You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Monday, March 30, 2009

زِندگي نامہ


زِندگي!ک عجيب سا زِندگي نامہ ہے يے جو تو لِکھ رہي ہے نصیب پر ميرے درد کو آباد کرتي کل جب زُباں ميں پھر اِک کڑوہ سچ لئے تو سامنے کھڑي تھي ميري روح تيرے کہے لفظوں سے اندر تر تک گھائيل ہوتي رہي دھو ءییں کا اِک گهرا غُبّار سينے کو چيرتا کہيں اندر اُتر گيا پيڑا کے اتيريک ميں کوئي پسلي سي ٹوٹي اور ميں گھننٹوں بِستر پر اِوندھي پڑي خيالوں ميں اُترتي رہي بھيتر کہيں اِک ناسور سا رِستا رہا اور رات دہليز پہ بيٹھي سِسکياں بھرتي رہي صبح نے بھي جيسے چُپ کي چادر اوڑھ لي ميں استبدھ تھي ! تھي ! اتھوں ميں ستيہ لئے اپاہج سي کھڑي تھي پر الفاظ کہيں گُم تھے جانتي ہوں اِک اور کڑا اِمتِحاں ہے يہ تيرا جِس شاخ سے ٹوٹي ہوں ميں اِک دن سبز پتّے يهيں کھِلکھِلائيگيں بس اِتني دعا ہے اے خدا ! نگاروں کے بُجھنے تک جينے دے......!!!

ربّا....!

Sunday, March 22, 2009

ميل کو غور سے پڑہيے

Apurva with his younger brother(this photograph was taken in 2004)
س ميل کو غور سے پڑہيے اور يه اِس کھوئي ہوئي پياري سي بچّي کو اُس کے پريوار سے ممِلانے کا زريعہ بنييے ہو سکتا ہے کہ نيک کام کے ليے خدا نے ہم ميں سے کِسي کو چُنا ہو ۔ اِس ميل کو اپنے سبھي پہچان والوں کو بھيج ديجيے ۔ مُجھے يہ ميل شري اجيت مِشرا جي نے بھيجا ہے اِنسانيت کے ناطے اِسے ميں شايع کر رہي ہوں ۔ ميري دعا ئيں اِس پريوار اور بچّي کے ساتھ ہيں کہ مالک بِچھڑوں کو پھر سے مِلا دے ،

آمین

Please read...no money required.... ......just a few moments of yoursand wide publicity to help parents get their daughter back…Hello friends,I have a very noble cause behind sending this mail to all ofyou.Please spare some time to read through it.My Army friend met a guy named Mr. Ravi Shankar on the train when hewas returning from chennai on 26th of December, 2008.I was having a regular chat with him regarding the Army and its rulesand regulations and how the forces are admired in our country.He then told me about a shocking tragedy that his family went throughand hence I write this mail to you seeking your help.He told me that he was posted in CAR-NICOBAR in the year 2004 as aseargent in the INDIAN AIR-FORCE.. On 26th of december that year hisfamily fell victim to theUnfortunate Tsunami that struck out eastern coast.He along with hiswife and two children(photo below) were washed in the deadlywaters.Reaching out his wife managed to cling ontoA tree but his small son(picture insight on the left)had swollowed toomuch water and passed away in her arms. Ravi also in desperation toswim lost grip of his daughter's(APURVA) hand.She was washed away and was never to be found again,until one day theycame to know of her being sighted at a relief camp. On contacting theauthorities they came to know that this little girlWas abducted from the relief camp and was missing again. Since thenMr. Ravi shankar has been travelling to chennai every year with a hopeto see his daughter. He has been publishing MISSING coloums in majordaily's in chennai,and he showed me how heavily these newspapers had acharged him for a those ad's. One of the major newspapers charged hima whooping amount of 12000 rupeesfor a 4 X 4 cm ad(that too on the fourth page). Please donot considerthis mail a regular chain mail and do care to forward this to yournear and dear ones. He requested me to do something to reach out topeople who use e-media(internet etc.).I myself have posted her pictureon my blog and i request people who own there personal blog pages topost this girl's picture there as it could be of significant help. Incase any news of any nature is found regarding her (APURVA) pleasedrop in a mail at the below mentioned mail id's or the followingaddress.1. James mathew( 123.mathew@gmail. com )2. Amit kumar ( amitkumarmajor@ hotmail.com )3.. khem chandra pan ( khemchandrapan@ yahoo.com )Or contact:Mr. RAVI SHANKARSMQ – 17/2AF VAYUSENABADTUGLAKABADNEW DELHI-110062Phone no - 09868763263

Friday, March 20, 2009

مُمبئي ميں ايک بلاگر۔ميٹ


کل ہمارے شہر مُمبئي ميں ايک بلاگر۔ميٹ ہونے والي ہے ، اُس ميں سو سے زيادہ بلاگر آنے والے ہيں ليکن سب کے سب انگريزي ميں بلاگِنگ کرنے والے لوگ ہيں؛ اِن سب کے بيچ ميں بس ميں ، ڈاکٹر روپيش شريواستو اور عبد ل باسِط اُردو اور ہندي ميں بلاگِنگ کرتے ہين. اُمّيد ہے ڈھير ساري جان۔پہچان بنے گي اور سيکھنے کو مِلے گا

Wednesday, March 11, 2009

گل بوٹے


پچھلے کئی مہینوں سے میں لگاتار ممبئی سے شائع ہونے والے اردو ماہنامہ گل بوٹے کو پڑھ رہی ہوں ۔ یہ کتاب ہندی کی چمپک اور نندن جیسی بچّوں کی کتابوں سے کسی بھی معنی میں کم نہیں ہے ۔ اس کتاب میں شائع ہونے والا مواد بے حد دلچسپ ، معلومات سے بھر پور اور آسان الفاظ میں لکھا ہوا ہوتا ہے ۔ بچّے بڑے شوق سے پڑھتے ہیں ۔ گل بوٹے میں مذہبی معلومات بھی دی جاتی ہے ۔سبق آموز کہانیاں اور قصے ہوتے ہیں ۔کارٹون کہانی بھی دلچسپ ہوتی ہے ، اسکے علاوہ جنرل نا لج کوئزکے ذریعے معلومات میں اضافہ ہوتا ہے ۔تاریخی واقعات کا ذکر بھی موقع و محل کے اعتبار سے کیا جاتا ہے ،کییريئر گائدنس کے کالم سے مختلف کورسیس کے بارے میں جانکاری دی جاتی ہے ۔سب سے زیادہ دل کو احساس دلانے والی بات یہ ہے کہ ادارے ( ایڈیٹر) صاحب کے طرف سے بچوں کو آگے بڑھنے اور کوشش کرنے کی تلقین ہے ۔جو کہ بڑے پیارے انداز میں کی گئی ہے جیسے کہ ہمت سے اٹھایا گیا پہلا قدم کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے اندھیری رات میں جنگل سے گزرنے کے لۓ پورے جنگل مین روشنی بکھرنے کی ضرورت نہیں صرف ایک لالٹین یا ٹارچ کافی ہے جس طرح تمہارے قدم آگے بڑھتے رہیں گے ۔لالٹین کی روشنی سے راستہ روشن ہوتا جاۓگا ۔بالکل اسی طرح زندگی کے خاردار حوصلہ شکن اور سخت راستوں کو پاٹنے کے لۓ دل کے چراغ کو حوصلے کے ایندھن (سے جلانا ہوگا
گل بوٹے کی طرف سے مختلف کلچرل پروگرام بھی منعقد کۓ جاتے ہیں کل بوٹے ایک جامع اور مکمل رسالہ ہے اس کی حسین تخلیق ہماری ادبی اخلاقی اصلاحی و ثقافتی زندگی کو فیض پہنچانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے ۔ ہم لنترانی گروپ کے طرف سے بارگاہ خدا وند قدوس میں دعا کرتے ہیں کہ گل بوٹے خوب تر‍قی کرے (آمین)''

ہولی مبارک ہو


آج ہولی کا تہوار ہے جو کہ رنگوں کا تہوار اور خوشیوں کا تہوار مانا جاتا ہے ۔پیارے پیارے اور خوبصورت رںگ ملے ہوے ہیں ۔لال گلابی نیلا پیلا اور بنفشی ایسے کتنے ہی رنگوں کی بہار ہے ۔ہم بھی آپ تمام لنترانی پڑھنے والے وزیٹرس کو رنگوں اور خوشیوں بھرے تہوار کی تہہء دل سے مبارکباد دیتے ہیں۔
کھڑکی سے جیسے ہی باہر نظر گئی ۔باہر کا نظارہ تو بہت خوشیوں اور سرور اور مستی میں ڈوبا ہوا نظر آیا ہر کوئی ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہا ہے 'مٹھائیاں بانٹی جا رہی ہیں۔مجھے 26 نومبر کی یاد آرہی ہے ۔جب ممبئی میں سی ایس ٹی ،تاج ہوٹل کاما ہاسپٹل اور اوبیراۓ ہوٹل میں دہشت گردوں نے بے گناہ اور معصوم لوگوں کے خون سے ہولی کھیلی تھی ۔ اور سچّے محّب وطن ہیمنت کرکرے ،اشوک کامٹے اور وجے سالسکر شہید کر دیۓ گۓ تھے ۔آج ان کے گھروں میں غم کے بادل چھاۓ ہوۓ ہیں ۔ہم ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں ۔

ہولی کا تہوار


ہولی کا تہوار بھی ہم کو کیا کیا رنگ دکھاتا ہے
زرد، سنہرا کیا یہ بنفشی ، نیلا رنگ دکھا تا ہے
ننھے منّے چہروں پر ہے ۔کیسا یہ آکاش کا رنگ
رنگوں کے بازار میں جیسے چاند سے اترا نیارا رنگ
آؤ مل کر ہولی کھیلیں ، ہولی کا دن آیا ہے
انگنا میں ہم جھو لا جھولیں ،ہولی کا دن آیا ہے
توتا ، مینا ساتھ ہمارے امرائی بھی ڈولے ہے
پچکاری کی دھار پڑے ہے شاخ پہ کو ئل بولے ہے
آ گ جلائی بچّوں نے تو چمک اٹھے ہیں ، گلیا رے
ہولی جس دن گھر نہ آۓ دور نہ ہوں گے اندھیارے
فصل کھڑی ہے کھیتوں میں اب کھلیانوں کی باری ہے
ہولی کے پکوان بنیں گے مہمانوں کی باری ہے
تہوار ہی تو ایکتا اور خوشیاں لاتے ہے
کرسمس ۔پونگل ،عید ہو یا دیوالی ،یہ پیارکا پیغام لاتے

Tuesday, March 10, 2009

آمنہ کے لال ہو اور لاجواب ہو

آمنہ کے لال ہو اور لاجواب ہو
گلزار پنجتن کا تم ہی تو گلاب ہو
معراج میں خدا سے مانگا ۔وہ سب ملا
الّلاہ کے حبیب کا تم کو لقب ملا
رحمت کا پھول ہو تو کرم کا شباب ہو
آمنہ کے لال ہو اور لا جواب ہو
آنکھیں ہے جیسے کوثر و زم زم بھرا ہوا
چہرہ ہے جیسے رحل پہ ‍قرآن کھلا ہوا
تم جلوئےحدا ہو خدا کی کتاب ہو
آمنہ کے لال ہو اور لاجواب ہو
اللاّہ کے فرشتے بڑے احترام سے
کرتے ہیں یاد تم کو درود ۔و سلام سے
تم جان بندگی ہو تو روح ثواب ہو
آمنہ کے لال ہو اور لاجواب ہو

جشن عید میلا دالنبی


وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بھر لانے والا
آج ہمارے آقا پیارے نبی کی دنیا میں تشریف آوری پر تمام عالم کو اورخاص طور پر تمام لنترانی پڑھنے والے وزیٹرس کو ہم دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ہمارے نبی کی خاص تعلیمات یہ ہیں ۔ظالموں کو ظلم سے روکنا ،کمزوروں کو سہارا دینا ۔ہر ایک کے ساتھ انسانیت سے پیش آنا ۔بڑوں کی عزت کرنا چھوٹوں سے ہمدردی اور پیار کا سلوک کرنا ۔امن پسندی کے ساتھ زندگی گزارنا۔آپسی محبت و بھائی چارگی امن وسلامتی کے فروغ اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ساتھ زندگی گزارنا ۔آج ہر طرف خوشیوں بھرا ماحول ہے ۔ہر گلی محلوں میں جشن چراغاں کیا گیا ہے جلوس نکالے جاتے ہیں ۔تقریریں کی جاتی ہیں ۔جلسے منعقد کۓ جاتے ہیں ۔ افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ یہ سرور یہ جوش صرف ایک دن کے لۓ ہوتا ہے ۔دن گزر جانے کے بعد تمام تعلیمات کو بھلا کر وہی لوگ کچھ کرتے ہیں ۔جن باتوں کے لۓ نبّی نے منع کیا ہے ۔جس طرح سےکل کے ممبئی سے شائع ہونے والے اردو ٹائمز میں کسی نے ان حالات پر زوردار بھڑاس نکالتے ہوۓ لکھا تھا - "نبّی کا دامن نہیں چھوڑیں گے، آپس میں لڑنا نہیں چھوڑیں گے"۔

Sunday, March 08, 2009

مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو


یوم خواتین مبارک ہو

पाठ रंग
पाठ रंगHappy Women's Day

آج 8 مارچ ہے ۔ اورآج کے دن عالمی یوم خواتین بہت زور و شور ےسےمنایا جاتا ہے ۔جس میں مختلف شعبوں سے منسلک نامور خواتین اپنی صنف کی حمایت میں تقریریں کرتی ہیں ۔ریلیاں نکا لی جاتی ہیں ۔سیمینار منعقد ہوتے ہیں۔ہمیشہ سے ہی خواتین مرد کے ظلم کا شکار رہی ہیں ۔کو ءی شوہر اپنی بیوی کو مارتا پیٹتا ہے ۔تو کوءی اپنی بیٹی کو تعلیم سے بے بہرہ رکھتا ہے ۔کہیں عزت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے ۔ایک بیوی کے رہتے ہو ۓ وہ دوسری شادی کرتا ہے ۔اپنی بیوی کو ذلیل کرنا اس کو بے عزت کر نا ۔ہر اچھے برے کام وہ خود کرتا ہے ۔ہر جا ئز اور نا جا ئز کام کر نے کا حق اس شخص کو ہے ۔کیوں کہ وہ مرد ہے اس لۓ ؟ آج کل کے دور میں ہر شخص ان مسا ئل کو جا نتا ہے ۔( یہ الگ بات ہے کہ یہ مسائل آج تک حل نہ ہو سکے ) خواتین اب بھی ویسی ہی زندگی گزار رہی ہیں ۔جیسی آج سے ایک صدی پہلے تک گزارا کرتی تھیں ۔نہ جانے کب یہ حالات میں بدلاؤ ہو گا ؟عورت ہی ماں ہے ۔بہن ہے ۔بیٹی ہے ۔محبوبہ ہے ۔اور شریک حیات یعنی کہ زندگی بھر کے لۓ سکھ اور دکھ کی ساتھی ۔بہت ہی پیارا قول ہے ۔{ وجود زن سے ہے تصویر کا ئنات میں رنگ}

Thursday, March 05, 2009

دل کا بار کم ہو جاۓ گا


شام خوشبو ،موسم گل ،ان حوالوں کے بغیر
تم سے دل کی بات کہنی ہے ،مثالوں کے بغیر
تشنگی کی جیت میںشامل ہۓ دریا کی شکست
حیثیت پانی کی کیا ہے؟ پیاس والوں کے بغیر
درد کم ہو جاۓگا ،اظہار کم ہو جاۓگا
روز ہم ملتے رہے تو پیار کم ہو جاۓ گا
زندگی تو بھی کبھی مجھ کو شریک غم بنا
مل کے رؤیں گے تو دل کا بار کم ہو جاۓگا
: - Shri Qasim Imam

کبھی ایسی تو نہ تھی


بات کرنی ہمیں مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
لے گیا چھین کے کون آج تیرا صبر و قرار
بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی
اس کی آنکھوں نے خدا جا نے کیا کیا جادو
کہ طبیعت میری ما ئل کبھی ایسی تو نہ تھی
عکس رخسار نے کس کے لۓ تجھے چمکا یا
تاب تجھ میں مہ کامل کبھی ایسی تو نہ تھی
اب کی جو راہ محبت میں اٹھائی تکلیف
سخت ہوتی ہمیں منزل کبھی ایسی تو نہ تھی

مر جا ئیں گے

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جا ئیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جا ئیں گے
خالی اے چا رہ گرد ہوں گے بہت مر ہم داں
پر میرے زخم نہیں ایسے کہ بھر جا ئیں گے
پہنچیں گے رہ گذر یار تلک کیوں کرہم
پہلے جب تک نہ دو عالم سے گزر جا ئیں گے
ہم نہیں وہ جو کریں خون کا دعوی تجھ پر
بلکہ پوچھے خدا بھی تو مکر جا ئیں گے
آگ دوزخ کی بھی ہو جاۓ گی پانی پانی
جب یہ عاصی عرق شرم سے تر جا ئیں گے
نہیں پا ۓ گا نشاں کو ءي ہمارا ہر گز
ہم جہاں سے روش تیر نظر جائیں گے
ذوق جو مدرسے کےبگڑے ہو ۓ ہیں ملّا
ان کو مے خانے میں لے آؤ سنور جا ئیں گے۔

Tuesday, March 03, 2009

وجہ سے مریضہ بن گئی


آج راستے میں دوبارہ میری کل والی سہیلی سے ملاقات ہو گئی ۔اسنے کچھ اپنی زندگی کے گزرے ہوۓ وا‍قعات لکھے ہوۓ کاغذات مجھے دی ۔اور مجھ سے بڑے اعتماد کے ساتھ کہنے لگی کہ میں وہ سارے واقعات یک کے بعد دیگر لنترانی پہ لکھوں
تاکہ اس کے دل کو کچھ سکون نصیب ہو ۔جب اپنے گھر پہنچ کر میں نے اسکے لکھے ہو ۓ مضمون کو پڑھا تو اچانک میری آنکھوں سے بھی آنسو نکل پڑے اس نے اپنے تیسرے بچّے کی ّپیدائش اور اس کی ڈھا ئی مہینے کے بعد موت ہونے کا ذکر کیا تھا ۔دوران حمل وہ ڈیوٹی پر جاتی تھی اپنا ذاتی مکان خریدنے کے لۓ قرض لیا ہوا تھا ۔شوہر کو تو کوئی فکر نہیں تھی ۔اس عورت کا بلڈ پر یشر بڑھنے لگا ۔اور اس کی جان کو خطرہ لاحق ہوگیا ساتویں مہینے میں ہی آپریشن کیا گیا ۔عورت کی جان کو بڑی مشکل سے بچایا گیا ۔لیکن اس وقت بھی وہ اکیلی تھی اور شوہر دوبئی میں اپنی دوسری بیوی کے پاس تھا ۔ڈھائی مہینے کے بعد بچّے کا انتقال ہو گیا ۔ اور شوہر نے بچّے کی موت کا ذمّہ دار اپنی بیوی کو ٹہرایا ۔اس عورت نے بچے کے لۓ اپنی جان کی بازی لگا دی ۔اس کو شوہر اور سسرال والوں کے پیار اور ہمدردی کی ضرورت تھی ۔کیونکہ ایک ماں کی کوکھ اجڑگئی تھی ۔مگر شوہر نے یہ الزام لگایا کہ اس عورت نے کوئی دوا کھا کر اپنے بچّے کو مار ڈالی اور اس طرح سے مختلیف قسم کی غلط غلط باتیں کر کے اس کو ستانے لگا لۓ ٹینشن کی وجہ سے مریضہ بن گئی ۔

Monday, March 02, 2009

شوہر دہشت گرد ہے۔۔۔۔۔۔۔ا


آج صبح بس اسٹنڈ پر میری ایک بہت پرانی سہیلی سے ملاقات ہوئی ۔اس کو دیکھ کر بہت افسوس ہوا ۔اس کی حالت ہی بدل گئی ہے۔کیوںکہ سترہ سال پہلے اسکا شوہر دوبئی گیا تھا ۔وہ اپنی بیوی سے ہمیشہ جھوٹ بولتا تھا ۔کبھی بھی اس نے اپنی بیوی کو عزت کی نظر سے نہیں دیکھا ۔انڈیا آنے کے بعد وہ اس سے مار پیٹ کرتا تھا ۔ہمیشہ دوسروں کے سامنے ذلیل کرتا تھا اسکی نظر میں عورت کو پیر کی جوتی سمجھنا ہے ۔وہ عورت ہمیشہ برداشت کرتی تھی۔ کیوں کہ ہمارے مذہب میں شوہر کو خدا کا درجہ دیا جاتا ہے ۔ہو عورت ایک اسکول میں ٹیچر ہے ۔بچوں کو پڑھاتی ہے ۔ عورت کو پتہ چل گیا ہے کہ اس کے شوہر نے اپنی بیوی کو دھوکہ میں رکھ کر دوسری شادی کر لی ہے ۔اور اس آدمی کے دہشت گرد ہونے کے ثبوت بھی موجود ہے جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ آدمی انٹر نیشنل طور پر دہشت گردوں سے ملا ہوا ہے ۔وہ عورت بہت پریشان کہ کیا کرے ۔پھر بھی وہ عورت اپنی پڑھائی کو جاری رکھے ہوۓ ہیں ۔وہ آدمی اپنی غلطیوں نہ مان کر طرح طرح سے اس کو پریشان کرتا ہے ۔اس کے اسکول کے چیرمین کو فون کر کے کہتا ہے کہ میری بیوی کا کیریکٹر بہت خراب ہے وہ ہندو بن گئی ہے اسکو نوکری سے نکال دیا جاے اپنے دو بچوں کو لے کر وہ عورت اپنی زندگی گزار رہی ہے وہ عورت بلڈ پریشر کی مریضہ ہے ۔آخر وہ عورت کیا کرے کیا وہ وطن پرستی ثابت کرتے ہوۓ اپنے شوہر کی غلط کا گزاریوں کا بھانڈا پھوڑ دے اور وہ سارے ثبوت کرائم برانچ میں جمع کردے ؟ بہت سارے سوالات ذہن میں ہیں ۔کیونکہ وہ آدمی اپنے گناہوں کو دبانے کے لۓ اپنی بیوی کو بدنام کررہا ہے ۔جب کہ وہ خود غلط ہے ۔اور اسنے اپنی دوسری بیوی کو بھی دھوکہ میں رکھا ہے ۔اخر یہ کیسا مزاجی خدا ہے ؟؟؟آخر اس کا کیا کیا جاۓ ؟ میں بات تمام لنترانی پڑھنے والوں سے پوچھتی ہوں ۔
Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP