عبدالحلیم صدیقی
مسجدوں ، میناروں اور درس گاہوں کے شہر مالیگاؤں میں گذشتہ26اکتوبر کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شاخ کھولے جانے کے خلاف ہندو فرقہ پرست تنظیموں کی جانب سے منظم و منصوبہ بند طریقے پر شرمناک احتجاج درج کرایا گیااور اے ایم یو وائس چانسلر پی کے عبدالعزیز اور ان کی پانچ رکنی ٹیم کو یونیورسٹی برانچ کیلئے مجوزہ تین سو ایکڑ قطعۂ اراضی کا دیدار بھی نصیب نہ ہوا۔ اس عوامی احتجاج پر اے ایم یو ٹیم کا مایوس ہونا فطری تھا ۔ لیکن اس سے بھی شرمناک بات یہ ہوئی کہ موقع پر موجود ضلع کلکٹر اور سپرٹنڈنٹ آف پولس انکے حفاظتی دستے اس سارے ڈرامہ کے دوران خاموش تماشائی بنے رہے ۔ کیا وہ بھی اس ڈرامے کے ایک کردار تھے ؟ اگر کوئی ان سے پوچھے کہ مسلم یونیورسٹی کی بجائے بنارس ہندو یونیورسٹی کی برانچ کھلنے کا معاملہ ہوتا اور احتجاج کرنے والے مظاہرین کلمہ گو ہوتے تو کیا ا ن پر لاٹھی چارج نہیں ہوتا؟؟ کیا بندوقیں نہیں تانیں جاتیں ؟؟ کسی کو حیرت نہ ہوتی اگر مسلمانوں کے خون سے زمین سرخ نہ ہوجاتی ۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ ا ور یہی ہندوستان کی تاریخ رہی ہے کہ یہاں مظاہرین کا مذہب دیکھ کر ان کے ساتھ سلوک ہوتا ہے کرافورڈ مارکیٹ ممبئی میں سلمان رشدی کے خلاف احتجاج کررہے 12مسلمانوں کی شہادت سے لے کر لال گڑھ کے المیہ تک ہزاروں کربناک مثالیں موجود ہیں ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ مالیگاؤں کے قریب کجواڑے دیہات میں اے ایم یو کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو بھون دینا تھا ۔ لیکن دیکھنے والوں نے دیکھا کہ ایک ہزار مظاہرین کے آگے پوری سرکاری مشنری بے بس کھڑی تھی اور جس مقصد کو لے کر پی کے عبدالعزیز اور انکے رفقائے کار بارہ سو کلو میٹر کا لمبا سفر طئے کرکے مالیگاؤں پہنچے تھے وہ مقصد نجی نہیں خالص سرکاری تھا اور مہاراشٹر سرکار کی دعوت پر یہ وفد مالیگاؤں پہنچا تھا ۔ لہذا سرکاری عملہ کو اپنا فرض نبھانا چاہئے تھا۔ سرکاری کام میں مداخلت کرنے پر کوئی ایکشن لینا تو دور بعد میں مظاہرین کے خلاف کیس بھی درج نہیں کیا گیا ، گرفتاریاں بھی نہیں ہوئیں۔ ویسے اس معاملے میں کچھ بنیادی کمزور یاں بھی ابھر کر سامنے آچکی ہیں ۔ اول یہ کہ ضلع کلکٹر نے مالیگاؤں سے متصل جس قطعۂ اراضی کا انتخاب کیا اس سے بددرجہ ہا بہتر جگہ منماڑ ، مالیگاؤں روڈ اور دھولیہ روڈ پر نیشنل ہائی وے سے لگ کر تلاش کی جاسکتی تھی جو زیادہ محفوظ اور سہولت آمیز ہوتی ۔ لیکن اس معاملے میں مالیگاؤں کی سیاسی قیادت کمزور اور بے اثر ثابت ہوئی ۔ اور اگر بالفر ض یونیورسٹی کیمپس وہاں تعمیر ہو بھی جاتا ہے تو فرقہ وارانہ ماحول کے پیش نظر مسلمانوں کیلئے یہ جگہ کسی طرح بھی محفوظ اور اطمینان بخش نہیں ہے ۔ رہا سوال اے ایم یو کی شاخ کا تو یہ خالص سرکاری مسئلہ تھا ۔ مالیگاؤں کے مسلمانوں نے کبھی بھی اس شاخ کا مطالبہ نہیں کیا تھا ۔ یہ تو خود حکومت مہاراشٹر کی پیشکش تھی اور وہ بھی ان حالات میں جب مالیگاؤں 2006کے بم دھماکوں سے لہولہان تھا اور پوری دنیا میں ہندوستان کی شبیہہ خراب ہورہی تھی۔ کچھ دن گذرے نہ تھے کہ ایک بار پھر 2008میں اس شہر کو نشانہ بنایا گیا۔ اور جب ان دھماکوں کے عوض ہیمنت کرکرے نے ہندو دہشت گروں کی گردنیں ناپیں تو حکومت مہاراشٹر کی پیشمانی بڑھ گئی ۔اسے اپنی غلطیوں کا احساس ہوا ۔ اور مالیگاؤں کے معاملے میں محض اپنی خفت اور رسوائی مٹانے کے خیال سے ریاستی حکومت نے اے ایم یو کی مہاراشٹر برانچ کیلئے سب سے پہلے مالیگاؤں کا نام پیش کیا۔ اس دوران ایک صنف نازک جنھیں ریاستی وزیر کا درجہ حاصل ہے لیکن افسوس کہ وہ خود کو علاقائی وزیر بنا بیٹھی ہیں ۔ نے اپنی ٹانگ اڑا دی اور اے ایم یو کی شاخ کیلئے اورنگ آباد کا متبادل بھی پیش کیا اور لگیں ۔ اس کے پیچھے دوڑ بھاگ کرنے ، انھیں مالیگاؤں کے مظلوموں سے کوئی ہمدردی نہیں تھی وہ صرف اپنی سیاسی دکان چمکانے کی فکر میں تھیں ۔محترمہ نے بحیثیت وزیر تعلیم مالیگاؤں کی کبھی کوئی مددد تو کی نہیں نئے اسکولوں کی پرمیشن کا معاملہ ہو یا گرانٹ کے معاملات ان کی ساری توجہ مراٹھواڑہ پر ہی مرکوز رہی ۔ خیر جب معاملہ مذید آگے بڑھا تو اے ایم یو کے پاس مہاراشٹر میں ایک نہیں دو مراکز تجویز کئے گئے آج کے دور میں غریب پسماندہ کالی کلوٹی بے رونق دلہن کون پسند کرتا۔ وہی حال مالیگاؤں کا بھی رہا ۔ اے ایم یو کی ٹیم کو خلد آباد کے تاریخی پر فضاء سیاحتی مرکز کی اراضی زیادہ پسند آگئی اوپر سے مالیگاؤں میں فرقہ پرستوں نے احتجاج کرکے فوزیہ خاں کا کام آسان کردیا۔ اب وہ لے جائیں اس یونیورسٹی کی شاخ ، مالیگاؤں کے لوگوں کو ویسے بھی مانگے کا اجالا پسند نہیں ۔ مالیگاؤں کی تاریخ تو یہ رہی ہے کہ اس شہر کے محنت کش طبقہ نے اپنی دنیا آپ بسائی ہے پہلے انگریزی حکومت اس شہر کو نشانے پر رکھتی تھی ۔ اب ان کی جگہ سیاہ فام انگریز آئے ہیں ۔ مالیگاؤں میں آج تک کوئی سرکاری کالج نہیں کھلا ۔ پھر بھی یہ مہاراشٹر کے اہم تعلیمی مراکز میں شمار ہوتا ہے یہاں کے مسلمانوں نے 1921میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کرکے نہ صرف آزادی حاصل کرلی تھی بلکہ مالیگاؤں کی اپنی عبوری حکومت اور اس کا وزیر اعظم بھی طئے کردیا تھا ۔ یہاں وہ لوگ آباد ہیں جن کے آباء واجداد کے خون سے 1857کی جنگ آزادی کی تاریخ کے ابواب روشنی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزوں نے اس شہر کو ریلوے لائن سے محروم رکھا ۔ آزادی ملتے ہی یہاں کے سادہ لوح ملی رہنماؤں نے مذہبی و عصری تعلیم کے ادارے کھولے ۔ جہاں دنیا کے کونے کونے سے تشنگان علم اپنی پیاس بجھانے پہنچتے ہیں یہی وہ شہر ہے جس کے مدرسہ ملت کو دارالعلوم دیوبند کی شاخ کہا جاتا ہے اور اسی مدرسہ ملت کی درجنوں شاخیں مراٹھواڑہ میں پھیلی ہوئی ہیں ۔ یہاں کے جامعتہ الصالحات میں امریکہ ، افریقہ ، برطانیہ تک سے طالبات علم داخلہ پاتی ہیں اور جامعتہ الصالحات کی شاخیں لندن ،نیو یارک ، ٹورنٹو ، جیسے شہروں میں بھی قائم ہیں ۔ یہ ادارے خود اپنے آپ میں اے ایم یو جیسی حیثیت رکھتی ہے۔
آج آزادی کے 65سال بعد بھی مالیگاؤں میں گورنمنٹ کے ٹیکنکل کالج میڈیکل کالج ، ڈگری کالج ، نہیں کھلے ۔ چار سال قبل مہاراشٹر حکومت نے مہاراشٹر کے پانچ مسلم اکثریتی شہروں میں گورنمنٹ پالی ٹیکنک و انجینئرنگ کالج کھولنے کا اعلان کیا تھا ۔ فہرست میں مالیگاؤں کا نام بھی تھا لیکن اس وعدے پر آج تک عمل نہیں ہوا۔ ریاستی حکومت جب اپنے حصے کا کام نہیں کرسکی تو علی گڑھ والوں سے کیوں کر امید وابستہ کی جائے ۔ فوزیہ خانم کو مانگے کا اجالا مبارک ہو۔ مالیگاؤں کے اہل دل خلدآباد آکر اس تعلیمی کیمپس کی تعمیر میں تن من دھن سے حصہ لیں گے ۔ یہ نہ بھولا جائے کہ مہاراشٹر سرکار پر مالیگاؤں والوں کا بھروسہ نہیں رہا ہے ۔ وجہ بھی معقول ہے ۔ ہم ضلع کا درجہ 35سال سے مانگ رہے ہیں ۔ لیکن تمام واجبات و معقولات کے باوجود نہیں ملتا ۔ ہم MIDCاورD+ZONEکی سہولت طلب کرتے ہیں اور حکومت منہ پھیرتی ہے ۔ ہم اپنے سینئر کالج خود چلانا چاہتے ہیں ۔ لیکن حکومت کی طرف سے منظوری نہیں ملتی ۔ پچھلے پانچ برسوں سے تو ہم نے سب کچھ ترک کردیا ہے ۔ ہماری کوئی مانگ نہیں ہے ہم صرف اپنے معصوم بے قصوروں کی رہائی کے طلبگار ہیں وہ تو ملتی نہیں اور جو حکومت اپنے شہریوں کو انصاف سے محروم رکھتی ہو ۔ اس سے کیا امیدیں وابستہ کی جائیں ؟؟ ریاستی حکومت سے ہم یہی چاہیں گے کہ وہ اپنے حصے کا قرض پہلے ادا کرے ۔ رہی بات اے ایم یو برانچ کی ۔ مالیگاؤں کے حوصلہ مند لوگ کسی یونیورسٹی شاخ کا انتظار کئے بغیر خود اپنی یونیورسٹی قائم کرنے کی صلاحیت و ہمت رکھتے ہیں اور کچھ علاقائی وزیر اگر خواہشمند رہیں تو انکے علاقے میں بھی مالیگاؤں یونیورسٹی شاخ کھو ل دیں گے۔
***
مسجدوں ، میناروں اور درس گاہوں کے شہر مالیگاؤں میں گذشتہ26اکتوبر کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شاخ کھولے جانے کے خلاف ہندو فرقہ پرست تنظیموں کی جانب سے منظم و منصوبہ بند طریقے پر شرمناک احتجاج درج کرایا گیااور اے ایم یو وائس چانسلر پی کے عبدالعزیز اور ان کی پانچ رکنی ٹیم کو یونیورسٹی برانچ کیلئے مجوزہ تین سو ایکڑ قطعۂ اراضی کا دیدار بھی نصیب نہ ہوا۔ اس عوامی احتجاج پر اے ایم یو ٹیم کا مایوس ہونا فطری تھا ۔ لیکن اس سے بھی شرمناک بات یہ ہوئی کہ موقع پر موجود ضلع کلکٹر اور سپرٹنڈنٹ آف پولس انکے حفاظتی دستے اس سارے ڈرامہ کے دوران خاموش تماشائی بنے رہے ۔ کیا وہ بھی اس ڈرامے کے ایک کردار تھے ؟ اگر کوئی ان سے پوچھے کہ مسلم یونیورسٹی کی بجائے بنارس ہندو یونیورسٹی کی برانچ کھلنے کا معاملہ ہوتا اور احتجاج کرنے والے مظاہرین کلمہ گو ہوتے تو کیا ا ن پر لاٹھی چارج نہیں ہوتا؟؟ کیا بندوقیں نہیں تانیں جاتیں ؟؟ کسی کو حیرت نہ ہوتی اگر مسلمانوں کے خون سے زمین سرخ نہ ہوجاتی ۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ ا ور یہی ہندوستان کی تاریخ رہی ہے کہ یہاں مظاہرین کا مذہب دیکھ کر ان کے ساتھ سلوک ہوتا ہے کرافورڈ مارکیٹ ممبئی میں سلمان رشدی کے خلاف احتجاج کررہے 12مسلمانوں کی شہادت سے لے کر لال گڑھ کے المیہ تک ہزاروں کربناک مثالیں موجود ہیں ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ مالیگاؤں کے قریب کجواڑے دیہات میں اے ایم یو کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو بھون دینا تھا ۔ لیکن دیکھنے والوں نے دیکھا کہ ایک ہزار مظاہرین کے آگے پوری سرکاری مشنری بے بس کھڑی تھی اور جس مقصد کو لے کر پی کے عبدالعزیز اور انکے رفقائے کار بارہ سو کلو میٹر کا لمبا سفر طئے کرکے مالیگاؤں پہنچے تھے وہ مقصد نجی نہیں خالص سرکاری تھا اور مہاراشٹر سرکار کی دعوت پر یہ وفد مالیگاؤں پہنچا تھا ۔ لہذا سرکاری عملہ کو اپنا فرض نبھانا چاہئے تھا۔ سرکاری کام میں مداخلت کرنے پر کوئی ایکشن لینا تو دور بعد میں مظاہرین کے خلاف کیس بھی درج نہیں کیا گیا ، گرفتاریاں بھی نہیں ہوئیں۔ ویسے اس معاملے میں کچھ بنیادی کمزور یاں بھی ابھر کر سامنے آچکی ہیں ۔ اول یہ کہ ضلع کلکٹر نے مالیگاؤں سے متصل جس قطعۂ اراضی کا انتخاب کیا اس سے بددرجہ ہا بہتر جگہ منماڑ ، مالیگاؤں روڈ اور دھولیہ روڈ پر نیشنل ہائی وے سے لگ کر تلاش کی جاسکتی تھی جو زیادہ محفوظ اور سہولت آمیز ہوتی ۔ لیکن اس معاملے میں مالیگاؤں کی سیاسی قیادت کمزور اور بے اثر ثابت ہوئی ۔ اور اگر بالفر ض یونیورسٹی کیمپس وہاں تعمیر ہو بھی جاتا ہے تو فرقہ وارانہ ماحول کے پیش نظر مسلمانوں کیلئے یہ جگہ کسی طرح بھی محفوظ اور اطمینان بخش نہیں ہے ۔ رہا سوال اے ایم یو کی شاخ کا تو یہ خالص سرکاری مسئلہ تھا ۔ مالیگاؤں کے مسلمانوں نے کبھی بھی اس شاخ کا مطالبہ نہیں کیا تھا ۔ یہ تو خود حکومت مہاراشٹر کی پیشکش تھی اور وہ بھی ان حالات میں جب مالیگاؤں 2006کے بم دھماکوں سے لہولہان تھا اور پوری دنیا میں ہندوستان کی شبیہہ خراب ہورہی تھی۔ کچھ دن گذرے نہ تھے کہ ایک بار پھر 2008میں اس شہر کو نشانہ بنایا گیا۔ اور جب ان دھماکوں کے عوض ہیمنت کرکرے نے ہندو دہشت گروں کی گردنیں ناپیں تو حکومت مہاراشٹر کی پیشمانی بڑھ گئی ۔اسے اپنی غلطیوں کا احساس ہوا ۔ اور مالیگاؤں کے معاملے میں محض اپنی خفت اور رسوائی مٹانے کے خیال سے ریاستی حکومت نے اے ایم یو کی مہاراشٹر برانچ کیلئے سب سے پہلے مالیگاؤں کا نام پیش کیا۔ اس دوران ایک صنف نازک جنھیں ریاستی وزیر کا درجہ حاصل ہے لیکن افسوس کہ وہ خود کو علاقائی وزیر بنا بیٹھی ہیں ۔ نے اپنی ٹانگ اڑا دی اور اے ایم یو کی شاخ کیلئے اورنگ آباد کا متبادل بھی پیش کیا اور لگیں ۔ اس کے پیچھے دوڑ بھاگ کرنے ، انھیں مالیگاؤں کے مظلوموں سے کوئی ہمدردی نہیں تھی وہ صرف اپنی سیاسی دکان چمکانے کی فکر میں تھیں ۔محترمہ نے بحیثیت وزیر تعلیم مالیگاؤں کی کبھی کوئی مددد تو کی نہیں نئے اسکولوں کی پرمیشن کا معاملہ ہو یا گرانٹ کے معاملات ان کی ساری توجہ مراٹھواڑہ پر ہی مرکوز رہی ۔ خیر جب معاملہ مذید آگے بڑھا تو اے ایم یو کے پاس مہاراشٹر میں ایک نہیں دو مراکز تجویز کئے گئے آج کے دور میں غریب پسماندہ کالی کلوٹی بے رونق دلہن کون پسند کرتا۔ وہی حال مالیگاؤں کا بھی رہا ۔ اے ایم یو کی ٹیم کو خلد آباد کے تاریخی پر فضاء سیاحتی مرکز کی اراضی زیادہ پسند آگئی اوپر سے مالیگاؤں میں فرقہ پرستوں نے احتجاج کرکے فوزیہ خاں کا کام آسان کردیا۔ اب وہ لے جائیں اس یونیورسٹی کی شاخ ، مالیگاؤں کے لوگوں کو ویسے بھی مانگے کا اجالا پسند نہیں ۔ مالیگاؤں کی تاریخ تو یہ رہی ہے کہ اس شہر کے محنت کش طبقہ نے اپنی دنیا آپ بسائی ہے پہلے انگریزی حکومت اس شہر کو نشانے پر رکھتی تھی ۔ اب ان کی جگہ سیاہ فام انگریز آئے ہیں ۔ مالیگاؤں میں آج تک کوئی سرکاری کالج نہیں کھلا ۔ پھر بھی یہ مہاراشٹر کے اہم تعلیمی مراکز میں شمار ہوتا ہے یہاں کے مسلمانوں نے 1921میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کرکے نہ صرف آزادی حاصل کرلی تھی بلکہ مالیگاؤں کی اپنی عبوری حکومت اور اس کا وزیر اعظم بھی طئے کردیا تھا ۔ یہاں وہ لوگ آباد ہیں جن کے آباء واجداد کے خون سے 1857کی جنگ آزادی کی تاریخ کے ابواب روشنی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزوں نے اس شہر کو ریلوے لائن سے محروم رکھا ۔ آزادی ملتے ہی یہاں کے سادہ لوح ملی رہنماؤں نے مذہبی و عصری تعلیم کے ادارے کھولے ۔ جہاں دنیا کے کونے کونے سے تشنگان علم اپنی پیاس بجھانے پہنچتے ہیں یہی وہ شہر ہے جس کے مدرسہ ملت کو دارالعلوم دیوبند کی شاخ کہا جاتا ہے اور اسی مدرسہ ملت کی درجنوں شاخیں مراٹھواڑہ میں پھیلی ہوئی ہیں ۔ یہاں کے جامعتہ الصالحات میں امریکہ ، افریقہ ، برطانیہ تک سے طالبات علم داخلہ پاتی ہیں اور جامعتہ الصالحات کی شاخیں لندن ،نیو یارک ، ٹورنٹو ، جیسے شہروں میں بھی قائم ہیں ۔ یہ ادارے خود اپنے آپ میں اے ایم یو جیسی حیثیت رکھتی ہے۔
آج آزادی کے 65سال بعد بھی مالیگاؤں میں گورنمنٹ کے ٹیکنکل کالج میڈیکل کالج ، ڈگری کالج ، نہیں کھلے ۔ چار سال قبل مہاراشٹر حکومت نے مہاراشٹر کے پانچ مسلم اکثریتی شہروں میں گورنمنٹ پالی ٹیکنک و انجینئرنگ کالج کھولنے کا اعلان کیا تھا ۔ فہرست میں مالیگاؤں کا نام بھی تھا لیکن اس وعدے پر آج تک عمل نہیں ہوا۔ ریاستی حکومت جب اپنے حصے کا کام نہیں کرسکی تو علی گڑھ والوں سے کیوں کر امید وابستہ کی جائے ۔ فوزیہ خانم کو مانگے کا اجالا مبارک ہو۔ مالیگاؤں کے اہل دل خلدآباد آکر اس تعلیمی کیمپس کی تعمیر میں تن من دھن سے حصہ لیں گے ۔ یہ نہ بھولا جائے کہ مہاراشٹر سرکار پر مالیگاؤں والوں کا بھروسہ نہیں رہا ہے ۔ وجہ بھی معقول ہے ۔ ہم ضلع کا درجہ 35سال سے مانگ رہے ہیں ۔ لیکن تمام واجبات و معقولات کے باوجود نہیں ملتا ۔ ہم MIDCاورD+ZONEکی سہولت طلب کرتے ہیں اور حکومت منہ پھیرتی ہے ۔ ہم اپنے سینئر کالج خود چلانا چاہتے ہیں ۔ لیکن حکومت کی طرف سے منظوری نہیں ملتی ۔ پچھلے پانچ برسوں سے تو ہم نے سب کچھ ترک کردیا ہے ۔ ہماری کوئی مانگ نہیں ہے ہم صرف اپنے معصوم بے قصوروں کی رہائی کے طلبگار ہیں وہ تو ملتی نہیں اور جو حکومت اپنے شہریوں کو انصاف سے محروم رکھتی ہو ۔ اس سے کیا امیدیں وابستہ کی جائیں ؟؟ ریاستی حکومت سے ہم یہی چاہیں گے کہ وہ اپنے حصے کا قرض پہلے ادا کرے ۔ رہی بات اے ایم یو برانچ کی ۔ مالیگاؤں کے حوصلہ مند لوگ کسی یونیورسٹی شاخ کا انتظار کئے بغیر خود اپنی یونیورسٹی قائم کرنے کی صلاحیت و ہمت رکھتے ہیں اور کچھ علاقائی وزیر اگر خواہشمند رہیں تو انکے علاقے میں بھی مالیگاؤں یونیورسٹی شاخ کھو ل دیں گے۔
***