ہم ہیں متاع کوچہ و بازار کی طرح
اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح
اس کوۓ تشنگی میں بہت ہےکہ ایک جام
ہاتھ آ گیا ہے دولت بیدار کی طرح
وہ تو کہیں ہے اور مگر دل کے آس پاس
پھرتی ہے کوئی شۓ نگہ یار کی طرح
سیدھی ہے راہ شوق ، پہ یونہی کہیں کہیں
خم ہو گئی ہے گیسوۓ دل دار کی طرح
بے تیشئہ نظر نہ چلو راہ رفتگان
ہر نقش پا بلند ہے دیوار کی طرح
اب جا کے کچھ کھلا ہنر ناخن جنوں
ہم بھی کھڑے ہوۓ ہیں گنہگار کی طرح
مجروح سلطانپوری
اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح
اس کوۓ تشنگی میں بہت ہےکہ ایک جام
ہاتھ آ گیا ہے دولت بیدار کی طرح
وہ تو کہیں ہے اور مگر دل کے آس پاس
پھرتی ہے کوئی شۓ نگہ یار کی طرح
سیدھی ہے راہ شوق ، پہ یونہی کہیں کہیں
خم ہو گئی ہے گیسوۓ دل دار کی طرح
بے تیشئہ نظر نہ چلو راہ رفتگان
ہر نقش پا بلند ہے دیوار کی طرح
اب جا کے کچھ کھلا ہنر ناخن جنوں
ہم بھی کھڑے ہوۓ ہیں گنہگار کی طرح
مجروح سلطانپوری
1 comment:
مکرمی ! یہ غزل کافی عرصہ کے بعد نظر سے گذری اور پڑھ کر وہ سرس حاصل ہوا کہ الفاط میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔
غزل کی رتیب میں ایک غلظی کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا آخر لے دو شعر کچھ اس طرح ہے۔
خم ہو گئی ہے گیسوے خم دار کی طرح
اب جا کے کچھ کھلا ہنر ناخن جنوں
زخم جگر ہوئے لب و رخسار کی طرح
مجروح لکھ رہے ہیں وہ اہل وفا کا نام
ہم بھی کھڑے ہوئے ہیں گنہگار کی طرح
Dr Saif Qazi
www.nuqoosh.blogspot.com
Post a Comment