Sunday, July 31, 2011
لیلتہ القدر
Sunday, July 24, 2011
محمد رفیع صاحب کو خراج عقیدت
گلے میں بانسری کے سر لبوں پرندی کی دھیمی دھیمی گنگناہٹاذانوں کا تقدس صورت تیری
ترے سر تال اک الہامی آہٹتری آواز کے ہر زیروبم میں
فرشتوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹتری آواز جب میں نے سنی تو
یقیں آیا طلسم نغمگی کا
تری آواز کے زیر وبم میںکئی سورج نکلتے میں نے دیکھے
گلے سے پھوٹتی کرنوں کی لے سےزمیں و آسماں ہلتے بھی دیکھے
رفیع جب جب بھی کھولے ہونٹ تو نے
فلک کو جھومتے دیکھا ہے میں نےمگر جب آج تو رخصت ہوا تو
خلش رہ رہ کے اٹھتی ہے جگر میں
ک ہے نظر میں
ستارے بھی یہ کہتے ہیں لرز کر''تجھے ہم بخش دیتے عمر اپنی
کہ تو اے کاش کچھ دن اور جیتا
شاہجہاں جعفری حجاب امروہوی
Wednesday, July 20, 2011
Sunday, July 17, 2011
نظر ملا کے شراروں سے بات کرتا ہوں
نظر ملا کے شراروں سے بات کرتا ہوں اکیلا ہو کے ہزاروں سے بات کرتا ہوں چلا ہوں آج سمجھنے کورازِ حسن وعشق نگاہِ ناز کے ماروں سے بات کرتا ہوں روش روش سے گذرتا ہے کاروانِ جنوں چمن چمن کے نظاروں سے بات کرتا ہوں کسی سوال کا مشکل نہیں زباں سے جواب بہ مصلحت میں اشاروں سے بات کرتا ہوں خزاں کا ذکر نہ کر مجھ سے توکبھی اے دوست خزاں سے دور بہاروں سے بات کرتا ہوں مجھے پسند ہے موجوں میں غرق ہوجانا یہ کیاکہا؟ کہ کناروں سے بات کرتا ہوں بتاؤں آ میں تجھے اپنی رفعتِ تخیئل میں پہ رہ کے ستاروں سے بات کرتا ہوں عجیب ذوق ہے میرا عجب طبیعت ہے گلوں کو چھوڑ کے خاروں سے بات کرتا ہوں تخیلات کی دنیا میں کھوکے اے انجم نظر نواز ستاروں سے بات کرتا ہوں از: ڈاکٹر حامد الانصاری انجم پیش کش: سلمان فیصل |
آتنک وادیوں
خدا کا شکر ہے میں زندہ سلامت
گھر لوٹ آیا ۔ آج ، کہیں بم دھماکہ
نہیں ہوا میرے بیوی بچے شکریہ ادا
کرنا چاہتے ہیں انٹی لیزنس
ایجنسیوں کا ،سی بی آئ کا ممبئی پولیس کا ۔
میں بہ حفاظت گھر لوٹ آیا ۔ شکریہ آتنک وادیوں !
۔ کل مجھے پھر اپنے گھروندے سے نکلنا ہے تنکوں کی تلاش میں ۔
کیا کل بھی میرے بچوں کو ،
شکریہ ادا کرنے کا موقع دیں گی ممبئی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟
:- اقبال نیازی
Saturday, July 16, 2011
غزل : مجروح سلطانپوری
اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح
اس کوۓ تشنگی میں بہت ہےکہ ایک جام
ہاتھ آ گیا ہے دولت بیدار کی طرح
وہ تو کہیں ہے اور مگر دل کے آس پاس
پھرتی ہے کوئی شۓ نگہ یار کی طرح
سیدھی ہے راہ شوق ، پہ یونہی کہیں کہیں
خم ہو گئی ہے گیسوۓ دل دار کی طرح
بے تیشئہ نظر نہ چلو راہ رفتگان
ہر نقش پا بلند ہے دیوار کی طرح
اب جا کے کچھ کھلا ہنر ناخن جنوں
ہم بھی کھڑے ہوۓ ہیں گنہگار کی طرح
مجروح سلطانپوری
Wednesday, July 13, 2011
Tuesday, July 12, 2011
مشہور صحافی ساجد رشید نہیں رہے
Saturday, July 09, 2011
ایم ایف حسین کا آخری سفر
گزشتہ ہفتے دنیا کے مشہور و معروف پینٹر مقبول فدا حسین جنہیں دنیا ایم۔ایف حسین کے نام سے جانتی تھی ، پچانوے برس کی عمر میں انگلینڈ میں انتقال کر گئے۔ وہ ا 17ستمبر 1915ءمیں انڈیا کے صوبے مہاراشٹر میں پندھار کے علاقے میں پیدا ہوئے۔حسین ایک قدرتی فن کار تھے، انہوں نے ڈرائنگ اور تصویر کشی کی مہارت بغیر استاد حاصل کی۔اپنی زندگی کے شروع کے ایام میں روزگار کے لیے ممبئی میں سینما بورڈز پینٹ کیا کرتے تھے۔جس پر انہیں بمشکل صر ف چار یا چھ آنے سکوئر فٹ کے حساب سے ملتے تھے۔جب کبھی زیادہ پیسے مل جاتے تو وہ اچھی لینڈ اسکیپ کی تصویر کشی کے لیے سور ت، بارودا یا احمد آبادچلے جاتے تھے۔حسین نے اس کے علاوہ بھی دیگر نوکریوں میں اپنی قسمت آزمائی کی لیکن، ان سب میں سب سے اچھی تنخواہ صرف ایک فیکٹری میں ملی ، جہاں وہ کھلونے ڈیزائن بھی کرتا اور انہیں بناتا بھی تھا۔حسین نے چالیس کی دہائی میں زیادہ مقبولیت حاصل کی۔ ان کی منفرد اور آئیڈیا بیسڈ تخیلاتی تخلیقات کی وجہ سے شہرت حاصل ہوئی۔اسے " انڈیا کا پے کاسو "کاخطاب بھی دیا گیا۔ مقبول کو پینٹنگ ، ڈرائنگ کے علاوہ لکھنے میں بھی مہارت حاصل تھی۔ انہوں نے پینٹنگ کی ٹریننگ 'سر جے۔جے۔اسکول آف آرٹ سے لی۔1947ءمیں فرانسس نیوٹن سوزا۔۔کے بنائے گئے ،پروگریسو آرٹسٹس گروپ میں شمولیت اختیار کر لی۔یہ گروپ ایسے نوجوان آرٹسٹوں کی مدد کرتا تھا جو بنگال اسکول آف آرٹ کے اثرات سے باہر نکل کر تصویر کشی اور تخیل کی تخلیق میں نئے یا جدت پسند آئیڈیاز کے ساتھ تجربات کریں۔اور روایتی اندازسے باہر نکل کر جدت کی دنیا میں انقلابات لانے کا حوصلہ اور صلاحیتیں رکھتے ہوں۔ اسی گروپ میں فدا حسین بھی شامل تھے۔1952ءمیں حسین کی پہلی سولو تصویری نمائش ژیورچ میں ہوئی اس کے بعد ان کا کام پورے یورپ اور امریکہ میں دیکھا گیا، جہاں سے اس کے تخیل کی بلندی، تصوف کی گہرائی، سوچ کی سادگی میں چھپا حسن اور خیال کی ٹھنڈک نے انگریزوں کے دل و دماغ پر گہرے نقش چھوڑ ے، اس کا تخیل ماورائے دنیا کہا جا سکتا ہے کیونکہ وہ مذہب، دنیا داری اور بہت سی سماجی بندشوں سے نکل کر آزاد سوچ کا آدمی تھا۔ اسے خود پر اور اپنی خداداد صلاحیتوں پر بے انتہاءاعتماد تھا۔
حسین کو زیادہ شہرت مہابھارتا ، رمائنا اور ہندو دیوی دیوتاوں کی سیریز کی تصویر کشی سے ملی۔یہ لانگ سیریز اس نے یورپین جدید آرٹ کے نمائندے، سازنے اور میتیسی کی قومی تصاویر کی سیریز کو دیکھ کر بنائیں۔ایک لمبے کیرئیر کے بعد، 1996ءمیں جب فدا حسین اکیاسی برس کے تھے، ستر کی دہائی میں بنائی گئی انہی پینٹنگز کو اینٹی۔ہندو کہا گیا۔اور اسے ہندو انتہاءپسندوں کی طرف سے دھمکیاں موصول ہونا شروع ہو گئیں ۔اوراسی وجہ سے انہوں نے 2006 ءمیں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرلی۔حسین کی مقبولیت کی وجہ سے اسے۔۔ قطر کے ہیڈ آف سٹیٹ نے انہیں نیشنیلٹی کی آفر کی جو اس نے قبول کر لی۔ کہا جاتا ہے کہ قطر کا امیر بھی اس کا مداح تھا اور اس کی پینٹنگز کی دنیا بھر میں چر چا خود کا کیا کرتا تھا۔ حسین نے 1955ءمیں پدما شری، 1973ءپدما بھوشن،1991ءپدما بھوشن جیسے اعلیٰ ایوارڈز حاصل کےے۔ اس نے ساری عمر خوب دولت کمائی لیکن اس کا بینک بیلنس پھر بھی زیرو رہا ۔
اس نے اپنی زندگی کی پہلی فلم 1967ءمیں بنائی۔ جس کا نام through the eyes of a painterتھا۔اس فلم نے برلن فلم فیسٹیول میں۔۔ گولڈن بئیر۔۔ حاصل کیا ۔1971ءمیں ایم۔ایف۔حسین کی ملاقات پیبلو پکاسو سے ہوئی۔ پکاسو بھی حسین کے فن اور تخیل کی بلندی سے متاثر ہوا ۔ وہ اپنی زندگی میں انڈین فلم ایکٹر مادھوری ڈکشٹ کا بہت بڑا مداح تھا، اس نے مادھوری کے ساتھ فلم" گج گامنی " بھی بنائی ، جس میں مادھوری نے عورت کے ہر روپ کو اختیار کیا۔ ایک باغی، مونا لیزا، ایک میوزیکل یوفوریا وغیر ہ ، بہت سے روپ دھارے۔ بعد میں حسین نے ایک epicکے طور پر مادھوری کی مختلف تصاویر بنائیں ۔ اور ان پر اپنے دستخط کرتے ہوئے مادھوری کو تحفتاً دیں۔اس کے بعد ایک فلم تبو کے ساتھ بھی بنائی۔ اس کی اپنی زندگی پر بھی ایک فلم بنائی گئی۔
حسین کا دعو یٰ تھا کہ اس نے ساٹھ ہزار سے زائد تصویریں بنائی ہیں۔بکثرت کام کرنے کے حوالے سے جب 27 مئی 2011ءکو بی۔بی۔سی میں ایک انٹرویو میں اس سے پوچھا گیا تو اس نے کہا ' مجھے معاف کیجےے گا، یہ فیض اور لمحات کی سب باتیں بکواس ہیں۔'
حسین چالیس کی دہائی میں انڈین جدید آرٹ کی تحریک سے منسلک ہوئے تھے۔ یہ دبلا پتلا مگر ڈیشنگ شخصیت کا فن کا دلدادہ شخص ہر وقت ننگے پاوں، آزاد منش شخص اپنے پینٹنگ برشز کے ساتھ نظر آتا تھا۔ یہ حسین کا سیگنیچر اسٹائل تھا۔حسین نے کبھی اپنا اسٹوڈیو نہیں بنایا بلکہ جب کبھی کہیں کسی ہوٹل میں ٹھہرا وہیں اپنے کمرے میں اپنے تخیل کو زیبِ کینوس کرنے بیٹھ گیا۔ لیکن ہوٹل چھوڑنے سے پہلے وہ ہر قسم کے نقصان کی رقم ادا کر کے جاتا تھا۔ اس نے چار میوزیم بنائے، جہاں اس نے اپنے کام کی نمائش آویزاں کی۔ اس کے علاوہ اس کے پاس کلاسیک سپورٹس کار کی ایک اچھی کولیکشن بھی موجود تھی۔
اس کی زندگی میںبہت زیادہ اختلافی نقطہ نظر نہیں پایا جاتا، چونکہ وہ اپنی پرورش کی وجہ سے مسلم تھا، اور وہ رہتا ہندووں میں تھا، لیکن اس کی فطر ت کی وجہ سے اس میں کسی قسم کا تفرقہ یا تعصب نہیں تھا۔ لیکن کچھ عناصرنے ا س کی بنائی ہوئی سیریز کو غلط رنگ دے کر ہندووں کو اشتعال دلایا ۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی وہ تصاویر جو دیو مالائی انداز سے بنائی گئی تھیں ، انہیں ہندو دیوی دیوتاوں سے ملا دیا گیا ، جو ہندو مذہب کے لوگوں میں اشتعال کا باعث بنا۔ اس کے علاوہ اس کی بنائی گئی تصویر جس میں اس نے ۔۔انڈیا ٹوڈے۔۔میگزین میں آرٹ فار مشن کشمیر کے ٹائٹل سے بھارت ماتا کی تصویر کشی کی جس میں ایک عریاں جسم کے مختلف حصوں پر مختلف صوبوں کے نام لکھے، یہ پینٹنگ بھی عریا ں ہونے کے باعث وجہ تنقید بنی۔ یہ تصاویر یورپ میں نمائش کے لیے پیش کی گئیں تو انڈیا کے انتہاءپسند ہندووں نے احتجاجاً اس تصویر کی شدید مخالفت کی ۔ حسین نے ہند ووں کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے، ان پینٹنگز کو نیلامی سے نکال دیا ۔ بعد ازاں وہ پینٹنگز فروخت ہو گئی۔ اس کے علاوہ اس کی فلم ۔۔مینا کشی، تین شہروں کی کہانی ہے۔۔جس میں تبو نے مرکزی کردار ادا کیا تھا، اس کا ایک گانا بھی وجہ تنقید رہا، جس کی وجہ سے اس فلم کو سینما گھروں سے ہٹانا پڑ گیا۔ اس بار اعتراض مسلم پارٹیز انڈیا کی طرف سے آیا تھا، ان مذہبی جماعتوں کا کہنا تھا کہ اس کے ڈائریکٹ الفاظ قراآن سے لے کر گانا توہین کے زمرے میں آتا ہے۔ جس پر حسین کا کہنا تھا کہ اس کا کبھی بھی ایسا ارادہ نہیں رہا کہ وہ مذہب کو غلط استعمال کرے یا اس کے متعلق کسی قسم کی توہین کا ارتکاب کرے۔ انہی حالات کی وجہ سے وہ خود ساختہ جلاوطنی کے دنوں میں دبئی میں ر ہتا تھا جبکہ گرمیوں میں وہ لندن چلے جاتے ، وہ اپنے ملک کو واپس آنا چاہتے تھے لیکن ہندو انتہاءپسندوں کی طرف سے دائر مقدمات کی وجہ سے بھارت واپس نہیں آتے تھے۔ ان مقدمات کے حوالے سے ایک ویب سائٹ میں دیا گیا ہے کہ حسین سے قبل بھی بہت سے ہندو پینٹرز دیوی ، دیوتاوں کی عریاں تصویر کشی کرچکے تھے، کچھ عرصہ قبل بھارتی سپریم کورٹ نے اس پابندی کو ختم کرتے ہوئے حسین کو آفر کی کہ اگر وہ واپس آنا چاہتا ہے تو اسے حفاظت کے لیے سیکیورٹی بھی فراہم کی جائے گی۔ قطر کی رائل فیملی حسین کے فن کی اتنی دلدادہ ہے کہ انہوں نے حسین کے دنیا بھر کے سفر سوائے انڈیا کے ، سب کے اخراجات برداشت کئے تھے، اس کے علاوہ بھی انہیں رائل فیملی کی طرف سے کافی مراعات دی گئیں تھیں۔ قطر میں رہتے ہوئے،اس نے دو بہترین پینٹنگ سیریز تیار کیں ،جن میں ایک انڈین تہذیب اور دوسری عرب تہذیب پر ہیں۔عرب تہذیب کی پینٹنگ سیریز کو قطر کی خاتونِ اول شیخ موزاح بنت ناصر المیسند، اور جو امارات کے شاہ شیخ حامد بن خلیفہ ال تانی کی بیگم ہیں انہوں نے اس سیریز پر آنے والے تمام اخراجات برداشت کےے۔عرب تہذیب کی پینٹنگ سیریز کو دوہا میں علیحدہ میوزیم میں عوام کے لیے نمائش کے لیے آویزاں کےا جائے گا۔کچھ مہینوں سے ان کی طبعیت خراب تھی ۔اور وہ پچانوے برس کی عمر میں 9جون 2011کو لندن کے رائل برمپٹن ہسپتال میں انتقال کر گئے۔ ان کی وفات پر آرٹ دنیا کی طرف سے افسوس کا اظہار کیا گیا ، اس کے ساتھ ساتھ انڈین صدر نے کہا حسین کی وفات آرٹ کی دنیا کا بہت بڑا نقصان ہے۔ اس خلاءکو کبھی بھی پورا نہیں کیا جا سکے گا۔
Thursday, July 07, 2011
نقوش محبت
نجوم وماہتاب وکہکشاں ہے
محبت حاصل درد جہاں ہے
محبت گلستاں درگلستاں ہے
محبت میکدہ درمیکدہ ہے
محبت گل کدہ انجم کدہ ہے
مگر اک دل جلے کا قول ہے یہ
محبت کیا ہے اک آتش کدہ ہے
محبت سازِ فطرت، ترجماں ہے
محبت حسن غم کی داستاں ہے
محبت روح ملت کی ہے مظہر
بہرسو ایک گنج شائگاں ہے
محبت رحمت رب ہے قسم ہے
مئے تسنیم وکوثر جام جم ہے
جمال طور کی تابندگی ہے
شعاعِ نور کی رخشندگی ہے
محبت حسن معنیٰ کی ہے شبنم
بہارِرنگ وبو کی دلکشی ہے
محبت نور بھی ہے نار بھی ہے
نگاہِ ناز بھی تلوار بھی ہے
محبت قصۂ دار ورسن ہے
بہار گلستاں روحِ چمن ہے
محبت جذب دل بھی سوز دل بھی
محبت موجۂ گنگ وجمن ہے
محبت دوجہاں کی روشنی ہے
محبت اک حیات سرمدی ہے
محبت باعثِ تزئین عالم
محبت اک پیام سرخوشی ہے
محبت بندگی ہی بندگی ہے
محبت شاہراہِ زندگی ہے
محبت علم وعرفاں کی ہے دولت
محبت سوز و ساز آگہی ہے
محبت سوز بھی ہے ساز بھی ہے
نیاز و ناز بھی ہے راز بھی ہے
یہ حسن و عشق کی دنیا میں انجم
''کلیم طور'' کی آواز بھی ہے
از: ڈاکٹر حامدالانصاری انجم
پیش کش: سلمان فیصل
Wednesday, July 06, 2011
Tuesday, July 05, 2011
کلی کی آنکھ کھل جائے چمن بیدار ہوجائے
کلی کی آنکھ کھل جائے چمن بیدار ہوجائے حریم قلب میں رقصاں جمال یار ہوجائے اگر پیدا کمالِ حسرت دیدار ہوجائے غم دوراں غم جاناں ہی سے آباد ہے دنیا نہ ہو یہ سازوساماں زندگی دشوار ہوجائے بہار نوکے جھرمٹ میں نسیم صبح آتی ہے یہ کہہ دو سبزۂ پامال سے بیدار ہوجائے ہمیں نے اپنے خوں سے گلستاں کو رنگ وبو بخشا تعجب ہے ہمی سے باغباں بیزار ہوجائے وطن کی آبرو جس نے بچائی نقدجاں دے کر غضب کا سانحہ ہے وہ ذلیل وخوار ہوجائے وہ مے اب تیرے میخانے میں کیا باقی نہیں ساقی جسے پی لے کوئی میخوار تو ہشیار ہوجائے بہار و سازِ نو پر چھیڑ دو ایسا کوئی نغمہ کلی کی آنکھ کھل جائے چمن بیدار ہوجائے کہاں سے لالہ وسرووسمن پر آئے رعنائی بہاروں میں گلستاں جب خزاں آثا ر ہوجائے اڑالی ہے ہماری نیند جس جانِ محبت نے اسے بھی یا الٰہی عشق کا آزار ہوجائے کرے گی اس کا استقبال منزل دوقدم بڑھ کر کوئی گھر سے نکلنے کو اگر تیار ہوجائے خدا پر ناخدا کا ہو بھروسہ پھر تو کیا کہنا وفور موج وطوفاں سے سفینہ پارہوجائے پہنچا تابہ منزل کارواں کا غیرممکن ہے اگر خود راہزن ہی قافلہ سالا ر ہوجائے خلوص و صدق ہو عزم و یقیں ہو سوز کامل ہو عجب کیا ہے وہ انساں قوم کا سردار ہوجائے زمانہ بھول جائے قیس اور فرہاد کے قصے مرا جوش جنوں انجم اگر بیدار ہوجائے از : ڈاکٹر حامد الانصاری انجم پیش کش: سلمان فیصل |
ہائے بیچارہ مولوی
ہائے بیچارہ مولوی
طعنہ و تشنیع کا سارا نشانہ مولوی
گالیاں اتنی بھیانک؛ مر ھی جانا مولوی
آپ کو جائز کہ منہ ڈالیں کسی بھی کھیت میں
اپنی جائز خواھشوں کو بھی دبانا مولوی
نفس و دل کے ھر اثر سے مولوی آزاد ھو
مرغ و ماہی، شیر خرمہ بھی نہ کھانا مولوی
مولوی جیسے کہ اترا ہو فلک سے ارض پر
بس فرشتوں کی طرح پاکی سنانا مولوی
مولوی کو کس لئے راتب ملے گی دس ہزار
آٹھہ سو میں ھو سکے تو گھر چلانا مولوی
اور اگر حالات پیچیدہ ھوئے تو مستقل
صحن-مسجد میں بڑی جھاڑو لگانا مولوی
اور جو نگران-مسجد ھو اسی کا وہ غلام
اس کے ذاتی گھر کا ھر سودا بھی لانا مولوی
موٹا جھوٹا ایک کرتا اور پجامہ چاھئے
العیاذ و الاماں ؛ ٹرلن سلانا مولوی؟
پاوں میں چپل ھوائی، نعمت-عظمی ملی
بھول کر باٹا کے چکر میں نہ آنا مولوی
دس ہزاری جھاڑ اور فانوس تو اپنا نصیب
صحنک و بھرکے سے اپنا گھر سجانا مولوی
کاہے کا عالم سیانا اور زیرک مولوی
بس نکھٹّو، آلسی، پاگل ، دوانہ مولوی
پھوٹ پڑتا ھے اگر اس شہر میں دنگا فساد
سامنے آنا اگر تو صرف آنا مولوی
کار، بنگلہ، فون، ٹیلی کام، موبائیل و نٹ
خواب-دیوانہ سمجھہ کر بھول جانا مولوی
روس میں ھو حادثہ یا اندرون- ملک ھو
سب کا ذمہ دار-اول غائبانہ مولوی
یہ تو اسکا حال ہے دانشوروں کے سامنے
گھر میں بھی روتے ھوئے کھانا پکانا مولوی
بجلی جاتی ھے تو جنریٹر چلاتے ھیں امیر
مچھروں کی ھر ادا پر کلبلانا مولوی
مولوی صبر تحمل کے لئے مشہور ھے
آپ تھپّڑ مارنا اور مسکرانا مولوی
ھم امیران-وطن ھیں ؛ باندیاں ھیں موٹریں
ٹوٹی پھوٹی سائیکل پر آنا جانا مولوی
اتنا سب کچھہ کرکے بھی فتوی یہی جمہور کا
بعد مردن آگ میں پائے ٹھکانہ مولوی
ڈاکٹر محمد عمران اعظمی