Tuesday, June 01, 2010
مدرّس
انسان اور اس کی خواہشات یا کسی چیز کو پانے کی تمنّا لازم اور ملزوم ہیں ۔یعنی انسان چاہے نہ چاہے ۔یہ بات اس میں موجود ہوتی ہیں ۔اور اس احساس کے تیئں کسی اچھی چيز یا کام کو دیکھ کر "" کاش "" کا لفظ اس کے ذہن میں گھومتا ہی رہتا ہے پھر وہ زبان سے ادا کرے یا نا ادا کرے ۔ایسا ہی احساس مجھے اس وقت شدت سے ہوا جب میری نظر سے ایک نادر اور نایاب کتاب '' مدرّس '' گزری ۔کہ کاش اس قسم کی کتاب بہت پہلے ہی آتی ۔
اس کتاب کو لکھنے والے عبداللہخطیب ہر زاویہ سے مکمل پذیرائی و ستائش کے مستحق ہیں ۔جنھوں نے پانچ برسوں کی رات دن کی انتھک محنت ،لگن اور اردو والے طلبہ کی کمزور یوں کو مدنظر رکھتے ہوۓ ین کتاب تالیف کی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ کتاب لکھ کر فروخت کرنے سے ان کا کام مکمل نہیں ہوا ہے ۔ بلکہ وہ اسکول اسکول جاکر اساتذہ اور طلبہ کو ذاتی طور پر خطاب کر کے اردو والوں کا احساس کمتری ختم یا کم از کم کر کے اپنے کام کو پائیہ تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں ۔اور وہ اس مہم پر نکلے ہیں ۔اللہ انھیں اس عزم و نیک ارادے میں کامیاب کریں ۔انھوں نے کہا کہ مجھے خوشی اس وقت ہوگی کہ جب اپنے اساتذہ و طلبائ اس سے مکمل استفادہ حاصل کریں اور اس کتاب کو مد نظر رکھ کر اس سے بہتر کتاب لکھے ۔ کیونکہاس کتاب کا تعلق تعلیم سے ہیں اور جو اپنے آپ میں ایک ایک روشنی ہے یہ ہر طرف پھیلنی چاہیۓ۔
اس کتاب کا اجرائ مبارک کاپڑی کے ہاتھوں ہوا تھا ۔اور بھی کئی شہروں میں رونمائی کی گئي ۔مالیگاؤں میء سوئيس اسکول کے گراونڈ میں ادارہ دعوت سنتہ ہ کے ذریعہ شکیل شیخ ، لنترانی کی موڈویٹر منورسلطانہ ، ڈاکٹر سری واستو ، مناف واڈکر اور جانی مانی اور مشہور و معروف شخصیت جناب منظورحسن ایوبی صاحب کے ہاتھوں اس کتاب کی شایان شان رونمائي کی گئيں ۔ہم عبداللہ خطیب کو اس کتاب کی تالیف کے لۓ مبارک باد دیتے ہیں ۔۔
Labels:
Abdulla khateeb,
book release,
mudarris,
munawwar sultana
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment