You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Saturday, July 09, 2011

ایم ایف حسین کا آخری سفر

تحریر: چشمانِ ربیع

گزشتہ ہفتے دنیا کے مشہور و معروف پینٹر مقبول فدا حسین جنہیں دنیا ایم۔ایف حسین کے نام سے جانتی تھی ، پچانوے برس کی عمر میں انگلینڈ میں انتقال کر گئے۔ وہ ا 17ستمبر 1915ءمیں انڈیا کے صوبے مہاراشٹر میں پندھار کے علاقے میں پیدا ہوئے۔حسین ایک قدرتی فن کار تھے، انہوں نے ڈرائنگ اور تصویر کشی کی مہارت بغیر استاد حاصل کی۔اپنی زندگی کے شروع کے ایام میں روزگار کے لیے ممبئی میں سینما بورڈز پینٹ کیا کرتے تھے۔جس پر انہیں بمش
کل صر ف چار یا چھ آنے سکوئر فٹ کے حساب سے ملتے تھے۔جب کبھی زیادہ پیسے مل جاتے تو وہ اچھی لینڈ اسکیپ کی تصویر کشی کے لیے سور ت، بارودا یا احمد آبادچلے جاتے تھے۔حسین نے اس کے علاوہ بھی دیگر نوکریوں میں اپنی قسمت آزمائی کی لیکن، ان سب میں سب سے اچھی تنخواہ صرف ایک فیکٹری میں ملی ، جہاں وہ کھلونے ڈیزائن بھی کرتا اور انہیں بناتا بھی تھا۔حسین نے چالیس کی دہائی میں زیادہ مقبولیت حاصل کی۔ ان کی منفرد اور آئیڈیا بیسڈ تخیلاتی تخلیقات کی وجہ سے شہرت حاصل ہوئی۔اسے " انڈیا کا پے کاسو "کاخطاب بھی دیا گیا۔ مقبول کو پینٹنگ ، ڈرائنگ کے علاوہ لکھنے میں بھی مہارت حاصل تھی۔ انہوں نے پینٹنگ کی ٹریننگ 'سر جے۔جے۔اسکول آف آرٹ سے لی۔1947ءمیں فرانسس نیوٹن سوزا۔۔کے بنائے گئے ،پروگریسو آرٹسٹس گروپ میں شمولیت اختیار کر لی۔یہ گروپ ایسے نوجوان آرٹسٹوں کی مدد کرتا تھا جو بنگال اسکول آف آرٹ کے اثرات سے باہر نکل کر تصویر کشی اور تخیل کی تخلیق میں نئے یا جدت پسند آئیڈیاز کے ساتھ تجربات کریں۔اور روایتی اندازسے باہر نکل کر جدت کی دنیا میں انقلابات لانے کا حوصلہ اور صلاحیتیں رکھتے ہوں۔ اسی گروپ میں فدا حسین بھی شامل تھے۔1952ءمیں حسین کی پہلی سولو تصویری نمائش ژیورچ میں ہوئی اس کے بعد ان کا کام پورے یورپ اور امریکہ میں دیکھا گیا، جہاں سے اس کے تخیل کی بلندی، تصوف کی گہرائی، سوچ کی سادگی میں چھپا حسن اور خیال کی ٹھنڈک نے انگریزوں کے دل و دماغ پر گہرے نقش چھوڑ ے، اس کا تخیل ماورائے دنیا کہا جا سکتا ہے کیونکہ وہ مذہب، دنیا داری اور بہت سی سماجی بندشوں سے نکل کر آزاد سوچ کا آدمی تھا۔ اسے خود پر اور اپنی خداداد صلاحیتوں پر بے انتہاءاعتماد تھا۔

حسین کو زیادہ شہرت مہابھارتا ، رمائنا اور ہندو دیوی دیوتاوں کی سیریز کی تصویر کشی سے ملی۔یہ لانگ سیریز اس نے یورپین جدید آرٹ کے نمائندے، سازنے اور میتیسی کی قومی تصاویر کی سیریز کو دیکھ کر بنائیں۔ایک لمبے کیرئیر کے بعد، 1996ءمیں جب فدا حسین اکیاسی برس کے تھے، ستر کی دہائی میں بنائی گئی انہی پینٹنگز کو اینٹی۔ہندو کہا گیا۔اور اسے ہندو انتہاءپسندوں کی طرف سے دھمکیاں موصول ہونا شروع ہو گئیں ۔اوراسی وجہ سے انہوں نے 2006 ءمیں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرلی۔حسین کی مقبولیت کی وجہ سے اسے۔۔ قطر کے ہیڈ آف سٹیٹ نے انہیں نیشنیلٹی کی آفر کی جو اس نے قبول کر لی۔ کہا جاتا ہے کہ قطر کا امیر بھی اس کا مداح تھا اور اس کی پینٹنگز کی دنیا بھر میں چر چا خود کا کیا کرتا تھا۔ حسین نے 1955ءمیں پدما شری، 1973ءپدما بھوشن،1991ءپدما بھوشن جیسے اعلیٰ ایوارڈز حاصل کےے۔ اس نے ساری عمر خوب دولت کمائی لیکن اس کا بینک بیلنس پھر بھی زیرو رہا ۔

اس نے اپنی زندگی کی پہلی فلم 1967ءمیں بنائی۔ جس کا نام through the eyes of a painterتھا۔اس فلم نے برلن فلم فیسٹیول میں۔۔ گولڈن بئیر۔۔ حاصل کیا ۔1971ءمیں ایم۔ایف۔حسین کی ملاقات پیبلو پکاسو سے ہوئی۔ پکاسو بھی حسین کے فن اور تخیل کی بلندی سے متاثر ہوا ۔ وہ اپنی زندگی میں انڈین فلم ایکٹر مادھوری ڈکشٹ کا بہت بڑا مداح تھا، اس نے مادھوری کے ساتھ فلم" گج گامنی " بھی بنائی ، جس میں مادھوری نے عورت کے ہر روپ کو اختیار کیا۔ ایک باغی، مونا لیزا، ایک میوزیکل یوفوریا وغیر ہ ، بہت سے روپ دھارے۔ بعد میں حسین نے ایک epicکے طور پر مادھوری کی مختلف تصاویر بنائیں ۔ اور ان پر اپنے دستخط کرتے ہوئے مادھوری کو تحفتاً دیں۔اس کے بعد ایک فلم تبو کے ساتھ بھی بنائی۔ اس کی اپنی زندگی پر بھی ایک فلم بنائی گئی۔

حسین کا دعو یٰ تھا کہ اس نے ساٹھ ہزار سے زائد تصویریں بنائی ہیں۔بکثرت کام کرنے کے حوالے سے جب 27 مئی 2011ءکو بی۔بی۔سی میں ایک انٹرویو میں اس سے پوچھا گیا تو اس نے کہا ' مجھے معاف کیجےے گا، یہ فیض اور لمحات کی سب باتیں بکواس ہیں۔'

حسین چالیس کی دہائی میں انڈین جدید آرٹ کی تحریک سے منسلک ہوئے تھے۔ یہ دبلا پتلا مگر ڈیشنگ شخصیت کا فن کا دلدادہ شخص ہر وقت ننگے پاوں، آزاد منش شخص اپنے پینٹنگ برشز کے ساتھ نظر آتا تھا۔ یہ حسین کا سیگنیچر اسٹائل تھا۔حسین نے کبھی اپنا اسٹوڈیو نہیں بنایا بلکہ جب کبھی کہیں کسی ہوٹل میں ٹھہرا وہیں اپنے کمرے میں اپنے تخیل کو زیبِ کینوس کرنے بیٹھ گیا۔ لیکن ہوٹل چھوڑنے سے پہلے وہ ہر قسم کے نقصان کی رقم ادا کر کے جاتا تھا۔ اس نے چار میوزیم بنائے، جہاں اس نے اپنے کام کی نمائش آویزاں کی۔ اس کے علاوہ اس کے پاس کلاسیک سپورٹس کار کی ایک اچھی کولیکشن بھی موجود تھی۔

اس کی زندگی میںبہت زیادہ اختلافی نقطہ نظر نہیں پایا جاتا، چونکہ وہ اپنی پرورش کی وجہ سے مسلم تھا، اور وہ رہتا ہندووں میں تھا، لیکن اس کی فطر ت کی وجہ سے اس میں کسی قسم کا تفرقہ یا تعصب نہیں تھا۔ لیکن کچھ عناصرنے ا س کی بنائی ہوئی سیریز کو غلط رنگ دے کر ہندووں کو اشتعال دلایا ۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی وہ تصاویر جو دیو مالائی انداز سے بنائی گئی تھیں ، انہیں ہندو دیوی دیوتاوں سے ملا دیا گیا ، جو ہندو مذہب کے لوگوں میں اشتعال کا باعث بنا۔ اس کے علاوہ اس کی بنائی گئی تصویر جس میں اس نے ۔۔انڈیا ٹوڈے۔۔میگزین میں آرٹ فار مشن کشمیر کے ٹائٹل سے بھارت ماتا کی تصویر کشی کی جس میں ایک عریاں جسم کے مختلف حصوں پر مختلف صوبوں کے نام لکھے، یہ پینٹنگ بھی عریا ں ہونے کے باعث وجہ تنقید بنی۔ یہ تصاویر یورپ میں نمائش کے لیے پیش کی گئیں تو انڈیا کے انتہاءپسند ہندووں نے احتجاجاً اس تصویر کی شدید مخالفت کی ۔ حسین نے ہند ووں کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے، ان پینٹنگز کو نیلامی سے نکال دیا ۔ بعد ازاں وہ پینٹنگز فروخت ہو گئی۔ اس کے علاوہ اس کی فلم ۔۔مینا کشی، تین شہروں کی کہانی ہے۔۔جس میں تبو نے مرکزی کردار ادا کیا تھا، اس کا ایک گانا بھی وجہ تنقید رہا، جس کی وجہ سے اس فلم کو سینما گھروں سے ہٹانا پڑ گیا۔ اس بار اعتراض مسلم پارٹیز انڈیا کی طرف سے آیا تھا، ان مذہبی جماعتوں کا کہنا تھا کہ اس کے ڈائریکٹ الفاظ قراآن سے لے کر گانا توہین کے زمرے میں آتا ہے۔ جس پر حسین کا کہنا تھا کہ اس کا کبھی بھی ایسا ارادہ نہیں رہا کہ وہ مذہب کو غلط استعمال کرے یا اس کے متعلق کسی قسم کی توہین کا ارتکاب کرے۔ انہی حالات کی وجہ سے وہ خود ساختہ جلاوطنی کے دنوں میں دبئی میں ر ہتا تھا جبکہ گرمیوں میں وہ لندن چلے جاتے ، وہ اپنے ملک کو واپس آنا چاہتے تھے لیکن ہندو انتہاءپسندوں کی طرف سے دائر مقدمات کی وجہ سے بھارت واپس نہیں آتے تھے۔ ان مقدمات کے حوالے سے ایک ویب سائٹ میں دیا گیا ہے کہ حسین سے قبل بھی بہت سے ہندو پینٹرز دیوی ، دیوتاوں کی عریاں تصویر کشی کرچکے تھے، کچھ عرصہ قبل بھارتی سپریم کورٹ نے اس پابندی کو ختم کرتے ہوئے حسین کو آفر کی کہ اگر وہ واپس آنا چاہتا ہے تو اسے حفاظت کے لیے سیکیورٹی بھی فراہم کی جائے گی۔ قطر کی رائل فیملی حسین کے فن کی اتنی دلدادہ ہے کہ انہوں نے حسین کے دنیا بھر کے سفر سوائے انڈیا کے ، سب کے اخراجات برداشت کئے تھے، اس کے علاوہ بھی انہیں رائل فیملی کی طرف سے کافی مراعات دی گئیں تھیں۔ قطر میں رہتے ہوئے،اس نے دو بہترین پینٹنگ سیریز تیار کیں ،جن میں ایک انڈین تہذیب اور دوسری عرب تہذیب پر ہیں۔عرب تہذیب کی پینٹنگ سیریز کو قطر کی خاتونِ اول شیخ موزاح بنت ناصر المیسند، اور جو امارات کے شاہ شیخ حامد بن خلیفہ ال تانی کی بیگم ہیں انہوں نے اس سیریز پر آنے والے تمام اخراجات برداشت کےے۔عرب تہذیب کی پینٹنگ سیریز کو دوہا میں علیحدہ میوزیم میں عوام کے لیے نمائش کے لیے آویزاں کےا جائے گا۔کچھ مہینوں سے ان کی طبعیت خراب تھی ۔اور وہ پچانوے برس کی عمر میں 9جون 2011کو لندن کے رائل برمپٹن ہسپتال میں انتقال کر گئے۔ ان کی وفات پر آرٹ دنیا کی طرف سے افسوس کا اظہار کیا گیا ، اس کے ساتھ ساتھ انڈین صدر نے کہا حسین کی وفات آرٹ کی دنیا کا بہت بڑا نقصان ہے۔ اس خلاءکو کبھی بھی پورا نہیں کیا جا سکے گا۔

No comments:

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP