ حاصل کیا کون سی فضا ہے جس میں انکی صلاحتیں مہمیز ہوئی ہیں کن اکابر کا دیدار انکی آنکھوں کو نصیب ہوا انکی شخصیت کن عناصر سے ترکیب پائی یہ وہ حقائق ہیں جو شہر دیوبند کی مٹی کو بھی سونا کردیتے ہیں ہر فن کے شہ پارے اور عظیم فنکار اس تاریخی سرزمین کے سینہ کو کشادہ کرتے ہیں، غزل نظم رباعی تحقیق و تنقید کے شہسوار اس زمین کی گود میں کھیلے اور دنیائے ادب کی آبرو ثابت ہوئے ۔ دیوبند کا شعری ذخیرہ جناب وحشی دیوبندی، علامہ انور صابری اور عامر عثمانی سے ہوتا ہوا تاجدار تاج تک پہونچتا ہے یہ سلسلہ اپنے آپ میں ایک دبستان کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاجدار تاج کی شخصیت اور انکی شاعری دونوں ہی پہلو عظیم تر ہیں جن پر سیر حاصل بحث بڑا مشکل کام ہے جس مقام کی حامل انکی شاعری ہے، اسی شرف و وقار کی حامل انکی ذات بھی ہے دیوبند میں پیدائش حالات و مصائب سے ٹکرانا اپنے لئے خود راہیں تلاش کرنا وطن عزیز کو خیرآباد کہنا بیگانہ شہر جہاں کی تہذیب سے ناآشناء ہے لوگوں کے مزاج و طبائع کا علم نہیں دیوبند سے ہزاروں میل دور گلیمر کی دنیا خوبصورتی وصناعی کے شہر میں جہاں ہر چیز کی اصلیت کا جاننا ایک معمہ ہوتا ہے اپنی حیثیت بنانا، اپنا مقام بنانا اور اپنی حیثیت تسلیم کرانا، اپنی زمین تیار کرنا شہرت و عظمت کا گرانقدر سرمایہ حاصل کرنا یہ کوشش وکاوش طویل سفر جس میں نا سفر کی تھکن اور تعب کا شکوہ ہے نا مقدر سے کوئی فریاد نا وقت سے کوئی شکایت نہ زمین و زمان کی تبدیلی کا رونا یہ وہ اعلی صفات ہیں جو انکو عظیم بناتی ہیں۔ انہوں نے ثابت کردیا کہ جد وجہد محنت و مشقت کے ذریعہ ہر زمین فتح کی جاسکتی ہے مشکل تر معاملات کو آسانی سے سر کیا جاسکتا ہے جس طرح تاجدار تاج نے ممبئی کی سرزمین پر اپنے وجود کے اثرات چھوڑے ہیں اسی طرح غزل میں بھی اپنی شناخت قائم کی اور اردو ادب میں اپنی شاعری سے گرانقدراضافہ کیا ہے جو بلاشبہ اہمیت کا حامل ہے جس سے آنے والے وقت میں اکتساب فیض کیا جاتا رہیگا انکی شاعری وقت کی رفتار کو بھانپتی ہے معاشرہ سماج کلچر اور تہذیب کو گویائی دیتی ہے، وہ سکوت جمود کا شکار نہیں ہوتے بلکہ گردش وقت سے پیدا ہوئے سماجی اخلاقی معاشرتی بحران پر طنز کرتے ہیں اور کاروان حیات کو صحیح سمت پر گامزن کرنے کے لئے کوشاں ہیں وہ صرف طعنہ زنی تک محدود نہیں رہتے بلکہ اصلاح پر بھی بھرپور توجہ دیتے ہیں اس سب کہ باوجود انکا کارنامہ یہ ہے کہ غزل کے نرم ونازک وجودکو اور اسکی خوبصورت شکل کو بدنما نہیں ہونے دیتے وہ شعلہ بیاں خطیب کی تقریر محسوس نہیں ہوتی اس میں نعرہ زنی کا عنصر پیدا نہیں ہوتا اس میں سختی اور کرختگی کا احساس نہیں ہوتا یہی تاجدار تاج کی وہ خصوصیت ہے جو انہیں منفرد و ممتاز کرتی ہے اور انکا تشخص قائم کرتی ہے انہوں نے کھلی آنکھوںسے زندگی کے کھیل کو دیکھا اور فتح و کامرانی نے انکے قدم چومے جس کا بیان بھی انکے اشعار میں نظر آتا ہے احساس ذات سے احساس کائنات تک تاجدار تاج ایک کامیاب شاعر ہیں نمونہ کے طور پر انکے مجموعہ سے چند اشعار پیش ہیں جن سے ہر ذی شعور انکے فن کی بلندی کو محسوس کریگا اور میرا دعوی حقیقت میں تبدیل ہوجائیگا۔ تم تو کہتے تھے دھوپ آئیگی کھڑکی کھول دو ٭ کیوں میرے کمرے میں زہریلی ہوا آنے لگی ڈر ہے بکھر ناجائے مکاں چپ رہا کرو ٭بچے جواب دیں تو میاں چپ رہا کرو حصار بام و در سے کوئی گھر نہیں بنتا ٭دلوں کے درمیاں رشتوں کی سچائی ضروری ہے رشتوں کی سچائی ،زہریلی ہوا ، بچوں کا جواب دینا کس خوبصورتی سے وہ معاشرہ کی تصویر کشی کرتے ہیں مگر تاجدار تاج کی شاعری کایہ اشعار پورے طور پر آئینہ نہیں ہیں بلکہ در حقیقت انکی شاعری میں احساس ذات کا عنصر غالب ہے انکا درد و کرب انکی مشکلات انکی تکالیف پر اس اچھوتے نرالے انداز سے اپنے احساسات کو پیش کرتے ہیں کہ وہ ہر شخص کو اپنا فسانہ اپنی زندگی کے حقائق محسوس ہونے لگتے ہیں اسی طرح داخلیت سے خارجیت کی جانب انکی شاعری سفر کرتی ہے اور ذات کا کرب سماج کا درد بن جاتا ہے یہ طرہ اور طریقہ انکی فنی پختگی کے اظہار کے لئے کافی ہے انہوں نے شاعری کو اس طرز و انداز میں پیش کیا ہے وہ سامعین کے جذبات و احساسات پر کھرے اترتے ہیں مگر انکی غلامی قبول نہیں کرتے انکی شاعری اس شخص کی ہے جس کی زندگی محنت و مشقت سے عبارت ہے جس نے اپنے خوابوں کو راتوں کی نیند قربان کرکے شرمندہ تعبیر کیا ہے وہ جذبہ انکی شاعری میں موجود ہے مثال دیکھیں۔ سب اپنے چراغوں کی ہوا باندھ رہے ہیں ٭محفل میں کسی نے مجھے جلتے نہیں دیکھا زہر سے تو ایک ہی دن آدمی مرتا ہے تاجؔ٭ روز مرتا ہے کسی کی بات کا مارا ہوا رنجشوں کے دل شکن صدمات کا مارا ہوا ٭آدمی ہے آدمی کی ذات کا مارا ہوا یہ اشعار اس آئینہ کے مثل ہیں جن میں ہر انسان اپنی زندگی کو دیکھ سکتا اورمحسوس کرسکتا ہے یہی تاجدار تاج کی شاعری کی روح ہے جو انکے اشعار میں جلوہ گر ہوتی ہے ۔ اس تڑپ تکلیف اور کڑہن کے باوجود جب وہ عشق و محبت کے حسیں جذبات پر دستک دیتے ہیں تو ان مشکلات کا اثر انکی شاعری بالکل نظر نہیں آتا وہ دل آنکھیں حسن و عشق کے محل کو بھی خوبی سے تعبیر کرتے ہیں مگر حیا انکے اور طبیعت میں ہے بے حجابی اور بے حیائی انکے اشعار میں ملتی ہے انکے عشقیہ اشعار جذبات کی تکمیل ناقص نہیں ہیں بڑی خوبصورتی سے انہوں نے یہ میدان جیتا ہے مثال کے طور ملاحظہ کیجئے اس قدر بھی اپنے جلووں کی فراوانی نہ کر ٭میرے شوق دید کو حیا آنے لگی آج تک ہم یہ سمجھتے رہے دل دھڑکا ہے٭آج پہچان لی آواز تمہاری ہم نے ان اشعار سے انداز سے اندازہ کیا جاسکتا ہے عشقیہ جذبے کو انہوںنے کتنے خوبصورت پیرائے میں پیش کیا اور اپنے جذبات کو غزل کا خوبصورت لباس اسی طرح پہنایا ہے جس طرح شمیم، خمارنے، اخترالایمان کے میدان نظم میں بھی انکی حیثیت اور وقار ہے اگر چہ وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں مگر انکی نظمیں شہررنگ و نور، میں جس بستی میں رہتا ہوں، میرا وطن اردو ادب کی شاہکار نظموں میں سے ہیں ان کی نظموں میں معنی آفرینی اور زبان کا معیار قابل بیان ہے اور یہ ایک ناقابل انکار حقیقت کہ آنے والے وقت میں ان نظموں کا وقار مزید بلند ہوگاایک وہ زمانہ تھا جب غزل زلف و رخسار کی باتیں، عارض و کاکل کا بیان، عشق و محبت کی داستان ہوا کرتی تھی پھر وقت بدلا اور زندگی کے مسائل پروئے گئے نظم نے حالات و واقعات کو پیش کرنا شروع کیا اور آج ہم جس دور میں ہیں اس دور میں شاعری احتجاج کی شکل اختیار کر چکی ہے پچھلے کچھ عرصہ سے ماں پر بہت اشعار کہے گئے اور خاص طور پر منور رانا نے کثرت سے اشعار کہے ،مگر تاجدار تاج کی ایک نظم ان تمام اشعار پر بھاری ہے یہ بلاتأمل کہاجا سکتا ہے میں اس نظم کے چند اشعار پیش کرتا ہوں جو میرے دعوے کی دلیل ہے۔ دودھ کا قرض لہو دے کے چکانا مشکل ماں خفا ہو تو خدا کو بھی منانا مشکل ماں کے مقروض ولی غوث پیمبر سب ہیں ماں کے رتبے سے ہو افضل یہ زمانہ مشکل ان اشعار سے اندزاہ لگایا جاسکتا ہے تاجدار تاج اس عہد کے عظیم شعرا میں سے تھے مگر تنہائی اور خاموشی انکا زیور تھی جو عمر کے ساتھ بڑھتی گئی اور وہ ایک یکسو انسان کی طرح انپے فن کو پیش کرتے رہے ہمہ جہت اور اعلی درجہ کی شاعری کی زبان و بیان پر انکو دسترس حاصل تھی انکے اشعار گویا ہوتے ہیں کہ میں تاجدار تاج کی تخلیق ہوں زندگی کے مسائل و حالات پر فتح پانے کے بعد تاجدارتاج ہمارے درمیاں سے رخصت ہوئے انکے تین مجموعے زبر، آوارہ پتھر، برفیلی زمین کا سورج زیور طبع سے آراستہ ہو کر شہرت عامہ حاصل کرچکے انکا جانا یقینا اردو ادب کے لئے عظیم خسارہ ہے مگر وقت پر کسی کی اجارہ داری اور حاکمیت نہیں ہے دریا کے بہاؤ روکا جاسکتا ہے مگر وقت کو نہیں۔ ان کا وقت موعود آچکا تھا ، ان کی پکار آچکی تھی، وہ رخصت ہوگئے اور دیوبند ہی نہیں بلکہ ان کی دنیا اپنے ایک بڑے فنکار سے محروم ہوگئی۔ (مضمون نگاربصیرت میڈیاگروپ کے رکن ہیں) (بصیرت فیچرس)
Sunday, August 28, 2016
کلیم عثمانی
اردو کے ممتاز شاعر اور ملی و فلمی نغمہ نگار کلیم عثمانی کی تاریخ پیدائش 28 فروری 1928ء ہے۔
کلیم عثمانی کا اصل نام احتشام الٰہی تھا اور وہ دیوبند ضلع سہارنپور میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد کلیم عثمانی نے لاہور میں اقامت اختیار کی اور احسان دانش سے اصلاح لینی شروع کی۔ 1955ء میں انہوں نے کراچی میں بننے والی فلم انتخاب سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ اس فلم کے موسیقار فیروز نظامی تھے۔اس کے بعد انہوں نے ہمایوں مرزا کی فلموں بڑا آدمی، راز، دھوپ چھائوں کے نغمے لکھے۔فلم راز کے لئے تحریر کردہ ان کا نغمہ میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا بے مقبول ہوا۔ یہ نغمہ زبیدہ خانم نے گایاتھا اور اس کی موسیقی فیروز نظامی نے ترتیب دی تھی۔
1966ء میں فلم ہم دونوں میں ان کی غزل ان کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا نے ان کی شہرت کو بام عروج پر پہنچادیا۔یہ گیت رونا لیلیٰ نے گایا تھا اور اس کی موسیقار نوشاد نے ترتیب دی تھی۔ بعدازاں کلیم عثمانی لاہور منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے متعدد فلموں میں مقبول گیت تحریر کئے۔جن میں ان کی اس زمانے کی فلموں میں عصمت، جوش انتقام، ایک مسافر ایک حسینہ، عندلیب، نازنین، دوستی، بندگی، نیند ہماری خواب تمہارے اور چراغ کہاں روشنی کے نام شامل ہیں۔ 1973ء میں انہوں نے فلم گھرانہ کے گیت تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا اور 1978ء میں فلم زندگی کے گیت تیرے سنگ دوستی ہم نہ چھوڑیں کبھی پر نگار ایوارڈ حاصل کئے۔ فلم فرض اور مامتا میں انہوں نے ایک ملی گیت ’’اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘‘ تحریر کیا۔ روبن گھوش کی موسیقی اور نیرہ نور اور ساتھیوں کی آواز میں گایا ہوا یہ گیت آج بھی بے حد مقبول ہے۔ اس کے علاوہ ان کا تحریر کردہ ایک اور ملی نغمہ ’’یہ وطن تمہارا ہے ، تم ہو پاسباں اس کے‘‘ کا شمار بھی پاکستان کے مقبول ملی نغمات میں ہوتا ہے۔
کلیم عثمانی کی غزلیات کا مجموعہ دیوار حرف اور نعتیہ مجموعہ ماہ حرا کی نام سے شائع ہوا تھا۔ 28 اگست 2000ء کو کلیم عثمانی، لاہور میں وفات پاگئے اور لاہور ہی میں علامہ اقبال ٹائون میں کریم بلاک کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات پھیلی ہے تیرے ، سرمئی آنچل کی طرح
چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے ، پاگل کی طرح
شہر بھی اب تو نظر آتا ہے ، جنگل کی طرح
پھر برسنے لگی آنکھیں مری ، بادل کی طرح
میں برستا رہا ویرانوں میں ، بادل کی طرح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس پرچم کے سائے تلے ، ہم ایک ہیں
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
ایک چمن کے پھول ہیں سارے ، ایک گگن کے تارے
ایک گگن کے تارے
ایک سمندر میں گرتے ہیں سب دریاؤں کے دھارے
سب دریاؤں کے دھارے
جدا جدا ہیں لہریں ، سرگم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
ایک ہی کشتی کے ہیں مسافر اک منزل کے راہی
اک منزل کے راہی
اپنی آن پہ مٹنے والے ہم جانباز سپاہی
ہم جانباز سپاہی
بند مٹھی کی صورت قوم ہم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
پاک وطن کی عزت ہم کو اپنی جان سے پیاری
اپنی جان سے پیاری
اپنی شان ہے اس کے دم سے ، یہ ہے آن ہماری
یہ ہے آن ہماری
اپنے وطن میں پھول اور شبنم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ فضا تمھاری ہے بحروبر تمھارے ہیں. کہکشاں کے یہ اجالے راہگزر تمھارے ہیں.
نظم و ضبط کو اپنا میر کارواں مانو. وقت کے اندھیروں میں اپنا آپ پہچانو.
دیکھنا گنوانا مت دولت یقیں لوگو. یہ وطن امانت ہے اور تم امیں لوگو.....
نفرتوں کے دروازے خود پہ بند ہی رکھنا. اس وطن کے پرچم کو سر بلند ہی رکھنا
Thursday, August 25, 2016
آہ مخدوم محی الدین
مخدوم محی الدین کی وفات Aug 25, 1960
مخدوم 4 فروری 1908ء کو حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک کٹر مذہبی خانوادے سے تھا۔ ان کے دادا حیدر آباد دکن کی تاریخی مکّہ مسجد میں قاری تھے۔ والد غوث محی الدین بھی مذہبی ادارے سے وابستہ تھے اور ان کی رہائش بھی مسجد ہی میں تھی۔ پیدائشی طور پر ان کا گھرانہ بے حد غریب تھا، اپنے آس پاس غربت اور استحصال کا دور دورہ دیکھ کر وہ بائیں بازو کے نظریات سے متاثر ہو گئے اور زندگی بھر جدوجہد میں رہے۔اردو کےانقلابی شاعر مخدوم محی الدین(ابو سعید محمد مخدوم محی الدین قادری ) تلنگانہ کے ضلع میدک میں پیدا ہوئے۔عمر کی بیسویں بہار میں مخدوم حیدرآباد آئے یہ وہ دور تھا جب فسطائیت کا دور دورہ تھا۔ اٹلی کی فسطائی حکو مت کے ابی سینا( موجودہ ایتھوپیا)پر حملہ سے وہ بہت زیادہ متاثر ہوئے ،اور انہوں نے اپنی پہلی مخالف فسطائی نظم لکھی۔۱۹۳۰ میں مخدوم ’کامریڈس اسوسی ایشن‘ میں شامل ہوئے،جو ان کے مستقبل کی ترقی میں اہم سنگ میل ثابت ہوا۔۲۲ جون ۱۹۴۱کو سویت یونین پر ہٹلر کے حملے کے بعد مخدوم نے سٹی کالج حیدرآباد میں لیکچرر کے عہدے سے اسعفیٰ دے کر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(سی پی آئی) کے لیے اپنے آپ کو فارغ کرلیا۔انہوں نے روی نارائین ریڈی ( جنہیں۱۹۵۲ کے پارلیمانی انتخابات میں کثیر تعداد میں ووٹ ملے تھے ،جو کہ نہرو سے بھی زیادہ تھے) سی پی آئی کی حیدرآباد شاخ کا قیام عمل میں لایا۔مخدوم نے ٹریڈ یونین میں بھی شمولیت اختیار کی تھی اور وزیر سلطان تمباکو کمپنی (چارمینار سگریٹ کمپنی) کے ۱۹۴۱ کے تنازعہ میں کام گاروں کے نمائندہ منتخب کئے گئے۔ ۱۹۴۶ میں آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس (AITUC)کی شاخ آل حیدرآباد ٹریڈ یونین کانگریس کے صدر بنے۔ ۱۷ اکٹوبر ۱۹۴۶ کو ’ظلم مخالف‘ دن منائے جانے کی وجہ سے سی پی آئی پر پابندی لگائی گئی۔ اور مخدوم کو شولاپور جانے کے لیے کہا گیا جہاں سے وہ ممبئی چلے گئے جہاں انہوں نے اپنی مشہور نظم ’تلنگانہ‘ اور اس کے فوری بعد ’یہ جنگ ہے جنگِ آزادی ‘ لکھی۔ مخدوم نے بمبئی میں منعقدہ (۲۲ تا ۲۵ مئی ۱۹۴۳) پروگریسیو رائٹرس اسوسی ایشن (PWA)کی چوتھی کانفرنس میں شرکت کی۔ؑکسانوں کی مسلح جدوجہدبرائےعظیم تلنگانہ(۱۹۴۶أ۱۹۵۰) کے وہ ایک اہم لیڈر تھے۔ ۱۹۵۱ میں مخدوم کو گرفتار کیا گیا اس وقت انہوں نے ’قید‘ یہ نظم لکھی۔ ۱۹۵۲ میں انہیں رہا کیا گیا، اور پہلے عام انتخابات میں حیدرآباد سے لڑا جس میں انہیں شکست ہوئی، لیکن ضمنی انتخابات میں حضور نگر سے وہ کامیاب ہوئے۔۱۹۵۸ میں سی پی آئی کی نیشنل کونسل کے لیے وہ منتخب ہوئے۔ آندھرا پردیش کی قانون ساز اسمبلی کے وہ سی پی آئی لیڈر تھے۔ مخدوم ہندوستان کی ادبی، علمی، سماجی اور تہذیبی زندگی کا ایک اہم حصہ بن گئے۔ فلمی دنیا اور تہذیبی میدان کے درمیان وہ ایک مشترک مقام حاصل کرگئے اور ہندوستانی فلمی دنیا میں انہوں نے اپنے اہم نقوش چھوڑے۔ انہوں نے فلموں،اسٹیج اور ڈرامہ کے لیے بے شمار گیت، نظمیں اور نغمے لکھے۔ ان کی تحریروں میں عوام کی قربانیوں، جانشانی،جدوجہداور تکالیف کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ 25 اگست 1969ء کو جب وہ حیدر آباد سے ایک میٹنگ میں شرکت کرنے دہلی آئے ہوئے تھے، ان کا انتقال ہو گیا۔ انہیں حیدر آباد دکن میں قبرستان شاہ خموش میں دفن کیا گیا۔
( شفیق جے ایچ)
ان کے لوح مزار پر یہ شعر کندہ ہے؛
بزم سے دور وہ گاتا رہا تنہا تنہا
سو گیا ساز پہ سر رکھ کے سحر سے پہلے
.......
رات بھر دیدۂ نمناک میں لہراتے رہے سانس کی طرح سے آپ آتے رہے، جاتے رہے
........
موم کی طرح جلتے رہے ہم شہیدوں کے تن
رات بھر جھلملاتی رہی شمع صبح وطن
.......
آج کی رات نہ جا
رات آئی ہے، بہت راتوں کے بعد آئی ہے
دیر سے، دور سے آئی ہے، مگر آئی ہے مرمریں صبح کے ہاتھوں میں چھلکتا ہوا جام آئے گا
رات ٹوٹے گی اجالوں کا پیام آئے گا
آج کی رات نہ جا
زندگی لطف بھی ہے زندگی آزاد بھی ہے
ساز و آہنگ بھی زنجیر کی جھنکار بھی ہے
زندگی دید بھی ہے حسرتِ دیدار بھی ہے
زہر بھی، آبِ حیاتِ لب و رخسار بھی ہے
زندگی دار بھی ہے زندگی دلدار بھی ہے
آج : ﭘﮭﺮ ﭼﮭﮍﯼ ﺭﺍﺕ ، ﺑﺎﺕ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ
ﺭﺍﺕ ﮨﮯ ﯾﺎﮞ ﺑﺎﺭﺍﺕ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ
ﭘﮭﻮﻝ ﮐﮯ ﮨﺎﺭ ، ﭘﮭﻮﻝ ﮐﮯ ﮔﺠﺮﮮ
ﺷﺎﻡ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ، ﺭﺍﺕ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ
ﺁﭖ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮫ ، ﺳﺎﺗﮫ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﺎ
ﺁﭖ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ، ﺑﺎﺕ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ
ﭘﮭﻮﻝ ﮐﮭﻠﺘﮯ ﺭﮨﯿﮟ ﮔﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ
ﺭﻭﺯ ﻧﮑﻠﮯ ﮔﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ
ﻧﻈﺮﯾﮟ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﯿﮟ ، ﺟﺎﻡ ﻣﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﻞ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺣﯿﺎﺕ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ
ﯾﮧ ﻣﮩﮑﺘﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻏﺰﻝ ﻣﺨﺪﻭﻡ
ﺟﯿﺴﮯ ﺳﮩﺮﺍ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺕ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ
🌹🌸 *مخدوم محی الدین* 🌸🌹
انتخاب : شفیق جے ایچ
.
Monday, August 22, 2016
ادا جعفری
🌸 آج کے دن 🌸
*ادا جعفر ی* کی پیدائش
Aug 22, 1924
ادا جعفری 22 اگست 1924ء کو بدایوں میں پیدا ہوئیں۔ آپ کا خاندانی نام عزیز جہاں ہے۔ آپ تین سال کی تھیں کہ والد مولی بدرالحسن کا انتقال ہو گیا۔ جس کے بعد پرورش ننھیال میں ہوئی۔ ادا جعفری نے تیرہ برس کی عمر میں ہی شاعری شروع کر دی تھی ۔وہ ادا بدایونی کے نام سے شعر کہتی تھیں۔ اس وقت ادبی رسالوں میں ان کا کلام شائع ہونا شروع ہوگیا تھا ۔ آپ کی شادی 1947ء میں نور الحسن جعفری سے انجام پائی شادی کے بعد ادا جعفری کے نام سے لکھنے لگیں۔ ادا جعفری عموماً اختر شیرانی اور اثر لکھنوی سے اصلاح لیتی رہی ۔ ان کے شعری مجموعہ شہر درد کو 1968ء میں آدم جی ایوارڈ ملا۔ شاعری کے بہت سے مجموعہ جات کے علاوہ ’’جو رہی سو بے خبری رہی ‘‘ کے نام سے اپنی خود نوشت سوانح عمری بھی 1995ء میں لکھی۔ 1991ء میں حکومت پاکستان نے ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغا امتیاز سے نوازا۔ وہ کراچی میں رہائش تھیں
اور پھر آخر جمعہ کے روز 12 مارچ 2015ء کو قبرستان کے ایک کونے میں جا بسی ۔
سب سے بڑا فریب ہے خود زندگی اداؔ
اس حیلہ جو کے ساتھ ہیں ہم بھی بہانہ ساز
اداؔ جعفری
🍁
Sunday, August 21, 2016
یوم پیدئش
🌸 *آج کے دن* 🌸
آج ممتاز شاعر ڈاکٹر *معین احسن جذبیؔ*کا یومِ پیدائش ہے۔
ڈاکٹر معین احسن جذبی ممتاز ترین ترقی پسند شاعروں میں نمایاں ہیں۔ 21 اگست 1912ء کو مبارک پور، ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم جھانسی میں حاصل کی۔ 1936ء میں اینگلوعریبک کالج دہلی سے بی اے کیا۔ 1942ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ اس کے بعد جذبی نے \"حالی کی سیاسی شاعری\" پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ کچھ عرصہ رسالہ \"آج کل\" کے ادارتی فرائض انجام دیے۔ بعد ازاں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبۂ اردو میں لیکچرر کے عہدے پر فائز ہوئے اور پروفیسر اور شعبے کے سربراہ کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ وہ علی گڑھ کے ہی ہو کر رہ گئے تھے۔جذبی نے باقاعدہ شاعری کا آغاز 1929ء میں کیا۔ شروع میں حامد شاہ جہاں پوری اور صادق دہلوی سے اپنے کلام پر اصلاح لی۔ جذبی نے نظمیں بھی کہی ہیں، مگر بنیادی طور پر وہ غزل کے شاعر تھے۔ ان کے تین شعری مجموعے \"فروزاں\" ، سخنِ مختصر\" اور \"رودادِ شب\" شائع ہوئے۔ انہیں مودی غالب ایوارڈ، میر اکادمی ایوارڈ اور اترپردیش اکادمی ایوارڈ کے علاوہ حکومتِ ہند نے سب سے بڑے ادبی ایوارڈ \"پدم بھوشن\" سے نوازا۔ڈاکٹر جذبی 13 فروری 2005ء کو علی گڑھ میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
*منتخب کلام*:
مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے
یہ دنیا ہو یا وہ دنیا اب خواہش دنیا کون کرے
جب کشتی ثابت وسالم تھی، ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں سے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے
دنیا نے ہمیں چھوڑا جذبؔی ہم چھوڑ نہ دیں کیوں دنیا کو
دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں اب دنیا دنیا کون کرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملے غم سے اپنے فرصت، تو سنائیں وہ فسانہ
کہ ٹپک پڑے نظر سے مئے عشرتِ زمانہ
یہی زندگی مصیبت، یہی زندگی مسرت
یہی زندگی حقیقت، یہی زندگی فسانہ
کبھی درد کی تمنّا، کبھی کوششِ مداوہ
کبھی بجلیوں کی خواہش، کبھی فکرِ آشیانہ
مرے قہقہوں کی زد پر کبھی گردشیں جہاں کی
مرے آنسوؤں کی رَو میں کبھی تلخیِ زمانہ
کبھی میں ہوں تجھ سے نالاں، کبھی مجھ سے تو پریشاں
کبھی میں ترا ہدف ہوں، کبھی تو مرا نشانہ
جسے پا سکا نہ زاہد، جسے چھُو سکا نہ صوفی
وہی تار چھیڑتا ہے مرا سوزِ شاعرانہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم ایک خواب لیے ماہ و سال سے گزرے
ہزاروں رنج ہزاروں ملال سے گزرے
ہمیں ملا جو کوئی آسماں تو صورت ماہ
نہ جانے کتنے عروج و زوال سے گزرے
کبھی غریبوں کی آہوں میں کی بسر ہم نے
کبھی امیروں کے جاہ و جلال سے گزرے
وہ بے سہارا سے کچھ لوگ جان سے بیزار
خبر ملی ہے کہ اوج کمال سے گزرے
یہ زندگی بھی عجیب راہ تھی کہ ہم جس سے
قدم بڑھاتے جھجکتے نڈھال سے گزرے
حقیقتیں تو نگاہوں کے سامنے تھیں مگر
ہم ایک عمر فریب خیال سے گزرے
حکایت گل و بلبل پہ خندہ زن ہیں وہی
جو شام ہجر نہ صبح وصال سے گزرے
گلے لگاتی ہے منزل انہیں بھی اے جذبیؔ
قدم قدم پہ جو خوف مآل سے گزرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتنی بلندیوں پہ سر دار آۓ ہیں
کسی معرکہ میں اہل جنوں ہار آۓ ہیں
گھبرا اٹھے ہیں ظلمت شب سے تو بارہا
نالے ہمارے لب پہ شرربار آۓ ہیں
اے قصہ گو ازل سے جو بیتی ہے وہ سنا
کچھ لوگ تیرے فن کے پرستار آۓ ہیں
پائی گلوں سے آبلہ پائی کہ جب نہ داد
دیوانے ہیں کہ سوۓ لب خار آۓ ہیں
غم خواریوں کی تہہ میں دبی سی مسرتیں
یوں میرے پاس بھی مرے غم خوار آۓ ہیں
پہنچے ہیں جب بھی خلوت دل میں تو اے ندیم
اکثر ہم اپنے آپ سے بے زار آۓ ہیں
اس بزم میں تو مے کا کہیں ذکر تک نہ تھا
اور ہم وہاں سے بے خود و سرشار آۓ ہیں
اس کی گلی میں ہم نے لٹا دی متاع جاں
اس کی گلی سے ہم تو سبک سار آۓ ہیں
کرتے رہے ہیں فن کی پرستش تمام عمر
محشر میں کیسے کیسے گنہ گار آۓ ہیں
جذبیؔ جو ہو سکے تو مری حیرتوں سے پوچھ
کس طرح میرے ذہن میں اشعار آۓ ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داغِ غم دل سے کسی طرح مٹایا نہ گیا
میں نے چاہا بھی مگر تم کو بھلایا نہ گیا
عمر بھر یوں تو زمانے کے مصائب جھیلے
تیری نظروں کا مگر بار اٹھایا نہ گیا
روٹھنے والوں سے اتنا کوئی جا کر پوچھے
خود ہی روٹھے رہے یا ہم سے منایا نہ گیا
پھول چننا بھی عبث ، سیرِ بہاراں بھی پھول
دل کا دامن ہی جو کانٹوں سے بچایا نہ گیا
اُس نے اس طرح محبت کی نگاہیں ڈالیں
ہم سے دنیا کا کوئی راز چھپایا نہ گیا
تھی حقیقت میں وہی منزلِ مقصد جذبیؔ
جس جگہ تجھ سے قدم آگے بڑھایا نہ گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( *پیشکش : شفیق جے ایچ* )
🍁
🌸 آج کے دن 🌸 21 اگست *ظہیر کاشمیری* کی پیدائش: پسے ہوئے طبقوں کی آواز، اردو کے ممتاز ترقی پسند شاعر اور ادیب ظہیر کاشمیری 21 اگست 1919 کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام دستگیر ظہیر پیرزادہ تھا۔ ایم اے او کالج امرتسر سے بی اے کی ڈگری لی لیکن سیاسی سرگرمیوں کے باعث تعلیم ترک کرنا پڑی۔ متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ مارکسزم کے پیروکار بن کر اپنی شاعری میں پسے ہوئے طبقے کی بھرپور ترجمانی کی۔ وہ ادب کی ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ قیام پاکستان سے قبل ظہیر کاشمیری لاہور آگئے اور فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔ کہانیاں لکھیں، کچھ فلموں کی ہدایت کاری بھی کی۔ اس کے علاوہ کئی ادبی مجلوں کی ادارت بھی کی، کچھ عرصہ روزنامہ ’’مساوات‘‘ سے بھی وابستہ رہے۔ شاعری میں ان کا اسلوب ترقی پسندانہ ہے۔ مزدوروں کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والے شاعر اور انسانی حقوق کے علمبردار ظہیر کاشمیری کے ترقی پسندانہ نظریات نے انجمن ترقی پسند مصنفین پر گہرے نقوش ثبت کئے۔ ان کے شعری مجموعوں میں آدمی نامہ، جہان آگہی، چراغ آخر شب اور حرف سپاس شامل ہیں۔ ظہیر کاشمیری 12 دسمبر 1994 کو لاہور میں وفات پاگئے اور میانی صاحب کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔ حکومت پاکستان نے انہیں ان کی وفات کے بعد صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ ان کا ایک مشہور شعر ملاحظہ ہو: ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے منتخب کلام : موسم بدلا، رُت گدرائی اہلِ جنوں بے باک ہوئے فصلِ بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے گُل بوٹوں کے رنگ اور نقشے، اب تو یونہی مٹ جائیں گے ہم کہ فروغِ صبحِ چمن تھے، پابندِ فتراک ہوئے مہرِ تغیّر اس دھج سے آفاق کے ماتھے پر چمکا! صدیوں کے افتادہ ذرّے، ہم دوشِ افلاک ہوئے دل کے غم نے دردِ جہاں سے مل کے بڑا بے چین کیا پہلے پلکیں پُرنم تھیں، اب عارض بھی نمناک ہوئے کتنے الہڑ سپنے تھے جو دورِ سحر میں ٹوٹ گئے کتنے ہنس مُکھ چہرے ، فصل بہاراں میں غمناک ہوئے برقِ زمانہ دور تھی لیکن مشعلِ خانہ دور نہ تھی ہم تو ظہیر اپنے ہی گھر کی آگ میں جل کر خاک ہوئے ( *پیشکش : شفیق جے ایچ* ) 🍁
🌸 آج کے دن 🌸
21 اگست
*ظہیر کاشمیری* کی پیدائش:
پسے ہوئے طبقوں کی آواز، اردو کے ممتاز ترقی پسند شاعر اور ادیب ظہیر کاشمیری 21 اگست 1919 کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام دستگیر ظہیر پیرزادہ تھا۔ ایم اے او کالج امرتسر سے بی اے کی ڈگری لی لیکن سیاسی سرگرمیوں کے باعث تعلیم ترک کرنا پڑی۔ متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ مارکسزم کے پیروکار بن کر اپنی شاعری میں پسے ہوئے طبقے کی بھرپور ترجمانی کی۔ وہ ادب کی ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ قیام پاکستان سے قبل ظہیر کاشمیری لاہور آگئے اور فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔ کہانیاں لکھیں، کچھ فلموں کی ہدایت کاری بھی کی۔ اس کے علاوہ کئی ادبی مجلوں کی ادارت بھی کی، کچھ عرصہ روزنامہ ’’مساوات‘‘ سے بھی وابستہ رہے۔ شاعری میں ان کا اسلوب ترقی پسندانہ ہے۔ مزدوروں کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والے شاعر اور انسانی حقوق کے علمبردار ظہیر کاشمیری کے ترقی پسندانہ نظریات نے انجمن ترقی پسند مصنفین پر گہرے نقوش ثبت کئے۔
ان کے شعری مجموعوں میں آدمی نامہ، جہان آگہی، چراغ آخر شب اور حرف سپاس شامل ہیں۔ ظہیر کاشمیری 12 دسمبر 1994 کو لاہور میں وفات پاگئے اور میانی صاحب کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔ حکومت پاکستان نے انہیں ان کی وفات کے بعد صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔
ان کا ایک مشہور شعر ملاحظہ ہو:
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے
منتخب کلام :
موسم بدلا، رُت گدرائی اہلِ جنوں بے باک ہوئے
فصلِ بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے
گُل بوٹوں کے رنگ اور نقشے، اب تو یونہی مٹ جائیں گے
ہم کہ فروغِ صبحِ چمن تھے، پابندِ فتراک ہوئے
مہرِ تغیّر اس دھج سے آفاق کے ماتھے پر چمکا!
صدیوں کے افتادہ ذرّے، ہم دوشِ افلاک ہوئے
دل کے غم نے دردِ جہاں سے مل کے بڑا بے چین کیا
پہلے پلکیں پُرنم تھیں، اب عارض بھی نمناک ہوئے
کتنے الہڑ سپنے تھے جو دورِ سحر میں ٹوٹ گئے
کتنے ہنس مُکھ چہرے ، فصل بہاراں میں غمناک ہوئے
برقِ زمانہ دور تھی لیکن مشعلِ خانہ دور نہ تھی
ہم تو ظہیر اپنے ہی گھر کی آگ میں جل کر خاک ہوئے